متر جم:خا لد امین
(اسسٹنٹ پر وفیسر،شعبہ اردو جامعہ کراچی)
(حال ہی میں ۸؍مارچ۲۰۱۹ء خواتین کے دن کے موقع پر فریئر ہال کراچی میں’’خواتین مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں اس دن کی مناسبت سے حقوق نسواں کی سرگرم تنظیموں نے شرکت کی، اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کی دردناک تصویر پیش کرکے دنیا سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں عزت نہیں، ہمیں انسان تسلیم کیا جائے۔ اس جملے کے ساتھ ساتھ کئی ایسے جملے بھی موجود تھے جنہیں پڑھ کر اس تحریک کے پس پردہ مقاصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’یہ چاردیواری، یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک‘‘، ’’کھانا گرم نہیں کرنا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بہ ظاہر یہ نعرے اپنے اندازِ فکر میں جس تاریخی پس منظر کو لیے ہوئے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے تحریکِ نسواں کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ پاکستان میں اس تحریک سے وابستہ افراد اب اس مقام پر آچکے ہیں کہ وہ اپنے ارادے کو نہ صرف کھل کر بیان کرسکتے ہیں بلکہ اس کے لیے اب وہ ہر محاذ پر جارحانہ انداز بھی اپنانے کو تیار ہیں۔ مریم جمیلہ کا یہ مضمون اسی پس منظر اور نعروں کا جواب فراہم کرتا ہے۔ وہ اسلامی نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے دورِ حاضر کی عصری تحریکات کی طرح مصالحانہ رویہ اختیار نہیں کرتیں بلکہ اپنی آراء بلا کم و کاست اہلِ نظر کے سامنے پیش کردیتی ہیں)
خواتین کی آزادی کے نام سے مشہور بنیاد پرست تحریک حقوقِ نسواں ہے جس نے عصر حاضر میں سماجی سطح پر انسانی رشتوں میں کئی انقلابی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ تحریکِ حقو ق نسواں جدید دور کی چیز نہیں۔ اس کی تاریخی مثالیں قدیم دور میں بھی ملتی ہیں۔ افلاطون کی مشہور کتاب ’’Republic’’میں ان خاندانی اور سماجی کرداروں کو ختم کرنے پر اصرار پایا جاتا ہے جن کی تشکیل صنفی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ قدیم یونانی کلاسیکی کامیڈی Lipsistrata میں اور حال ہی میںHenrick Ibsen کے ڈرامے “A Doll’s House”میں نسوانی نظریات کی ترویج کی گئی ہے۔ وکٹورین ماہر معاشیات اور فلسفی جان اسٹورٹ مل(John Stuart Mill) اور جرمن سوشلسٹ فریڈرک اینگلز (Fricdrich Engles)نے جو مضامین بہ عنوانThe Subjection of Women (عورتوں کی غلامی) ۱۸۶۹ء میں لکھے تھے، انہوں نے تحریک نسواں کی بنیاد ڈالی۔۱۸۸۴ء میں اینگلز نے کھلے عام اعلان کیا کہ شادی کا بندھن غلامی کی ایک تبدیل شدہ بے کیف صورت ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں زور دیا کہ اسے فوری ختم کیا جائے، اور بچوں کی پرورش کے لیے عوام کی ذمہ داری تجویز کی۔
