ڈاکٹر فرحان کامرانی
ہمارے بچپن میں ایک راوت صاحب کا تذکرہ ہمارے گھر میں بڑے زوروں سے رہتا تھا۔ آپ اپنے محلے کے فلسفی تھے۔ نیم دہریے، نیم لبرل، نیم اشتراکی، نیم انارکسٹ، نیم سیکولر، نیم آمریت پسند۔ الغرض وہ ایک بڑا سا ’نیم‘ تھے۔ محترم کی ہر ادا سے میرے برادر ایک فلسفیانہ پہلو دیکھتے۔ مثلاً ایک مرتبہ وہ میرے برادر کے ساتھ نارتھ کراچی کے علاقے کی سیمنٹ فیکٹری کے مستقل اثرات سے گرد آلود سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے ایک کریانے کی دکان پر گئے۔ جب دکاندار ان کی مطلوبہ اشیاء لینے دکان کے اندر کی طرف گیا تو راوت صاحب نے جلدی سے سامنے پڑی ٹافیوں کی ایک برنی سے چند ٹافیاں چرا لیں۔ دکان سے واپسی پر وہ بڑے فخر سے میرے برادر سے گویا ہوئے:’پتہ ہے یہ چھوٹی موٹی چوریاں کرتے رہنے چاہیے۔ اس سے انسان الرٹ رہتا ہے۔‘ چوری کرنے والے کا تو پتہ نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس حرکت کے بار بار دہرانے سے دکاندار ضرور زیادہ الرٹ رہتا ہوگا۔
بہرحال ہمارے ’نیم‘ راوت صاحب مشرق اور مذہب وغیرہ سے بیزار تھے۔ وہ امریکا تشریف لے گئے۔ راوت صاحب جب اپنے خوابوں کی دنیا امریکا پہنچے تو وہاں ایک مرتبہ بہت برے پھنسے۔ وہ ایک شراب خانے میں بیٹھے تھے کہ دو افراد نے ان کو گھیر لیا۔ یہ دونوں سابقہ امریکی فوجی تھے جو افغانستان سے لڑ کر آئے تھے۔ ان میں سے ایک معذور تھا۔ ان دونوں کا ارادہ تھا کہ راوت صاحب کی دل کھول کر پٹائی کریں۔ ان میں سے ایک نے جلال سے دریافت کیا: Tell me, are you Muslim (بتاؤ تم مسلمان ہو نا؟)راوت صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگیں، آپ نے فوراً کہا: No No… I am Hindu (ارے نہیں نہیں، میں تو ہندو ہوں)۔مگر دونوں مصر رہے۔ راوت صاحب گھبرا کر اپنی جان بچانے کے لئے باتیں بناتے رہے۔ پھر ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: OK, lets leave him, he doesn’t smell like a Muslim (چھوڑو بھی اس میں تو مسلمانوں والی بو ہی نہیں)۔بہرحال ’نیم‘ راوت صاحب کی جان بچی۔ وہ اس طرح کے متواتر واقعات سے تنگ آ کر پاکستان لوٹ آئے مگر یہاں بھی بات نہ بنی تو اپنی جنت واپس چلے گئے۔
حیرت کی بات ہے کہ ہمارے سیکولر، لبرل، دہریے، یا اپنی مرضی کے جدید ’’خدا کے لئے‘‘ ماڈل اسلام کے ماننے والوں کو بھی جب غیروں میں رہنے کا موقع ملتا ہے تو انہیں بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑ ہی جاتا ہے۔ وہ غیروں کے سامنے بانہیں پھیلا کر کہتے ہیں کہ ’ہم تو اسلام سے تم سے بھی زیادہ بیزار ہیں‘، یا یہ کہ ’ہم تو بڑے آزاد خیال مسلمان ہیں‘ مگر غیر ان کو حقارت سے دیکھ کر کہتے ہیں کہ ’رہنے دو تم بھی وہی ہو، ہم جانتے ہیں، زیادہ ڈھونگ مت کرو۔‘اس کیفیت سے وہ کرب جنم لیتا ہے جس سے ہمارے معاشرے کے ’نیم‘ اب بڑی شدت سے گزر رہے ہیں۔
چند سال قبل بھارت کے اصلی راوت یعنی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ایک تقریر کے دوران بڑی عجیب بات کہہ دی۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ’ ’پاکستان اور بھارت کے معاملات تو تب ہی درست ہوسکتے ہیں کہ جب پاکستان ایک سیکولر ریاست بن جائے۔‘‘ حیرت کی بات ہے کہ بھارت کی فوج کے سربراہ ہماری سول اور فوجی قیادت کے ساتھ کس قدر سیم پیج پر ہیں۔
