عبداللطیف خالد چیمہ
22جولائی 2020کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں تحفظ بنیاد اسلا م بل کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جو اﷲ تعالیٰ کی ذات، جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرات انبیاء کرام ؑ ،حضرات صحابہ کرام و صحابیات ،خلفاء راشدین ،اہل بیت اطہار، اسلام کی مقدس ہستیوں پر تنقید نہ کرنے کے حوالے سے ممانعت کا بل ہے ۔اس بل کا ملک بھر سے خیر مقدم کیا جا رہا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ہی 18ممبران نے اس بل پر جارحانہ تنقید شروع کر دی اور کہا کہ ہمیں اندھیرے میں رکھ کر بل پاس کیا گیا، حالانکہ ان 18ممبران نے 22جولائی کو بل کی قرار داد کی مکمل حمایت کی تھی اس قسم کی صورت حال میں تیزی آئی اور شیعہ مکتب فکر کی جانب سے امت کے 14سو سالہ متفق علیہ عقائد اور مسلمات پر تنقید حد سے بڑھ گئی تو امام اہل سنت حضرت مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمہ اﷲ کے نام ور فرزند اور جانشین شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی جمعیت علماء اسلام پاکستان ( س) کے سیکرٹری جنرل عبد الرؤف فاروقی اور راقم الحروف کی باہمی مشاورت کے بعد (دیو بندی ،بریلوی ،اہل حدیث) اہل سنت کے مختلف مکاتب فکر اور علمی حلقوں کی ایک مشترکہ اے پی سی طے ہوئی ۔اجلت میں رابطوں کے بعد یہ اے پی سی 9اگست اتوار کو ظہرکی نماز کے بعد مرکزی دفتر مجلس احرار اسلام نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں منعقد ہوئی جس کی صدارت بزرگ عالم دین اور جمعیت علماء اسلام (س) کے نائب امیر حضرت مولانا حبیب الرحمن درخواستی نے کی اس اے پی سی میں مولانا زاہد الراشدی، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ،مولانا محمد احمد لدھیانوی ،سید محمد کفیل بخاری،حافظ عبدالغفار روپڑی،مولانا محمد الیاس چنیوٹی، عبدالرؤف ملک ،حافظ زبیر احمدظہیر، قاری محمد زوار بہادر ، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر،حافظ اسعد عبید،مولا نا محمد اشرف طاہر، قاضی ظفرالحق ، مولانا عبدالخالق ہزاروی ، حافظ احمد علی ، قاری جمیل الرحمن اختر ،علامہ محمد یونس حسن ،محمد طیب قریشی ایڈووکیٹ، حافظ محمد نعمان حامد، مولانا اسد اﷲ فاروق، مولانا محمد اسید الرحمٰن سعید، رانا مقصود الحق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ، مفتی عبدالحفیظ ، مولانا عتیق الرحمٰن ارشد، میاں محمد اویس ، قاری محمد یوسف احرار ، مولانا تنویر الحسن احرار ، قاری محمد قاسم بلوچ ، قاری محمد طیب حنفی، قاری علیم الدین شاکر، مولانا الطاف حسین گوندل ،اور کئی دیگر رہنما اور شخصیات شریک ہوئیں جبکہ گفتگو کرنے والوں میں جمعیت علما اسلام ،جمعیت علماء پاکستان ، مرکزی جمعیت اھل حدیث، انٹر نیشنل ختم نبوت مووومنٹ ، جماعت اھل حدیث ،مجلس احرار اسلام ،جماعت اسلامی،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، پاکستان شریعت کونسل، پاکستان علماء کونسل ، متحدہ علماء کونسل ، تنظیم اسلامی ،اہل سنت والجماعت، تحریک نفاذ امتناع قادیانیت آرڈینینس، کے علاوہ کئی دینی اداروں کے نمائندہ حضرات نے شرکت کی۔ اجلاس میں درج ذیل مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا جس کا اعلان مولانا عبدالرؤف فاروقی نے تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی موجودگی میں پریس کانفرنس میں کیا جو درج ذیل ہے ۔