امریکہ میں تحریک نسواں ان دو اہم وجوہات کی بنا پر سامنے آئی: غلامی کے خاتمے کی تحریک اور Temperence Movementکی بدولت شراب پر قانونی پابندی۔ جن خواتین نے ان تنظیموں میں شمولیت اختیار کی انھوں نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیابی جلد حاصل کرلیں گی، اور انھوں نے جلد ہی سیاسی طاقت بھی حاصل کرلی۔Seneca Falls Convention ۱۹۴۸ء میں منعقد ہوا، جو اس تحریک کے لیے تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں حقوق نسواں کے علم برداروں نے خواتین کے لیے ایک منشور اور حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس میں انھوں نے شوہر کے ساتھ برابری، روزگار میں جنسی امتیازات برتنے کی مخالفت، طلاق کے حقوق اور مسا وی تنخواہ کا مطالبہ بھی پیش کیا۔ جس وقت خواتین کی محرومیوں کی یہ تحریک مقبول ہورہی تھی اُس وقت قدامت پسند حقوقِ نسواں کے حامی اپنی سرگرمی اور مطالبات کو محدودکرلیتے ہیں اور خواتین کی محرومیاں ان کا واحد ہدف ٹھیرتی ہیں۔۱۹۲۰ء میں امریکی آئین میں انیسویں ترمیم کے بعد خواتین کو ووٹ دینے کی منظوری دے دی گئی، اور نسائی تحریک کے کارکنان کی اکثریت نے اس ترمیم کے بعد عورتوں کی فلاح و بہبود کا حق حاصل کرلیا۔ اس کے بعد حقوقِ نسواں کی تحریک ۴۰ سال تک غیر فعال ہوگئی۔
۴ ۱دسمبر۱۹۶۱ء کو صدر جان ایف کینیڈی نے خواتین کی حیثیت پر صدارتی کمیشن قائم کرکے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے۔ یہ کمیشن عورتوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصبات، خواتین کے حقوق کی مکمل بحالی، پرانے رسوم و رواج کا مقابلہ کرنے کے لیے حائل رکاوٹوں کی تحقیقات اور ان پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے تھا۔ یہ صدارتی کمیشن پہلا سرکاری ادارہ تھا جو خواتین کے حقوق کے تعین کے لیے بنایا گیا تھا۔
چناں چہ”Silent fifties”کے بعد۱۹۶۰ء کی ابتدا میں حقوق نسواں کے علم برداروں نے تصادم کی سیاست شروع کی اور اس کے لیے انھوں نے دھرنے دیے اور مارچ کیے۔ کالج اور یونی ورسٹی کی طالبات نے ان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔
ان خواتین نے جو Seneca Falls Convention ۱۹۴۸ء میں شامل ہوئی تھیں اور انھوں نے صرف شرابی شوہروں اور خواتین سے ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا تھا، ان کی کامیابی صرف یہ تھی کہ انھوں نے شادی سے متعلق قانونی، جائداد پر اختیار اور مردوں کے مساوی تنخواہوں کے حصول جیسے حقوق حاصل کرلیے تھے۔ اس کے برعکس حقوقِ نسواں کے جدید جانشینوں کے مطالبات کہیں زیادہ بنیاد پرست ہیں۔۲۶ اگست ۱۹۷۰ء کو سب سے بڑا اور پُرجوش مظاہرہ Fifth Avenue نیویارک میں منعقد ہوا، جس میں سیکڑوں خواتین نے پلے کارڈ اٹھاکر نیویارک شہر میں مارچ کیا۔ ان کارڈز پر یہ نعرے درج تھے:
خواتینِ خانہ بلا معاوضہ غلام ہیں! گھر کے کام کاج کے لیے ریاست پیسہ فراہم کرے! مظلوم خواتین رات کاکھانا نہ پکائیں! آج رات اپنے شوہر کو بھوکا مرنے دیں! قربانی دینا ترک کردیں! شادی نہ کر یں! بچوں کے پوتڑے دھونا ترک کردیں! اسقاط حمل کو قانونی بناؤ! انحصاری کی حالت میں زندہ رہنا کوئی اچھا طرزعمل نہیں!
