حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی رحمتہ اﷲ علیہ
اﷲ جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا پھر ان کی طبعی موانست کے لیے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا پھر اُن سے دونوں کی نسل کو چلایا۔ مرد عورت میں جو ایک دوسرے کی طرف فطری اور طبعی میلان ہے اس کے لیے نکاح کو مشروع فرمایا اور نکاح کے اصول وقوانین مقرر فرمائے۔ جب مرد عورت کا نکاح ہوجائے تو آپس میں ایک دوسرے سے قانون شریعت کے مطابق استمتاع اور استلذاذ جائز ہے۔ اس میں جہاں نفسیاتی ابھار کا انتظام ہے وہاں بنی آدم کی نسل چلنے اور نسل ونسب کے پاس رکھنے اور آپس میں رحمت اور شفقت باقی رکھنے کا اور عورت کو گھر میں عزت و آبرو کے ساتھ رہنے اور گھر بیٹھے ہوئے ضروریات زندگی پوری ہونے اور عضت و عصمت کے ساتھ زندہ رہنے کا انتظام ہے۔ مرد کما کر لائے عورت گھر میں بیٹھے اور کھائے۔ لباس بھی شوہر کے ذمہ اور رہنے کا گھر بھی، اولاد پیدا ہو تو ماں باپ کی شفقت میں پلے بڑھے۔ کوئی چچا ہو کوئی ماموں ہو کوئی دادا ہو کوئی دادی کوئی خالہ ہو کوئی پھوپی ہر ایک بچہ کو پیار کر ے گود میں لے اور ہر ایک اسے اپنا سمجھے۔ صلہ رحمی کے اصول پر سب رشتہ دار دور کے ہوں یاقریب کے، آپس میں ایک دوسرے سے محبت کریں مالی امداد بھی کریں نکاحوں کی تقریبات میں جمع ہوں ولیمہ کی دعوتیں کھائیں ۔ عقیقے ہوں جب کوئی مرجائے کفن دفن میں شریک ہوں یہ سب امور نکاح سے متعلق ہیں۔ اگر نکاح نہ ہو اور عورت مرد یوں ہی آپس میں نفسانی خواہشات پوری کرتے رہیں تو جو اولاد ہوگی وہ کسی باپ کی طرف منسوب نہیں ہوگی اور جب عورت زنا کار ہے تو یہ پتہ بھی نہ چلے گا کہ کس مرد کے نطفے سے حمل قرار پایا جب کوئی باپ ہی نہیں ہے تو کون بچہ کی پرورش کرے اور ماں کیسے پالے۔ لامحالہ ایسے ملکوں میں جہاں زنا کا عام رواج ہے حکومتیں ایسے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔
چونکہ باپ ہی نہیں اس لئے مذکورہ ممالک میں بچوں کی ولدیت ماں کے نام سے لکھ دی جاتی ہے۔رشتہ داریوں کی جو شفقتیں تھیں، باپ کی جانب سے ہوں یا ماں کی جانب سے بچہ ان سب سے محروم رہتا ہے۔ زنا کار ماں کے وہ بھائی بہن بھی اپنی بہن کی اولاد کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جو شفقت بھری نظر نکاح والی ماں کی اولاد پر نانا، نانی اور خالہ، ماموں کی ہوتی ہے۔ ہر سمجھدار آدمی غور کرسکتا ہے۔ نکاح کی صورت میں جو اولاد ہو اس کی مشفقانہ تربیت اور ماں باپ کی آغوش میں پرورش ہوناسراسر انسانیت کے اکرام کا سبب ہے، کیا زنا کاروں کی اولاد کی پرورش اس کے مقابلہ میں کوئی عزت کی چیز ہے؟
پھر جب نکاح کا سلسلہ ہوتا ہے توماں باپ، لڑکا اور لڑکی کے لیے جوڑا ڈھونڈ تے ہیں اور جہاں نکاح نہیں وہاں لڑکا لڑکی دونوں اپنی نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لیے دوست (فرینڈ) تلاش کرتے پھر تے ہیں یہ عورت کی کتنی بڑی ذلالت اور حقارت ہے کہ وہ گلی کو چوں میں مردوں کو اپنی طرف لبھائے او رجوشخص اس کی طرف جھکے اسے کچھ دن کے لیے دوست بنائے پھر جب چاہے یہ چھوڑ دے اور جب چاہے وہ چھوڑ دے۔ اس کے بعد پھر دونوں تلاش یار میں نکلتے ہیں۔ کیا اس میں انسانیت کی مٹی پلید نہیں ہوتی۔ پھر چونکہ عورت کا کوئی شوہر نہیں ہوتا اور جس کو دوست بنایا ہے وہ قانوناً اس کے خرچ کا ذمہ دار نہیں ہوتااس لئے عورتیں خود کمانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ شورومز پر کھڑی ہوئی مال فروخت کرتی ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھ کر آنے جانے والے لوگوں کے جوتوں پر پالش کرتی ہیں۔ تعجب ہے کہ عورتوں کو یہ ذلت اور رسوائی منظور ہے نکاح کرکے گھر میں ملکہ بن کر بچوں کی ماں ہوکر عفت عصمت کے ساتھ زندگی گزار نے کو ناپسند کرتی ہیں۔
