تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

جدوجہد آزادی میں احرار کا حصہ

تحریر: مولانا مظہر علی اظہر رحمہ اﷲ ۔تمہید : مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
تعارف: مولانا مظہر علی اظہر علیہ الرحمۃ (۱۳؍ مارچ ۱۸۹۵ء …… ۲؍ نومبر ۱۹۷۴ء) مجلس احرار اسلام کے بانی رہنماؤں اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے رفقاء میں سے تھے۔ وہ مجلس احرارِ اسلام ہند کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ۱۹۳۶ء اور ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مجلس احرارِ اسلام کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا، پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ مفکرِ احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ کے بعد مجلس احرار میں وہ دوسری شخصیت تھے جنھوں نے قلم سنبھالا اور تحریری میدان میں بھی مجلس اور قوم کی خوب رہنمائی کی۔ مولانا مظہر علی اظہر نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود ۱۹۳۵ء کی تحریک مدحِ صحابہ لکھنؤ کی قیادت کی، انھوں نے ۱۹۵۳ء کی تحریکِ مقدس تحفظ ختمِ نبوّت میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ۱۹۵۸ء میں مجلس احرار سے پابندی ختم ہوئی تو احیاءِ احرار کے لیے ملک بھر میں احرار کانفرنسوں میں اور جلوسوں میں شرکت و خطاب کیا۔ پیرانہ سالی کے باعث عملی طور پر احرار سے الگ ہو گئے لیکن ان کی شخصیت کا یہ پہلو بہت ہی تابناک اور تاریخی ہے کہ احرار سے عملی طور پر الگ ہونے کے باوجود آخر دم تک ذہنی طور پر احرار سے ہی وابستہ رہے اور کسی دوسری جماعت میں شامل نہ ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں ان کی رہائش گاہ پر مجھے ان کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ مولانا کا انتقال ۴؍ نومبر ۱۹۷۴ء کو لاہور میں ہوا۔ انتقال سے دو ماہ قبل ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور مولانا اپنی زندگی میں یہ عظیم فیصلہ سن کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اُن کی نماز جنازہ جانشینِ شیخ التفسیر مولانا عبیداﷲ انور نے پڑھائی۔
انھوں نے مختلف کتابیں تصنیف کیں جن میں خطباتِ احرار، تحریکِ مدحِ صحابہؓ، تحریک مسجد شہید گنج، ہمارے فرقہ وارانہ فیصلے کا استدراج، دنیا کی بساطِ سیاست، مرزا غلام قادیانی اور ستھیارتھ پرکاش، عصمتِ آدم، قرآن و حدیث کی روشنی میں اور دیگر کئی مضامین اور پمفلٹس اُن کے قلم سے نکلے، زیرِ نظر مضمون ’’جدوجہدِ آزادی میں احرار کا حصہ‘‘ مجلس احرارِ اسلام کے ترجمان روزنامہ ’’آزاد‘‘ لاہور، ستمبر ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا، جسے قائد احرار، جانشینِ امیر شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ نے ۱۹۶۸ء میں اپنے تمہیدی و تعارفی کلمات کے ساتھ شائع کیا۔
۱۹۶۲ء میں ایوب خان کی مارشل لا حکومت نے سیاسی جماعتوں سے پابندیاں ختم کیں تو احرار کی قیادت کی ذمہ داری حضرت سید ابوذر بخاریؒ نے سنبھالی۔ انھوں نے مجلس کی تاریخ و تعارف پر کئی رسائل شائع کیے جو اب نایاب و ناپید ہیں۔ ان رسائل کو نقیب ختمِ نبوّت میں ہر ماہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ کارکنانِ احرار کو اپنی تاریخ اور کارناموں سے آگاہی اور فکری تربیت کا موقع فراہم ہو۔ چنانچہ اس سلسلے کا آغاز مولانا مظہر علی اظہر علیہ الرحمۃ کے درج ذیل مضمون سے کیا جا رہا ہے ۔ ؂ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ (سید محمد کفیل بخاری)