آج حقوق نسواں کے علم بردارکسی بھی ایسے سماجی نظام کے مخالف ہیں، جس کی تشکیل میں صنفی امتیاز برتا جائے۔ اس تحریک کے حامی افراد عورتوں اور مردوں کے مابین قطعی برابری پر اصرار کرتے ہیں اور جسمانی فرق پر توجہ نہیں دیتے، وہ عورت اور مرد کے جسمانی فرق کو تسلیم نہیں کرتے، وہ بیوی کو گھریلو خاتون اور ماں اور شوہر کو نان و نفقہ فراہم کرنے والا اور خاندان کا سربراہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کے جنسی ملاپ میں‘ عورت کو غیر فعال نہیں بلکہ مردوں کی طرح فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے قانونی شادی کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گھر اور خاندان عورت کی مکمل جنسی آزادی کی راہ میں حا ئل ہیں، بچوں کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری عوام پر ہونی چاہیے۔ ان کا اصرار ہے کہ تمام عورتوں کو اسقاطِ حمل پر مکمل اختیار دیا جانا چاہیے۔ ان لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مانع حمل کے تمام آلات کسی بھی عورت کو خواہ وہ کسی بھی عمرکی ہو، بغیر کسی ڈاکٹر کے نسخے کے کسی بھی میڈیکل سینٹر سے بہ آسانی دستیاب ہونے چاہئیں، وہ تمام پابندیاں ختم کی جائیں جو ان چیزوں پر لاگو ہیں۔ اسقاطِ حمل کے تمام قوانین ختم کیے جائیں اور عورتوں کو اس بات کا قانونی اختیار حاصل ہو کہ وہ حمل کے کسی بھی مرحلے پر اسقاط حمل کرسکیں۔ اسقاطِ حمل مطالبہ کرنے پر ہی دستیاب نہ ہو، بلکہ ریاست کی جانب سے بلا معاوضہ ہر اُس عورت کو فراہم کیا جائے جو ایک یا اس سے زیادہ اسقاط حمل چاہتی ہو، تاکہ غریب خواتین بھی اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔حقوقِ نسواں کی تحریک کے حامیان اس مطالبے پر زور دیتے رہے کہ تعلیمی اداروں میں نصاب لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مخلوط ہونے چاہئیں، یعنی ہوم اکنامکس کو لڑکیوں کے لیے اور شاپ میکینکس کو لڑکوں کے لیے مخصوص نہیں کرنا چاہیے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ جمنازیم اور فزیکل ایجوکیشن نہ ہو، لڑکیوں کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کھیل کے تمام شعبہ جات میں چاہے وہ جسمانی ہی کیوں نہ ہو، لڑکوں کے شانہ بشانہ مقابلہ کریں۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ صنفی امتیاز کو ختم کیا جاسکے اورخواتین کو مردوں کے مساوی تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیش کیا جائے۔ حقوق نسواں کے حامی، بچوں کی کتابوں پر بھی اس لیے تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیوں میں ایک ماں پر مشتمل خاندان کا ذکر کرتی ہیں، ’’غیر شادی شدہ ماں‘‘ اور ’’طلاق یافتہ عورت‘‘ کو ما ڈل کے طور پر پیش نہیں کرتیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ لڑکیوں کو ایسے کھلونے دیے جائیں جن سے کھیل کر وہ جنسی
تلذذ حاصل کرسکیں، جب کہ لڑکوں کو DOLLS دی جائیں تاکہ وہ اس سے تسکین پا سکیں۔ بنیاد پرست حقوق نسواں کے علم برداروں نے یہ بھی تجاویز دیں کہ روایتی شادی کے طریقہ کار کے بجائے عورتوں اور مردوں کو مشترکہ قومی فلاح وبہبود کے تحت بسایا جائے، اور بچوں کی ذمہ داری عوام پر عائد کی جائے۔ عوام الناس کو۲۴گھنٹے کی بنیاد پر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے اسی طرح مفت فراہم کیے جائیں جس طرح پارک، لائبریری اور تفریحی سہولیات امریکہ میں موجود دوسری کمیونٹیز کو فراہم کی جاتی ہیں، لیکن چائلڈ کیئر سینٹر کو امریکہ میں غیر سنجیدہ انداز میں لیا جاتا تھا۔ عورت کو مالی طور پر آزاد کیا جائے اور کسی بھی پیشے کو اختیار کرنے پر بہ حیثیت عورت کے، اس پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے۔
