نام:فلسطین کی ڈائری مرتب: مولانا سہیل باوا ضخامت: ۱۴۴صفحات مبصر : صبیح ہمدانی
ملنے کا پتہ: مکتبہ امداد العلوم، جامع مسجد ناظم آباد نمبر ۵، نزد میٹرک بورڈ آفس، کراچی، 02136613625
معاصر تاریخ میں فلسطین جہاں ظلم و استبداد کی سب سے بڑی کہانی ہے، وہیں یہ صبر و ثبات اور قیام و استقامت کی بھی سب سے روشن داستان ہے۔ معاصر فلسطینی مصری شاعر تمیم برغوثی نے اپنی نظم ’’فی القدس‘‘ میں دو غیر معمولی سطریں لکھ رکھی ہیں، اس کا کہنا ہے کہ’’ اگر تم فلسطین میں کسی بوڑھے سے مصافحہ کرو یا کسی پرانی عمارت کو چھو لو تو اپنی ہتھیلیوں کو غور سے دیکھنا ان پر ایک مکمل نظم نقش ہوئی پاؤ گے‘‘۔ در حقیقت وطن کی محبت، دیارِ حبیب کا شوق، محبوبوں کے آثار کو دیکھ کر پیدا ہونے والی کیفیات کا جو ذکر ہم عرب قدیم شاعری سمیت دنیا بھر کے ادب عالی میں پڑھتے ہیں اس کا صحیح تناظر فلسطین کے قضیے سے ہی سمجھ میں آتا ہے۔
فلسطین مسجد اقصی کی سر زمین، معراج کی سرزمین، نبیوں اور رسولوں کی سرزمین، شہیدوں اور مجاہدوں کی سرزمین اور مظلوموں اور صابروں کی سرزمین ہے۔فلسطین اسلام سے ہے اور اسلام فلسطین سے۔ ان دونوں شناختوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ یہ ان اماکن میں سے ہے جن سے اسلام کے بنیادی عقائد و احکام متعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کا دل اس سرزمین کی محبت و اشتیاق سے دھڑکتا ہے۔ موریتانیہ سے لے کر ملائیشیا تک کے اہل اسلام فلسطین سے عشق کرتے ہیں۔ کون مسلمان ہے جو اس ارضِ پاک و دیارِ مقدس کی زیارت کے خواب نہیں دیکھتا۔
زیرِ نظر کتاب عالمی مبلغ ختم نبوت مولانا سہیل باوا (ختم نبوت اکیڈمی، لندن) کی تالیف ہے۔ فاضل مؤلف کو ارضِ پاکِ فلسطین اور مسجد اقصی کے سفرِ زیارت و عقیدت کی سعادت متعدد بار نصیب ہوئی۔ برطانوی شہری ہونے کی وجہ سے انھیں ویزا وغیرہ کے مسائل میں ان پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو مثلا اہلِ پاکستان کے سفرِ بیت المقدس کی راہ میں حائل ہیں۔اپنے انھی اسفار کے احوال نامے کو انھوں نے اس کتاب میں جمع کیا اور ہم جیسے ان دور افتادہ اہل اسلام کے لیے جنتِ نگاہ و فردوسِ نظارہ کا سامان کیا جو الحمد ﷲ فلسطین سے محبت کرتے ہیں مگر اس کی زیارت سے محروم ہیں۔
کتاب پر غالب رنگ تاریخی معلومات کا ہے۔ کہ فاضل سفرنامہ نگار جن مقدس و بابرکت مقامات سے گزرتے ہیں ان کے بارے میں اور وہاں موجود تاریخی شخصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات قاری کے لیے جمع کر دیتے ہیں۔ذاتی تأثرات اور قلبی کیفیات بھی اگر چہ کتاب میں موجود ہیں مگر ان کا تناسب تاریخی معلومات سے کہیں کم ہے۔
کتاب کو عمدہ آرٹ پیپر پر مضبوط جلد اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
نام:رسائلِ مفتی محمود (مترجم) مرتب: مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری ضخامت:۲۰۸صفحات مبصر : صبیح ہمدانی
قیمت: ۴۰۰ روپے ناشر:مفتی محمود اکیڈمی پاکستان، کراچی، جمعیت سیکرٹریٹ کراچی 02134190606
حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اﷲ تعالی ہمارے ماضی قریب کی عبقری شخصیات میں سے تھے۔ آپ کی حیات طیبہ کا عمومی حوالۂ تعریف تو اعلائے کلمۃ الحق، دفاعِ اسلام و مسلمین اور نفاذِ نظامِ ربانی کی جدو جہد ہے۔ مگر یہ آپ کی شخصیت کا اکلوتا تعارف نہیں۔ بلکہ حضرت مولانا اسلامیان پاکستان کے سیاسی قائد و مقتدی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک راسخ عالم، ایک محقق مفتی، ایک طلیق اللسان عربی دان، ایک مجوِّد قاری اور ایک صاحبِ دل عارف و صوفی بھی تھے۔