تمہید:
عربی کا مشہور مقولہ ہے ’’صَاحِبُ الْبَیْتِ أَدْرَیٰ بِمَا فِیْہَا ‘‘ گھر والا، مکان میں جوکچھ ہے اُسے دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ زیرِ نظر رسالہ جناب مولوی مظہر علی اظہر کے ایک مختصر مگر جامع تاریخی مضمون کی کتابی شکل ہے۔ جو انھوں نے مجلسِ احرار اسلام کی قریباً چالیس سالہ انقلابی زندگی میں سے تیس برس کے مختلف ادوار کی سن وار ترتیب و نقشہ کشی کے طور پر آج سے سوا نو سال پہلے لکھا تھا، حسنِ اتفاق سے مولوی صاحب موصوف چونکہ جماعت کے بانی اکابر میں شامل تھے، لہٰذا مجلس کے ظاہر و باطن کو دوسروں سے بہرحال زیادہ اور بہتر جانتے تھے۔
ان دنوں برسوں کے تعطل، سیاسی و ملکی انقلاب اور جماعتی تغیر کے بعد جماعت کا مرکزی مکتبہ مجلس کے علمی و ادبی، تبلیغی و سیاسی اور تحریکی و انقلابی کارناموں پر مشتمل لٹریچر کی بالاقساط اشاعت میں مصروف ہے۔ اس لیے موضوع کے ساتھ پوری مناسبت و مطابقت کے پیشِ نظر اس رسالہ کی اشاعت بھی نہایت اہم ضروری اور بروقت اقدام کی صورت میں بروئے کار آ رہی ہے۔ آزادیٔ وطن اور غلبۂ اسلام کی خالص عوامی اور دینی جدوجہد کی تاریخ کے متلاشی، چشمۂ حقائق سے سیرابی کے منتظر و متجسس عوام و خواص اور متعلقین جماعت، خصوصاً علماء و طلباء، سکولوں کالجوں کے مدرس اور متعلمین ان شاء اﷲ تعالیٰ ایسے خالص علمی اور تاریخی مضامین سے بہت زیادہ مستفید و محظوظ ہوں گے، انھیں حق و باطل میں فرق و تمیز کا صحیح شعور حاصل ہو گا۔ غلط کو چھوڑ کر صحیح و صواب کو اختیار کرنے کے لیے سچے وجدان کی ہدایت نصیب ہو گی۔ یعنی وہ ضمیرِ بیدار، ایمانِ مستحکم اور عملِ صالح کے مفہوم و مصداق سے قریب و آشنا ہو سکیں گے۔ پھر زبان سے بڑھ کر قدم کا مرحلہ طے کرنا اور راہِ حق کا مسافر بننے کے لیے قافلۂ مجاہدین کی ہمرکابی اور طلب منزل کے لیے مصروفیت و جادہ پیمائی کا شرف حاصل ہونا اپنے بس کی چیز نہیں ؂
ایں سعادت بہ زورِ بازو نیست

/تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
H البتہ خلوصِ نیت اور بقدر ممکن سعی و عمل کی کچھ پونجی اگر ساتھ ہو تو پھر عنایت و رحمت اور توفیقِ الٰہی، ہادی و دستگیر بن کر برسوں کی کٹھن راہ گھڑیوں میں طے کرا دیتی اور وصال منزلِ مقصود کی نعمت و لذت سے بہرہ ور فرما دیتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں کتاب و سنت، اُسوۂ ازواج و اصحابِ رسول علیہم السلام، اجماعِ امُت، فقہِ مجتہدین اور طریقۂ سلفِ صالحین کی روشنی میں حق فہمی، حق گوئی، حق کیشیٔ و حق کوشی اور مجاہدینِ احرار کی دینی رفاقت سے بہرہ اندوز رکھیں اور اس کی برکت سے نظامِ شریعت کا چلن دیکھنا نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین ۔ والسلام
راقم السطور، خادمِ احرار، ابن امیر شریعت، سید ابو معاویہ ابوذر بخاری، ناظم اعلیٰ مجلس احرار اسلام پاکستان
کاشانۂ معاویہ، ۲۳۲، کوٹ تغلق شاہ، ملتان شہر عصر
۸؍ذی قعد؍۱۳۸۷ھ
۸؍ فروری ؍ ۱۹۶۸ء
جدوجہد آزادی اور مجلسِ احرار :
