نام کتاب: اہل بیت مصنف: قائد العمروسی مترجم: مولانا سعید الرحمن علوی
ضخامت: 190صفحات۔ قیمت: 300=/روپے مبصر: سید محمد کفیل بخاری
ناشر: مکتبۂ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردو بازار لاہور۔ 0300-8834610
مولانا سعید الرحمن علوی رحمۃ اﷲ علیہ ماضی قریب کی نہایت علمی شخصیت تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں علم و عمل کی نعمتوں سے خوب نوازا تھا۔ پختہ حافظ قرآن، جیّد عالم دین، وسیع المطالعہ، کہنہ مشق کالم نگار، بہترین انشا پرداز ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت وضع دار انسان تھے۔ انھوں نے بے شمار کالم لکھے، ہفت روزہ خدام الدین لاہور کے مدیر ہے اور بڑے جاندار اداریے سپرد قلم کیے۔ اُن کی تحریروں میں بے ساختگی اور سلاست ہوتی، جسے عام قاری بھی پڑھ کر حظ اٹھاتا تھا۔ انھوں نے تحقیقی کام بھی کیے اور اہلِ علم سے داد پائی۔ اردو، فارسی اور عربی زبان و ادب پر انھیں عبور حاصل تھا۔ انھوں نے کئی تراجم بھی کیے جو بہترین اسلوب کے حامل ہیں۔
زیر نظر کتاب ’’اہلِ بیت‘‘ دراصل ایک عرب محقق قائد العمروسی کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ مصنف کتاب قائد العمروسی نے حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا (والدہ ماجدہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم) سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم، اُمّ المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا اور بناتِ رسول سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ اُمّ کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہن کے حالات و واقعات کو کہانی کے انداز میں تحریر کیا۔ ظاہر بات ہے کہ، کہانی اور مضمونِ سیرت میں بہت فرق ہوتا ہے، اس کتاب میں وہ موجود ہے۔ کہانی میں صاحبِ سیرت کے کردار اور واقعات کو مکمل طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ دلچسپ پیرایۂ اظہار، قاری کو اپنی طرف متوجہ اور متاثر ضرور کرتا ہے۔
مولانا سعید الرحمن علوی رحمہ اﷲ نے خوبصورت اور سلیس ترجمہ کر کے یہ کوشش کی ہے کہ کتاب کی اصل روح باقی رہے۔ البتہ اپنے حواشی میں کچھ وضاحتیں کر کے کمی پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے ابتدائیہ میں اہلِ بیت کی اصطلاح پر قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و مدلل بحث کر کے اس عنوان پر اہلِ سنت کا مؤقف تفصیل سے واضح فرمایا ہے کہ اہلِ بیت سے مراد کون ہیں؟ کتاب کے آغاز میں حضرت مولانا خلیل احمد مدظلہٗ(خانقاہ سراجیہ) کی تقریظ اور علوی صاحب مرحوم کے برادرِ بزرگ مولانا عزیز الرحمن خورشید مدظلہٗ کا تفصیلی مقدمہ کتاب کی زینت ہے۔ مکتبہ جمال لاہور کے منتظم جناب مختار احمد کھٹانہ نے اس کتاب کو شائع کر کے اپنی دیرینہ علم دوستی میں اضافہ کیا ہے۔
نام : کلیات انوری (جلد اول) ترتیب:صاحبزادہ محمد راشد انوری ومولانا عمران فاروق
ضخامت:۶۰۸ صفحات قیمت: درج نہیں مبصر : صبیح ہمدانی
ملنے کا پتہ: صاحبزادہ محمد راشد انوری، کراچی0300-2421646
حضرت شیخ المشائخ مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری قدس اﷲ سرہ دور آخر میں حضرات صوفیاء کرام کے مبارک سلسلوں کا جوہر تھے۔ ان کی ذات عالی سے پچھلی صدی میں بڑے پیمانے پر دین حق کی اشاعت کا کام ظہور پذیر ہوا۔ ان کے زمانے کے اساطین اہلِ علم و فضل نہ صرف ان کے کمالات عالیہ کے معترف تھے بلکہ علمائے عصر کی ایک بڑی تعداد حضرت رائے پوری کی بارگاہ رشد پناہ سے وابستہ بھی تھی۔ انھی حضرات علمائے افاضل میں ایک نام حضرت اقدس مولانا محمد انوری قدس سرہ کا بھی ہے جو حضرت رائے پوری کے خلفاء میں بھی اشراف و اعاظم میں شمار ہوتے تھے۔
