عبداﷲ زبیر ندوی
نام عبدالرحمن بن صخر الدوسی لقب ابوہریرہؓ یمن کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ،ہجرت سے ۲۱ویں برس قبل ولادت ہوئی پیدائش کے کچھ روز بعد یتیم ہوگئے، اس لیے بچپن، اوائل عمر اور جوانی تنگدستی و پریشان حالی میں بسر ہوئی رشتہ داروں اور احباب میں بھی کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کچھ روز تک تو والدہ گھریلو قسم کی ملازمت کرکے گھر کے اخراجات پورے کرتی رہیں لیکن ابوہریرہؓ کی طبیعت اس کو کب تک گوارا کر سکتی تھی، آخر کار ایک یمنی رئیس کے گھر ملازمت کرلی۔ کام یہ سپرد ہوا کہ جانوروں کی دیکھ بھال کریں سفر میں ساتھ رہیں لیکن اس ملازمت کا معاوضہ صرف ۲ دو وقت کی روٹی ہوتی تھی، کافی عرصہ تک یہی ملازمت کرتے رہے، اچانک مالک کا انتقال ہوگیا اور کچھ روز کے بعد اس کی بیوی سے ان کی شادی ہوگئی اس طرح آپ کے معاشی حالات بہتر ہوگئے۔
اسلام کی روزافزوں ترقی، اسلام کی پاکیزہ دعوت، اسلام لانے والوں کے اخلاق اس سے متاثر ہو کر ابوہریرہؓ کا دل بھی اس دین حنیف کی طرف خود بخود مائل ہونے لگا ۔اس ارادہ کو پوشیدہ طور سے دل میں لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ساتھ میں ان اپنا ایک غلام اور چند آدمیوں کی ایک جماعت بھی تھی راستہ میں یہ شعر زبان پر تھا
یالیلۃ من طولھا وعنائھا
علیٰ انّھا من حرارۃ الکفر نجّت
ترجمہ: اُف کس قدر طویل اور مشقت والی رات ہے مگر اس کے باوجود اس نے کفر کے دائرہ سے نجات د ے دی۔
ہجری سن ۷ کا واقعہ ہے مدینہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم خیبر کی مہم میں مصروف ہیں ۔ابوہریرہؓ جس وقت مدینہ منورہ پہنچے تھے تو صبح کا سُہانا وقت تھا، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ،ہر سمت سناٹا اور تاریخی چھائی ہوئی تھی ،فجر کی نماز میں قرآن مجید کی تلاوت ہورہی تھی، جس کی آواز ان کے کانوں میں پہنچی ۔بے اختیار مسجد کی طرف پڑھے اور جماعت میں شریک ہوگئے۔ اس وقت نماز کی امامت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نائب بنی غفار کے ایک شخص جن کا نام سباعؔ بن عرفطہ تھا کر رہے تھے ،نماز سے فارغ ہو کرآپ حضرت ابن عرفطہؓ کے پاس آئے ان سے اپنی آمد کا مقصد اور سفر کے حالات بتائے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق معلوم کیا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خیبر کے مقام پر موجود ہیں تو ابوہریرہؓ کسی وقفہ انتظار کے بغیر فوراً کچھ توشہ لے خیبر کو روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے اسلام کا ذکر کیا آپ کے سامنے اپنا توشہ پیش کردیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہ خوشی قبول کیا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی آمد کا ذکر دوسرے لوگوں سے بھی کیا اور دوسرے ساتھیوں کے مشورہ کے بعد ان کا حصہ بھی مال غنیمت میں مقرر کیا۔ خیبر سے مدینہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہی واپس ہوئے اور مستقل آپ کے جوار میں سکونت اختیار کرلی۔
روانگی کے وقت جو غلام ساتھ تھا وہ راستہ میں کہیں جُدا ہوگیا تھا، مدینہ میں وہ بھی مل گیا، جس کو انھوں نے اﷲ کی راہ میں آزاد کردیا۔ ایمان واسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ جن کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے گود میں کھلایا تھا ایک روز راستے میں مل گئے حضرت ابوہریرہؓ نے بے اختیار ہوکر ان سے گزارش کی ذرا وہ جگہ دکھائیے جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بوسہ دیا تھا انھوں نے اپنے شکم مُبارک کو کھول دیا اور حضرت ابوہریرہؓ نے بار بار اس جگہ کا بوسہ دیا۔