خواتین کی اکثریت شاید یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ روایتی کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، وہ اصل میں خوف زدہ یا اپنی موجودگی کے کسی دوسرے تصور کو خیال میں لانے سے قاصر ہیں۔ روایتی رویوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انھیں ایک خاص قسم کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اگر کوئی قید میں ایک خاص قسم کی طاقت حاصل کرنے کے بارے میں جان بھی لے تو آزادی کا تجربہ خوف میں مبتلا کرنے والا ہے۔ ہم خواتین پر کچھ بھی مسلط نہیں کرنا چاہتے سوائے اس کے کہ تمام ممکنہ متبادلات سامنے لے آئیں۔ ہم چناؤ کی تلاش میں ہیں جو ایک اہم کام ہے، بلکہ یہ لوگوں کو انسان بنانے کے لیے بھی اہم ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو مکمل انسان بنایا جائے، نہ کہ انھیں قوانین یا روایات یا ہمارے تنگ نظر ذہنی رویوں کی جکڑ بندیوں میں مبتلا کردیا جائے۔ اگر فطرت میں اس بات کی گنجائش نہیں تو فطرت کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
حقوقِ نسواں کے علم برداروں نے اس تحریک کے ذریعے متبادل انتخاب کے نام پر عورتوں میں سماجی سطح پر ہم جنس پرستی کو فروغ دیا۔ تحریک نسواں کی ایک شاخ Homophile Orgnization ہے جو The Daughters of Bilitisکے نام سے مشہور ہے، جس کا مقصد نسائی ہم جنس پرستی کا فروغ ہے۔نسائی تحریک کے ارکان جو اس تحریک سے قبل نسائی ہم جنس پرست تھے اور جو اس میں شمولیت کے بعد ہم جنس پرست ہوگئے۔ مؤخر الذکر نسائی تحریک کے علم برداروں کے لیے عورتوں کی ہم جنس پرستی سیاسی احتجا ج کی ایک شکل ہے۔ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک ہم جنس پرستی آزادی حاصل کرنے کا ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیں مردوں کے جبر سے آزاد کردے گا۔
بنیاد پرست نسائی تحریک کا اختتامی نتیجہ کیا ہے؟ معاشرے کو کس قسم کی آزادی خواتین کے لیے حاصل کرنی چاہیے؟تحریک نسواں غیر فطری، مصنوعی، عصری سماجی شکست و ریخت کی خلافِ معمول چیز ہے، جو اخلاقی اور روحانی اقدار کے انکار کا نتیجہ ہے۔ بشریات اور تاریخ کے طالب علم تحریکِ نسواں کی بے اعتدالی کے بارے میں کسی شک وشبہ سے ماورا ہیں۔ کیوں کہ تمام انسانی ثقافتیں جنھیں ہم تاریخ اور قبل از تاریخ کے زمانوں سے جانتے ہیں، ان میں مردوں اور خواتین کے درمیان واضح امتیاز روا رکھا گیا ہے اور ان کے سماجی کردار بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ گھر اور خاندان کی شکست و ریخت، سربراہ کے کردار کا نقصان اور جنس کی مکمل آزادی کسی بھی قوم کی راست تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ اگر ایسا ہے تو کیوں مغربی تہذیب اتنی غیر معمولی، زوردار اور متحرک ہے جب کہ وہ اقدار سے منحرف اور اخلاقی تنزل کے باوجود اتنی ترقی کررہی ہے، اور کیوں اب تک عالمی تسلط کو قائم کیے ہوئے ہے۔
جب اخلا قی زوال، خودپرستی کی عبادت کرنے کا عمل اور جنسی آزادی انتہا تک پہنچ جائے، جب مرد اور عورت، نوجوان اور بوڑھے جنسی لذت میں کھو جائیں تو لوگ جنسی لذت کا بھی غلط استعمال شروع کردیتے ہیں۔ اس کا فطری نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ایک قوم مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے۔ لوگ اس طرح زوال پذیر قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ یقینا آگ کی اتھاہ گہرائی کے ایک بہت بڑے دہانے پر کھڑے ہیں، اور یہ تباہی تیز تر ہورہی ہے، نہ کہ رک رہی ہے۔ جب کہ ان کا خیال ہے کہ ایک قوم اسی وقت خوش حالی پر ہوگی جب اس کے عوام انتہائی خودپرست ہوں گے۔ لیکن یہ دکھ بھرا نتیجہ ہے۔ جب تعمیری اور تخریبی قوتیں ایک ساتھ کام کررہی ہوں اور مجموعی طور پر تعمیری قوت، تخریبی قوت پر برتری رکھتی ہو، تو تخریب کو تعمیری عوامل میں شمار کرنا درست نہیں۔