اہل سنت کے مختلف مکاتب فکر اور علمی حلقوں کا یہ نمائندہ اجتماع پنجاب اسمبلی میں ’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘کی منظوری کا خیر مقدم کرتا ہے ۔اور اسے اسلام کی مقدس ہستیوں اور بزرگوں کے ساتھ ارکان اسمبلی کی محبت و عقیدت کا مظہر قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت ،سپیکر پنجاب اسمبلی ،بل کے محرکین اور تمام ارکان کو مبارکباد دیتاہے اور امید کرتا ہے کہ یہ بل جلد از جلد قانونی صورت اختیار کر کے نافذ العمل ہو جائے ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ،صحابہ کرام، اہل بیت عظام ،ازواج مطہرات، اور خلفائے راشدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی عزت و ناموس ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد اور محبت و عقیدت کا اظہار اس کے دینی واجبات میں شامل ہے۔اس لیے اس بل پر مسلمانوں کے مختلف طبقات کے علمائے کرام و عوام کی طرف سے خوشی کا اظہار فطری امر ہے ۔جس کا اظہار کم و بیش ہرسطح پر ہو رہا ہے ،اور ہونا بھی چاہیے ۔
اس بل پر تحفظات کے عنوان سے بعض حلقوں کی طرف سے مقدس ہستیوں کے تقدس اور حرمت کو متنازع بنانے کی مذموم کوششیں بھی اس دوران سامنے آئی ہیں ۔جو کسی صورت میں قابل برداشت نہیں ہیں اس لیے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ،صحابہ کرام واہل بیت عظام کی حرمت و تقدس پر تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ اکابر اور علمائے کرام نے ہمیشہ مثبت افکارو جذبات کا اظہار کیا ہے ۔اور اس حوالہ سے کسی منفی تاثر کا اظہار نہ صرف مقدس ہستیوں کی حرمت و تقدس کے متفقہ موقف کے منافی ہے بلکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر خلفشار کو بڑھانے کی کوشش ہے ۔جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ اس لیے یہ اجلاس ایسے عناصر کو خبر دار کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ ان کی اس قسم کی سرگرمیاں کو کسی سطح پر برداشت نہیں ہیں ۔نیز مقدس ہستیوں کے تقدس و حرمت کا ہر قیمت پر تحفظ ودفاع کیا جائے گا۔
یہ اجلاس اس ملی تقاضے کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ اہل سنت کے عقائد و مفادات اور حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے ناموس و حرمت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مختلف جماعتوں اور حلقوں کو مشترکہ جدوجہد کی صورت دینے کی کوئی موثر شکل اختیار کرنی چاہیے ۔اور اس کے لیے مناسب ہوگا کہ کل جماعتی تحفظ ختم نبوت کی طرح کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام قائم کر کے اس کا اہتمام کیا جائے اور آج کے مشترکہ اجلاس کے داعی مولا نا عبدالرؤف فاروقی کو اختیار دیا جائے کہ وہ اس موقف اور پروگرام سے اتفاق رکھنے والی جماعتوں اور علمی حلقوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے اسے عملی شکل دیں ۔تاکہ اہل سنت کا مشترکہ فورم اس جدوجہد کو آگے بڑھا سکے ۔
یہ اجلاس محرم الحرام کے دوران دینی اجتماعات کے حوالہ سے کسی قسم کی تفریق کو غلط سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ خاندان نبوت اور اہل بیت عظام تمام مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز ہیں اور ان کے ساتھ عقیدت و جذبات کا اظہار کسی تفریق کے بغیر ہر مسلمان کا حق ہے اس لیے اس سلسلہ میں تفریق کی پالیسی کو ختم کرتے ہوئے اہل سنت کو بھی اجتماعات کا حق اور آزادی دی جائے ۔یہ اجلاس اس بل کے حوالہ سے تحقیقی و علمی سرگرمیوں اور ورکشاپوں کے سلسلہ میں اربابِ دانش، مصنفین و محققین اور اشاعتی اداروں کے تحفظات کو قابل توجہ سمجھتا ہے اور ضروری قرار دیتاہے کہ ان کو اعتماد میں لے کر ان کے تحفظات کو دور کیا جائے ۔نیز متنازعہ مواد کو بیورو کریٹ افسران کے بجائے متحدہ علماء بورڈ کے ذریعہ چیک کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
یہ اجلاس مناسب سمجھتا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے انہیں بل کے سلسلہ میں اعتماد میں لیا جائے ۔
یہ اجلاس لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان میں فلم کی شوٹنگ کے افسوس ناک واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے خانہ خدا کی بے حرمتی وتوہین قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس شرمناک واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والوں اور اس کی محکمانہ اجازت دینے والے افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے ۔