عبادت کا یہ عالم تھا کہ نماز اشراق تک کی سخت پابندی کرتے تھے ،تسبیح وتہلیل میں تو ہروقت ہی مصروف رہتے اس غرض سے ایک تھیلی بنا رکھی تھی، جس میں گٹھلیاں بھری رہتی تھیں ان پر وہ تسبیح پڑھتے تھے، جب تھیلی خالی ہوجاتی تو لونڈی کو حکم دیتے وہ پھر سے بھردیتی ۵۹ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے زمانہ تک زندہ رہے اور اسی سنہ میں وفات پائی اس وقت ولید بن عتبہ مدینے کے گورنر تھے، انھوں نے نماز جنازہ پڑھائی جنازہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ، مروان بن الحکم، عبداﷲ بن نافع اور عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنھم شریک تھے۔
جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ان کی بہت سخت صدمہ ہوا گورنر کو لکھا کہ ان کے ورثہ کو تلاش کرکے ان کو دس ہزار درہم دے دو۔ ان کی تعریف میں لکھا کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کا کافی موقع ملا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر اسی سال کی تھی اﷲ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے۔
ابوہریرہ کنیت :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کو اباہریرہ کہا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام لانے کے بعد بھی کچھ روز بکریاں اور اُونٹ چرانے کے لیے جاتے رہے، ساتھ میں ایک بلی کا بچہ ہوتا تھا جب جانور چرتے ہوتے تو وہ اس بچہ کے ساتھ کھیلا کرتے، واپسی پر وہیں ایک درخت پر اس کو بٹھا دیتے ابوہریرہ کے معنی ہیں (بلی کا باپ)لیکن یہ لقب جو ان کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے عطا کیا تھا ،بے حد پسند کرتے تھے، بلکہ بہت خوش ہوتے تھے۔ ان کا نسبی تعلق قبیلہ دوسؔ سے تھا جویمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ اصحاب صفہ میں:
اصحاب صفہ میں شمولیت صرف اس ارادہ سے کی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت اور مجلس میں صرف کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد ات و احکامات سے مستفید ہوا جائے اور اس لیے بھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کسی وقت بھی ان کی آنکھ سے اوجھل نہ ہوں۔ اور جب کبھی ایسا واقعہ پیش آتا تو صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہ کی پریشانی کا حال نا قابل بیان ہوجاتا ۔جاں نثاروں کے دل دھڑکنے لگتے چنانچہ ایک دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہ کے حلقہ میں رونق افروز تھے، بیچ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی ضرورت سے گئے واپسی میں دیر ہوئی صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہ گھبرا گئے کہ خدا نخواستہ دشمنوں کی طرف سے کوئی گزند تو نہیں پہنچا۔ حضرت ابوہریرہؓ اسی پریشانی کے عالم میں گھبرا کر آپ کی جستجو میں انصار کے ایک باغ کے پاس پہنچے ،دروازہ ڈھونڈا تو نہیں ملا، دیوار میں پانی کی ایک نالی نظرآئی اس میں گھُس کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچے ۔صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہ کی پریشانی کی داستان سنائی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر واپس ہوئے۔ یہ تھی صحابہؓ کی محبت کی ایک ادنیٰ مثال!