اس صدی کی پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کے شکست کھانے کے بعد دنیائے اسلام اور ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی واقع ہوئی۔ وہ مسلمان جو جنگِ عظیم میں انگریزوں کی مدد اس بنا پر کر رہے تھے کہ انگریز نے حتمی وعدے کیے ہیں کہ وہ ترکی کو شکست دینے کے بعد اس کے کسی حصے پر قبضہ نہیں کریں گے۔ بعد از جنگ کی سیاست نے ان کو بے حد پریشان کیا اور ان کو معلوم ہو گیا کہ انگریزی وعدے حسینوں کے روایتی وعدوں سے زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ شریف مکہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ استخلاص عرب کے بعد عرب کی ایک حکومت بنائی جائے گی اور شریف مکہ اس کے بادشاہ ہوں گے۔
لیکن انگریزی سیاست نے ہندوستان، عرب اور مصر کے مسلمانوں سے لڑائی کے وقت مدد لینے کے بعد دو گراں قدر اقدامات کیے۔ ایک تو یہ کہ ذمہ دار لوگوں کی زبان سے دنیا کو یہ آواز سنائی کہ جنرل ایلن بی نے شام کا علاقہ فتح کر کے آخری اور کامیاب صلیبی جنگ لڑی ہے، اس اعلان نے دنیائے اسلام کو یکایک ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ ہم تو اسے ایک سیاسی جنگ سمجھتے رہے لیکن انگریزی حکومت کے دل میں صلیبی جنگوں کی صدیوں پرانی جنگوں کی شکست کی یاد محفوظ تھی۔ اور انھوں نے ۱۹۱۴ء کی جنگ میں مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر ترکوں کے خلاف لڑایا اور جنگ ختم ہونے پر اس کے کامیاب صلیبی جنگ ہونے کا اعلان کر دیا۔
شریف مکہ کو دنیائے اسلام نے تو غدار قرار دیا لیکن اس کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس سے انگریز مدبّروں نے بھی غداری کی اور عرب کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ان میں باہمی اختلاف کا بیج بو یا۔ اور اپنی سیاست کو ’’لڑاؤ اور کام چلاؤ‘‘ کی منزل پر گامزن کیا۔
۱۹۱۸ء میں ہی جشنِ فتح کے موقع پر غیر منقسم ہندوستان میں اس جشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا اور دسمبر ۱۹۱۸ء میں جگہ جگہ جلسے کر کے لوگوں کو اس بائیکاٹ میں شریک ہونے اور جشنِ فتح سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی۔ دلّی سے علمائے کرام نے اعلان شائع کیا تھا جس کی تکمیل کی گئی۔ مجھے علم نہیں کہ بعد میں مجلسِ احرار کے کارکن بننے والوں نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ مجھے تو اپنے بارے میں علم ہے کہ دسمبر ۱۹۱۸ء میں جب بٹالہ میں حاجی عبدالرحمن صاحب نے علماء کا حکم پہنچانے کے لیے جامع مسجد میں جلسہ رکھا تو تقریر کے لیے نظرِ انتخاب مجھ پر پڑی۔ میں نے کبھی تقریر کی ہی نہیں تھی اس لیے معذرت کی۔ لیکن کوئی دوسرا تقریر کرنے والا ہی نہ تھا کیونکہ سیاسی جلسوں کا رواج ہی نہ تھا، آخر میں نے لکھ کر آٹھ دس صفحے کی تقریر پڑھ کر سنا دی۔ اس طرح میری سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔
جشنِ فتح کی سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کے چند ماہ بعد تک خاموشی رہی۔ گو خلافتِ اسلامیہ کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا جذبہ رونما ہوا اور کچھ سرکاری لوگ بھی اس تحریک کو اپنانے لگے۔
لیکن مارچ ۱۹۱۹ء میں حالات نے یکایک پلٹا کھایا۔ گاندھی جی نے اعلان کیا کہ جدوجہد آزادی کو شروع کرنے کے لیے ۶؍ اپریل کو ہر جگہ جلسے کیے جائیں اور ہڑتال کی جائے۔ مسلمان ہر جگہ انگریزی اقتدار سے نالاں تھے۔ اس لیے ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہندو اور مسلمان انگریزی اقتدارکے خلاف ہمنوا نظر آئے۔