اسلام نے عورت کو بڑا مقام دیا ہے وہ نکاح کر کے عفت وعصمت کی حفاظت کے ساتھ گھر کی چار دیواری میں رہے اور اس کا نکاح بھی اس کی مرضی سے ہو۔ جس میں مہربھی اس کی مرضی سے مقرر ہو، پھر اسے ماں باپ اور اولاد اور بہن بھائی سے میراث بھی ملے، یہ زندگی اچھی ہے یا یہ کہ دربدر یار ڈھونڈتی پھریں اور زنا کرتی پھریں۔یہ اچھی بات ہے؟کچھ تو سوچنا چاہیے۔ فاعتبر وایا اولی الابصار
اس صورتحال کے بعد اب ایک سمجھدار آدمی کے ذہن میں زنا کی قباحت پوری طرح آجاتی ہے اسلام کو یہ گوارانہیں ہے کہ نسب کا اختلاط ہو پیدا ہونے والے بچوں کے باپ کا پتہ نہ چلے یا کئی شخص دعویدار ہوجائیں اور ہر شخص یوں کہے کہ یہ بچہ میرے نطفہ سے ہے۔
جو مرد عورت زنا کاری کی گندی زندگی گزارتے ہیں، ان سے حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ کیا مٹی پلید ہوگی کہ بچہ ہو اور اس کا باپ کوئی نہ ہو، اہل نظراسے حرامی کہتے ہوں۔ یا کم ازکم یوں سمجھتے ہوں کہ دیکھو وہ حرامی آرہا ہے، یہ بات شریفوں کے لیے موت سے بدتر ہے۔ لیکن اگر طبعی شرافت باقی نہ رہے، دلوں میں انسانیت کا احترام نہ ہو تو معاشرہ میں حرامی حلالی ہونے کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی۔ جن ملکوں میں زنا کاری عام ہے ان کے یہاں حرامی ہونا کوئی عیب اور حلالی ہونا کوئی بہتر نہیں۔ اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی ہماری ہاں میں ہاں ملادیں اور قرآن کے باغی ہو کر ہماری طرح زنا کار ہوجائیں۔
شریعت اسلامیہ میں زنا کی سخت سزا ہے جو محصن کے لیے رجم (سنگسارکرنا) اور غیر محصن کو ایک سو کوڑے لگانا ہے یہ دنیا وی سزا ہے جو امیر المومنین جاری کرے گا او ر برزخ اور قیامت میں جو سزا ہے وہ اس کے علاوہ ہے سورہ فرقان میں عباد الرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
وَالّٰذِیْنَ لَایَدْ عُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھٰا اَخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَاماً یَّضَاعَف لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الِقْیَامَۃِ وَیَخْلُدْفِیْہٖ مُھَانًا اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوُلٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاتِھِمْ حَسَنٰتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُورًا رَّحِیْماً
ترجمہ: اوروہ لوگ جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور کسی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اﷲ نے حرام قرار دیا ہے الایہ کہ شریعت کے مطابق حق کے ساتھ ہو ولا یز نون او ر وہ زنا نہیں کرتے اور جوشخص ایسا کریگا یعنی شرک قتل نفس اور زنا کا ارتکاب کریگا وہ گناہگار ہوگا گناہ کاری کی سزا میں ہمیشہ ذلیل ہوکر دوزخ میں رہیگا۔ مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے سواﷲ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دن اپنا ایک خواب بیان فرمایا اس میں بہت سی چیزیں دیکھیں ان میں ایک یہ بھی دیکھا کہ تنور کی طرح ایک غار ہے اس کا اوپر کا حصہ تنگ ہے اور نیچے کا حصہ وسیع ہے اس کے نیچے آگ جل رہی ہے جو لوگ اس تنور میں ہیں وہ آگ کی تیزی کے ساتھ اوپر کوجاتے ہیں جب آگ دھیمی پڑتی ہے تو پیچھے کو واپس چلے جاتے ہیں یہ لوگ ننگے مرد اور ننگی عورتیں ان کی چیخ پکار کی آوازیں بھی آرہی ہیں آپ نے ان کے بارے میں اپنے ساتھیوں (حضرت جبرئیل اور حضرت میکا ئیل علیہما السلام )سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ زنا کار مرد اور زنا کار عورتیں ہیں۔
رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی اس رات میں میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں میں نے دریافت کیا کہ اے جبرئیل یہ کون ہیں؟ انہو ں نے جواب دیا کہ یہ وہ مرد ہیں جوزنا کے لیے زیب وزینت اختیار کرتے ہیں پھر ایک ایسے گڑھے پر میرا گزر ہوا جس میں سے بدبو آرہی تھی، اور اس میں سے سخت آواز یں آرہی تھیں۔ میں نے کہا اے جبرئیل یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا یہ وہ عورتیں ہیں جو زنا کے لیے بن ٹھن کر رہتی تھیں اور وہ کام کرتی تھیں جو حلال نہیں ہے۔ (الترغیب وا لترھیب ص ۲۷۷ج ۳)۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا جس قوم میں خیانت ظاہر ہوگی اﷲ ان کے دلوں میں رعب ڈال دے گا اور جس قوم میں زنا کی کثرت ہوگی ان میں موت کی کثرت ہو گی اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کارزق کاٹ دیاجائے گا۔ (یعنی انہیں رزق کم ملے گا اور اس کی برکت ختم کردی جائے گی) اور جو قوم ناحق فیصلے کرے گی ان میں قتل کی کثرت ہوگی۔ اور جو قوم بد عہدی کرے گی ان پر دشمن مسلط کر دیا جائے گا۔ (رواہ مالک فی الموطا وھوفی حکم المرفوع)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ اور خدا نہ کرے کہ تم مبتلا ہو( تو پانچ چیزیں بطور نتیجہ ضرور ظاہر ہوں گی پھر ان کی تفصیل فرمائی کہ) جب کسی قوم میں کھلم کھلا بے حیائی کے کام ہونے لگیں تو ان میں ضرور طاعون اور ایسی ایسی بیماریوں پھیل پڑیں گی جو ان کے باپ داداؤں میں کبھی نہیں ہوئیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے گی قحط اور سخت محنت اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے ان کی گرفت کی جائے گی اور جولوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ روک لیں گے ان سے بارش روک لی جائے گی۔(حتیٰ کہ) اگر چوپائے( گائے بیل، گدھا گھوڑا وغیرہ) نہ ہوں تو بالکل بارش نہ ہو۔ اور جو قوم اﷲ اور اسکے رسول کے عہد کو توڑدے گی اﷲ تعالیٰ ان پر غیروں میں سے دشمن مسلط فرمادے گا جوان کی بعض مملو کہ چیزوں پرقبضہ کرے گا۔ اور جس قوم کے بااقتدار لوگ اﷲ کی کتاب کے خلاف فیصلے دیں گے اور احکام خدا وندی میں اپنا اختیار وانتخاب جاری کریں گے وہ خانہ جنگی میں مبتلا ہوں گے۔ (ابن ماجہ)
اس حدیث پاک میں جن گناہوں اور معصیتوں پر ان کے مخصوص نتائج کا تذکرہ فرمایا ہے یہ گناہ اپنے نتائج کے ساتھ اس زمین پر بسنے والے انسانوں میں موجود ہیں۔ سب سے پہلی بات جو آنحضر ت صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمائی یہ ہے کہ جس قوم میں کھلم کھلا بے حیائی کے کام ہونے لگیں گے ان میں ضرور طاعون پھیلے گا اور ایسی ایسی بیماریاں بہ کثرت ظاہر ہوں گی جو ان کے باپ داداؤں میں کبھی نہ ہوئی ہوں گی آج بے حیائی کس قدر عام ہے اور سڑکوں پارکوں گلیوں اور نام نہاد قومی اور ثقافتی پروگراموں میں، عرسوں اور میلوں میں، ہوٹلوں اور دعوتی پارٹیوں میں کس قدر بے حیائی کے کام ہوتے ہیں ان کے ظاہر کرنے اور بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