مدینہ آکر چار سال تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہ کر حدیث کا سماع کرتے رہے ۔دوسرے صحابۂ کرامؓ کی بہ نسبت حضرت ابوہریرہؓ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ہر وقت موجود رہتے تھے ۔جس قدر فیض صحبت سے متمتع ہوتے اس قدر احادیث کا ذخیرہ ان کے پاس محفوظ ہوتا جاتا چنانچہ ان پر کثرت روایت کا الزام بھی لگایا گیا جس کا جواب انھوں نے یہ دیا۔ میرے مہاجرین بھائی تجارت میں اور میرے انصار بھائی کھیتی باڑی میں مصروف رہتے تھے ،لیکن میں مساکین صفہ کا ایک فرد تھا۔ اس لیے ہر وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا جب وہ لوگ غائب ہوتے تھے تو میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا اور جب یہ لوگ بھول جاتے تو میں یاد رکھتا۔ اس کے علاوہ خود حضور اکرمؓ خاص طور سے ابوہریرہ پر شفقت فرماتے تھے۔ ابوہریرہؓ کا بیان ہوا کہ’’ ایک بار میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیثوں کو بھول جاتا ہوں ،آپ نے فرمایا کہ اپنی چادر پھیلاؤ میں نے پھیلا دی آپ نے دن بھر مجھ سے احادیث بیان کیں ،اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس چادر کو سمیٹ کر سینہ سے لگا لو میں نے ایسا ہی کیا اس کے بعد جو کچھ بھی آپ نے مجھ سے بیان کیا میں کبھی نہیں بھولا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت میں بھوک پیاس کی بھی فکر نہیں رہتی تھی اور کئی کئی دن فقروفاقہ کی حالت میں بسر ہوتے تھے ،لیکن اس فقروفاقہ کے باوجود عالم یہ تھا کہ اگر کبھی سوال کا موقع آتا تو شرم وحیا علانیہ سوال کرنے سے روکتی بلکہ صرف حسُن طلب سے کام لیتے ۔حالت یہ ہوتی تھی کہ بھوک کی وجہ سے زمین پر پیٹ کے بل پڑے رہتے یا پیٹ پر پتھر باندھ لیتے۔
حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ کا اسلام :
ان کی والدہ کافی عرصہ تک اسلام نہیں لائی تھیں ،وہ ان کو برابر اسلام کی دعوت دیتے رہتے تھے لیکن وہ انکار کر دیتیں۔ اس طرح ایک روز پھر انھوں نے اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی اس دن وہ بہت خفاہوئیں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں ناز یبا الفاظ کہے۔ جن کا ابوہریرہؓ کو سخت صدمہ ہوا ،روتے ہوئے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم میری والدہ کے لیے اسلام کی دُعا کیجئے ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی ابوہریرہؓ گھر واپس ہوئے تو دروازہ بند پایا اور اندر سے پانی گرنے کی آواز آئی۔ ان کی والدہ نے آہٹ پاکر ان کو باہر ہی روکا۔ کپڑے وغیرہ لاکر ان کو اندر بلالیا ۔جب ابوہریرہؓ اندر پہنچے تو ان کی والدہ کلمہ تشہد پڑھ کر مسلمان ہوگئیں۔ حضرت ابوہریرہؓ خوشی کے مارے جھومتے ہوئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے فرط مسرت سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو خوشخبری سُنائی۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ دُعا کی کہ اے اﷲ اپنے اس بندے کو اور اس کی والدہ کو مومن او رمومنہ کا محبوب بنا دے۔
اسلام لانے کے بعد والدہ کی اور زیادہ خدمت کرنے لگے ۔ان کی حیات میں مسلسل چار سال تک حج جیسے اہم فریضہ کو ادا کرنے نہیں گئے۔ ایک بار کئی روز سے فاقے سے تھے جب بھوک نا قابل برداشت ہوگئی تو بیتاب ہوکر گھر سے نکلے، راہ میں کچھ صحابہ مل گئے وہ بھی بھوک سے پریشان ہوکر نکلے تھے، سب مل کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے حاضری کا مقصد پوچھا عرض کیا یار سول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھوک ہم سب کو اس وقت آپ کے پاس لائی ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک طباق منگایا جس میں تھوڑی سی کھجوریں تھیں ،ہم میں سے ہر ایک کو دو،دوعنایت فرمائیں اور فرمایا کہ آج کے لیے یہی دو کافی ہیں۔ ان دوکھجوروں نے ایسا کام کیا کہ جو لوگ کئی روز کے بھوکے تھے، آسودہ ہوگئے لیکن ابوہریرہؓ نے ان میں سے ایک کھجور اپنی والدہ کے لیے بچا کر رکھ لی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ تم نے ایک کھجورکیوں رکھ لی ،عرض کیا اپنی والدہ کے لیے آپ نے فرمایا کہ تم وہ کھالو میں تمہاری والدہ کے لیے اور دے دوں گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چلتے وقت مجھے دوکھجوریں اور عنایت فرمائیں۔