امرتسر میں ۶؍ اپریل آنے سے پہلے ڈاکٹر سیف الدین کِچلُو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور جب ہجوم احتجاج کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کی طرف گیا تو ریل کے پل پر روک کر گولی چلا دی گئی۔ کئی لوگ قتل اور زخمی ہوئے اور واپس ہونے والے ہجوم نے شہر میں ہلچل مچا دی۔ کئی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی اور کئی انگریز قتل کر دیے گئے۔ اور شہر پر انگریزی حکومت کا قابو نہ رہا۔ اسی طرح لاہور، قصور، گوجرانوالہ اور لائل پور میں بھی فسادات ہوئے۔ ۱۳؍ اپریل کو بیساکھی کے دن جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے جلسہ گاہ میں گولیاں چلا کر جلسے میں موجود لوگوں کو نشانہ بنا کر سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ کئی ضلعوں میں مارشل لاء کا اعلان ہوا اور اسی طرح جنگِ آزادی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔
کانگرس نے دسمبر ۱۹۱۹ء میں اپنا سالانہ اجلاس امرتسر میں منعقد کیا۔ اس وقت کو غنیمت سمجھ کر مسلمانوں نے مجلسِ خلافت کے اجلاس کے لیے امرتسر کو تجویز کیا۔ ان اجلاسوں سے قبل حکومت برطانیہ نے علی برادران کو طویل نظر بندی سے رہا کیا اور وہ بھی امرتسر تشریف لے آئے۔ مجلسِ خلافت کی بنیاد بھی وہیں قائم ہوئی۔ لیکن دسمبر کے آنے سے پہلے ہی مارشل لاء کی عدالتوں میں مختلف مقدمات دائر ہو چکے تھے۔ بٹالہ اور گورداس پور میں بھی گرفتاریاں ہوئیں۔ ان میں حاجی عبدالرحمن صاحب کے ساتھ میں بھی تھا۔ ہم سوا دو ماہ بعد رہا کر دیے گئے اور کانگرس اور خلافت جماعتوں میں حصہ لینے لگے۔ میں نے ۶؍ اپریل کے جلسے میں ایک نظم پڑھی جس کا مطلع تھا:
پڑی ہے سر پہ ہمارے بلائے رولٹ بِل
خدا جہاں سے اٹھائے بنائے رولٹ بِل
میرے بھائی صاحب مرحوم نے ایک نظم پڑھی تھی جس میں ایک ٹیپ کا بند تھا:
جگر بڑھائے ہوئے ، جان و دل لڑائے ہوئے
چلے چلو انھیں لندن تلک بھگائے ہوئے
بھائی صاحب کی نظم بھی میرے ذمے ڈال دی گئی اور مجھے خوشی ہوئی کہ ان کی گرفتاری تک نوبت نہ پہنچی اور مجھے اکیلے ہی جیل جانا پڑا۔
دسمبر ۱۹۱۹ء میں کانگرس کے سالانہ اجلاس امرتسر میں سب سے پہلے مجھے نظم پڑھنے کے لیے کہا گیا۔ جس کے پہلے چار مصرعے تھے:
چلائی تونے نہتوں پہ ظلم کی گولی
صدا ضمیر کی لیکن نہ تجھ سے کچھ بولی
کیا جو خون ہزاروں کا ، تب کمر کھولی
کہ چین آ گیا کھیلی لہو کی جب ہولی
۱۹۲۰ء میں مدرسے اور وکالت چھوڑ کر قومی کام کرنے کا فیصلہ کیا تو میں نے بھی وکالت ترک کی اور مجلسِ خلافت سے منسلک ہو کر کام شروع کیا۔ کانگرس کا کام بھی کرتا رہا۔ ۱۹۲۱ء میں ہجرت کی تحریک چلی جس کے لیے مولاناسید عطاء اﷲ شاہ بخاری علیہ الرحمۃ نے بہترین کام کیا۔
ہمیں ایک دوسرے سے روشناس ہونے کا موقع ۱۹۲۳ء کے آخر میں ملا۔ جب کہ ۱۹۲۱ء کی تحریک میں گرفتاریاں دینے کے بعد رہائی پر ہم مجلسِ خلافت کے ایک اجلاس میں لاہور میں جمع ہوئے۔ وہاں چودھری افضل حق مرحوم نے مجھے اور میں نے ان کو پہچانا کہ ہم ۱۲۔۱۹۱۱ء کے زمانے میں اسلامیہ کالج لاہور میں ریواز ہوسٹل میں رہا کرتے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی کہانی سنائی، اس طرح مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور دیگر حضرات سے تعارف ہوا۔ اس وقت سے لے کر ۱۹۲۸ء تک ہم سب مجلسِ خلافت اور کانگرس میں کام کرتے رہے۔ لیکن دسمبر ۱۹۲۸ء میں جب خلافت میں باہمی اختلافات زیادہ ہو چکے تھے، کلکتے کے اجلاس میں ایک صوبہ کے کارکنوں نے پستول نکال لیے۔ ڈاکٹر انصاری مرحوم نے فوراً درمیان میں آ کر پستولوں کا چلنا بند کر ایا اور حالات پر قابو پا لیا۔ لیکن اس ماحول میں اب کام کرنا بے کار ہی نہیں بلکہ خطرناک ہو گیا۔