فحش کاری کے نتیجے میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں اور ایسے ایسے امراض سامنے آرہے ہیں جن کے طبعی اسباب اور معالجہ کے سمجھنے سے ڈاکٹر عاجز ہیں جس قدر ڈاکٹری ترقی پذیر ہے اسی قدر نئے امراض ظاہر ہوتے جا رہے ہیں ان امراض کے موجود ہونے کا جو سبب خلاق عالم کے سچے پیغمبر (صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے بتایا ہے (یعنی بے حیائیوں کا پھیلنا) جب تک و ہ ختم نہ ہوگا نئے امراض کا آنا بھی ختم نہیں ہوسکتا۔دور حاضر کے لوگوں کا اب یہ طریقہ ہوگیا ہے کہ ان کے نزدیک شہوت پرستی ہی سب کچھ ہے ۔زندگی کا خلاصہ جنسی ہوس پرستوں کے نزدیک صرف یہی رہ گیا ہے کہ مرد اور عورت بغیر کسی شرط بغیر کسی پابندی کے آپس میں ایک دوسرے سے شہوت پوری کیا کریں۔ پہلے تو بعض یورپین ممالک نے اس قسم کے قوانین بنادیے تھے لیکن اب وہ بین الاقوامی کانفرنس بلابلا کر سارے عالم کے انسانوں کو اس بیہو دگی میں لپیٹنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک کانفرنس پچھلے دنوں قاہرمیں منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں ایسی ایسی انسانیت سوز تجاویز رکھی گئیں جو انسان ہونے کادعویٰ کرنے والوں سے بہت بعید ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ اس قسم کی کانفرنس منعقد کرنے والے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے ہی سے باہر نکال چکے ہیں اور انہیں اس پر ذرابھی رنج نہیں ہے۔ یہ لوگ اس مقام پر اتر چکے ہیں کہ ہم انسان نہ رہے توکیا حرج ہے ہوس تو پوری ہوگی۔ انسان بننے اورا نسانی تقاضے پورے کرنے میں نفس کی آزادی میں فرق آتا ہے لہذا ایسی انسانیت کی ضرورت کیا ہے۔ جانور بھی تو دنیا میں رہتے ہیں اور جیتے ہیں ہم ہی جانور ہوگئے تو کیا ہوا؟ یہ بات لوگ زبان سے کہیں یانہ کہیں انکا طریقہ کار اور رنگ ڈھنگ ایسا ہی ہے۔ اسی کوقرآن مجید میں فرمایا:اَفَرَأَیْتَ مَنِ تَّحَذَ اِلَہَہٗ ھَوَاہُ
اے مخاطب کیاتونے اسے دیکھا جس نے اپنی خواہشات نفسانیہ ہی کو اپنا معبود بنالیا یعنی جیسے معبود کے ماننے والے اپنے معبود کی پوری پوری اتباع کرتے ہیں یہ لوگ بھی خواہشات نفس ہی کااتباع کرتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان) نیز فرمایا ہے۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُو یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاکُلُونَ کَمَاتَأْ کُلُ اْلَانْعَامُ وَالنَّار مُثَوْی لَّھُمْ
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ایسے متمتع ہوتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور دوزخ کی آگ ان کا ٹھکانہ ہے( سورۃ محمد) انسانوں کو جواﷲ تعالیٰ نے عقل اورفہم سے نوازا اور اسے جو شرف بخشا اس شرف کی وجہ سے اور اسے اونچا رکھنے کے لیے احکام عطا فرمائے۔ اس کے لیے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا اور کچھ چیزوں کو حلال قرار دیا۔مرد اور عورت کا آپس میں استمتاع بھی حلال ہے۔ لیکن نکاح کرنے کے بعد پھر اس نکاح اور انعقاد کے بھی قوانین ہیں حضرت انبیاء کرام علیہم السلام نکاح کرتے تھے بجز حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کے ان دونوں حضرات نے نہ نکاح کیا نہ عورتوں سے استمتاع کیا۔ (افسوس ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اتباع کا جو قومیں دعویٰ کرنے والی ہیں وہ ان کی طرف بغیر نکاح کے عورتوں سے استمتاع کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں (قبحھم اﷲ ولعنھم)
ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں جب آسمان سے تشریف لائیں گے تودجال کو قتل کریں گے نکاح بھی فرمائیں گے آپ کی اولاد بھی ہو گی۔ (ذکرہ ابن الجوزی فی کتاب الوفاء) جب وہ تشریف لائیں گے تو صلیب کو توڑدیں گے اور خنزپر کو قتل کردیں گے وہ اس طرح اپنے عمل سے دین نصر انیت کو باطل قراردیں گے (رواہ مسلم والبخاری) سنن ترمذی میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چار چیز یں حضرات انبیاء کرام صلی اﷲ علیہ وسلم کے طرز زندگی میں سے ہیں ایک حیاء (شرم) دوسرے خوشبو لگانا تیسرے مسواک کرنا چوتھے نکاح کرنا۔ پس جو لوگ حضرات ا بنیاء کرام علیہم السلام کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں اور بے حیائی بدکاری کو بھی اپناتے ہیں ان لوگوں کا کسی نبی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والوں پر تعجب ہے کہ وہ کیسے نصرانیوں کی چال ڈھال لباس وضع قطع اور زناکاری کے طریقوں اور زنا کاری کے مشوروں کی کانفرنس کی دعوت قبول کر لیتے ہیں۔ جو لوگ کفر میں غرق ہیں اور انہیں دوزخ میں جانا ہے ان کا اتباع کرنا کیسے گوارا ہو جاتا ہے۔ یہ کتنی بڑی افسوس کی بات ہے کہ تحدید نسل کے عنوان سے قاہرہ میں جوکانفرنس بلائی گئی جس میں سراپا بدکاری کی تجاویز تھیں اس کانفرنس کو ایسے ملکوں کے ذمہ داروں نے کیسے قبول کر لیا جس کے رہنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ نصاریٰ داڑھی مونڈ کر زنخے بننے لگے تو مسلمانوں نے ان کا اتباع کرلیا۔ وہ کسی ہوئی پتلون پہننے لگے تو مسلمان بھی اس میں عزت سمجھنے لگے۔ ملحدوں نے ننگوں کے کلب بنالئے تو مسلمان صاحب بھی ان کلبوں میں جا کر کلاب بننے لگے۔ یہودیوں نے فری میسن نکالاتو من چلے اس کے بھی ممبربن گئے۔ نصاریٰ نے باہمی رضا مندی سے زنا کو اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے عمل کو قانونی جواز دے دیا تو یہ بھی ساتھ لگ گئے۔ انہوں نے تحدید نسل کی بات اٹھائی تو یہ بھی ہاں میں ہاں میں ملانے لگے۔ مسلمانو! تمہارا دین جامع ہے کامل ہے تمہیں دشمنوں کی طرف دیکھنے اور ان کی کافرانہ بے ہود گیوں کی تائید کرنے اور اپنا نے کی کیا ضرورت ہے؟
کافروں اور ملحدوں،زندیقوں کو اسی پر تعجب ہے کہ شریعت اسلامیہ میں زنا کو کیوں حرام قرار دیا گیا۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مردعورت کا اپنا ذاتی معاملہ ہے جس کا جس سے جی چاہے لذت حاصل کرلے۔ یہ لوگ یہ نہیں جانتے ان لوگوں کی یہ بات جہالت ضلالت اور غوایت پر مبنی ہے۔ یہ کہنا کہ بندوں کو اختیار ہے کہ جو چاہیں کریں یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ جب خالق کائنات جل مجدہ نے پیدا فرمایا اور سب اسی کی مخلوق اور مملوک ہیں کسی کو بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ خالق اور مالک کے بتائے ہوئے قانون کے خلاف زندگی گزارے۔ کوئی انسان خود اپنا نہیں ہے نہ اس کے اعضاء اپنے ہیں۔ وہ تو خالق جل مجدہ کی ملکیت ہے۔ اپنے ان اعضاء کو قانون الٰہی کے خلاف استعمال کرنا بغاوت ہے۔ اب تحدید نسل کی بات سنئے سید الابنیاء المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
تزوجوالو دود الولود فانی مکاثر بکم الامم
ایسی عورت سے نکاح کرو جس سے محبت ہو اورجوزیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ میں دوسری امت کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔(رواہ ابوداؤد) اس حدیث کو سن کر کون مسلمان ہوگا جو تحدید نسل پر راضی ہویا اس کی رائے دے۔
