تحریر: عکرمہ نجمی، ترجمہ: صبیح ہمدانی
ایک جامع اور مکمل گفتگو…… مگر صرف ان احمدی دوستوں کے لیے جو اپنے اندر اتنی ہمت دیکھتے ہیں کہ حق کی خاطر سب کچھ چھوڑنے پر آمادہ ہو سکیں۔
میرے احمدی دوست! میں بھی جماعت کا ایک فرد ہوا کرتا تھا کہ پھر میں نے غیر جانبداری سے تحقیق اور مطالعہ کا آغاز کیا اور خدا تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ حق جہاں کہیں بھی ہوا میں اس کی پیروی کروں گا، اور الحمد ﷲ کہ مجھے اﷲ نے اپنے فضل و کرم کی بدولت سیدھی راہ پر چلنا نصیب فرمایا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ جرأت کر کے یہ مضمون پڑھیں گے اور اس دوران کسی تعصّب کو اپنے لیے رکاوٹ نہیں بننے دیں گے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ اس لیے کہ حق ہی اس کا حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ واﷲ ولی التوفیق
میں مختصر طور پر چند اہم عبارتوں کو بطور مثال ذکر کرنا چاہوں گا جن میں احمدیت کے جانب سے کمی اور زیادتی جیسی تحریفات اور جعل سازیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ہر پڑھنے والے سے (خاص طور پر ہر مخلص احمدی سے) مجھے یہ توقع ہے کہ وہ ان مقامات کی تحقیق کرے گا اور جسے وہ مسیحِ موعود اور حکمِ عدل سمجھتا ہے اس کے دفاع کی سنجیدہ کوشش کرے گا۔اس لیے کہ ان مقامات پر نا قابلِ تردید دلائل کے ذریعے احمدیت کی تحریفات اور جعل سازیوں کا ثبوت ملتا ہے۔
’’تذکرہ‘‘ بانی سلسلہ مرزا غلام احمد قادیانی کی وحی کا مجموعہ ہے، جس کے بارے میں مرزا صاحب نے کہا کہ جو کوئی اس کتاب میں سے کچھ بھی چھپائے وہ کمینہ ہے۔ اسی کتاب ’’تذکرہ‘‘ میں ’’امام دین‘‘ کی بیوی کے لیے مرزا صاحب نے ’’بدکار‘‘ کا لفظ استعمال کیا جسے تحریف کے طور پر حذف کر دیا گیا۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں: میں نے سوموار کی صبح کو دیکھا کہ امام دین کی بدکار بیوی مر گئی۔ (تذکرہ،صفحہ: ۶۰، طبع سوم، مؤرخہ: ۱۵ جنوری، ۱۹۰۶ء، مرزا صاحب کے الہامات والی کاپی سے منقول)
مرزا صاحب کا یہ خواب اور ایک پاک دامن عورت پر یہ تہمت تذکرہ کی پہلی اور دوسری طباعت میں شامل نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے الہامات والی کاپی اس وقت لا پتہ تھی، جو کہ دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد دستیاب ہوئی چنانچہ اس میں سے تیسرے ایڈیشن میں اضافے کیے گئے (’’تذکرہ‘‘ عربی ایڈیشن، صفحہ: خ)۔
اس الہام کے پس منظر میں ایک ہوش رُبا اور ہولناک داستان ہے(یعنی محمدی بیگم سے مرزا صاحب کے نکاح کا قصہ)، جس کی وجہ سے اس الہام اور اس لفظ کی تحریف کے تناظر میں چند ہولناک باتیں ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۱: مرزا صاحب کا (بلا ثبوت) پاک دامن عورتوں پر قذف و تہمت لگانا، جس کی سزا قرآنِ پاک کی آیت کے مطابق ۸۰ کوڑے ہیں۔ سورۃ نور میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر اس الزام کے چار گواہ پیش نہ کریں ان کو ۸۰ کوڑوں کی سزا دو اور ان سے کبھی آئندہ گواہی قبول نہ کرو، کہ یہ فاسق و نا فرمان ہیں۔(سورۃ نور: ۴)
۲: مرزا صاحب کا اپنے چچا زاد بھائی مرزا امام دین اور اپنے بیٹے سلطان سے کینہ و نفرت، اس لیے کے مرزا صاحب کے بیٹے سلطان احمد نے اس ’’بدکار عورت‘‘ کی بیٹی سے شادی کر رکھی تھی، اور مرزا صاحب نے اپنے بیٹے کو اسی وجہ سے عاق کر دیا تھا کہ اس نے محمدی بیگم کے نکاح میں شرکت کی تھی۔ یہی نفرت اس بات کا سبب ہوئی کہ مرزا صاحب نے اپنی ہی بہو کی والدہ پر اتنا سنگین الزام عائد کیا۔