حضرت ابوہریرہؓ کچھ عرصہ مدینہ کے گورنر اور کچھ عرصہ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں یمن کے گورنر رہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ملکی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمرؓ نے ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے محکمہ پولیس قائم کیا تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین کا صاحب الاحداث یعنی انسپکٹر جنرل بنایا۔ ان کے سپرد یہ فرض بھی کیا گیا کہ وہاں کے امن وامان کے علاوہ احتساب کی خدمت بھی انجام دیں۔ مثلاً ناپ تول میں دوکاندار کمی نہ کریں۔ حضرت ابوہریرہؓ بازاروں میں گھومتے پھرتے اور نگرانی کرتے، شکایات کا معقول انتظام فرماتے۔ اس کے علاوہ فتاویٰ کے سلسلہ میں بھی ان سے مشورہ لیا جاتا وہ افتاء کی مجلس کے ممتاز رکن بھی تھے۔
حفظ الحدیث :
حضرت ابوہریرہؓ کا شمار رواۃ حدیث کے طبقہ اول میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سب سے زیادہ حدیثیں روایت کیں جن کی مجموعی تعداد ۵۳۷۴ ہوتی ہے۔ ان میں ہر قسم کی قولی اور فعلی احادیث شامل ہیں۔ دنیاکو تعجب ہے کہ صحابہ کرامؓ نے احادیث کے ذخیرے کو اس صحت وجامعیت کے ساتھ کیوں کر محفوظ رکھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک کا ایک فقرہ بھی ہوا کے تموج میں جذب ہوکر فنا نہیں ہوا۔ حضرت ابوہریرہؓ کا معمول تھا کہ رات کو تین حصوں میں بانٹتے ۔ایک میں سوتے، دوسرے میں نماز پڑھتے اور تیسرے حصہ میں احادیث نبویؐ کو دہراتے اور یاد کرتے۔
اس کے علاوہ اس پروگرام کی پابندی کا اس سے زیادہ اور کیا اہتمام کیا جاسکتا ہے کہ ساری رات کو تین حصوں میں اس طرح بانٹ لیا تھا کہ ان کی بیوی اور غلام بھی اس پروگرام میں ان کا ساتھ دیتے تھے تاکہ اگر اتفاق سے کسی کی آنکھ نہ کھلے تو دوسرا ان کو بیدار کردے ایسے ہی لوگوں کی تعریف قرآن شریف نے کی ہے۔
کانوا قلیلا من اللیل مایھجعون۔
یہ لوگ عبادت میں مصروف رہنے کے سبب رات کو بہت کم سوتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ کثیر الروایت ہونے کے باوجود حدیث بیان کرنے میں بڑے محتاط تھے، انھوں نے حدیث بیان کرنے میں اطاعت رسولؐ اورخشیت الٰہی کا حق ادا کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کے زمانے میں تحریر وتدوین حدیث :
صحابۂ کرام نے ان الفاظ کو محفوظ رکھنے کے لیے جو انھوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سُنے تھے یا وہ اعمال جو اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، تحریری صورت میں محفوظ رکھنے کی زیادہ ضرورت نہیں کی لیکن اس کے باوجود حضور اکرمؐ نے خود بعض لوگوں کو حدیثیں لکھنے کی اجازت دی تھی جیسا کہ خود ابوہریرہؓ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
ان ابن عمرؓ کان یکتب ولا اکتب استاذن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فی ذالک فأذن لہ
یعنی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما احادیث لکھا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا( بلکہ زبانی یاد رکھتا تھا) ۔انھوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس امر میں اجازت طلب کی تھی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی تھی۔