حضرت مولانا محمد انوری نے حضرت شیخ الہند اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نور اﷲ مراقدہما سے بھی استفادہ کیا تھا، بلکہ اپنے نام کے ساتھ ’انوری‘ کے لاحقے کا اضافہ علامہ کشمیری کی محبت میں ہی کیا، کہ حضرت علامہ ان کے استاذ الحدیث تھے۔ زیر نظر کتاب انھی حضرت مولانا محمد انوری کے رسائل و افادات کا مجموعہ ہے جسے ان کے نبیرہ صاحبزادہ محمد راشد انوری (ابن حضرت مولانا محمد ایوب الرحمان انوری رحمۃ اﷲ علیہ) اور مولانا ابو حذیفہ عمران فاروق صاحبان نے مرتب کیا ہے۔اس مجموعے کے رسائل اکثر پہلے طبع تو ہو چکے تھے مگر ایک عرصے سے عدم دستیابی کا شکار تھے۔ حضرات مرتبین نے اس عدم دستیابی کو دور کر کے خوبصورت نئی کمپیوٹر کتابت کے ساتھ تخریج و تدوین کے اصولوں کے مطابق شائع کیا ہے۔ نئی خصوصیات کے ساتھ کتاب بہت سہل الاستفادہ ہوگئی ہے۔
ان رسائل میں؛ سیرت خاتم الانبیاء، احادیث الحبیب (علیہ الصلاۃ والسلام) المتبرکہ، چہل حدیث (در مستدلات حنفیہ)، العجالۃ (ڈاڑھی کے وجوب و اہمیت کے بیان میں)،ترجمہ رسالہ فضائل مکہ مکرمہ (اصل تالیف حضرت امام حسن بصری)، ملفوظات حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری، اور حضرت رائے پوری کی بارگاہ میں پہلی حاضری کی روداد شامل ہیں۔
تاریخی اہمیت سے بڑھ کر یہ رسائل حضرت قطب الاقطاب رائے پوری اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کے فیوض و برکات کے نہایت صحیح اور بھرپور مجموعے ہونے کی وجہ سے بطورِ خاص لائقِ استفادہ و استفاضہ ہیں۔
نام:’’ حضرت امیر معاویہ اور عبارات اکابر‘‘ کا عملی و تحقیقی جائزہ تالیف:عبد المنان معاویہ ضخامت:۲۴۰ صفحات
قیمت: درج نہیں ملنے کا پتہ: مکتبہ امام اہل سنت، مرکزی مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ۔ 03006426001
خلیفۂ سادس سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما جماعت صحابہ کے فردِ فرید ہیں۔ آپ کوصحابیت کے عظیم الشان منصب کے ساتھ ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے رشتہ داری، کتابت وحی، روایت احادیث اور امارت و خلافت کے مقامات و مدارج عالیہ بھی حاصل ہیں۔ آپ لگ بھگ بیس برس تک عالم اسباب میں امت مسلمہ کے محافظ و دیں پناہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام و امت اسلام کو آپ رضی اﷲ عنہ کی ذات ستودہ صفات سے خصوصی مخاصمت ہے۔اور بعض تاریخی روایات کی بنیاد پر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو مبدأ بنا کر اپنی دین دشمنی کا پورا عمل جاری کر کے بزعمِ خویش دین اسلام کو غلط ثابت کر کے دکھا دیں۔ اسی مخاصمت وعداوت کو ملحوظ رکھتے ہوئے علمائے اہل سنت نے ہر دور میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دفاع کو اپنا ضروری فریضہ سمجھا ہے۔ زیرِ نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جسے ہمارے فاضل دوست جناب عبد المنان معاویہ نے تالیف کیا ہے۔
کتاب کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ ممتاز محقق اور ’مدافع معاویہ‘ جناب پروفیسر قاضی طاہر علی الہاشمی نے ’’ناقدین معاویہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی جس میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حوالے سے علمائے اہل سنت کی پوری تاریخ میں جتنی بھی تنقیصی یا غیر محتاط عبارتیں تھیں ان کو یکجا کر دیا۔ جس کا جواب مفتی محمد وقاص رفیع صاحب نے ’’حضرت امیر معاویہ اور عبارات اکابر‘‘ کے نام سے تحریر کیا۔ اب اس جواب سے توقع تو یہ تھی کہ مفتی صاحب اس طرح کی عبارات میں ویسی ہی تحقیق و تفہیم کریں گے جیسی مثلاً امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر قدس سرہ نے اپنی کتاب ’’عبارات اکابر‘‘ میں فرمائی ہے، مگر فاضل مجیب عجیب ورطۂ حیرت میں گرفتار ہو گئے، اور بجائے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا دفاع کرنے، اور عبارات کے محمل و مراد کی تاویل و تصریف کرنے کے ان عبارات کے اثبات و تائید کرنے کے افسوسناک مشغلے میں اپنی توانائیاں کھپاتے رہے۔