تقربیاً چالیس سال سے دشمنوں نے تحدید نسل کی بات اٹھار کھی ہے۔ پہلے تو یو ں کہتے تھے کہ زمین چھوٹی سی ہے سو سال کے بعد زمین کا آدھا گزہر شخص کے حصہ میں آئے گا کہاں سے کھائیں گے اور کہاں لیٹیں گے اور بیٹھیں گے۔ اب قاہرہ کانفرنس سے معلوم ہوا کہ یہ تو ایک بہانہ تھا۔ اصل مقصو د ان لوگوں کا یہ ہے کہ زنا کاری خوب عام ہو اور مرد مردوں سے اپنی شہوت پوری کریں۔ جہاں تک رزق کا تعلق ہے سب کو معلوم ہے کہ رازق اﷲ تعالیٰ ہے بندوں کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی کہ پورے عالم کے انسانوں کی کفالت کریں۔ یہ تو وہی زمانہ جاہلیت کے اہل عرب کی بات ہوئی کہ وہ اولاد کو اس لئے قتل کر دیتے تھے کہ یہ کہاں سے کھائے گا۔ وہ لوگ پیدا ہونے کے بعد قتل کرتے تھے اور دور حاضر کے دشمنان انسانیت پیدائش ہی کو روک رہے ہیں۔ نقطہ نظر ایک ہی ہے ۔جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیاگیا۔(یعنی یہ دریافت کیا گیا کہ مادہ منویہ کااخراج باہر کردیں تاکہ رحم میں جاکر استقرار
حمل نہ ہو) تو آپ فرمایا :ذلک الوأد الخفی:کہ یہ پوشیدہ طریقہ پر در گور کرنا ہے اس کے بعد آپ نے آیت شریفہ :
واذا الموؤدۃ سئلت
تلاوت فرمائی۔ (رواہ مسلم)
اور ایک شخص نے سید العالمین صلی اﷲ علیہ وسلم سے اسی عزل کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا:
مامن نسمۃ کائنۃ الی یوم القیامہ الاوھی کائنۃ
یعنی کہ قیامت تک اﷲ تعالیٰ کی قضاء وقدر میں جس روح کو بھی دنیا میں آنا ہے وہ ضرور آجائے گی ۔(رواہ البخاری ومسلم) اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ سے عزل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمائے تو اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ (رواہ مسلم) معلوم ہو اکہ آنے والی روحوں کی آمد کو انسانوں کی کوئی تدبیر نہیں روک سکتی۔
یہ جو دشمنان انسانیت یوں کہتے ہیں کہ آبادی بڑھ جائیگی تو کہاں سے کھائیں گے۔ انہیں یہ ہوش نہیں کہ اموات بھی تو بہت ہورہی ہیں قتل وخون کی بھی گرم بازاری ہے، مہلک ہتھیار بھی تیار کئے جارہے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو بھی دعوت دی جارہی ہے۔ ان چیزوں کی وجہ سے بربادی ہوگی اس کے مقابلے میں نئی نسلوں کی جو پیداوار ہوگی اس کی تعداد تو کچھ بھی نہیں۔ قرآن مجید کا بیان بھی ہے اور تاریخ کے صفحات بھی گواہ ہیں کہ سیدنا حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں مردوں سے شہوت رانی کارواج تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ زمانے بالا ٓخران پر اﷲ تعالیٰ نے عذاب بھیج کر ہلاک فرمادیا۔ ان پر پتھروں کی بارش بھیج دی اور ان کی بستیوں کو پلٹ دیا گیا یہ وہی بستیاں ہیں جہاں اردن کے قریب بحرمیت واقع ہے۔ لوگوں کو اس سے عبرت حاصل کرنا لازم ہے نہ یہ کہ اس کی کوشش کریں کہ بدکاری پھیلے۔اسی عبرت حاصل کرنے کو سورہ حجر میں فرمایا:
اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتِ لِّلْمُتَوَ سِّمِیْن وَ اِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیمْ
بلاشبہ اس میں بصیرت والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور بلاشبہ یہ بستیاں ایک آباد راستہ پر پڑتی ہیں۔
اور سورہ صافات میں فرمایا :
وَاِنَّ لُوطًالَّمِنَ الْمُرْسَلِیْن اذْنَجَّیْنَاہُ وَاَھْلَہُ اجَمْعِیْن اِلَّا عَجُوْزاً فِی الْغَابِرِیْنَ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاخِرَیْنَ وَانَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْھِمّ مُصْبِحِیْنَ وَ بِالّٰلْیلِ اَفَلَا تَعْقِلُون
(اور بلاشبہ لوط بھی پیغمبروں میں سے تھے جب کہ ہم نے انہیں او ر ان کے اہل خانہ کو نجات دیدی مگر ایک بڑھیا جو رہ جانے والوں میں تھی اسے نجات نہیں دی پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کردیا(جو اہل ایمان سے نہیں تھے) اور بلاشبہ تم ان لوگوں پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرتے ہوکیا تم سمجھتے نہیں)