۳: جماعت احمدیہ نے طبع چہارم میں اس شرمناک عبارت کو سرے سے حذف ہی کر دیا، چنانچہ ’’تذکرہ‘‘ کے چوتھے ایڈیشن اور اس کے بعد کی سب اشاعتوں میں یہ عبارت نہیں پائی جاتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ اسی ’’بد کار عورت‘‘ کی ایک پوتی قادیانی جماعت کے خلیفہ رابع کی زوجیت میں آ گئی۔ اور خلیفہ رابع ہی کے حکم سے ’’تذکرہ‘‘ کا چوتھا ایڈیشن تیار کیا گیا اگر چہ اس کی اشاعت ان کی وفات سے ذرا بعد ہوئی۔
۴: مرزا صاحب اپنی کتاب ’’الاستفتاء‘‘ میں کہتے ہیں: الہام کو چھپانا میرے نزدیک گناہ اور کمینوں کی سیرت ہے۔ مزید کہتے ہیں: حق بات کو وہی چھپاتا ہے جس پر بد بختی کی مہر لگائی جا چکی ہو۔ پس یہ مثال جماعت احمدیہ کے بر خلاف بانی ٔ سلسلہ کی اپنی گواہی ہے کہ جماعت نے اپنے بانی کی وحی کو چھپا کر کمینگی اور بد بختی کا ثبوت دیا۔
۵: یہ مثال اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مرزائی خلیفہ اپنے بانی سلسلہ کی جس وحی کو چاہے حذف کر سکتا ہے۔ جبکہ صرف یہی بات قادیانیت کا اعتبار ختم کرنے اور مرزا صاحب کے نا قابلِ اتباع ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
ایک دوسری تحریف:
دیکھیے اور اس تحریف کے ذمہ دار کو تلاش کیجیے۔ مرزا صاحب نے سنہ ۱۹۰۶ء میں ڈاکٹر عبد الحکیم کے نام خط میں لکھا: خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے، اور خدا کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے۔ (تذکرہ اردو ایڈیشن: طبع چہارم، صفحہ: ۵۱۹)
یہ عبارت اس قدر واضح ہے کہ اس کا کوئی دوسرا مطلب نکالنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر جماعت احمدیہ کے عرب دفتر کے ڈائریکٹر اور ’’تذکرہ‘‘ کے عربی مترجم نے اس کا ترجمہ کچھ یوں کیا: ’’لقد کشف اﷲ علی أنَّ کلَّ من بلغتہ دعوتی ولم یصدّقنی فہو عرضۃ للمؤاخذۃ عند اﷲ تعالی، وإن کان من المسلمین (’’تذکرہ‘‘ عربی اشاعت، طبع اول، سنہ ۲۰۱۳ء)
یعنی مجھ پر اﷲ نے ظاہر کیا ہے کہ جس کو بھی میری دعوت پہنچی اور اس نے میری تصدیق نہ کی تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں مؤاخذے کے لیے پیش ہو گا، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
اس تحریف کے بارے میں کم از کم یہ بات تو طے ہے کہ اس کا سہواً ہونا ممکن نہیں ہے۔کسی شخص سے جو اردو کے بارے میں معمولی سا علم بھی رکھتا ہوپوچھ کر دیکھ لیجیے، بلکہ جسے اردو کا ایک حرف بھی نہ آتا ہو وہ بھی یہ جان سکتا ہے، کیونکہ دونوں عبارتوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’اور خدا کے نزدیک قابلِ مؤاخذہ ہے‘‘ کے الفاظ بالکل علیحدہ اور ایک کونے میں ہیں، ان کا اصل حکم سے کوئی تعلق نہیں (یعنی مرزا صاحب کی تصدیق نہ کرنے والے کے لیے مرزا صاحب کا اصل حکم یہی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے، ضمناً یہ بھی بتا دیا کہ وہ قابلِ مؤاخذہ بھی ہے)۔