مثال کے طور پر ایک کامیاب مرچنٹ جس نے اپنی ذہانت اور تجربے کے سہارے اعلیٰ منافع حاصل کیا ہو، لیکن ایک ہی وقت میں اگر وہ شراب پیے، جوا کھیلے اور اپنی زندگی کے معاملات سے لاپروا ہوجائے تو یہ اس کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے لیے اپنی زندگی کی جانب سے گمراہ کن ہوگا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی خصوصیات کا پہلا حصہ جس سے اسے مدد مل رہی ہے، اس کی زندگی کا دوسرا پہلو اسے تیزی سے نیچے کی طرف لا رہا ہے۔ مثبت خصوصیات کی وجہ سے وہ اگر پھل پھول رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ منفی قوتیں اس پر اثرانداز نہیں ہورہی ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جوئے کی شیطانی لت ایک لمحے کے لیے اس کی زندگی میں خوش قسمتی لے آئے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شراب پینے کی شیطانی عادت کے نتیجے میں فیصلہ کرنے کے عمل کی ایک مہلک غلطی اسے مکمل دیوالیہ کردے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنسی بے اعتدالی اسے قتل، خودکشی یا کسی اور مصیبت میں گرفتار کردے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کس طرح کامیاب خوش حال لوگ ان برائیوں کا شکار ہوئے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ ایک قوم کے ساتھ بھی ہے۔ ابتدا میں ایک قوم تعمیری قوتوں کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ لیکن اس کے بعد مناسب رہنمائی کی کمی، اس کے چاروں جانب اس کی اپنی تباہی کے اسباب جمع کرنا شروع کردیتی ہے۔ کچھ لمحوں کے لیے تعمیری قوتیں پہلے ہی سے حاصل شدہ قوتوں کے ساتھ جِلا پاتی ہیں، چوں کہ تخریبی قوتیں بھی اس کے ساتھ کام کررہی ہوتی ہیں اس لیے وہ اسے اتنا کمزور کردیتی ہیں کہ ایک معمولی سا جھٹکا اسے وسیع و عریض گرداب میں دھکیل دیتا ہے۔
انسانیت کے لیے نجات کس طور ممکن ہے
سماجی ڈھانچے کے نقطہ نظر سے شریعت کی تعلیمات معاشرے کی اکائی اور خاندان کے کردار پر زور دیتی ہیں۔ خاندان بھی وہ جسے وسیع تناظر میں دیکھا جائے، نہ کہ جدید خاندانی تصور کے تحت۔ مدینہ میں پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا سب سے عظیم سماجی کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے موجود قبائلی نظام کی حد بندیوں کو توڑا اور ایک ایسا متبادل مذہبی نظام تشکیل دیا جو ایک جانب مسلم امہ سے منسلک تھا تو دوسری جانب خاندان سے۔ ایک مسلمان خاندان پورے مسلم معاشرے کی جھلک ہے جس میں اس کی مضبوطی کا پتا چلتا ہے۔ اس میں باپ ایک رہنما یا امام کے طور پر اسلام کی فطرت کے مطابق اپنے کام انجام دیتا ہے، اس کے کاندھے پر اس کی مذہبی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔
خاندان میں باپ کی حیثیت ایمانی اصولوں کی پاس داری کرانے والے، اور اس کی سربراہی کی حیثیت خدا جیسی اتھارٹی کی علامت کے طور پر ہے۔ ایک مرد خاندان میں اس لیے قابلِ عزت ہے کہ وہ خاندان کے افراد کی جائز خواہشات کی تکمیل کرتا ہے۔ کچھ اسلامی معاشروں میں بعض حلقوں کی طرف سے مسلمان خواتین کی بغاوت اُس وقت سامنے آئی ہے جب مردوں نے ان عورتوں کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنا بند کردیا اور خاندان کی سربراہی کے کردار کو فراموش کردیا۔ مردوں کے غیر متاثر کن رویّے کی وجہ سے خواتین میں بغاوت کا عنصر وقوع پذیر ہوا جس کے بعد انھوں نے خود کو کسی بھی مذہبی اتھارٹی سے آزاد کرلیا۔
