مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ
قسط نمبر ۱۴
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
بعض لوگ یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ چودھری عبدالعزیز خاں خودریاست کے امتیازی خاندانوں میں سے ایک کے فرد ہیں۔ ہمیں افراد کے تعلقات سے بحث نہیں بلکہ ان کے ذہن اور دل ودماغ سے بحث ہے۔ اگر وہ انقلابی ہے تو ہم بخوشی عوام کے لیے ان کی خدمات قبول کریں گے خواہ وہ اعلیٰ طبقہ سے بھی متعلق کیوں نہ ہو، اگر کوئی غریب خاندان کافرد سرمایہ دارانہ ذہن اور قوم میں امتیازی شان برقراررکھنے والی طبیعت رکھتا ہے،وہ احرار کی مشین کا پرزہ نہیں ہوسکتا۔ خود معترض کی طبیعت گواہی دے گی کہ بعض اعلیٰ طبقہ کے افراد بڑے انصاف پسند اور ہمدرد طبیعت رکھتے ہیں۔ بعض غریب شاہانہ مزاج اور امیرانہ تمکنت رکھتے ہیں ہمیں بطور احرار ایسے غریبوں کو جماعت سے خارج کرنا ہے اور ایسے امیروں کو عوام کی خدمت کا موقع دینے میں اعتراض نہیں جن کے دل میں مساواتِ انسانی کی تڑپ ہو۔ امراء کی ایک کمزوری کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بوجہ ماحول اور پرورش کے ان میں سے اکثر انقلابی فوج کے کمزور سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔کبھی تو وہ کچھ دن کام کرنے کے بعداداس ہو جاتے ہیں اور جلدی تھک کر کشتی کو منجدھار میں چھوڑ جاتے ہیں پس انقلابی جماعتوں میں آنے والے امراء کے نونہالان کے لیے صحیح تربیت درکار ہے اسی طرح امیر بننے اور موقع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اون رسید کر دینے والے غریبوں کی بھی احتیاط ضروری ہے ۔ہر امیر کے آباؤاجداد کبھی غریب تھے جو موقع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر سردار اور امیر بن بیٹھے ۔مساوات قائم کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے لیے سوسائٹی میں امتیاز پیدا کیا۔ احرار کے لیڈروں کا فرض ہے کہ دعاوی کے علاوہ اپنے دل و دماغ کا امتحان لیتے رہیں۔ مبادا ان میں سرمایہ داری کے جراثیم پیدا ہوگئے ہوں، ساتھ ہی ساتھ ہر ممبر پر نگرانی رکھنی چاہیے کہ وہ مساوات انسانی کا قدردان ہے یا نہیں ،خدمت خلق کے شکرانہ جذبے کے سوا ایسی ہوسِ جاہ تو نہیں جس کا نتیجہ اخوت و مساوات کے خلاف ہو؟
غرض ہمیں زیدو بکر کے خاندان کو نہیں دیکھنا بلکہ افراد کے خصائص کو دیکھنا ہے ۔ہمیں چودھری عبدالعزیز یا افضل حق کے خاندانی حالات سے بحث نہیں، ہمیں اس امر سے بحث ہے کہ ان کا وجود اعلیٰ طبقوں کے امتیاز کو مٹانے، انسانوں کو مجلسی اور اقتصادی طور پر برابر بنانے میں معاون ہے یا نہیں میں یہ مانتاہوں کہ ہر دور کے نیکوکاروں نے امراء کی صحبت سے الگ رہنے پر زور دیا، ہم بھی سب کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے بھی ایسے لوگوں سے دل سخت کر لیا ہے جو سرمائے کو شخصی آرام اور ترقی کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں ہمیں صرف ان امیروں سے سروکار ہے جن کی فطرت سلیم سرمایہ داری کا تخت الٹ دینے کے لیے بے تاب ہے۔ تاریخ ان کے ذکر سے خالی نہیں جنھوں نے عوام سے ہم رنگ رہنے کے لیے تخت چھوڑ کر کپڑوں میں پیوند لگائے۔ ایسا ہوتا کم ہے مگر ہوا ضرور ہے تاہم احرار ہزار احتیاط سے اور لاکھ دفعہ پر کھ کر اونچے طبقے کے افراد کو شامل کرتے ہیں اور دوسری طرف سچ یہ بھی ہے کہ امرا ء کے طبقے کو ہماری جماعت سے قدرتی نفرت بھی ہے، خدا ان کی اس نفرت کو اور زیادہ کرے تاکہ ہم یک سوہو کر غریبوں کی خدمت کر سکیں اور ان کے نظام کو مضبوط کر کے عوام کی حکومت قائم کر سکیں۔