اور چونکہ ہم ’’تذکرہ‘‘ کے عربی مترجم کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اس لیے ہمیں یہ تو بالیقین معلوم ہے کہ وہ ایسی فاحش غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح ان کے بارے میں یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ وہ خلیفۂ وقت سے مراجعت کیے بغیر اپنے آپ کوئی فیصلہ کبھی نہیں کرتے، چنانچہ ہمیں یقین ہے کہ یہ تحریف مرزائی جماعت کے خلیفۂ وقت کے علم اور پوری رضا مندی کے بعد وجود میں آئی ہے۔کوئی بھی احمدی اگر اس کی تحقیق کرنا چاہے تو براہِ راست جماعت احمدیہ کے عرب دفتر کے ڈائریکٹر اور ’’تذکرہ‘‘ کے مترجم سے خود پوچھ سکتا ہے، کہ ان سے رابطہ کرنا معروف و مشہور ہونے کی وجہ سے بالکل آسان ہے۔
پروفیسر ہانی طاہر جو کہ پہلے جماعت کے عرب دفتر کے رکن رہے ہیں اور انھوں نے ڈائریکٹر کے ساتھ مل کر بذات خود بھی اس ترجمے کے عمل میں بہت سا کام کیا ہے، انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’جس بات سے میرے شبہات کو تقویت ملی کہ ’’تذکرہ‘‘ میں تحریف کی جارہی ہے، وہ یہ تھی کہ میرے پاس ’’تذکرہ‘‘ کے عربی ترجمہ کے ابتدائی مسوّدات موجود ہیں اور ان میں یہ عبارت سرے سے موجود ہی نہیں ہے،…… گویا مترجم نے جان بوجھ کر اس عبارت کا ترجمہ اوّلاً کیا ہی نہیں تھا، تا کہ وہ خلیفہ مرزا مسرور احمد سے اس مشکل کا حل دریافت کر سکے اور اس سے پوچھ سکے کہ وہ ترجمے کے نام پر تحریف کر سکتا ہے یا نہیں‘‘۔ پروفیسر ہانی نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ: ’’مجھے یاد ہے کہ میں مرزا صاحب کی کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ مجھے اس میں ’’تذکرہ‘‘ کے اس ترجمے کے بالکل بر عکس بات نظر آئی، جب میں نے دونوں کتابوں کا تقابلی مطالعہ کیا تو مجھے شدید تضاد و تناقض کا ادراک ہوا، اس وقت مگر میرے ذہن میں یہ امکان نہ آیا کہ یہ تحریف اور جعل سازی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے اس لیے کہ جماعت احمدیہ کے بارے میں یہ گمان بھی میں نہ کر سکتا تھا۔ جب میں نے اپنے دفتر کے کار پردازان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فوراً اس کی تصحیح کر دی، لیکن ’’تذکرہ‘‘ (عربی ایڈیشن) اس وقت تک شائع ہو چکی تھی اور آج کوئی بھی شخص جس کے پاس اس کا کوئی نسخہ ہو وہ کتاب کے صفحہ ۶۶۲ پر یہ تحریف شدہ جعلی ترجمہ پڑھ سکتا ہے‘‘۔
تکفیر کا مسئلہ بذاتِ خود جماعت احمدیہ کے لیے ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس لیے کہ قادیانی فرقہ پوری دنیا کے سامنے عامۃ المسلمین کی جانب سے ان کو کافر قرار دینے کو شدید ظلم اور زیادتی کے طور پر پیش کرتا ہے، جبکہ ان حقائق کی روشنی میں جماعتِ احمدیہ کا عام مسلمانوں کی جانب سے خود کو کافر قرار دیے جانے پر احتجاج کرنا بے وقوفی بھی لگتا ہے اور بے معنی بھی۔
بے معنی تو اس طرح کہ کیا جماعت احمدیہ ان لوگوں کی تکفیر پر احتجاج کر رہی جو خود جماعت کے نزدیک کافر ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کہ اگر کافر لوگ ہی جماعت احمدیہ کو کافر قرار دے رہے ہیں تو اس پر جماعت کو کیا اعتراض ہے؟ بھلا اگر عام کافر (مثلا یہودی یا عیسائی) ہمیں کافر قرار دیں تو اس سے ہمیں افسوس ہو گا؟ اور بے وقوفی اس طرح کہ قادیانی عام مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ انھیں بھی مسلمان سمجھا جائے، تو کیا یہ ان لوگوں سے اسلام کا فتوی لینا چاہتے ہیں جو ان کے مسیح موعود کی اتّباع ہی نہیں کرتے؟ کیا مسیح موعود اتنا گیا گزرا ہے کہ اس کی پیروی نہ کرنے والوں کا فتوی بھی معتبر ہو؟ منکر مسیح موعود سے اپنے مسلمان ہونے کی گواہی لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ (جار ی ہے)