ایک روایتی خاندان معاشرے کے استحکام کی اکائی ہے۔ ایک مسلمان چار شادیاں کرسکتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کعبے کے چار حصے ہیں۔ یہ استحکام کی علامت ہے۔ بہت سارے لوگ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ اسلام میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں ہے، اور کیوں ایسے خاندان کا نظام جائز ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ غیر اخلاقی ہے۔ کچھ لوگ اس اختلاط کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ یہ ایک ایسا سماجی رویہ ہے جو تمام برے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کردیتا ہے۔ مغربی افراد کے رویّے کا بنیادی مسئلہ مسلمانوں کے اس جدیدیت پسند معاشرے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں جو خود تو شریعت کی تعلیمات کو سمجھ نہیں سکتے کیوں کہ وہ ان تصورات کو استعمال کرتے ہیں جو جدید مغرب سے مستعار لیے گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے مسلم معاشرے میں ایک چھوٹے سے لیکن اہم طبقے میں، خواتین کی جانب سے روایتی اسلامی معاشرے کے خلاف بغاوت سامنے آئی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر تہذیب میں ایک ردعمل ہمیشہ سے موجودہ قوت کے خلاف آتا ہے۔ اسلام میں بہت زیادہ تذکیری نوعیت کی روایت موجود ہے۔ اس کی وجہ سے عورتوں میں ہونے والی بغاوت زیادہ پُرتشدد اور جارحانہ جدیدیت پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندومت میں ماں کے رشتے سے منسلک تمام تعلقات مضبوط رہے ہیں۔ اسی لیے بہت سی مسلم خواتین خاندانی نظام کے مربوط سلسلے کو ڈھانے کی کوشش کررہی ہیں، حتیٰ کہ یہ چودہ صدیوں کے خلاف بغاوت ہے۔ ان میں بیشتر کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اسلام کی اندرونی قوتوں نے اس نظام کو کیسے چلایا ہے۔ اسلام کی مردانہ فطرت کے خلاف آج کل چند جدیدیت پسند مسلمان خواتین نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ اگرچہ تعداد میں محدود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مرد مغرب کی تمام چیزوں کے زیادہ پیاسے ہیں۔ وہ اپنے لباس اور عادات میں تیزی کے ساتھ جدید بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ عمل اُس وقت سامنے آتا ہے جب انسان گہرے نفسیاتی عوامل کو سمجھنے سے قاصر ہوجائے۔
اسلامی نقطہ نظر سے مردوں اور عورتوں کی برابری کا سوال بے معنی ہے۔ یہ گلاب اور چنبیلی کی برابری پر بحث کی طرح ہے۔ ہر ایک کی اپنی صورت اور خوب صورتی ہے۔ مرد اور عورت ایک جیسے نہیں ہیں، ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں۔ خواتین مردوں کے برا بر نہیں ہیں، نہ ہی عورتوں کے برابر مرد ہیں۔ اسلام میں مسابقانہ کردار نہیں پایا جاتا، بلکہ اعزازی اختیار دیا گیا ہے۔ ہر ایک کو اس کی فطرت کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے ہیں۔
