حافظ محمد ابوبکر شیخوپوری
اﷲ رب العزت نے اپنے کلامِ مقدس میں نبوت کے جو مقاصدِ جلیلہ ذکر فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک بنیادی مقصد تزکیۂ نفس ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’تحقیق ہم نے اہلِ ایمان پر احسان کیا کہ ان میں ایک رسول بھیجا، جو انھیں میں سے ہے، ان پر اس کی کتاب کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ دوسرے مقام پر تزکیہ نفس کو فوز وفلاح کامدار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تحقیق وہ شخص کامیاب ہو گیا، جس نے خود کو پاک کر لیا‘‘۔
تزکیہ نفس کو علم تصوف، سلوک، احسان اور علم باطن کے عنوانات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے حامل کو ’’صوفی‘‘ کہا جاتا ہے۔ تصوف کا بنیادی مقصد انسان کی قلبی کیفیات کا قبلہ درست کرنا اور روحانی بیماریوں مثلاً حسد، کینہ، بغض، کبر، عُجب، ریاء اور دیگر رذائل کا علاج کر کے خصائل حمیدہ کو پیدا کرنا ہے، احسان و سلوک کی مبارک منازل جہاں طے کروائی جاتی ہیں اس جگہ کو ’’خانقاہ‘‘ اور ’’روحانی علاج گاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اکابر و اسلاف کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں علمِ ظاہر اور علمِ شریعت کے ساتھ ساتھ علم باطن اور علم طریقت کے حصول کو بھی ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی جیسے امام علوم و فنون اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے فقیہ النفس علم کے بحر بے کنار ہونے کے باوجود ایک غیر عالم لیکن فنا فی اﷲ شخصیت حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ کے آستانۂ عالیہ پر پہنچے اور تصوف و سلوک کی منازل طے کیں۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ اپنے مواعظ میں بجا طور پر اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ میں جو کچھ بھی ہوں، حضرت حاجی صاحبؒ کی وجہ سے ہوں۔
تصوف کے مبارک سلسلے کے اذکار و اوراد و اشغال بلاشبہ انسان کی زندگی کا رخ موڑ دیتے ہیں، جاہل شخص کو عاقل اور غافل کو عارف بنانے میں مؤثر کردار ادا رکرتے ہیں اور دنیا کے بکھیڑوں میں پڑ کر اپنے خالق و مالک کی معرفت سے بے بہرہ شخص کو فنا فی اﷲ کے مقام پر فائز کرتے ہیں۔ لیکن بعض خشک مزاج اور فہم و دانش کی نعمت سے محروم لوگ ان اذکار و اشغال کو بدعت کہہ کر رد کر دیتے ہیں اور العیاذ باﷲ صوفیاء، سالکین اور عارفین کے مقدس طبقہ کو گمراہ اور مبتدع فی الدین کہہ کر ان کی تضحیک کرتے ہیں۔ حالانکہ ان مبارک سلسلوں کی تمام کڑیاں آستانہ نبوت سے ملتی ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو جس طرح علم ظاہر کی دولت سے مالا مال کیا، وہیں دنیا کی محبت کو اپنے ارشادات و فرمودات کے ذریعہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے قلوب سے کرید کرید کر نکالا۔ کبھی دنیا کی فنائیت اور بے ثباتی کا تذکرہ کیا تو کبھی حسد، کبر، کینہ، بغض اور خود پسندی جیسے مہلک روحانی امراض کے نقصانات سے آگاہ کیا۔ کتب احادیث میں ’’رقاق‘‘ اور اخلاق‘‘ کے عنوانات سے قائم ابواب اس پر شاہد ہیں۔
تزکیہ نفس کے مقدس سفر کا آغاز بیعتِ طریقت سے ہوتا ہے اور انتہا درجہ احسان (اخلاص) کے حصول پر ہوتی ہے۔ رابطۂ شیخ، مصاحبت مع الشیخ، تصور شیخ، مجاہدات، ذکرِ اسمِ ذات، مرشد کے تجویز کردہ اوراد و وظائف، مراقبہ اور محاسبہ اس سفر کے لیے ’’زادِ راہ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں، اگر سالک ان تمام مراحل کو مرشد کی ہدایات کی روشنی میں خوش اسلوبی سے طے کر لے تو ’’احسان‘‘ کی منزل تک پہنچ جاتا ہے یعنی عبادات میں اﷲ تعالیٰ کی طرف اس کا دھیان اس قدر لگ جاتا ہے کہ گویا کہ وہ اﷲ کو اپنے سامنے پاتا ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ تصور پختہ ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ کیفیات کسی صاحبِ دل صوفی باصفاء اور شریعت کے اسرار و رموز سے آشنا اور جامع شریعت و طریقت کی بیعت، مجالست اور مصاحبت کے بغیر کسی صورت حاصل نہیں ہو سکتی۔
بسا اوقات اولیاء کرام کے ہاتھ پر خرقِ عادت امور کا ظہور ہوتا ہے، انہیں ’’کرامات‘‘ کہا جاتا ہے جو کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق برحق ہیں۔ حضرت مریم علیہا لسلام کے بند حجرے میں اﷲ کی طرف سے بے موسم کے پھلوں کا آنا، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا مدینہ سے بذریعہ ہوا، حضرت ساریہ رضی اﷲ عنہ کو پیغام پہنچنا اور قرآن و سنت میں مذکور دیگر واقعات اس پر شاہد ہیں۔ لیکن یہ کرامات، تصوف کے مقصودات میں سے نہیں ہیں کہ ان کے ظہور کے بغیر کسی کی ولایت پر شبہ کیا جائے۔ اس بات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ بیعت کے لیے ایسے پیر کی تلاش میں رہتے ہیں جو کرامت کے اعتبار سے لوگوں میں مشہور ہو، حالانکہ سب سے بڑی کرامت احکامِ شریعت پر مضبوطی اور استقامت ہے۔ جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے:’’ الاستقامۃ فوق الکرامۃ ‘‘ یعنی استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا بیعت کے سلسلہ میں کرامات کو دیکھنے کے بجائے دو چیزوں کو بطورِ خاص ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ وہ شخص پابند شریعت ہو اور کسی مستند سلسلے سے مجاز بیعت ہو اور دوسری یہ کہ اس کے ساتھ قلبی مناسبت ہو اور اس سے استفادہ آسان ہو۔
بیعت کے حوالہ سے ہمارے معاشرے میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، ایک طبقہ اس کو دین کا ایسا جزو لاینفک سمجھتا ہے کہ ایسے شخص کو جو کسی سے بیعت نہ ہو، شیطان کا مرید قرار دیتا ہے۔ چنانچہ لوگوں میں مشہور ہے کہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔ یہ ایک جاہلانہ خیال ہے اور ایک طبقہ اس کو بدعت قرار دے کر اس عمل کی یکسر نفی کر دیتا ہے۔ حالانکہ یہ عمل شریعت کے عین مطابق اور انسان کو باشرع بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ’’ باب البیعت‘‘ کے تحت چار روایات ذکر کی گئی ہیں، جن میں سمع و طاعت یعنی اطاعتِ خداوندی پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے بیعت لینے کا ہے۔ یہ بیعت نہ بیعت اسلام ہے اور نہ بیعت جہاد بلکہ خالصتاً بیعتِ طریقت ہے۔ لہٰذا راہ اعتدال پر چلتے ہوئے بیعت کی اہمیت و ضرورت کو سمجھنا چاہیے اور کسی کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ان سے دینی راہنمائی لینی چاہیے۔