حضرت ابوہریرہؓ احادیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کو زبانی یاد کرتے تھے لیکن عہد رسالت کے بعد انھوں نے بھی اپنی روایات لکھ رکھی تھیں۔ چنانچہ فتح الباری میں حسن بن عمر وابن اُمیہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ ان کو اپنے گھر لے گئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث کے نوشتے دکھائے اور کہنے لگے دیکھو میرے پاس (سب کچھ) لکھا ہوا موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ نے بلکہ خود حضرت ابوہریرہؓ نے آخر میں احادیث نبویہ لکھ لی تھیں۔ اس کے علاوہ جب قرآن مجید نازل ہوچکا اور اس بات کا خطرہ جاتا رہا کہ دونوں چیزیں خلط ملط ہوجائیں گی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے احادیث کو لکھنے کی اجازت دے دی تھی، بلکہ کچھ عرصہ بعد اجازت عام کردی ،کیونکہ حدیث نہ لکھنے کی ممانعت ابدی ودائمی نہ تھی بلکہ عارضی ووقتی تھی۔ اس لیے کہ شروع میں قرآن شریف اور حدیث کے متن کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ تھا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی واقفیت اور آگاہی کا نام اس زمانہ میں علم تھا اور دینی ودنیوی عزتوں کا ذریعہ تھا، اس لیے ہزاروں صحابہ رضی اﷲ عنہ نے جو کچھ کہ دیکھا سُنا،یا جانا تھا آپ کے ارشاد کے مطابق بلغواعنی۔ (ہم سے جو کچھ سُنو اور دیکھو اس کی اشاعت کرو) یا :فلیبلِّغ الشاھد الغائب (جو مجھے دیکھ رہے ہیں اور مجھ سے سُن رہے ہیں وہ ان کو مطلع کردیں جو اس سے محروم ہیں) ۔وہ سب اپنی اپنی اولادوں، عزیزوں، دوستوں اور ملنے والوں کو سُناتے اور بتاتے چلے جاتے۔ یہی ان کی زندگی کا کام اور یہی ان کے شب وروز کا علمی مشغلہ تھا، اس لیے صحابہ کے فوراً بعد دوسری نوجوان پودان معلومات کی حفاظت اور تدوین کے لیے کھڑی ہوگئی، جن کو ان میں سے ایک ایک واقعہ لفظ بلفظ یاد رکھنا پڑتا تھا اور دہرانا پڑتا تھا۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاں اپنے اقوال وافعال کی اشاعت کی تاکید کردی تھی ،اس کی بھی تہد ید کردی تھی کہ’’ جو کوئی میرے متعلق قصدا کوئی غلط یا جھوٹ بات منسوب کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔‘‘ اس اعلان کا یہ اثر تھا کہ بڑے بڑے صحابہ کرامؓ روایت کرتے وقت تھر تھر کاپنتے تھے۔ حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے ایک بار روایت کی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی بات نقل کی تو چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا ،تھر اگئے پھر کہنے لگے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا تھا یا اس کے قریب قریب فرمایا تھا۔
واقعات کو محفوظ رکھنے کے لیے عرب کی عام عادت حفظِ روایت ہی تھی نہ کہ تحریر وکتابت۔ ان کو اس میں نہایت درجہ کمال حاصل تھا ،خطبے اور قصائد سینوں میں محفوظ رکھتے اور اُن کو دُہراتے رہتے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جس عضوو قوت کو کام میں لایا جائے گا اس میں ملکہ اور مہارت پیدا ہوجائے گی۔
پس اہل عرب کے حافظے ان میں عام طور پر تحریر کے رائج نہ ہونے اور تمدنی اسباب و آسائش کے کم ہونے اور زیادہ تر قوت حافظہ کے کام لینے اور اس پر پورا پُورا اعتماد کرنے کے سبب نہایت قوی تھے۔ وہ کسی تحریر یا بیاض کے محتاج نہیں تھے، جس طرح آج کل وفور علم ووسعت معلومات کا مدار کثرت مطالعہ پر ہے، ان ایام میں قوت حافظہ کی جودت پر تھا۔
عربوں کا حافظہ نہایت قوی ہوتا تھا، سینکڑوں ہزاروں شعر کے قصیدے زبانی یاد رکھتے تھے، صحابہ کرامؓ وتابعین نے قوت حفظ کو معراج کی کمال تک پہنچا دیا ،وہ ایک ایک قول اس طرح زبانی سُن کر یاد کرتے تھے جس طرح آجکل مسلمان قرآن مجید یاد کرتے ہیں، ایک ایک محدث ہزاروں حدیثیں حفظ کرتا تھا گو بعد میں لوگ ان کو لکھ کر محفوظ کرنے لگے!