زیر نظر کتاب مفتی وقاص رفیع کی اسی کڈھب روش کا ایک علمی و تحقیقی مطالعہ ہے جس میں ان کی بے ربطی و بے بسی کو تقابل و توازن کے ذریعے سمجھنے اور بہتر متبادل نکتۂ نظر تجویز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ مفتی صاحب کی ـتحریر اشتعال انگیز حد تک نا بجا تھی مگر اس کتاب میں فاضل مؤلف نے اپنے لہجے کو علمی و اصولی معیارات سے ہم آہنگ رکھنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ استدلال کی قوت و دلائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ، کتابت و حروف خوانی، وترتیب مواد وغیرہ کے لحاظ سے بھی کتاب عمدہ طور پر پیش کی گئی ہے، اور بہر طور قابلِ مطالعہ ہے۔ (مبصر : صبیح ہمدانی )
نام : امت مسلمہ کی تاریخ ساز مائیں مؤلف:مولانا محمد ریاض انور گجراتی ضخامت:۱۶۰۰ صفحات(۲ جلدیں)
قیمت:درج نہیں ناشر: اسلامی کتاب گھر، نزدجامعہ نصرۃ العلوم، فاروق گنج، گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ۔
اگر ماں کی گود سب سے پہلا مدرسہ ہے تو کسی بھی قوم کی اخلاقی و عملی حالت کی سب سے بنیادی ذمہ داری اس قوم کی ماؤں کے سر ہے۔ حضرات صحابہ کرام علیہ الرضوان حضور اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کے تربیت یافتہ و پروردہ تھے مگر اس نبوی تربیت و پرورش کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں سیدات صحابیات کا کردار بھی اتنا ہی اہم اور بنیادی ہے۔زیر نظر کتاب انھی مقدس و مطہر خواتین کے تذکروں پر مشتمل ہے۔
مؤلف نے دو جلدوں پر مشتمل اس ضخیم کتاب میں ایک سو سے زائد صحابیات کی سیرت و سوانح کو جمع کیا ہے۔ جلد اول حضرات امہات المؤمنین، بنات النبی الطاہرات،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قریبی رشتہ دار خواتین(مثلا پھوپھی صاحبہ سیدہ صفیہ اور دائی صاحبہ سیدہ حلیمہ) اور بارگاہِ رسالت کے مقربین کی خواتین (مثلا سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی والدہ، سیدہ عائشہ کی والدہ، سیدنا عمر فاروق کی خواہر، سیدنا عثمان کی والدہ ، اہلیہ اور خالہ وغیرہ) کے احوال وآثار پر مشتمل ہے۔ جبکہ دوسری جلدان کے علاوہ دیگر صحابیات رضی اﷲ عنہن کے تذکروں کا مجموعہ ہے۔
کتاب پر خطیبانہ رنگ غالب ہے، جس کا تأثر اسلوب، طرزِ بیان، استدلال اور تعبیر کے لہجے میں جا بجا نمود کرتا ہے۔ مؤلف کے بنیادی مصادر دو کتابیں ہیں؛ ۱:سو بڑی زاہد خواتین اور ان کی سردار حضرت فاطمہ بنت محمد سلام اﷲ وصلاتہ علیہما،اور ۲: المائۃ الأوائل من صحابیات الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اگر چہ اس کے علاوہ دیگر کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
کتاب میں عربی عبارتوں کے ترجمے میں لفظی ترجمے کی بجائے مرادی مطلب براری کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں بعض مقامات پر کسی قدر فروگذاشتیں بھی نظر آتی ہیں، مثلاً جلد دوم کے صفحہ ۳۹ پر سیدہ ام ہانی رضی اﷲ عنہا کی مدح میں کچھ اس طرح حدیث نقل ہوئی ہے:
یرحمک اﷲ، إن خیر نساء رکبن أعجاز الإبل: صالح نساء قریش، أحناہ علی ولد فی صغر وأرعاہ علی بعل بذات یدٍ (مسند احمد) ترجمہ:’’ اﷲ تعالی تجھ پر رحم کریں بے شک قریشی خواتین کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اونٹ پر بڑی مہارت سے سواری کرتی ہیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر بھر پور توجہ دیتی ہیں‘‘۔
حالانکہ درست ترجمہ یوں ہونا چاہیے کہ: ’’اﷲ آپ پر رحم کریں، بے شتر سوار خواتین میں سے سب سے بہتر عورتیں قریش کی نیک خواتین ہیں، کہ وہ کم عمر بچے پر سب سے زیادہ شفیق ہوتی ہیں اور زیر قبضہ (مال اور عزت آبرو وغیرہ) میں اپنے خاوند کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والی ہوتی ہیں۔
اس طرح کی فروگذاشتیں اگر چہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں مگر پھر بھی معتد بہ حد تک موجود ہیں۔ غالبا فاضل مؤلف کو نظر ثانی کا تفصیلی موقع نہیں مل سکا۔ امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کر لی جائے گی، خصوصاً جبکہ کتاب پر حضرت صاحبزادہ مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ اور حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب زیدت معالیہ سمیت بہت سے اکابر اہل علم و فضل کی تحسینی تقریظات بھی شامل ہیں۔ )
(مبصر : صبیح ہمدانی)