نام :مکاتیب نافع جلد اول ( حضرت مولانا محمد نافع قدس سرہ کے علمی مکتوبات) تحقیق وتعلیق:ڈاکٹر حافظ عثمان احمد
ضخامت:۴۴۰صفحات قیمت: ۸۰۰روپے ناشر:رحماء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ ملنے کا پتہ: دار الکتاب، 6/A یوسف مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور۔ مبصر: صبیح ہمدانی
حضرت مولانا محمد نافع قدس سرہ زمانہ قریب میں اﷲ تعالی کی عظیم و جلی نشانیوں میں سے ایک بزرگ عالم دین تھے۔ اﷲ تعالی نے یوں تو انھیں بہت سے محاسن و مکارم سے نوازا تھا لیکن ان کی ما بہ الامتیاز خصوصیت حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت و عقیدت اور اس محبت و عقیدت کے اعتقادی فرض کو تاریخی رطب و یابس سے پاک کر کے محکم و مستحکم علمی بنیادوں پر ثابت کر دکھانا ہے۔ ان کی عمر شریف کے ماہ و سال اسی مبارک و مأجور عملِ صالح کے تبلیغی و تصنیفی اشتغال میں بسر ہوئی۔
حضرت مولانا کی تصنیفات دلائل کے احکام اور لہجے کی متانت کے ساتھ ساتھ علمی حوالوں کی کثرت جیسے حوالوں سے مشہور ہیں، جس کا اعتراف بہت سے ایسے لوگوں نے بھی کیا جنھیں آپ سے نظریاتی طور پر شدید مختلف نکتۂ نظر کا داعی و منادی سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی تصنیفات کو قبول عام نصیب ہوا، وہ دوسری زبانوں میں ترجمہ کی گئیں، اور کبار علماء و اہلِ فضیلت نے اپنی علمی مشغولیات میں ان کتابوں سے متعدد مباحث میں استفادہ کیا۔ حضرت مولانا نے خاص طور پر ان موضوعات میں اپنی حیات طیبہ میں ہی اپنے معاصر اکابر و اصاغر علماء کرام کے لیے مرجع و ملجا کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ تصنیفات کی حد تک تو مولانا کے منافع و فوائد آج بھی جاری و ساری ہیں اور ایک دنیا فہمِ صحیح و فکرِ درست کے حصول کے لیے ان کتابوں کا دست نگر ہے، مگر حضرت کے وجود ظاہری کے رحمت الہی میں منتقل ہو جانے کی وجہ سے بلا واسطہ استفادے کا راستہ بہر حال بند ہوگیا ہے۔ اﷲ تعالی ہی مستعان ہیں۔
زیرِ نظر کتاب حضرت مولانا محمد نافع قدس سرّہ کی مکاتبت کے بعض آثار پر مشتمل ہے۔کتاب پر (جلد اول) کے الفاظ درج کیے گئے ہیں جن سے یہ امید بندھتی ہے کہ اس مبارک سلسلے کی اگلی کڑیاں بھیں شائقین کے لیے باصرہ نواز ہوں گی۔ ان مکتوبات کا محتویٰ غالب طور پر علمی و فکری مباحث جلیلہ اور فوائد لطیفہ ہی ہیں۔ جس کا کسی قدر اندازہ مکتوب الیہم کی فہرست سے کیا جا سکتا ہے، جن میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا منظور احمد آفاقی، مولانا مفتی شیر محمد علوی، مولانا سید محمد قاسم شاہ صاحب (ابن حضرت مولانا احمد شاہ صاحب چوکیروی) اور ڈاکٹر مولانا قاری فیوض الرحمن جیسے اہلِ فضل و معرفت شامل ہیں۔
کتاب کو جناب ڈاکٹر حافظ عثمان احمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب نے علمی و تحقیقی اصولوں کے مطابق مرتّب کیا ہے۔ نیز تدوینی ضروریات کے پیش نظر حاشیہ میں بہت سے اہم فوائد اور تحقیقی مباحث کا اضافہ بھی کیا گیا ہے، جو تدوینی و تحقیقی محاسن پر مستزاد ہے، اور علیحدہ سے داد کا متقاضی ہے۔ مثلاً صفحہ باون تریپن پر حلّتِ غراب کے مبحث میں، صفحہ اکہتر بہتر پر مسانیدِ امامِ اعظم کے تعارف میں، صفحہ پچاسی چھیاسی پر نسیانِ نبوی کے مبحث میں صفحہ ترانوے پر امامیہ کے عقیدۂ تحریف قرآن کے حوالے سے اور صفحہ سو پر نقدِ حدیث کے اصولوں کے بیان میں درج کیے گئے مضبوط علمی منظر نامے کی تشکیل کرتے ہیں۔
اس مجموعۂ خوبی کو رحماء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ نے طبع کر کے دار الکتاب لاہور سے شائع کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی کتاب صوری و معنوی خوبیوں سے آراستہ اور ہر اعتبار سے قابل مطالعہ و استفادہ ہے۔
نام :سیرت سیدنا علی المرتضی (دو جلدیں) تالیف: مولانا ثناء اﷲ سعد شجاع آبادی ضخامت:۱۰۰۰صفحات
قیمت: درج نہیں ناشر:دار السعد ملنے کا پتہ:مکتبہ عشرہ مبشرہ، اردو بازار، لاہور۔0300-6175026