مرد کے پاس بعض مراعات جیسے سماجی حاکمیت، اور نقل و حرکت کی آزادی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی بھاری ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ تمام معاشی ضروریات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاندان کی کفالت کرے خواہ اس کی بیوی مال دار ہی کیوں نا ہو، تب بھی اس کی ذمہ داری پوری کرنا اس کا کام ہے۔ ایک روایتی اسلامی معاشرے میں عورت کو فکرِ معاش کے بارے میں فکرمند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہوئی ہو تو اسے بڑے خاندان میں رہتے ہوئے پناہ حاصل ہوتی ہے، وہ سماجی اور معاشی دباؤ سے عہدہ برآ ہوتی ہے۔ وسیع خاندانی نظام میں ایک مرد اکثر اپنی بیوی، بچوں، بلکہ ماں، بہن، پھوپھیوں، سسرالیوں اور دور کے رشتہ داروں کی بھی معاونت کرتا ہے۔ شہری زندگی میں ایک فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر وہ صاحبِ روزگار ہو تاکہ اقتصادی ضروریات درست طریقے سے پوری ہوں اور اس کا بار عورتوں کے کندھے پر نہ پڑے۔ دیہی علاقوں میں ایک خاندان بذاتِ خود معاشی اکائی ہے۔ ان جگہوں پر ایک چھوٹا خاندان کسی بڑے خاندان یا قبائل کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
دوم، ایک عورت کو شریکِ حیات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اس بات کی چنداں فکر نہیں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے ساتھی کو چننے کے لیے ہزار ہا منصوبے بنائے یا اپنے آپ کو قابل توجہ بنانے کی کوشش کرے۔ چوں کہ اس کی فطرت سچی ہے، اس لیے وہ اپنے والدین یا سرپرست پر بھروسا رکھتی ہے کہ وہ اس کے لیے ایک مناسب رشتے کا انتخاب کریں گے۔ یہ عام طور پر ایک مذہبی فرض کی ادائی اور مضبوط خاندانوں کی سماجی حدود کے احساس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان میں طلاق شاذو نادر ہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ رشتے جو جذبات پر مبنی ہوتے ہیں، زیادہ دیرپا نہیں ہوتے۔
سوم یہ کہ مسلمان عورتیں براہِ راست فوجی اور سیاسی ذمہ داریوں سے مبرا ہیں، شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے جب انھیں ایسی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے۔ یہ نکتہ کچھ لوگوں کے لیے ایک محرومی تو ہوسکتا ہے لیکن نسوانی فطرت کی حقیقی ضروریات کی روشنی میں یہ خواتین کے لیے بہتر ہے کہ وہ ان بھاری ذمہ داریوں سے مبرا رہیں۔ حتیٰ کہ جدید معاشروں میں جہاں برابری کے عمل کے ذریعے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں تھا، جہاں کام کے اعتبار سے عورت اور مرد کو مساوی درجہ دیا گیا ہے وہاں خواتین عام طور پر انتہائی حالات میں سوائے فوجی خدمات کے کسی اور کام سے بچ نہیں پاتیں۔
ان مراعات کے بدلے جو مسلمان عورت کو حاصل ہیں، اس پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ خاندان کو ایک گھر فراہم کرے اور بچوں کی مناسب طریقے سے پرورش کرے۔ گھر میں عورت ملکہ کے طور پر حکمرانی کرتی ہے جب کہ ایک مسلمان مرد ایک طرح سے گھر میں اپنی بیوی کا مہمان ہے۔گھر اور بڑا خاندانی نظام دراصل مسلمان عورت کی دنیا ہے۔ اس کا ان تمام چیزوں سے الگ ہوجانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے دنیا سے الگ ہوجانا، یا مرجانا۔ ایک عورت وسیع خاندانی نظام میں اپنے وجود کے معنی تلاش کرلیتی ہے اور اسے اپنی بنیادی ضرورت کا احساس اور خود کو زیادہ سے زیادہ تعمیری کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔
شریعت انھیں یہ اعزاز بخشتی ہے کہ عورت اور مرد اپنی فطرت کے مطابق کام کریں۔ یہ کسی مرد کے سیاسی و سماجی اختیارات کو اس لیے استحقاق دیتا ہے کہ وہ بڑی ذمہ داریاں ادا کرے، اپنے خاندان کی حفاظت کرے اور ان کی معاشی ضروریات اور دیگر عوامل کی کفالت کرے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اس دنیا میں خاندان کے سربراہان گھر میں اپنی بیوی کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس دائرے میں اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے خدا نے ان کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر رکھ دی ہیں۔ ایک مسلمان مرد اور عورت اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے خاندان تشکیل دیتے ہیں جو مسلم معاشرے کی بنیادی ساخت ہے۔ثقافتی، اخلاقی اور روحانی اقدار کو زبردست طریقے سے رد کرنے اور خاندان کے ادارے کی مخالفت کرنے والی خواتین کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرنے والوں نے اپنی پوری تہذیب یعنی عیسائی تہذیب کے ورثے کی مخالفت کی ہے۔ اس جاگیردارانہ معاشرے کی برائیوں اور پادریوں کی حاکمیت کے غلط استعمال کے باوجود قرونِ وسطیٰ کے یورپ نے ایک سماجی انضمام، استحکام، امن اور ہم آہنگی کا لطف اٹھایا ہے جو جدید یورپ کے لیے نامعلوم ہے۔ مشہور جرمن آرٹسٹ Albert Durer (۱۵۲۸ء۔ ۱۴۷۱ء) نے جو خود ایک کٹر عیسائی تھا، اپنی اور ایک عیسائی خاندان کی اقدار کی چلتی پھرتی اور واضح تصویر پیش کی ہے جو اسلامی نظریات کے بے حد قریب ہے۔
نسوانیت پرست ہونے کے لیے حقوق ِ نسواں کے علَم برداروں نے یک جنسی معاشرے کی تجویز دی۔ وہ معاشرہ جو جنسوں کے مابین ثقافتی اور سماجی امتیاز نہ رکھتا ہو… ایسا معاشرہ جو شادی کے بغیر ہو… گھر، خاندان، حیا، عفت اور مامتا جہاں دھتکارے جاتے ہوں… ایسا معاشرہ پیش رفت (Progress) اور آزادی (Liberation) کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اصل میں یہی تنزلی کی بدترین مثال ہے۔ اس کا نتیجہ صاف و خالص یہ ہے کہ وہ معاشرہ انتشار، افراتفری اور الجھن کا شکار ہوتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو تحریکِ نسواں اتنی مقبول کیوں ہے؟
سماجی صف بندی جس کی بنیاد مادہ پرستی نے رکھی ہے، وہ قدیم ترین اور مقبول ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی سماجی نظام تسلی بخش نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس میں آسانی سے ایسا ارتقا وقوع پذیر ہوتا ہے جو فوری طور پر اکثریت کے لیے تمام حالات اور تمام زمانوں میں قابلِ قبول ہوجائے۔ موجودہ سماجی نظام کی کشش عوام میں ہے، اس لیے اس کی جڑیں اتنی گہری نہیں۔ نہ یہ انسانی ذہانت کی سطح بڑھانے میں معاون ہے، نہ کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، نہ اس میں انسان دوستی ہے، اور نہ یہ پائیدار ہے۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہی دیتی ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام تسلسل کے ساتھ انسانیت پر اثر رکھنے کے لیے نہیں آیا ہے، مگر اس نظام کے اثرات انسانی دنیا پر گہر ے ہیں۔
اس نظام کے اثر سے کبھی ایسا اخلاقی بدحالی اور سماجی تنزل انسانوں پر عالمی سطح پر نہیں آیا، جیسا کہ اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے۔ حقوقِ نسواں کے آدرشوں کو اپنانے کے بعد انسان جانوروں سے بھی نچلے درجے پر آگیا ہے۔ جانور بھی اپنی جبلت کے تحت زندہ رہتے ہیں اور وہ اپنی فطرت کے خلاف نہیں جاتے۔ جانوروں میں مادری تعلق اُس وقت عروج پر ہوتا ہے جب ان کے بچے اپنی حفاظت خود نہ کرسکیں۔ اکثر جانوروں میں نر اپنے بچوں میں دل چسپی نہیں لیتا۔ حیوانوں میں یہ تعلق حیا، عفت، شادی اور آبائی جیسا نہیں ہے۔ یہ رویّے صرف انسانوں کے لیے خاص ہیں۔ انسان ہر ثقافت، ہر تہذیب اور تا ریخ میں ان رویوں کے گرویدہ رہے ہیں۔ نسائیت پرست ان خواص کو ختم کردینا چاہتے ہیں، جو تمام رشتوں اور سماجی بندھنوں کی بنیاد ختم کردینے جیسا ہے۔ اس کا نتیجہ خودکشی ہوگا، بلکہ ایک ایسی تنہا قوم جس کا وجود نہ تو تاریخ، نہ انسانی نسل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔(مطبوعہ: فرائیڈے اسپیشل، 15تا 21۔22تا 28مارچ ۔ 2019ء، بتلخیص)