انہوں نے مزید ارشاد فرمایا کہ’ ’پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہی بات پاک بھارت مراسم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘ راوت صاحب کی یہ معلومات غلط ہیں۔ پاکستان کی ریاست میں اسلام کا’ ’الف‘‘ بھی نہیں۔ وہ تو بے چاری عوام کے دلوں سے ہی اسلام نہیں نکلتا اسی لئے ہمارے دل و جان سے سیکولر حاکم، اعلانِ سیکولرازم کا اپنا ارمان نہیں نکال سکتے۔
جنرل مشرف صاحب کو بھی بہت ارمان تھا کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دے دیں۔قرارداد مقاصد سے یہ جملہ نکلوا دیں کہ پاکستان کا اقتدار اعلیٰ اﷲ کے ہاتھ میں ہے، حدود کی دفعات کا خاتمہ کر دیں، ناموس رسالت ﷺ کے قوانین کو ختم کر دیں اور اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ انہوں نے ہمارے ملک کی درس گاہوں سے بھی اسلامیات کو دیس نکالا دینے کی سعی کی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اسلامیات کی جگہ سول ویلیوز پڑھائی جائیں گی۔ خیر سے اب دوبارہ مشرف دور اس ملک میں عمران خان صاحب کی قیادت میں آ ہی چکا ہے۔ویسے بھی ہم کو یاد ہے کہ اپنے وزیر اعظم کے لئے پہلی پسند مشرف صاحب کے لئے عمران خان ہی تھے۔ بس تب خان صاحب کی انا ان کی وزات اعظمیٰ کے رستے میں رکاوٹ بن گئی تھی۔
حیرت انگیز بات ہے کہ بپن راوت صاحب کو پاکستان اسلامی ریاست کیسے لگ گیا؟ یہ تو وہی بات ہوئی جیسے ہمارے ’نیم‘ راوت صاحب امریکی فوجیوں کو مسلمان لگ رہے تھے۔ جنرل راوت نے پاکستان کو اسلامی ریاست کہہ کر ہماری سیکیولر اور لبرل ایلیٹ کی ساری محنت پر تھوک ہی دیا۔
ہمارے ملک کے سارے ’نیم‘ کچھ بھی کر لیں۔ بھلے سے الٹے لٹک جائیں مگر یہ بات طے ہے کہ ان کو غیر ہمیشہ نفرت و حقارت سے ہی دیکھیں گے۔ وہ ان کو مسلمان ہی سمجھیں گے۔ ان کے پاس ان کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال سیکولر ترکی کی تاریخ ہے۔ مصطفی کمال اتاترک کا ترکی سیکولر تھامگر اسے یورپ میں پذیرائی نہ ملی۔ جب یورپی یونین بنا تو اس میں داخلہ نہ ملا۔ ترکی کے سیکولر حکمران یورپ کے سامنے ناک سے لکیریں نکالتے رہ گئے مگر ذلیل و رسوا ہی رہے۔ بالآخر اہل ترکی نے ملک کے طاقت کے ایوانوں سے سیکولروں کو۱۸؍ سال قبل اکھاڑ ہی پھینکا۔مگر اس طبقہ ’نیم‘ کو جنرل بپن راوت کے جوتوں کے سائے تلے رہنے کی عادت ہو چکی ہے۔ وہ اس میں ہی خوش ہیں۔ بھارت ان کو جوتے مارتا ہے، ذلیل کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ’ارے ہم تو تم سے بھی بڑے سیکولر ہیں۔‘، امریکا جوتے لگاتا ہے تو اس سے کہتے ہیں ’ارے ہم نے تو تمہاری جنگ تم سے بھی تندہی سے لڑی ہے‘، اعتبار کوئی کرتا نہیں مگر یہ بیچارے اسی چوکھٹ پر متھا ٹیکنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے لبرلوں کی زندگی بیچارے ’نیم‘ راوت صاحب کی ہی طرح ہے۔ یہ خود کو جو بھی سمجھیں لیکن غیر ان کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ بڑی نازک صورتحال ہے۔