یہ اجلاس پشاور میں گستاخ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ،طاہر نسیم کے قتل کے بارے میں امریکی رد عمل کو مسلمانوں کے ایمانی جذبات کے منافی اور پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتا ہے اور ایمانی جذبات کا اظہار کرنے والے نوجوان غازی فیصل خالد کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کیونکہ جب تک قانون اپناکردار ادا نہیں کرتا اور سرکاری ادارے ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلہ میں سنجیدگی اختیار نہیں کرتے، تب تک غیرت مند نوجوانوں کو ایسے رد عمل سے روکا نہیں جا سکتا ۔اس لیے اس قسم کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے اور عدالت سے گستاخ ثابت ہوجانے والے مجرموں کو عدالتی فیصلوں کے مطابق سزائیں دے کر اہل اسلام کو مطمئن کیا جائے ۔
اجلاس اہل سنت کے ممتاز رہنماء اور ادارہ صراط مستقیم پاکستان کے سر براہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی پر مقدمے اور گرفتار کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ ان پر قائم مقدمہ ختم کرکے محرم الحرام سے پہلے رہا کیا جائے اور محرم الحرام میں اہل سنت کے رہنماؤں پر پابندیوں اور زباں بندیوں کے احکامات صادر کرنے سے مکمل گریز کیا جائے۔ مزید براں مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ و اہل بیت کے کنوینر مولانا عبدالرؤف فاروقی نے بتایا کہ چند دنوں میں مجلس عمل کی باضابطہ طور پرکونسل اور ذمہ داران کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔انہوں نے تمام مکاتب فکر سے محرم الحرام میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے پر زور اپیل کی ہے ۔
فتنہ پرور عناصر کو لگام دی جائے!
یکم محرم الحرام سے لے کر دس محرم الحرام 1442 ھ اس لحاظ سے تو امن سے گزر گیا کہ وطن عزیز قتل و غارت گری سے محفوظ رہا۔ لیکن 4؍ محرم الحرام کو اسلام آباد اور 10 محرم الحرام کو کراچی میں جس طرح حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین پربر سرِ عام تبراء کیا گیا یہ واقعات بھی کوئی کم نہیں ہیں اور یہ سب کچھ امن و امان کے داعیوں کے بزعم خویش دعووں کے باوجود سرزد ہوا،جو اب خاموش ہیں اور بولنے کے حوصلے سے عاری! 95 فیصد اہلسنت کی آبادی کے ملک میں منکرین صحابہ کے لیے جو سہولیات اور آزادیاں مہیا کی جاتی ہیں ،اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، اس کے برعکس دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث یعنی اہلسنت کے تمام طبقات حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کو بنیادی طور پر ایک ہی جماعت سمجھتے ہیں ،اہل سنت کے چودہ سو سالہ متفقہ عقیدے کے مطابق ’’ جماعت صحابہ کرام‘‘ میں صحابیات و اہل بیت اطہار خود بخود شامل ہیں ،دس محرم الحرام اتوار کو ایک حد تک اہلسنت کے اجتماعات بھی ہوتے ہیں، بالخصوص دس محرم الحرام کو دار ِ بنی ھاشم ملتان میں ہونے والی قدیمی مجلس ذکر حسین رضی اﷲ عنہ کی شان ہی نرالی ہوتی ہے جس میں اعتدال کے ساتھ واقعہ کربلا کا پس منظر اور سبائی تحریک کے خدو خال حوالوں کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ اس 10 محر م الحرام کو امیر احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالی کی سرپرستی میں ہونے والے اس عظیم الشان اجتماع میں شہداء اسلام و شہداء کربلا کے حضور ہدیہ ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی ہوئی اور حافظ سید محمد کفیل بخاری، مفتی سید صبیح الحسن ہمدانی، سید عطاء اﷲ بخاری ثالث، مولانا سید عطاء المنان بخاری اور دیگر حضرات نے دلائل کے ساتھ گفتگو و اظہار خیال کیا۔ کیا مجال ہے کہ بے ادبی کا شائبہ بھی پیدا ہوا ہو۔ یہ فرزندان امیر شریعت امام السید ابو معاویہ ابوذر بخاری، مولانا سید عطاء المحسن بخاری اور مولانا سید عطاء المومن بخاری رحمتہ اﷲ علیہم کا ہی فیض ہے۔ بہر حال حالیہ دنوں میں دوسرے مکتب فکر کی جانب سے جس بد کلامی اور بدزبانی کا مظاہرہ کیا گیا وہ صرف قابل مذمت ہی نہیں قابل تشویش اور لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ اس کے پیچھے حکمرانوں کے کل پرزے اور مقتدر شخصیات کا رول خارج ازامکان نہیں۔ واقفان حال تو اس بابت کئی خدشے ظاہر کررہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر تو ہم سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں تحفظ بنیاد اسلام بل، جو پیش ہوا، اس کی ضرورت اب قومی اسمبلی میں بھی پیش آتی ہوئی نظر آرہی ہے تاکہ ملکی سطح پر ایسے قوانین بن جائیں جن کی رو سے تو ہین رسالت و توہین اصحاب و ازواج رسول علیہم الرضوان کا راستہ مستقل طور پر روکا جاسکے۔ پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر پاس ہونے والے بل پر اشکالات و اعتراضات سامنے آئے تو اہلسنت کے تمام مکاتب فکر نے 9 ؍اگست کو مرکزی دفتر احرار لاہور میں ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ و اہل بیت‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جس کے کنوینر مولانا عبدالرؤف فاروقی نے 27؍اگست جمعرات کو مولانا عبدالرؤف ملک، مولانا زاہدالراشدی، مولانا فہیم الحسن تھانوی اور راقم سے ضروری مشاورت کے بعد جو پریس ریلیز جاری کی وہ حسب ذیل ہے۔
’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ و اہل بیت عظامؓ کے سر کردہ رہنماؤں نے باہمی مشاورت کے بعد مرکز ی رابطہ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کر کے اس کا اجلاس 16؍ستمبر 2020ء کو لاہور میں طلب کرلیا ہے۔ مشاورتی اجلاس مولانا عبدالرؤف ملک کی صدارت میں جامع مسجد خضراء سمن آباد لاہور میں منعقد ہواجس میں مولانا زاہد الراشدی ،مولانا عبدالرؤف فاروقی ،عبداللطیف خالد چیمہ اور مولانا فہیم الحسن تھانوی نے شرکت کی ۔اجلاس میں محرم الحرام میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے پر زور اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ توہین صحابہ و توہین اہل بیت سنگین ترین جرم ہے اس قسم کی اشتعال انگیزی کرنے والے ملک و ملت کے وفادار نہیں ہوسکتے ۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ واہلبیت کو کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی قدیم طرز پرمنظم کیا جائے گا اور اس میں اہل سنت کے تمام طبقات کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس میں مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا زاہد الراشدی، قاری زوار بہادر، علامہ زبیر احمد ظہیر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ عبد الغفار روپڑی، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، علامہ راغب نعیمی، مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا عبدالکریم ندیم ،مولانا محمد الیاس چنیوٹی ،عبداللطیف خالد چیمہ مولانا محمد اشرف طاہر ،مولانا عزیز الرحمن ثانی ،حافظ محمد امجد کو مرکزی رابطہ کمیٹی کے بنیادی ارکان مقرر کیا گیا جن کی تکمیل و توثیق 16ستمبر کو لاہور میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کی جائے گی ۔مجلس عمل کے کنوینر مولانا عبدالرؤف فاروقی نے بتایا ہے کہ 16ستمبر کے اجلاس میں آئندہ کے لا ئحہ عمل کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں کے سربراہی اجلاس کا بھی فیصلہ کیا جائے گا ،انہوں نے کہا کہ محرم الحرام میں قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں کوجانب داری کا طرز عمل ترک کر کے قانون کی یکساں عملداری کو یقینی بنانا چاہیے اور زبان بندیوں اور ضلع بندیوں کے آ رڈر ز میں توازن نظر آنا چاہیے اجلاس کی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ اہل سنت کے رہنما ء ڈاکٹر اشرف آصف جلالی اور جمعیت علما ء پاکستان (ن) کے سربراہ مولانا قاری محمد زوار بہادر پر قائم مقدمات ختم کر کے ان کو بلاتاخیر رہا کیا جائے ایک قرار داد میں اسلام آباد اور مختلف شہروں میں توہین صحابہ کے دلخراش واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی او ر مطالبہ کیا گیا کہ ان واقعات کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور نشان عبرت بنایا جائے۔ اجلاس میں برطانوی پارلیمنٹ کے تقریبا ً40ًٍ ارکان پر مشتمل ’’آل پارٹیز پار لیمنٹری گروپ فاردی احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ نے 20جولائی 2020 کو پاکستان کے خلاف سنگین الزمات پر مبنی جو انتہائی خطرنا ک رپورٹ جاری کی ہے اس کو مسترد کیا گیا اور حکومت پاکستان اور خصوصاً وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس رپورٹ بارے اپنی پوزیشن واضح کریں۔ اجلاس میں لندن میں پاکستانی سفارت خانے اور سفیرِ پاکستان سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ برطانیہ میں پاکستان دشمن قادیانیوں کی سر گرمیوں پر نظر رکھیں۔ اجلاس کے اختتام پر جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز احمد ہاشمی کو فون کر کے مولانا زاہد الراشدی نے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ رابطہ کمیٹی کے لیے اپنے نمائندے کو 16؍ستمبر کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجیں۔ بعد ازاں اہلسنت کے مختلف رہنماؤں نے مجلس عمل کے کنوینر مولانا عبد الرؤف فاروقی سے رابطہ کر کے انہیں مجلس عمل کی مرکزی رابطہ کمیٹی تشکیل دینے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مجلس عمل کے قیام کو خوش آئند قرار دیا اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ مختلف قائدین نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں اہلسنت کا نمائندہ اور ترجمان ادارہ قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی اور اس امید کا اظہار کیا گیا کہ مجلس عمل اور اس کی رابطہ کمیٹی اس دینی و قومی ضرورت کو احسن طریقے سے پورا کرے گی۔ ہمارے لیے خوش گوار حیرت ہے اور ہم اس کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے یوم عاشور کے موقع پر کراچی میں ہونے والی اعلانیہ گستاخی کا نوٹس لیتے ہوئے آج ہی اپنی ٹویٹ میں کہاہے کہ ’’یوم عاشور کے موقع پر ملک میں امن واحترام ملحوظ خاطر رکھنے پر میں پوری قوم کا مشکور ہوں۔ تاہم بد قسمتی سے اس دوران ایسے فتنہ گر عناصر کی شر انگیزیاں میرے علم میں لائی گئیں، جنہوں نے اس موقع پر فرقہ واریت کی آگ بھڑکا نے کی کوشش کی۔ شر پسندوں کے اس گروہ سے اب میں نہایت سختی سے نمٹوں گا‘‘۔
صورتحال!
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بارے گزشتہ ہفتوں میں ہونے والی بد زبانی و بد کلامی نے سب کو آزردہ کر کے رکھ دیا ہے ، ان حالات میں 1936ء میں مجلس احرار اسلام ہند کی برپا کردہ تحریک مدح ِ صحابہ کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو حالات کی سنگینی سمجھ سے بالاتر نہیں ہونے پاتی۔ تب تو مدحِ صحابہ کے خلاف قانون آگیا تھا جو مولانا مظہر علی اظہر مرحوم کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے واپس ہوا،1961 ء میں ملتان میں سب سے پہلے قائد احرار حضرت سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے ’’ یوم معاویہ ‘‘منا کر اور ہتھکڑی پہن کر اور پابند سلاسل ہو کر برصغیر کے ’’اہل حق‘‘ کو بھی جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ ’’بہت سوں‘‘ کو پریشانی نے ستایا تھا۔ ’’نام معاویہ‘‘ ایک تحریک بنا اور دنیا کی پہلی ’’مسجد معاویہ‘‘ کا اعزاز بھی ملتان کوہی حاصل ہوا۔ خمینی کے انقلاب ایران کے بعد صورتحال گھمبیر ہوئی اور ہوتی ہی چلی گئی۔ اب جب 22؍ جولائی 2020ء کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘ متفقہ طور پر پاس ہوا تو سبائیت نے پھر سر اٹھایا اور کہاگیا کہ یہ بل ہمیں منظور نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس میں اسلام کی مقدسات کا احترام موجود ہے اور تنقید اور گالی کا حق چھینا جا رہا ہے۔ محرم آگیا اور اسلام آباد، کراچی، تلہ گنگ، خوشاب، لاہور اور لودھراں میں حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی تکفیر کی گئی (العیا ذ بااﷲ)۔ پھر کراچی، اسلا م آباد اور 24 ستمبر کو ملتان میں اہلسنت کے تمام مکاتب فکر کے لاکھوں افراد نے پرامن طور پر جس دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان کی معتمد ترین شخصیات نے خلیفۂ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو (معاذ اﷲ)کا فر کہنے والے رافضی آصف رضا علوی کو محفوظ راستہ دے کر ملک سے فرار کرایا۔ اہلسنت کے کسی رہنما یا فرد کی زبان یا ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔ ہمیں یہ وطن عزیز اتنا ہی عزیز ہے جتنا کوئی دوسرا دعویٰ کرسکتا ہے۔ دینی قیادت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، اہلسنت کے تمام طبقات کی مشترکہ ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ و اہلبیت پاکستان‘‘ کی مرکزی رابطہ کمیٹی اپنے اجلاس منعقدہ 16؍ستمبر 2020ء جامعہ محمدیہ رضویہ لاہور (قاری محمد زوار بہادر کی میزبانی) میں اعلان کرچکی ہے کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ 18؍ اکتوبر 2020ء اتوار کو ناصر باغ لاہور میں ’’ عظمت صحابہ و اہلبیت‘‘ کانفرنس ہوگی۔ جس کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور ماضی و حال کی روشنی میں اہلسنت کی جانب سے مجلس عمل کے نظم میں موجود ہ حالات کے تناظر میں ’’مطالبات‘‘ زیر ترتیب ہیں جو ان شاء اﷲ تعالیٰ جلد منظر عام پر آجائیں گے۔ 24 ؍ستمبر جمعرات کو ملتان کانفرنس نے موجودہ دفاعی تحریک کو نیا رنگ دیا ہے اور حضرت مفتی منیب الرحمن کا یہ کہنا کہ ہم ذمہ داروں کے ساتھ تو بات کر سکتے ہیں اداکاروں کے ساتھ نہیں! انتہائی معقول بات ہے۔ یہاں ہم قاری محمد زوار بہادر، مولانا ڈاکٹر محمد عادل، پروفیسر ساجد میر، قاری محمد حنیف جالندھری، سید محمد کفیل بخاری، مولانا حبیب الرحمن ردخواستی، سید حامد سعید کاظمی، مولانا زبیر احمد صدیقی اور اہلسنت اتحاد ملتان کے دیگر رہنماؤ ں کی اولوالعزمی اور گفتگو کی مکمل توثیق و تائید کرتے ہیں۔ ہم ان سطور میں مقتدر اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے یہ بات دردمندانہ اپیل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ خدارا! اﷲ کی وحی، جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت و ختم نبوت اور اسلام و قرآن کے گواہوں حضرات صحابہ کرام و اہلبیت اطہار رضی اﷲ عنہم کی عزت و ناموس کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے قومی اسمبلی میں مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہماری یہ جدوجہد فرقہ واریت کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ گالی گلوچ کو روکنے کی پرامن جدوجہد ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ قوتیں پاکستان کو شام، عراق، لبنان اور یمن بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن ان کی یہ کوشش اسی طرح ناکام ہوگئی جس طرح منکرین ختم نبوت کی کئی سازشیں ناکام ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم توحید و ختم نبوت اور اسوۂ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی روشنی میں امت کے اجماعی عقائد کا تحفظ کرنے کا عہد کر کے یکجا ہو جائیں اور 1973ء کے دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کے لیے رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے والے بن جائیں۔ 24؍ ستمبر کو اہلسنت اتحاد ملتان کی فقید المثال پر امن ریلی اور کچہری چوک ملتان میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی کانفرنس میں کی گئیں تقاریر کی توثیق و تائید کرتے ہوئے اس اجتماع کا مشترکہ اعلامیہ درج ذیل ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ملک کو فرقہ وارانہ تصادم کی طرف دھکیلا جا رہاہے۔ ملکی سلامتی و امن کا تقاضا ہے کہ مقدسات دین کی علانیہ توہین کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اجتماع کے شرکاء نے عزم کیا کہ ناموس مقدسات دین کی حفاظت ہمارے ایمان کی اساس ہے، اس پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی رعایت دی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 73 سال ہو چکے ہیں، ایسے سانحات پہلے بھی رونما ہوتے رہے لیکن جس انداز میں اس مرتبہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کھلے عام توہین صحابہ کا ارتکاب کیا گیا اور اسے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر وائرل کر کے ملک کی اکثریت اہل سنت کی سخت دل آزاری کی گئی۔ حکومتی ادارے حرکت میں نہیں آئے جس کی وجہ سے گستاخان صحابہ کی جسارت بڑھتی چلی گئی۔ مجرموں کے خلاف نہ بروقت کوئی کارروائی کی گئی، نہ انہیں قانون کی گرفت میں لیا گیا، بلکہ وہ آزاد پھر رہے ہیں اور اقتدار کی کمین گاہوں سے کہیں نہ کہیں سے ان کی سرپرستی ہورہی ہے۔ اجتماع کی جانب سے موٹروے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ آج بھی اگر اسلامی حدود و تعزیرات ، قانون قصاص اور فسادفی الارض کے جرائم کی برسرعام سزائیں دی جائیں تو جرائم کوکافی حدتک کنٹرول کیا جاسکتاہے ۔فیٹف قانون کے حوالے سے علماء کرام کا کہنا تھاکہ حکومت نے عوام کے علم میں لائے بغیر ایسے قوانین پیش کیے ہیں جن کی زد میں وسیع پیمانے پر مدارس و مساجد کو لایا جاسکتا ہے۔ لاکھوں عوام کا یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ قوانین مداخلت فی الدین کے مترادف ہیں۔ علماء اور ماہرین کی مشاورت سے ان قوانین کی اصلاح کی جائے ورنہ ان کی شدید مزاحمت کی جائے گی۔ اجتماع کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیاگیا کہ مقدسات دین کی حفاظت کے لیے فوری قانون سازی کی جائے ،مجرموں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی جائیں اور ان کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالتیں قائم ہوں تاکہ بروقت فیصلے ہوں اور ان پر عمل ہو۔
اﷲ تعالیٰ آپ اور ہم سب کے حال پر رحم فرمائیں اور یہ ملک اسلام کا مرکز اور امن کا گہوارہ بن جائے ، آمین یارب العالمین !
43ویں سالانہ ’’احرار ختم نبوت کانفرنس‘‘ چناب نگر(12-11 ربیع الاوّل 1442ھ )
قافلۂ احرار و ختم نبوت 21 ؍ اکتوبر 1934ء میں قادیان میں داخل ہوا تو 27 ؍ فروری 1976 ء کو ربوہ (چناب نگر) میں فاتحانہ انداز میں پہنچا ، یہ قافلۂ سخت جاں آج بھی اپنی وسعتوں کے ساتھ رواں دواں ہے ،قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالیٰ اپنی شدید علالت کے باوجود اس کی قیادت کررہے ہیں اور ان کے نائبین اور ٹیم اس قافلے کو لے کر چل رہی ہے۔ 12-11 ربیع الاوّل کو چناب نگر کی قدیمی مرکزی جامع مسجد احرار میں ہونے والی دوروزہ 43 ویں سالانہ احرار ختم نبوت کانفرنس کے ضروری انتظامات کے لیے 19؍ستمبر 2020ء ہفتہ کو مرکزی نائب امیر جناب سید محمد کفیل بخاری کی صدارت میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں ہر ہر پہلو پر غور کیا گیا اور جناب حافظ محمد ضیاء اﷲ ھاشمی (گجرات) کو ناظم اجتماع جبکہ مولانا محمد مغیرہ، مولانا محمد اکمل، مولانا فیصل متین سرگانہ اور ڈاکٹر محمد آصف کو ان کے نائبین مقرر کیا گیا۔ اجلاس کے بعد ناظم اجتماع نے (بعد نماز عصر تامغرب) اپنے نائبین کے ساتھ میٹنگ کی اور خصوصی وعمومی انتظامی کمیٹیاں تشکیل پائیں۔ حسب سابق امسال بھی مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ رہنماؤں ،علماء کرام، دانشوروں، وکلاء اور طلباء لیڈر زکو مدعو کرنے کا فیصلہ بھی ہوا، جملہ ماتحت شاخوں کے لیے کانفرنس کا سرکلر شامل اشاعت ہے اور الگ ڈاک سے بھی بھیجا جا رہا ہے۔ ماتحت شاخوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کانفرنس اور دعوتی جلوس میں منظم شرکت کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کردیں اور سالانہ کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کے لیے سرگرم ہو جائیں۔ بے حد شکریہ!