اہل مکہ ملک شام اپنی تجارت کے لیے جایا کرتے تھے اور راستے میں کبھی صبح اور کبھی رات کو ان بستیوں کے پاس سے گزرتے تھے ا س ہی کی یاد دہانی فرمائی۔ آج کل کے لوگ بھی بحرمیت کو دیکھنے جاتے ہیں لیکن بطور سیرو تفریح کے پہنچتے ہیں عبرت بالکل حاصل نہیں کرتے۔ اور اب تو الٹی چال چل رہے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم والے عمل کوقانونی جواز دیکر اس کی دعوت دے رہے ہیں اور سب کو بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور اس عمل کے کرنے والوں کی بستیاں برباد ہوں گی تو لوگ کہاں بچیں گے۔ جن کی روٹی رزق کا فکر کیا جارہا ہے کہ تحدید نسل نہ ہوئی تو بنی آدم کہاں سے کھائیں گے۔ زناکاری تو پہلے ہی سے عام کر رکھی ہے اور اب مردوں کو مردوں سے شہوت پوری کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ عذاب لانے والے کر توت تو پہلے ہی بہت تھے اور اوپر سے اس عمل کو رواج دینے کے لیے بھی کانفرنس بلانے لگے جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش بھیجی تھی اور ان کی زمین کا تختہ الٹ دیا تھا۔ رحمت للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات بھی سنیے:
ارشاد فرمایا ماظھر فی قوم الزنا والربا ال ااحلوا بانفسھم عذاب اﷲ
جس قوم میں زنا اور ربا(سود) کارواج ہوگیا تو ان لوگوں نے اپنی جانوں پر اﷲ کاعذاب نازل کرلیا۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:جس قو م میں ولد الزنا( حرامی بچوں) کی کثرت ہو جائے تو عنقریب اﷲ تعالیٰ ان پر عذاب بھی بھیج دیں گے۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے: اذاظھر الزنا ظھر الفقر والمسکنۃ
جب زنا کھلم کھلا ہونے لگے تو تنگدستی اور مسکینی ظاہر ہو جائے گی (دیکھو الترغیب والترھیب ص ۲۷۷،۲۷۸۔ ج۳) ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:ولاظھر الفاحشۃ فی قوم الاسلط اﷲ علیھم الموت
اور جس قو م میں بدکاری عام ہوجائے ان پر اﷲ تعالیٰ موت کو مسلط فرمادیں گے (ایضا ص ۲۸۵ج۳)
لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ دیوالیہ ہوتا جارہا ہے بلکہ ہوچکا ہے۔ جب زنا عام ہے تو دیوالیہ کیوں نہ ہوگا اور کہتے ہیں کہ ایڈز کی بیماری پھیلتی جارہی ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور اس کے علاوہ اور بھی کئی بیماریاں ہیں جو نہ پرانی طب کی کتابوں میں ہیں نہ تاریخ کی کتابوں میں ان کاذکر ہے جب بے حیائی عام ہے تو حسب فرمان سید الاولین والا خرین صلی اﷲ علیہ وسلم یہ بیماریاں آنی ہی آنی ہیں۔
سید الاولین والاخرین صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:اذا کتفی الرجال بالرجال والنساء بالنساء فدمار علیکم۔(جب مرد مردوں سے کام چلانے لگیں اور عورتیں عورتوں سے کام چلانے لگیں تو تمہارے اوپر بربادی ہے (الترغیب والترھیب)
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تین باریوں فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو لوط علیہ السلام کی قوم کا عمل کرے (الترغیب ص ۸۶ ۲ج۳) حدیث تو ہم نے نقل کردی لیکن ایسا معلوم ہورہا ہے کہ نفس پرست یوں کہیں گے کہ ہمیں تو لذت چاہیے اگرچہ ہم پر لعنت ہو۔ لعنت سے کوئی چھرا تھوڑاہی چل جاتا ہے۔ جب انسان انسانیت کے جامے سے پاؤں نکال دے تو ملعون ہونا منظور کرلیتا ہے لیکن نفس پرستی چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