کانگرس نے ۱۹۲۸ء میں کلکتے میں ڈومینین اسٹیٹس یا برطانوی اقتدار کے اندر حکومتِ خود اختیاری کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ایک سال کے اندر ایسا نظام تیار نہ کیا گیا تو اگلے سال مکمل آزادی کے مطالبے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ۱۹۳۰ء میں ہم نے انجام کار مجلسِ خلافت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا اور مجلسِ احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔ ۱؂
ہم ۱۹۲۹ء میں مجلس خلافت سے منسلک ہوئے لیکن طریقِ کار کی بابت سوچتے رہے۔
مجلس احرار اسلام میں پنجاب کی مجلسِ خلافت کا ایک حصہ شامل نہ ہوا۔ اس حصے میں مولانا عبدالقادر قصوری، ڈاکٹر محمد عالم اور دیگر حضرات شامل تھے۔ مولانا ظفر علی خاں پہلی میٹنگ (۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء) میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے لیکن بعد میں ڈاکٹر محمد عالم انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ ڈاکٹر محمد عالم خلافت سے کٹ کر کانگرس سے زیادہ قریب رہنے کے خواہاں تھے لیکن ہم کانگرس سے قریب رہتے ہوئے مسلمانوں کے احساسات اور ان کے تحفظ سے عہدہ برآ ہونا چاہتے تھے۔
مجلس اور اسلام کا مشکل ترین راستہ:
اس مرحلے پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مجلس احرار اسلام کے رہنماؤں نے جن میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری،
۱؂ یعنی باضابطہ تشکیل، ورنہ ابتدائی خاکہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو تیار کیا جا چکا تھا۔ (ابوذر)
مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اور دیگر حضرات شامل تھے۔ اپنے لیے مشکل ترین راستہ اختیار کیا۔ اس راستے کے دونوں طرف دو بہتر اور زیاد ہ آسان گزار راستے تھے۔ ایک طرف تو انگریزی حکومت سے تعاون کا راستہ تھا جس پر مسلمان زمینداروں، انگریزی خوانوں اور علماء و صوفیاء وغیرہ کی ایک کثیر جماعت تھی۔ اس راستے پر چلتے ہوئے دنیوی اقتدار، رزقِ وافر اور نام و نمود کی راہیں کھلتی تھی۔
دوسری طرف کانگرس جماعت تھی جس پر ہندو سرمایہ داروں کا اثر تھا اور انگریزوں کے بعد دوسرے درجے پر حصولِ ملازمت میں امداد دے سکتی تھی۔
احرار کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جہاں انگریزی اقتدار کا سامنا ہو تو وہاں کانگرس اور ہر اُس جماعت سے تعاون کر لو جو اس اقتدار سے ٹکرا رہی ہو۔
چنانچہ ۱۹۳۰ء میں جب کانگرس نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور پنڈت مالویہ کو صدر نامزد کیا گیا تو انھوں نے چودھری افضل حق کو کانگرس مجلس عمل کا رکن نامزد کیا۔ چودھری صاحب نے مجھ سے مشورہ کیا اور رائے یہی قرار پائی کے مشکل کے وقت ساتھ دینا ہی چاہیے۔ چودھری صاحب دلّی گئے اور جاتے ہی قید ہو گئے۔ وٹھل بھاٹی پٹیل اور دیگر دوستوں کے ساتھ دلّی جیل میں رہے۔
۱۹۳۱ء میں تحریک کشمیر شروع ہوئی جس میں مجھے بطور ڈکٹیٹر کام کرنا پڑا اور سب احرار لیڈر جیلوں میں گئے۔