بعض مستشرقین اس بنا پر کہ روایات نبوی کی تحریر وتدوین کا کام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے نوے برس بعد شروع ہوا ،احادیث کی صحت ووثوق میں شک پیدا کرنا چاہتے ہیں با وجود یکہ اسماء الرجال کی تحریر وتدوین کی صداقت کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کو مسلمانوں کا عظیم ترعلمی کار نامہ خیال کرتے ہیں۔ اوپر کی تحریر سے یہ اندازہ کرلینا بہت آسان ہوگیا ہے کہ صحابہ کس طرح واقعات کو حفظ رکھتے تھے، اُن کو یاد کرنے میں کتنی احتیاط برتتے تھے اور کس طرح آئندہ آنے والی نسلوں کو وہ امانت سپرد کرتے تھے اگرچہ وہ تحریری صورت میں بعد میں آئیں، تاہم ان کی صحت وو ثوق میں کوئی کچھ شک وشبہ نہیں کرسکتا۔
احادیث کو تحریری شکل میں نہ لانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ابتداء میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے علاوہ کسی اور چیز کو تحریر میں رکھنے کی ممانعت فرمادی تھی تاکہ عوام میں قرآن اور غیر قرآن کا باہمی التباس نہ ہوجائے ۔لیکن جب قرآن مجید پوری طرح محفوظ ہوگیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آخر میں صحابہ کو تحریر کی اجازت دے دی، لیکن اس کے باوجود اکثر صحابہؓ احادیث کو سفینوں کی بجائے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ احادیث کافی عرصہ پہلے تحریری شکل میں آچکی تھیں چنانچہ خلیفہ حضرت عمر ابن عبدالعزیزؒ نے ۱۰۱ھ میں وفات پائی وہ خود بھی بڑے عالم تھے اور مدینے کے امیر رہ چکے تھے جب خلیفہ ہوئے تو قاضی مدینہ ابی بکر بن محمد بن عمروبن حزم کو جو حدیث وخبر کے امام تھے، حکم دیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سنن وافتاء کی تحریروں کی تدوین کراؤ کیونکہ مجھے رفتہ رفتہ علم کے فقدان کا خوف ہو رہا ہے۔ (تعلیقات بخاری ومؤطا)
ان کے علاوہ اور بھی ایسے واقعات ہیں جن سے آپ کے اقوال کا تحریری شکل میں آنے کا ثبوت ملتا ہے فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ایک خطبہ دیا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابوشاہ یمنی کی درخواست پر آپ نے یہ خطبہ لکھ کر ان کے حوالہ کرنے کو کہا سلاطین عالم کو جوخطوط روانہ فرمائے وہ بھی تحریری شکل میں تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ سے واپس آنے کے کچھ مدت بعد مسلمانوں کی مردم شماری کرائی اور ان کے نام لکھوائے (باپ الجہاد)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پاس ایک صحیفہ تھا جو ان کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا جس سے وہ وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہتے، لوگوں کی خواہش پر اس کو دکھایا بھی (بخاری) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا صحیفہ صادقہ ان کے پوتے عمروبن شعیب کے پاس موجود تھا ،جب تحریری اور یاد داشتیں جن میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال درج تھے بیٹے کو باپ سے ملیں تو انھوں نے اس کو اور بھی حفاظت سے رکھا۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ وہ دوسرے صحابی ہیں جن سے بکثرت روایات موجود ہیں ،وہ خود اپنے بیٹوں کو کہا کرتے تھے کہ ’’میرے بچو علم کو تحریر کی قیدوبند میں لاؤ۔ دارمی (۶۸)
حضرت زید بن ثابت کا تب وحی تھے ان کو بھی احادیث تحریر میں لانے سے انکار تھا۔ مروان نے یہ تدبیر کی کہ ان کو سامنے بٹھایا اور پردہ کے پیچھے کاتب مقرر کردئے تاکہ جو وہ بولتے جائیں کاتب لکھتے جائیں، حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