کشمیر ایجی ٹیشن کے سارے قیدی جیلوں سے باہر آچکے تھے۔ چونکہ یہ تحریک احرار کے ذہن اور طبیعت کے لیے موزوں تھی۔ اس لیے سب احرار کو دلچسپی ہو گئی۔ طبقاتی جنگ احرار کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ اس سے غرباء میں جان آتی ہے اور ان میں عزت نفس کا احساس بڑھتا ہے ۔غریب جب ذلت قبول کر کے خاموش ہو جائے تو یہ انسانیت کی موت ہے۔
احرار کے معنی شریف اور آزاد کے ہیں اس نام کی مناسبت سے آزاد ی اور شرافت کی تحریک کے ساتھ ہماراد ل ہوتا ہے۔ اقتصادی مساوات کا قیام اور عوام کی حکومت کی جدوجہد کتنی خوش قسمتی ہے۔ انسانوں میں اقتصادی مساوات انسانی دکھ دردوں کا کیساہمہ گیر علاج ہے اس لیے تو قرآن حکیم کامل اقتصادی نظام کا قائل ہے۔ ہر احرار کو خدائے بزرگ کا یہ حکم ازبریاد رکھنا چاہیے۔
وَاللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَ کُمْ عَلٰی بَعْضِِِ فِی الِرّزْقِ فَمَاالَّذِیْنَ فُضِّلُوّا بِرَآدِیْ رِزْقِھِمْ عَلی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآء أَفَبِنِعْمَۃِ اللَّہِ یَجْحَدُوْنَ۔ (سورۃ النحل)
اﷲ نے رزق میں بعض کو بعض پر فضلیت دی تو کیوں ایسا نہیں کرتے کہ جن کو زیادہ روزی دی گئی ہے۔ وہ اپنی روزی اپنے زیردستوں کو لوٹا دیں حالانکہ سب اس میں برابر کے حق دار ہیں۔ اور کیا یہ لوگ اﷲ کی نعمتوں سے منکر ہو رہے ہیں۔
غرض ہم نے آتے ہی اور میدان تیار پایا، ہر چند آدمی تھکا ہو گلزار میں آجائے کوفت دور ہو جاتی ہے ۔قید فرنگ کی کوفت ضرور تھی مگر کپور تھلہ کا میدان گلزار تھا۔ وہاں موج ہوا ہمارے مزاجوں کے مطابق تھی۔ کیوں کہ وہاں اقتصادی مشکلات کے حل کے لیے پکار تھی۔ یہی پکار احرارکو سرمست کرتی ہے۔ مولانا مظہر علی کا نام ریاست کشمیر کے سلسلہ میں نمایاں ہوچکا تھا کپور تھلہ کے ریاستی باشندوں کے بلاوے پر مولانا مظہر علی احرار کانفرنس منعقد کپور تھلہ کے صدر قرار پائے تاکہ کام اور عوام پر اس اقتصادی تحریک کی گہرائی او رقوت کا اثر ہو اور معلوم ہو کہ بدون انصاف کیے مقامی طور پر دبانے سے تحریک نہ دبے گی، جس تحصیل میں تحریک کی ابتدا ہوئی اور جہاں جہاں یہ پھیلی وہ زیادہ تر اسلامی آبادی تھی۔ سکھ زمیندار ضرور شامل ہو جاتے مگر پربندھک کمیٹی جس کا سکھوں پر اثر ہے وہ اس ریاست کو غلط طور سے سکھ ریاست سمجھ کر رئیس کے خلاف یا رؤسا کے خلاف کچھ کرنا نہ چاہتی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ بنانا مشکل اور بگاڑ نا آسان ہے۔ بے عملی اور سستی پھولوں کی نرم نازک سیج ہے۔ اس میں پڑ کر کوئی مشکل سے اٹھتاہے۔ زمینداروں کا بے عملی کو خیر بادکہنا عام طور پر دشوار ہے۔ اگر انھیں یہ بھی سمجھا یا جائے کہ عمل تمہارے مفاد کے خلاف ہے تو یہ آواز اونگھتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوجاتی ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ خالص زمیندارہ تحریک سکھ کاشت کاروں کی پوری امداد سے محروم رہی ۔ اس میں شبہ نہیں کہ خود ریاست نے بھی مسلمان سکھ تفریق پیدا کرنے کی پوری کوشش کی، اور آخر کیوں نہ کرتی کہ یہ بات ریاست کے مفاد کے عین مطابق تھی۔ الغرض یہ تحریک مسلمان زمینداروں کی تحریک بن کر رہ گئی۔