۱۹۳۴ء میں مجلس احرار اسلام کی ہر دلعزیزی سے خائف ہو کر حکومت نے ۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کا جھگڑا کھڑا کیا اور احرار کارکنوں کو فنا کرنے اور جماعت کو بدنام کرنے کی تدبیر کی۔ لیکن مجلس احرار اسلام نے اپنی بساط کے مطابق درست بات اپنی قوم سے کہہ کر اس کی ناراضی مول لے لی۔ لیکن تحریکِ آزادی کو نقصان پہنچانا پسند نہ کیا۔
۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۳۹ء تک احرار نے مسئلہ فلسطین اور دیگر مسائل کی طرف توجہ دی۔ ۱۹۳۶ء میں ایک وفد حجاز میں بھیجا جس کے رکن مولانا ظہور احمدبُگوی، (امیر انجمن حزب الانصار بھیرا، ضلع سرگودھا) ، مولانا داؤد غزنوی اور راقم الحروف تھے۔
ہم نے شاہ عبدالعزیز ابن سعود سے ملاقات کی اور عرب کے مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ جس سے حالات کا بہترین نقشہ فریقین کے ذہن میں آ گیا۔ باتیں کچھ ایسی تھیں جن کا ڈھنڈورا پیٹنا درست نہ تھا۔ بیس برس کے بعد ہمیں بدلتی ہوئی دنیا نے اپنی کوششوں کا تھوڑا بہت ثمرہ دکھایا ہے۔
آنے والی جنگ کو قریب سمجھ کر ہم نے ۱۹۳۸ء میں خوب پروپیگنڈا کیا کہ انگریزی حکومت کی امداد نہیں کرنی چاہیے۔
۱۹۳۹ء میں بھی یہی مہم جاری رہی۔ مجھ پر ۱۹۳۹ء میں ایک مقدمہ راولپنڈی کی تقریر کی بنا پر چلایا گیا۔ تقریر میں اضافہ کیا گیا تھا۔ لیکن مقدمہ چلانے کا مقصد یہ تھا کہ فوجی بھرتی کو نقصان نہ پہنچے۔ چودھری افضل حق کو قید کرنے کے لیے سرسکندر حیات نے جنگ شروع ہو جانے پر امرتسر کی انتخابی مہم میں جس کے چودھری صاحب امیدوار تھے، ایک تقریر کی جس میں فوجی بھرتی کے فوائد بیان کیے اور چیلنج کیا کہ کوئی اس کا جواب دے۔ چودھری صاحب نے خود جواب دے کر قید ہونا پسند کیا اور ووٹنگ ختم ہوتے ہی دفتر احرار سے گرفتار کر لیے گئے۔
احرار کی ہمت کو یہ گرفتاریاں توڑ نہ سکیں۔ مجلسِ عاملہ احرار نے جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر امرتسر میں جمع ہو کر فیصلہ کیا کہ جنگی امداد کے خلاف قوم کو پکارا جائے۔ چنانچہ شیخ حسام الدین صاحب پہلے ڈکٹیٹر مقرر ہوئے اور انھوں نے امرتسر اور لاہور اور دیگر مقامات پر کئی تقریریں کیں۔ آخر اُنھیں پانچ سال قید کی گئی۔ آغا شورش کاشمیری چھے سال کے لیے جیل بھیج دیے گئے اور سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ہر حصۂ ملک میں جنگی امداد کی مخالفت کرتے ہوئے قید ہوئے۔ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو دھرم سالہ جیل میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی جیتنے کے باوجود انگریزی حکومت کو بلاتاخیر ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
تقسیم ملک کے جھگڑے نے دماغوں کو پریشان کیا۔ ہندو، مسلمان اور سکھ اپنی طبیعتوں کو قابو میں نہ رکھ سکے اور انگریز کی طرح مستقبل سنوارنے کی بجائے اپنے عارضی غیظ و غضب کے غلام بن گئے اور اپنے ہاتھوں وہ کچھ کیا جس پر کسی کو شرم کا سر جھکائے بغیر چارہ نہیں۔
تقسیم ملک کی ستم کاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے احرار کے دل و دماغ کو بھی تقسیم کر دیا اور اب چودہ سال کے بعد بھی یہ خطرہ ہے کہ اس پریشانیٔ دل کو جمعیتِ خاطر میں بدلنے کا سامان ہو سکے گا یا نہیں۔
اﷲ ہمیں تقسیم شدہ ملک کے حالات بہتر بنانے اور پاکستان کی صحیح خدمت کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ (آمین)
(مطبوعہ: روزنامہ ’’آزاد‘‘ لاہور، ۲۷؍ ستمبر ۱۹۵۸ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.