زیرِ نظر کتاب حضرت مفتی صاحب مرحوم و مغفور کے تین عربی رسائل کے متن و اردو ترجمہ پر مشتمل تالیف ہے۔ یہ تین رسائل بالترتیب: ’’التسہیل فی احکام التجوید‘‘ (در فن تجوید قرآن) ’’زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال‘‘ (در مسئلہ رویت ہلال) اور ’’المتنبیٔ القادیانی من ہو؟‘‘ (قادیان کے جھوٹے نبی کا تعارف)ہیں۔ان میں پہلا رسالہ ایک عرصہ مخطوطے کی حالت میں رہا، تا آنکہ مولانا قاری فیاض الرحمن علوی مد ظلہ (دار القراء پشاور )نے اسے تحقیق و تدوین و ترجمہ کے ساتھ سنہ ۲۰۰۱ء میں شائع کر دیا۔ باقی دونوں رسائل کی جمع آوری و ترجمہ کا نیک کام مؤلف کتاب مولانا عبد الحکیم اکبری دامت برکاتہ نے کیا ہے۔
مفتی محمود اکیڈمی کراچی کی ایک ابتدائی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے انھی صفحات میں یہ امید ظاہر کی تھی کہ مستقبل میں ایسی کئی اشاعتیں سامنے آتی رہیں گی۔ اکیڈمی کے کار پردازان شکریہ کے مستحق ہیں کہ اپنی سرگرمیوں میں ان علمی نوادر اور تحقیقی شہ پاروں کی اشاعت کو شامل کیا اور یوں علم و فکرِ دینی کے شائقین کے ذوق کو تسکین پہنچائی۔
اِک قرضِ کہن کی ادا یگی (محمد دانیال کلاچوی)
بوڑھا آسمان گواہ ہے اور یہ آفتاب ومہتاب تصدیق کررہے ہیں کہ دین کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دوہی ذرائع سے پہنچی ہے۔جن میں ایک کلام اﷲ ہے اور دوسرا رجال اﷲ یعنی انبیاکرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کی شخصیتں ہیں۔ یہ دونوں ایسے لازم وملزوم ہیں کہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے الگ کرکے نہ انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہوسکا ہے اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہو ا ہے۔ کتاب کو نبی سے الگ کر دیں تو وہ ایک کشتی ہے نا خدا کے بغیر جسے لے کر مسافر زندگی کے سمندر میں کتنا ہی بھٹکتا پھرے ساحلِ فلاح پر لنگر انداز نہیں ہو سکتا اور نبی کو کتاب سے الگ کر دیں تو خدا کو پا نے کی بجاے انسان نا خدا کو ہی خدا سمجھ بیٹھتا ہے یہ دونوں نتیجے پچھلی اقوام بھگت چکی ہیں۔
کتاب اﷲ کو نبی اﷲ علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں سمجھنے کے لیے احادیث نبویّہ کا گہرا فہم، عمیق مطالعہ اور مضبوط ادراک حاصل کرنا ضروری ہے۔جو اہل علم کی نگرانی میں کتب حدیث کے مطالعہ سے ملتا ہے۔
ان کتابوں میں صحیح مسلم شریف کو جو تفوّق، عظمت اور انفرادیت حاصل ہے، وہ علمِ حدیث کے کسی طالب علم سے پوشیدہ نہیں۔ صحیح مسلم کی نمایاں ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں امام مسلم صحیح مرفوع احادیت انتہائی حسن ترتیب کے ساتھ یکجا اکٹھی ذکر کر دیتے ہیں۔ اس لیے صحیح مسلم میں حدیث کی تلاش انتہای آسان ہے کہ ہر باب کے متعلق تمام احادیث اکٹھے مل جاتی ہیں، جس سے مسئلہ خوب نکھر کر سامنے آتا ہے۔ عربی زبان میں صحیح مسلم کی خدمت مختلف زاویوں سے متنوع اسالیب میں روزِ تصنیف سے جاری ہے۔ البتہ اردو زبان کا دامن اب تک صحیح مسلم کی ایسی تفصیلی تحقیقی اور تدریسی شرح سے خالی تھا، جس میں متن اور سند دونوں سے بحث کی گئی ہو۔ یہ اہلِ اردو پر ایک قدیم قرض تھا اور اردو کے نام لیواؤں کے لیے عظیم چیلنج تھا۔