اسد اﷲ الغالب، امام المشارق والمغارب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کی ذات عالی جس طرح اسلام کی معظّم و مکرّم ترین ہستیوں میں شامل ہے اسی طرح آپ کی شخصیتِ گرامی اسلام کی مظلوم ترین شخصیات میں بھی شمار کی جا سکتی ہے۔ حضرت امیر المؤمنین رضی اﷲ عنہ کی حیاتِ طیبہ کے واقعات اور آپ رضی اﷲ عنہ کے مواقف و آراء کے حوالے سے پایا جانے والا اختلاف امتِ مسلمہ کے بنیادی اختلافات میں شامل ہے۔ حضرت شیرِ خدا رضی اﷲ عنہ کی ذات اقدس کو مجروح کرنے کی سرگرمی ان سے محبت و مخالفت کے مدعی دونوں گروہوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے حضرت اقدس کی سیرت طیبہ کا مطالعہ ہمیشہ سے خصوصی احتیاط و توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔
زیرِ نظر کتاب معروف مؤلف اور عالم دین جناب مولانا ثناء اﷲ سعد شجاع آبادی کی تالیف ہے۔ فاضل مؤلف کے قلم سے اس سے پہلے دیگر صحابہ کرام و اکابرِ امت کی سیرت و سوانح بھی شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔ زیرِ نظر تالیف دو جلدوں میں ایک ہزار صفحات پر جمع کی گئی ہے اور بہت سی علمی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ موضوعات کی کثرت اور تنوع سے متعارف ہونے کے لیے ابواب کے اسماء ملاحظہ ہوں۔ باب (۱): سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ…… مکی زندگی۔ باب(۲): ……مدنی زندگی۔ باب (۳): …… غزوات میں۔ باب (۴): آقائے کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کا مرضِ وفات اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خدمات۔ باب (۵): ……دورِ صدّیقی میں۔ باب (۶): …… عہدِ فاروقی میں۔ باب(۷): …… سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں۔ باب(۸): شانِ خلفائے ثلاثہ بزبان علی المرتضی رضی اﷲ عنہم اجمعین۔ باب(۹): ……عہدِ خلافت، آغاز تا اختتام۔ باب (۱۰): …… دمِ واپسیں اور سانحۂ شہادت۔ باب(۱۱): ……ذاتی اوصاف و خصائل۔ باب (۱۲): ……نظامِ سلطنت و حکومت۔ باب (۱۳): …… علمی مقام اور خدمات۔ باب (۱۴): سیدناعلی المرتضی رضی اﷲ عنہ اور مذہب ابو حنیفہ رحمہ اﷲ۔ باب(۱۵): ……بعض فقہی اور عدالتی فیصلے۔ باب(۱۶): سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے فضائل کی من گھڑت روایات۔ باب(۱۷):……اصحاب ثلاثہ کے ساتھ رشتہ داریاں۔ باب (۱۸): چہل فضائل سیدنا علی رضی اﷲ عنہ۔
جیسا کہ پہلے مذکور ہوا کہ حضرت امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی حیات طیبہ میں بہت سے ایسے پر آشوب واقعات در پیش ہوئے جن کا مطالعہ کرکے کسی قسم کی رائے قائم کرنے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ نیز کسی تاریخی واقعے کی تعبیر و توجیہ میں اختلافِ نکتہ نظر کا پایا جانا بھی فطری اور طبعی چیز ہے۔ اسی لیے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی سوانح و سیرت طیبہ پر موجود کتابوں میں آراء کا اختلاف ہونا قابلِ فہم ہے۔ (بلکہ ہر ایک تاریخی کتاب میں اس اختلاف کا امکان بلکہ وقوع متحقق ہے) یہ بھی ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کا مسلمہ اصول ہے کہ عدالت ِ صحابہ کے متفقہ اور اجماعی عقیدے پر تاریخی روایات و اخبار (بوجہ اختلافِ باہمی، اور احتمالِ کثرتِ تعبیر و توجیہ) اثر انداز نہیں ہوں گی بلکہ یہ عقیدہ ان تاریخی روایات کے تناظر کو متعین کرنے میں قول فیصل کے مقام پر فائز رہے گا۔ چنانچہ اہلِ سنت و الجماعت کے دائرۂ فکر میں اس اختلاف کا تحمل و تجوّز صرف وہی تک ہے جہاں تک مذکورہ بالا اصول کی خلاف ورزی نہ ہو۔ فاضل مؤلف نے کتاب کی جلد دوم کے صفحہ ۱۱۰ پر مشاجراتِ صحابہ (جس کے ضمن میں عدالت و مرتبتِ اصحاب کے اصول بھی شامل ہیں) کے حوالے سے اکابر علمائے اہل سنت والجماعت کے بہت سے اقوال و ارشادات کو جمع کیا ہے جن سے اس مسئلے میں بصیرت حاصل کی جا سکتی ہے۔
بعض مقامات پر تشنگی کے احساس اور بعض بیانات سے جزوی اختلاف کے باوجود کتاب بحیثیت مجموعی فاضل مؤلف کی محنت شاقہ کا بیّن ثبوت ہے۔ کتاب کے شروع میں حضرت مولانا علامہ خالد محمود مد ظلہ، مولانا محب النبی اور مولانا الیاس فیصل جیسے محترم اور اعاظم علماء کی تقریظات بھی شامل ہیں جو کتاب کی استنادی حیثیت میں اعتبار پیدا کرتے ہیں۔