کیا یہ تمام واقعات اس بات کی شہادت کے لیے ناکافی ہیں کہ خود صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے اقوال وار شادات رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے جمع کیے جس کو پچھلوں کے لیے یاد گار چھوڑا پچھلوں نے اپنی کتابوں میں ان کولکھ لیا۔
لیکن بات یہیں نہیں ختم ہوجاتی ابھی تو تابعین کے واقعات باقی ہیں ،یہ بات بھی ظاہر ہے کہ تابعین نے صحابہ ہی کی زندگی میں ان کے تمام مرویات، واقعات وحالات کو ایک ایک سے پوچھ کر ایک ایک کے دروازہ پر جاکر بوڑھے جوان مرد عورت سب سے تحقیق کرکے ہمارے لیے علم وسعادت کا خزانہ فراہم کردیا۔
محمد بن شہاب زہری، ہشام بن عروۃ، سعید بن جبیر، وغیرہ سینکڑوں تابعین ہیں جنھوں نے دیوانہ دار ایک ایک گوشہ سے دانہ دانہ جمع گیا اور ہمارے سامنے اس کا خرمن لگادیا۔
امام زہری جو ۵۰ھ میں پیدا ہوئے ان کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ مدینے کے ایک ایک انصاری کے گھر جاتے راستوں کی صعوبتیں برداشت کرتے، جو ان بوڑھا، مرد وعورت، جو مل جاتا، یہاں تک کہ پردہ نشین عورتیں اُن سے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال وحالات پوچھتے اور قلم بند کرتے۔
عام غلط فہمی کا ازالہ :
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ احادیث کی تحریر وتدوین کا کام تابعین نے شروع کیا، تابعین ان کو کہتے ہیں جنھوں نے صحابہ کو دیکھا ہو اور ان سے فیض پایا ہو۔ صحابہ کا زمانہ تقریباً سوبرس تک رہا تو گویا تابعین کا عہد سوبرس بعد شروع ہو ا۔اس طرح گویا تحریر وتدوین کے کام کا آغاز سوبرس بعد ہوا، حالانکہ یہ خیال یارائے غلط ہے۔ دراصل تابعین ان کو کہتے ہیں جنھوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل نہیں کیا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کی زیارت کی اور ان سے مستفید ہوئے یا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوں مگر زیارت کا موقع نہ ملا۔یا عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخر میں پیدا ہوئے اس لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف نہ ہوئے اس طرح یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ تابعین کا عہد خود صحابہ کی زندگی ہی میں اور کم سے کم یہ کہ ۱۱ھ سے شروع ہوگیا ۔اس لیے جو کام اس وقت شروع ہو اس کو تابعین کا کام کہہ سکتے ہیں اور یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ تحریر وتدوین تدوین کا کام ۱۱ھ سے قبل یا اس کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ حفظ حدیث کے سلسلہ میں تابعین نے کو کار نامہ انجام دیا ہے۔ اس پر سوبرس کی مدت کا اطلاق کی ضرورت نہیں یہ کہنا کہ اخبار وسیر کی تدوین سوبرس بعد شروع ہوئی صحیح نہیں بلکہ درحقیقت مسلمانوں میں اخبار وسیر کی ترتیب وتدوین کے تین دور ہیں۔ اول یہ کہ ہر شخص نے اپنی معلومات کو یکجاکیا۔ دوسرا دور آیا تو ہر شہر کے معلومات یکجا کئے گئے۔ تیسرا دور آیا تو تمام دنیائے اسلام کے معلومات اکٹھا کئے گئے اور ان کو موجودہ کتابوں کی صورت میں یکجا کردیا گیا۔ پہلا دور غالباً ۱۰۰ھ تک قائم رہا دوسرا دور ۱۵۰ھ تک رہا اور تیسرا دور ۱۵۰ھ سے تیسری صدی کے کچھ دنوں بعد تک قائم رہا ۔پہلا دور صحابہ اور اکا بر تابعین کا تھا۔ دوسرا دور تبع تابعین کا تھا تیسرا دور امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کا تھا۔ پہلے دور کا تمام سرمایہ دوسرے دور کی کتابوں میں محفوظ اور دوسرے دور کی کتابوں کی حدیثیں تیسرے دور کی کتابوں میں یکجا کردی گئیں۔ دوسرے اور تیسرے دور کی کتابوں کا سرمایہ آج ہزاروں اوراق میں ہمارے پاس موجود ہے ،جو دنیا کی علمی تاریخ کا سب سے معتبر، گراں بہاء مستند علمی ذخیرہ ہے جن سے زیادہ معتبر اور مستند دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسرا ذخیرہ علم نہیں ہے۔