عجیب بات ہے کہ کتاب پر کتاب چھپتی رہی، مکتبہ پر مکتبہ بنتا رہا، ایک سے بڑھ کر ایک صاحبِ قلم سامنے آتا رہا۔ مگر صحیح مسلم کی اردو شرح کسی باتوفیق،بلند ہمت اور حوصلہ مند انسان کی راہ تکتی رہی۔ آخر ارحم الراحمین کو اردو زبان کے حرمان پر رحم آہی گیا اور علماء دیو بند کے عاشق، دارالعلوم حقانیہ کے فاضلِ جلیل اور جامعہ ابوہریرہؓ، نوشہرہ کے بانی و مہتمم حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی نے اس فریضے کو سرانجام دینے کے لیے تیشہ ہمت اٹھا ہی لیا اور کوہِ تحقیق کا سینہ چیر کر مفاہیم حدیث کا جوئے شیر نکال لائے۔
شرح کا مطالعہ کرتے ہو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے آپ کے نصف صدی کے تدریسی تجربات ہیں۔کوئی جملہ سطحی نہیں ہے، کوئی بات بے حوالہ نہیں ہے، کوئی دعویٰ بھیڑ چال کا نتیجہ نہیں بلکہ ہر مقدمہ سوچ سمجھ کر قائم کیا گیا ہے۔اس شرح کا منہج یہ ہے کہ سب سے پہلے متن حدیث کے عربی الفاظ صحت کے التزام اور اعراب کی درستگی کے اہتمام کیساتھ نقل کرتے ہیں۔ پھرسلیس، رواں اور با محاورہ ترجمہ کرتے ہیں، جو حدیث کے مفاہیم کو حاوی ہوتا ہے۔ پھر حدیث کی خصوصیات وامتیازات ذکر کرتے ہیں اور رواۃ کے حالات تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مشکل الفاظ اور جملوں کی تشریح کرتے ہیں۔حدیث کا مفہوم ومصداق واضح کرتے ہیں۔ حدیث میں جن قبیلوں، شہروں، بستیوں، وادیوں، گھاٹیوں، قلعوں، ہتھیاروں،ناپ تول کے پیمانوں وغیرہ کا ذکر آتا ہے ان کا جامع تعارف اور درست تلفظ بیان کر تے ہیں۔ اگر کوئی شہر،بستی یا قریہ آج بھی موجود ہے۔تواس کا جدید محل وقوع بتاتے ہیں۔اگر نام بدل گیاہے تو نیانام ذکرکرتے ہیں۔ پھرفقہاء کرام کے مذاہب اور ان کے دلائل کا باحوالہ تذکرہ کرتے ہیں۔مختلف اقوال ومذاہب کاحوالہ دیتے ہیں۔ راجح قول کی وجوہ ترجیح بیان کرتے ہیں۔ پھر حدیث سے مستنبط لطائف اور فوائد ذکر کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے شخصی،خانگی،معاشرتی، ملّی،قومی، فکری اور نظریاتی تقاضوں اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری احکام ومسائل کی طرف تو جہ دلاتے ہیں۔مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔ قدیم وجدید فتنوں، لادینی جماعتوں اور گمراہ کن افکار ونظریات کا تعارف اور پھرمدلل علمی اور تحقیقی انداز میں ان کا تعاقب اور تردید بھی کرتے ہیں۔متقدمین ومتاخرین کیساتھ ماضی قریب کے اکابرین اور زمانہ حال کے معاصرین کی آرا ء بڑی فراخدلی سے پیش کرتے ہیں۔ اور نہایت وسعت ظرفی کیساتھ ان کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں۔ ائمہ مذاہب اور مختلف مسالک کے سرخیل علماء کا تذکرہ عزت واحترام اور باوقار الفاط میں کرتے ہیں۔ محدثین احناف کی آراء کو تر جیح دیتے ہوئے دیگر حضرات کے آراء کو یکسر ٹھکراتے نہیں بلکہ ان کا بھی حتی الامکان صحیح محل بتاتے ہیں۔ حدیث کو حنفی نہیں بناتے بلکہ حنفیت کو حدیث سے ثابت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ تحریر کی شگفتگی تازگی اور رعنائی کو ماند پڑنے نہیں دیتے۔ طرزِ اظہار کے تنوع، عنوانات کی جاذبیت اور بلاغت کی نغمگی سے قارئین کے ذہنی نشاط وانبساط کا انتظام کرتے ہیں۔ یقیناً اردو کا سر معاصر زبانوں کے مقابلے میں اونچا ہو گیا ہوگا۔ سرخاب کا یہ پر جو اس کی کلاہِ افتخار میں لگا ہے، وہ ہر تمغۂ امتیاز سے زیادہ باوقار ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس شرح کوتاقیامت پڑھنے والوں کے لیے ذریعۂ ہدایت اور لکھنے والوں کے لیے وسیلہ نجات بنادے۔
مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