حافظ منذری نے الترغیب والترھیب ص ۲۸۹ج ۳ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت خالدبن الولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو لکھا کہ انہوں نے عرب کے بعض علاقوں میں ایک ایسا شخص دیکھا ہے جس کے ساتھ وہی عمل کیاجاتا ہے جو عورتوں کے ساتھ کیاجاتا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کو جمع فرمایا جن میں حضرت علی کرم اﷲ وجھہ بھی تھے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے ایک امت کے سوا کسی امت نے بھی نہیں کیا اﷲ تعالیٰ نے جوانہیں سزادی وہ آپ حضرات کو معلوم ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ اس کو آگ میں جلادیا جائے چنانچہ اسی پر متفق ہوگئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے جلانے کا حکم دید یا۔
اصحاب اقتدار کا جو دنیا میں حال ہے اور جو لوگوں کی بد کاری کے حالات اور جو نئے نئے ارادے ہیں اس کے بارے میں خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر دیدی تھی۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ سے رویت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت نہیں ہوگی جب تک کہ دنیا کا سب سے بڑا نصیبہ ور وہ شخص نہ قرار پائے جو ذلیل ہو۔(رواہ الترمذی)حدیث میں لفظ لکع ابن لکع ہے جس کا ترجمہ ہے غنڈہ، بدمعاش، بدکار، کمینہ ان سب معانی کو یہ لفظ شامل ہے۔
حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ اچانک ایک بہت عمدہ ہوا بھیج دیگا جو ان کی بغلوں کے نیچے داخل ہو جائیگی اور ہر مومن ومسلم کی روح قبض کرلیگی اور دنیا میں بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے۔ ان کی بدکاری کا یہ حال ہوگا کہ گدھوں کی طرح سے بدفعلی کرتے ہونگے سوانہی پر قیامت قائم ہوگی۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے اس میں یہ بتایا ہے کہ جیسے گدھے سب کے سامنے جفتی کرتے ہیں اسی طرح بالکل آخری دور کے لوگ راستوں میں گزرنے والوں کے سامنے اپنی نفسانی خواہش پوری کرینگے۔
ابھی تو زنا کار قوموں نے اس عمل کو شروع نہیں کیا لیکن ننگوں کے کلب اور زنا کاری کے کلب اور ایسے پارک یورپ کے بعض شہروں میں موجود ہیں کہ جسکا جو جی چاہے اس پارک میں کرسکتا ہے۔ان لوگوں نے گدھوں والی بے حیائی کی بنیاد تو رکھ دی اور مزید آگے بڑھ رہے ہیں اور کانفرنسوں میں ایسی تجویزیں لارہے ہیں جس سے گدھوں والی بے ہودگی سے قریب تر ہو رہے ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک تو خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک ایک پیشین گوئی ایسی ہے جو ہر انسان کو آپکی نبوت اور رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہی ہے۔ اصحاب اقتدار کیسے ہونگے اور لوگوں کی بے حیائی اور بدکاری کا کیا حال ہوگا ان چیزوں کے ظاہر ہونے سے سینکڑوں سال پہلے آپ کا خبردے دینا اس بات کی صا ف اور صریح دلیل ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو عالم الغیب والشھادہ کی طرف سے بتائے بغیر کوئی خبردے نہیں سکتا۔ میں تمام عالم کے انسانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ دین اسلام قبول کریں جو دین حق ہے۔ جس نے انسانوں کو انسانیت کا شرف بخشا ہے اور جس نے انسانوں کو انسان بنایا ہے اور جس نے حیا، شرم، عفت وعصمت سکھائی ہے۔ انسانیت کا خون کرنے والوں کے پیچھے نہ چلیں اور جانوروں والی زندگی اختیار کرکے اپنے اوپر قیامت قائم کرنے والے نہ بنیں۔ میں دعوت دیتا ہوں کہ تحدید نسل کے بہانہ انسانوں کو بربادی کے گڑھے میں نہ دھکیلیں اور نفس پر ستی کے لیے اندھے نہ بنیں۔
فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور
(کہ بے شک آنکھیں ہی نا بینا نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل نا بینا ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں)