محمد یوسف شادؔ
٭وقت بھی پانی کی طر ح ہے سب کچھ بہاکرلے جانے کی تگ و دودکرتاہے ۔
٭بیج جب مٹی میں دفن ہوتے ہیں تو اپنا مکمل اثر مٹی میں منتقل کردیتے ہیں ۔
٭اندھیرے اپنی ہی تاریکی سے خوف زدہ ہوکر روشنیوں سے اپنے وجودکے خاتمے کی دُعا کرتے ہیں ،یہی حال تاریک وحشت کے زندانوں میں قید تڑپتی وبلکتی روحوں کابھی ہے۔
٭ماضی کے سفرمیں انسان آرزوؤں کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا چلاجاتا ہے مگر وقت کی ندی خاموشی کی ریت کی تہہ بچھا کر دل و دماغ سے اس کا ہرنشان مٹا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ پس چند مدھم خیالات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
٭کوئی بھی فن یوں ہی وجود میں نہیں آجاتا ۔خیال کے پُر خار صحرا میں برہنہ پا تپتی ریت پہ قدم رکھ کر جھلسنا پڑتا ہے۔
دیوانگی کی دیوار پر ٹھوکریں لگا لگا کر دنیا سے بے گانہ ہونا پڑتا ہے۔ فن، ضبط کی تاریک کوٹھری میں قید ہو کربے زبان جذبات کو زبان دے کر تخلیق پاتا ہے۔ انتہائی جُہد کے بعد جب خیالات معراج پا کے امر ہونے کی سعی کرتے ہیں تو فن سامنے آتا ہے۔
٭انسان دنیا میں جسمانی ضرورتوں کی کشمکش میں جیتاہے۔ روح ‘جو انسان کا اصل ہے وہ جسم جیسے پردے میں ہمیشہ چھپی رہتی ہے۔ لیکن روح چو ں کہ اصل ہے تو تقریباً ہر انسان کے اندر اس کی ضرورت وقتا ًفوقتاً جاگتی رہتی ہے۔ روح کی ضروریات، جسمانی ضروریات کے پورا ہونے کے باوجود انسان کو بے چین رکھتی ہیں۔
٭روحانی تربیت، کسی ٹھوکرکے ذریعے ہوتی ہے۔کیونکہ روح کی لہروں میں ارتعاش کسی ٹھوکر کے لگنے سے پیدا ہوتا ہے۔اس وجہ سے کچھ لوگ چند لمحوں میں دفن ہوجاتے ہیں اور کچھ تاریخ میں امرہوجاتے ہیں ۔
٭کائنات کاحقیقی مصوّر ‘زمین پہ موجودتخلیق کاروں سے وہی رنگ بھرواتاہے ‘جیسے وہ چاہتا ہے اور یہ رنگ کس کے لیے بھروائے جاتے ہیں ‘اس کافیصلہ بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔
٭کبھی کبھی انسان سراب کا بوجھ اُٹھااُٹھاکر بھی تھک جاتاہے۔ اس پردے کی گھٹن سے چھٹکارا پانے کی سعی کرتاہے لیکن صرف چند لمحوں کے لیے ورنہ اس کے لیے جینا مشکل ہوجائے ۔
٭:کچھ لوگ اپنے نام کے برعکس بھی ہوتے ہیں۔جیسے نعیم نام کا کوئی شخص ‘غلط کاموں میں ملوث ہوکر اپنے گھر والوں کے لیے نعمت کے بجائے زحمت بن جاتاہے۔