مسلمان عجب گئی گزری قوم سمجھی گئی ہے ان کو کچلنا اور دبائے رکھنا کتنا آسان سمجھا جاتا ہے۔ حقہ پی کر قوائے عمل کو کمزور کر لینے والی، بغیر بیت المال کے فضول خرچی کر کے ہر قسم کے ذرائع سے محروم ہو کر ترقی کے سارے دروازے اپنے اوپر بند کر لینے والی ،قوم تشدد کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی، جس کا نہ کچھ گھر میں ہو اور نہ کوئی قومی فنڈ ہو ۔ قوم محض رمضان شریف کی برکتوں کے سہارے زندگی کے کامیاب سفر کو کب تک جاری رکھ سکتی ہے، جانوروں کی طرح بے شعور محنت کر کے جینا اور کیڑوٍں کی طرح مرنا ہماری بے عمل زندگی کا عنوان ہے۔ باسی کڑھی کے اُبال کی طرح ہم اٹھتے ہیں اور پیشاب کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ مسلمانوں کو سرمایہ داروں کی طرح موت سے ڈرلگتا ہے۔ نہیں بلکہ زندگی کی نمائش کی ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔ وہ زندگی کی قد رو قیمت ہی نہیں جانتے ،افلاس کے ساتھ اخلاص اور پشت پر شخصی شعور نہیں۔ قومی سرمایہ ہوتو قوم کی ترقی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ورنہ دنیائے اسلام کی طرح چند شیوخ اور رؤساکی غلامی میں آجاتے ہیں۔
الغرض ریاست جانتی تھی کہ تنہا مسلمانوں کو مارلینا کیابڑی بات ہے اب کسی عذر معقول کی تلاش تھی۔ جب اس کی تلاش میں ناکامی ہو تو عذر نا معقول پر باڑ مار دینا ارباب اقتدار کا معمولی مشغلہ ہے
تواناؤں کے بس میں ہے سرِپائے حقارت سے
ہزاروں ناتوانوں کی تمناؤں کو ٹھکرانا
بے پناہ مظالم سے جمہور کے دلوں میں لرزہ طاری کرنا، دہشت طاری کر کے ظلم ناروا کو برداشت کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور کرنا شہنشاہیت کے معمولی ہتھکنڈے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ زخم کہاں لگایا جائے شرط یہ ہے کہ جہاں زخم لگے گھاؤ گہرا ہو، تاکہ عبرت کی آنکھ اسے دیکھ کر سبق حاصل کر لے ۔اگرچہ اقتصادی تحریک کا مرکز تحصیل بھولتھ تھا مگر سلطان پور لودھی کے برے دن جوآئے تو وہاں تعزیہ اور بڑ کا شاخسانہ کھڑا ہوگیا۔ تعزیہ اور بڑکے درختوں کو ہندوستان کی عورتوں کو بیوہ کرنے اور بچوں کو یتیم بنانے میں بڑا دخل ہے جہاں اس پَو ِتردرخت کی شاخ تعزیہ شریف سے چھوئی بس قیامت ہو گئی’’ یا علی‘‘ اور’’ جے جے‘‘ مہابیر کے نعرے بلند ہونے لگے ،یوں معلوم ہونے لگتا ہے گویا غزنوی نے سومنات پر حملہ کر دیا ہے اور کفر اسلام باہم گتھم گتھا ہورہے ہیں۔ آن کی آن میں لاشے خاک میں تڑپتے نظرآتے ہیں خون کے نالے بہہ نکلتے ہیں۔ وحشت کے ایسے نظارے قومیت متحدہ کے دعوے پر بے لاگ تبصرہ بن جاتے ہیں ،پوری ایک صدی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ہندو مسلمانوں میں سول وار جاری ہے جس کے ختم ہونے کی ابھی کوئی امید نہیں غرض مند ہو ا دیتے ہیں۔ سلگتی چنگاریاں بھڑک اٹھتی ہیں، یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔
ہاں سلطان پور کے مسلمانوں کا ستارہ گردش میں آیا ۔ تعزیہ کے راستے پر ایک بڑکا درخت تھا۔ اس سال اس بڑ کی مخصوص شاخیں بڑھ کر تعزیے کا راستہ روک کر کھڑ ی ہوگئیں۔ زبان حال سے کہتی تھیں کہ ادھر سے گزروتو نوجوانوں کا خون بھینٹ چڑھا کر جاؤ، اس بڑ کی تقدیس بڑھانے کے لیے سکھوں نے کہا کہ یہ بی بی نانکی کے ہاتھوں کالگا یا ہوا ہے، یوں اس بڑ کو گورونانک جی سے نسبت دی گئی۔ اب درحقیقت’’ امام حسین‘‘ اور ’’بابا نانک‘‘ کا سوال بن گیا۔ حکام ریاست اس معاملہ میں پوری دلچسپی لے رہے تھے او رسمجھوتہ ہوتاہوتا رہ جاتا تھا مہندی اور علم بطور احتجاج اٹھانے سے انکار کردیا گیا۔ تعزیہ داروں نے جو خیر سے سب سنی مسلمان تھے ٹولیوں میں سے بڑ کی طرف بڑھنا شروع کیا، پولیس افسراور علاقہ مجسٹریٹ موقع پر موجود تھے۔ انھوں نے گرفتاریاں شروع کردیں دو دن میں ساڑھے چارصد مسلمان گرفتار ہوئے۔ چودھری عبدالعزیز کا ایک قدم سلطان پور اور ایک قدم کپور تھلہ میں تھا کہ کسی طرح سلطان کے مسلمانوں کے سرسے آئی بلا ٹل جائے۔ مگر حکام کی بے جاضد نے کوئی صورت نہ پیدا ہونے دی۔ میں چودھری عبدالعزیز خان کے بیان کا وہ حصہ جو سلطان پور فائرنگ کے متعلق انھوں نے ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن جالندھر کی مقرر کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دیا پیش کرتا ہوں۔
بیان چودھری عبدالعزیز بیگووالیہ:
’’دوپہر سے قبل وفد سلطان پور پہنچا وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ پندرہ اشخاص کی ایک جماعت تحصیل دار صاحب کے درِ دولت یا کچہری میں حاضر ہو کر دس بجے یہ مطالبہ کرنے کے لیے تیار تھی کہ تعزیہ کا راستہ صاف کرادیا جائے مگر ۱۲؍ بجے تک معززین شہر کے اصرار پر یہ جماعت رک گئی، میں اس جماعت کے پاس گیا ان کے پاس ایک بورڈ تھا جس پر بدین مضمون عبارت تحریر تھی کہ ’’اسٹیٹ ریگولیشن ۱۹۱۵ء کے مطابق تحصیل دار صاحب کا فرض ہے کہ تعزیہ کے لیے راستہ صاف کرائیں۔‘‘
ان کوملنے کے بعد میں چودھری فتح محمد کے مکان پر گیا جہاں مجھے معلوم ہوا کہ اودھم سنگھ اس بات کے لیے تیار ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب یا معززین میں سے کوئی اور اس سے کہیں تو وہ اپنا اعتراض واپس لے لے گا جو دوست وہاں موجود تھے انھوں نے مجھے اودھم سنگھ کے پاس جانے کے لیے مخاطب کیا میں منشی فیض بخش کے مکان پر اودھم سنگھ سے ملا۔ اور اس سے درخواست کی کہ تعزیہ کے راستہ کی رکاوٹ کا باعث نہ بنو ،جس کے جواب میں اس نے کہا کہ اگر صرف اس سال تعزیہ دار ہی اس راستہ سے تعزیہ نہ گذاریں تو کون ساحرج ہوجائے گا میں تو بعض وجوہات کی بنا پر مجبورہوں یہیں تک گفتگو کا سلسلہ پہنچا تھا کہ دوسکھ اودھم سنگھ کو بلا کر لے گئے۔
میں پھر احباب کے مشورے سے اسٹیٹ ریسٹ ہاؤس کو گیا جہاں وزیراعظم صاحب انسپکٹر جنرل پولیس او ردیگر افسران موجود تھے جس کی غرض یہ تھی کہ افسران متعلقہ اور وزیراعظم صاحب کو صورت حالات سے بخوبی مطلع کرکے تعزیہ کے راستہ کی رکاوٹ کو دور کیے جانے کے متعلق کہا جائے ،چونکہ وزیراعظم صاحب معترضین سے گفتگو میں مشغول تھے اس لیے میں منتظر رہا۔ ساڑھے بارہ بجے کے بعد مجھے اطلاع ملی کہ راستہ طلب کرنے والی جماعت پر لاٹھی چارج کیا گیا ہے اس اطلاع پر میں مع چودھری فضل محمد وکیل جائے وقوع کی طرف روانہ ہوئے۔ میجر کو ٹھ والا اور فوجی افسر بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہاں صرف پندرہ آدمی اس میں موجود تھے۔ جو عبداﷲ علم والے کے مکان سے بازار کو آئی ہے اور کوئی دوسرا آدمی موجود نہیں تھا۔ میجر صاحب نے وہاں آتے ہی اس کی گلی کے دوطرفہ چھتوں پر چار چار سیاہی یعنی کہ آٹھ رائفلیں دے کر چڑھا دیئے۔ جو فائرپوزیشن لے کر بیٹھ گئے۔ خود میجر صاحب نے ان پندرہ اشخاص کو مخاطب کر کے کہاکہ یا تو ہٹ جاؤ ورنہ فائر کرادوں گا۔ وہ پندرہ آدمیوں کی جماعت بلا کسی جواب کے بیٹھ گئی۔ اس وقت میں، ایک سکھ سپاہی کو جس کا نام شاید بوٹا سنگھ تھا بازار میں لیٹے ہوئے دیکھا جس کے چہرے پر چند خراشیں تھیں ،میں اس گلی میں سے ہوتا ہوا اس مقام پر پہنچا جہاں دوسرے لوگ متعلقہ تعزیہ داری موجود تھے۔ میں نے ان میں سے چھبیس اشخاص کو مجروح پایادو اشخاص کے ضربات شدید معلوم ہوتی تھیں، میں نے تعزیہ داروں کو اپنی مجلس قائم اور مرثیہ خوانی جاری رکھنے کے لیے کہا اور راستہ طلب جماعت کو مزید توقف کی ہدایت کی۔ اس وقت انسپکٹر جنرل صاحب پولیس نے اس مقام پر مجھ سے دریافت کیا۔ کہ آپ لوگ کسی نتیجہ پر پہنچے؟ میں نے جواب دیا کہ تعزیہ داراپنے قدیمی راستہ کو منظور نہیں کرتے میجر صاحب نے کہا کہ ہم بڑکی شاخین کاٹنے پر تیار نہیں۔ میں نے کہا گویہ بیجا ہے اور بڑ کوئی متبرک درخت نہیں، تاہم اگر آپ زمین کھود کر تعزیہ گزار نے کی اجازت دے دیں تو میں تعزیہ داروں کو رضا مندکرلوں گا میجر صاحب نے کہا کہ دس فٹ زمین کیسے کھودی جاسکتی ہے میں نے کہا کہ کھدائی اور پھر اس کو ہموار کرنے کا انتظام ہم خود کر لیں گے۔ آپ صرف اجازت دے دیں مگر میجر صاحب نے منظور نہ کیا۔
تقریباً۲ بجے میں پھر وزیراعظم کی طرف گیا اور توجہ دلائی کہ جو بحث اس وقت آپ کے سامنے ہندو سکھ اورمسلمان کررہے ہیں بے نتیجہ ہے ۔کیوں کہ راستہ کے قضیہ کا حق تعزیہ داروں کی کمیٹی کوہی پہنچتا ہے۔ انھیں بلا کران سے بات چیت کی جائے ،میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے تحصیل دار صاحب کو تعزیہ داروں کمیٹی کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ چھے اشخاص کا ایک وفد وزیراعظم صاحب کے پاس گیا مگر اس کے کوٹھی پہنچنے سے چند منٹ قبل وزیراعظم صاحب کپور تھلہ روانہ ہوچکے تھے۔ تعزیہ داران مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے ۔رات کے ۹ بجے کپتان عزیز احمد کپور تھلہ سے سلطان پور آیا اور تعزیہ داروں سے میری موجودگی میں کہا کہ وزیراعظم صاحب کسی غلط فہمی کی بنا پر سلطان پور سے چلے گئے تھے وہ چاہتے تھے کہ صبح آپ لوگ کپور تھلہ پہنچ جائیں اور ان سے گفتگو ہوجائے ۔ تعزیہ دار رضامند ہوگئے۔
۷؍محرم کو صبح ۹؍ بجے انھی چھے تعزیہ داروں کے وفدکو میں اپنے ہمراہ لے کر کپور تھلہ پہنچا ۔وفد اور وزیراعظم کے مابین راستہ کے متعلق گفتگو شروع ہوئی۔ وزیراعظم اس بات پر زور دیتے تھے کہ اس سال وہ راستہ چھوڑ دو۔آئندہ ہر امکانی کوشش اس راستہ کو صاف کرنے کے متعلق کی جائے گی۔ وفد کا خیال تھا کہ یہ محض دفع الوقتی ہے، اور اگلے سال کہا جائے گا کہ بس تمہارا وہی راستہ ہے جس سے پچھلے سال گذر چکے ہو۔ ممبران وفد کا اصرار تھا کہ بڑ کا درخت کاٹا جائے یا نہ کاٹا جائے۔ ہمیں وہاں سے زمین کھود کر گزرجانے کی اجازت دے دیجئے۔ او رساتھ ہی یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ اسی بڑ کی شاخیں ایک مکان کی تعمیر کے لیے اگر کاٹی جا سکتی ہیں تو تعزیہ کے گزرنے کے لیے کیوں نہیں کاٹی جاسکتیں؟ وزیراعظم صاحب بڑ کی شاخوں کو کٹانے کے لیے کسی حالت میں بھی رضامند نہ تھے۔ میں نے مسٹر کو ٹھا والے کی موجودگی میں یہ تجویز پیش کی کہ دو تحریریں لکھ لی جائیں ایک یہ کہ اگر تعزیہ دار اس سال متنازعہ موراستے سے نہ گذریں تو آئندہ ہمیشہ کے لیے محلہ کے کسی فرد کو کوئی اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔ اور راستہ کی رکاوٹ دور کرنے میں کوئی عذر پیش نہ کیا جائے گا اگر اس تحریر پر معترضین دستخط کردیں اور حکومت اس معاہدہ کی تکمیل کی کامل ذمہ داری لے لے تو میں تعزیہ داروں کو اس بات کے منظورکرنے کے لیے انشاء اﷲ رضامند کرلوں گا یا یہ کہ اس سال تعزیہ اسی راستہ سے گزرے اور آئندہ کے لیے تعزیہ دار اس راستہ کو ترک کردیں دونوں تحریروں میں سے جس پر معترضین متفق ہو جائیں یا جس کو معترضین منظور کرلیں اور جانبین کے دستخط ہوجائیں تو میں مسلمانوں کی طرف سے معاہدہ کی پابندی کا یقین دلاتاہوں۔ وزیراعظم صاحب نے میجر کو ٹھا والے کو فریق ثانی کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرنے کی ہدایت کی اور ہم واپس سلطان پور چلے آئے۔ اسی دن یہاں مہندی نکالی جاتی ہے علم کی طرح مہندی بھی بطور احتجاج نہ اٹھائی گئی۔ کوٹھا والا نے تعزیہ داروں سے دریافت کر بھیجا کہ اگر تمہیں سمجھوتہ کے لیے بلاؤں تو آجاؤ گے؟ تعزیہ داروں نے جواب دیا کہ ہم ہر وقت آنے کو تیار ہیں۔ لیکن یادرہے کہ علم نکالنے کا وقت گیا اور مہندی نکلنے کا وقت بھی گیااسی لیت و لعل میں تعزیوں اور ذوالجناح کا وقت نہ گزارا جائے۔ تعزیہ داروں نے میجر صاحب کے پیغام کا ۵ بجے تک انتظار کیا لیکن ۵ بجے تک کوئی پیغام نہ آیا ۔مجھے میجر صاحب نے بتایا کہ فریق ثانی اس تجویز کے متعلق کسی رضامندی کا اظہار نہیں کررہے۔ ۵بجے پھر تعزیہ دار اور دوسرے متعلقین جمع ہوئے۔ اب کیا کرنا چاہیے راستہ کے مطالبہ کے جواب تک تو سب متفق تھے اور آئندہ طریق کار میں ضرور اختلاف رائے تھا۔ ایک فریق کی رائے تھی کہ تمام ریاست کے تعزیے تاوقتیکہ راستہ صاف نہ کیا جائے نہ اٹھائے جائیں، میری بھی یہی رائے تھی ۔ ۶بجے ایسی جماعتیں محلہ رنگریزوں میں سے نکلنی شروع ہوئیں پولیس نے بحکم مجسٹریٹ علاقہ انھیں گرفتار کرناشروع کیا۔ دو گھنٹہ کے اندر ۱۱؍ گرفتاریاں نہایت پر امن طریقہ سے عمل میں آئیں ،رات کو صبح تک کے لیے یہ سلسلہ ملتوی کر دیا گیا۔ ۸محرم اور ۹محرم کو ۳ بجے تک گرفتاریوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تقریبا ساڑھے چار سو گرفتاری بغیر کسی شوروشر کے عمل میں آئی ۔ ۸ محرم کی صبح کو دیہات کے جو مسلمان وہاں موجود تھے انھیں میں نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس طریق سے اختلاف ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس وقت تک تعزیے نہ اٹھائے جائیں جب تک راستہ صاف نہ ہو۔ آپ خود سوچ کر فیصلہ کر لیں کہ کیا طریق اختیار کرنا ہے ان میں سے بعض واپس لوٹ گئے ۔ اور بعض محلہ رنگریزوں میں جا کر راستہ طلب جماعتوں میں شامل ہوگئے۔ ۹محرم کو ۳ بجے میں نے پھر ایک بار کوشش کی کہ اس طریقہ کو ملتوی کردیا جائے تاکہ ایک بار پھر راستہ کی بندش کو دور کرنے کی سعی کا موقع ہاتھ آئے۔ ۱۰ محرم کو ۱۰ بجے تک ایسی جماعتوں کا بھیجنا ملتوی کردیا گیا میں ۴ بجے مع چودھری علی اکبر، وزیراعظم صاحب کے پاس کپور تھلہ آیا۔ سلطان پور سے روانہ ہونے سے قبل میں نے میجر کوٹھا والا سے کہا کہ آپ کے ملٹری آفیسر اور بعض سول آفیسر عوام کو مشتعل کرنے کی بہت کوشش کر رہے ہیں، جو معاملہ کے سلجھاؤ میں ایک روک ثابت ہورہی ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ تشدد کے اسباب پیداہوجائیں، ان کی نیتوں میں فتور ہے۔ آپ کو کامل حزم و احتیاط سے کام لینا چاہیے لیکن میجر صاحب نے کچھ توجہ نہ فرمائی۔ جناب وزیراعظم سے کپور تھلہ میں ۵ بجے شام کے میں نے کہا کہ تعزیہ کو وہاں سے گزارنا اور شاخوں کا کاٹنا ہی مناسب ہے۔ مگر انھوں نے بڑکی شاخوں کا کاٹنا منظور نہ کیا میں نے ایک اور تجویز پیش کی اور وعدہ کیا کہ اگر اس پر عملدرآمد کیا جائے تو مسلمانانِ سلطان پور کو میں رضامند کر لوں گا۔ وہ یہ کہ سردار بہادر بخشی پورن سنگھ سی ۔ آئی۔ ای ریاست کے مفاد اور بحالی امن کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑکی شاخیں کاٹ دیں۔ اور آپ تعزیہ کے ساتھ ہوں اور تعزیہ آپ کے تجویز کردہ راستہ سے گذرجائے۔ تجویز کے پہلے حصہ کو بھی وزیراعظم صاحب نے منظور نہ کیا ۔میں ۹ بجے کے بعد واپس سلطان پور پہنچا ۔ ابھی اس قضیہ کے متعلق منتخبہ پنجایت کے ممبران کو پیغام بھیج ہی رہا تھا کہ اچانک دو رائفل فائر کی آواز سنائی دی سرائے سلطان پور سے جو اس وقت بطور جیل استعمال ہورہی تھی، چیخ و پکار اورفغاں کا شور اٹھا میں سرائے کی طرف بھاگا۔ انسپکٹر جنرل پولیس کی اجازت سے اندر داخل ہوا۔ رضاکاروں سے ملا۔ بائیس آدمی زخمی اس وقت میں نے دیکھے بعض کے خون بہہ رہا تھا اور دوتین بے ہوش پڑے تھے۔ لیفٹیننٹ ڈاکٹر عباس علی اور ڈاکٹر کشمیراسنگھ زخمیوں کو دیکھ رہے تھے، واقعہ کی تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ روزاوّل سے ہی یعنی جس دن سے ملٹری یہاں پہنچی ہے ۔سکھ سپاہیوں اور افسروں نے کھاناپکانے کے لیے اپنے چولھے مسجد کی دیوار کے ساتھ بنائے ہوئے ہیں، جن کے نشانات آج تک موقع پر موجود ہیں وہاں جھٹکا پکایا جاتا تھا۔ اور نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کے راستہ میں بھی اکثر فوجی سپاہی نمازیوں کے لیے مزاحمت کا باعث ہوتے تھے۔ موجودہ ہنگامہ کی وجہ یہ ہوئی کہ نماز عشاء کی اذان پر سکھ فوجیوں نے پہلے تو مضحکہ اڑایا اور پھر جب لوگ نماز ادا کررہے تھے تو ایک سکھ فوجی ملازم نے خدا کی شان میں ایسے الفاظ کہے جنھیں کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔ اس پر رضا کاران معترض ہوئے اور کہا کہ گوہم قیدی ہیں لیکن ہم اپنے مذہب کی توہین برداشت نہیں کرسکتے ۔ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ بعض سکھ سپاہیوں نے چھت کا منڈیرا اکھاڑ کر رضاکاروں پرخشت باری شروع کردی۔ ان اکھڑی ہوئی اینٹوں کے نشانات میجر کوٹھا والا اور مجسٹریٹ دونوں کو دکھا دیئے گئے تھے۔ رضا کاروں کا یہ بیان میری تحقیق کے مطابق صداقت پر مبنی ہے۔ میں اس میں شک وشبہہ کی گنجائش محسوس نہیں کرتا۔ اس تحقیق کے بعد میں نے میجر کوٹھا والا کو حالات کی نزاکت کی طرف پھر توجہ دلائی اور کہاکہ جہاں جذبات کی یہ کیفیت ہو وہاں خیریت کی امید کیوں کرہوسکتی ہے۔ میں نے ۱۲ بجے رات کپور تھلہ پہنچ کو چیف منسٹر کو تمام جھگڑے اور بنائے جھگڑا کی اطلاع دے دی اور بتا دیا کہ اس واقعہ کے باعث دیہات میں بھی اشتعال پیدا ہوگا۔ نہایت ضروری ہے کہ تعزیہ کے راستہ کی طرف خاص توجہ دی جائے اور یہ بھی واضح کر دیا کہ سکھ ملٹری سٹاف فائر کرنے کے بہانے کا ہی متلاشی ہے، معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ مسلمان سپاہی بھی اس خطرہ کو محسوس کر کے اپنے آپ کو مامون نہیں سمجھتے ۔میجر کوٹھا والا صاحب کو میں بارہامطلع کر چکاہوں لیکن اس کے نزدیک میری ہر آواز صدابہ صحرارہی۔ اڑھائی بجے کے قریب میں واپس سلطان پور آیا۔ ۱۰ محرم صبح ۹ بجے مسلمان میرے پاس آئے اور شب گذشتہ کی کوشش کا نتیجہ طلب کیا۔ میں نے کہہ دیا کہ وزیر صاحب اپنے تجویز کردہ راستہ سے خود تعزیہ لے جانے کو تیار ہیں بجز اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ بجز اس کے اور کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ قریباً ۱۰ بجے سپیشل مجسٹریٹ نے مجھے کہا کہ جو لوگ تلونڈی اوردیہات سے آئے ہیں وہ تعزیہ متنازعہ راستہ سے نہ لے جائیں۔ میں بمعیت چودھری فضل محمد وکیل اور چودھر ی فتح محمد جو ان تمام ایام میں میرے ساتھ ہر کوشش میں شامل رہے ہیں مجمع کی طرف روانہ ہوا۔ اس مجمع میں سے سربرآوردہ اشخاص کو بلا کر سمجھایا کہ تم رحمت والا تعزیہ منتازعہ راستہ سے نہ لے جاؤ میں نے حد سے زیادہ اصرار کیا۔ چونکہ مجھے معلوم تھا کہ مجمع خواہ کتناہی پر امن کیوں نہ ہو ان پر فائر ہوجائے گا اور وہ بھی منتقمانہ جذبہ کے تابع ہوگا۔ فائر کرنے والے مجمع کو منتشر کرنے کے لیے فائر نہیں کریں گے بلکہ قتل عام کا منظر دنیا کے سامنے ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا میں نے ان اشخاص سے درخواست کی کہ یا تو تعزیے پڑے رہنے دو اور جب تک راستہ متنازعہ صاف نہ ہوجائے کوئی تعزیہ نہ اٹھایا جائے او روہ اس پر رضامند نہ تھے یعنی صرف اتنے پر رضامند نہ تھے اس لیے میں نے یہ رائے دی کہ جو طریق اہل سلطان پور نے رضاکاروں کو قید کرانے کا آج سے تین روز پہلے اختیار کر رکھا ہے۔ اسی کے مطابق موقع پر جا کر اپنے آپ کو گرفتار کرادو۔ ان کا یہ جواب تھا کہ حکومت ہم پر کیوں گولی چلائے گی اور کیوں تشدد بے جاکر ے گی۔ نہ ہم کسی فریق سے لڑنے جارہے ہیں ،نہ زبردستی بڑ کاٹ رہے ہیں، نہ ہمارے پاس اسلحہ ہے۔ اور نہ ہماری ونگافساد کی نیت ہے اہل سلطان پور کے پروگرام میں صرف اتنی ترمیم کریں گے کہ تعزیہ راستے پر رکھ کر اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کریں گے، ہماری نیتیں صاف ہیں اور ہم اسی بات کا اعلان کرتے ہیں۔ حکومت اگر چاہے تو ہمیں اسی مقام پر گرفتار کر سکتی ہے۔
میں نے تعزیہ اٹھاتے وقت انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ تم پر آتش باری کی جائے گی اور ان سب سے وہی جواب پاتا رہا جو وہ پہلے دے چکے تھے۔ پیروہمشیر زادہ رحمت تعزیہ دار انھیں تعزیہ اٹھانے اور راستہ متنازعہ پر چلنے کی نہ صرف ترغیب دیتا تھا بلکہ اس پر اصرار کرتا تھا ،میں مایوس ہو کر واپس آگیا۔ کچھ وقت آرام کرنے کے بعد مع چودھری فتح محمد، مستری محمد یعقوب کے بالاخانہ کے چھت پر آگیا جہاں سے کہ بڑ متنازعہ تک سب کچھ نظر آتا تھا اور تعزیہ کے جلوس کی ہر حرکت میں دیکھتا اور باتوں کی مجھے اطلاع ملتی تھی ۔منشی محمد حسن گرداور اور کیپٹن عزیز احمد کو میں نے بارہا رہنمایانِ جلوس میں دیکھا۔ جلوس ایک ہی جگہ پر رک گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک گھنٹہ کا وقفہ اس لیے قرار پایا ہے کہ ممبران کونسل وصاحب صدر موقع پر آجائیں۔ تو خاطر خواہ تصفیہ کرادیا جائے گا۔اس ایک گھنٹہ سے بیس پچیس منٹ زائد وقت بھی گزرگیامگر انتظامیہ کو نسل موقع پر نہ پہنچی۔ ۴؍اور ساڑھے چار بجے کے درمیان ایک بگل بجا۔ جو لوگ اس مکان کے قریب تھے جہاں میں موجود تھا۔ ان کی آواز میرے سننے میں آئی کہ لو بھئی میاں صاحب آئے ہیں۔ اسی لیے بگل بجاہے بگل بجنے کے معاًبعد لوئیس گن اور رائفل فائر شروع ہوگیا، فائرہر مقام سے ہوا گوردوارہ ہٹ صاحب سے بھی فائر ہوتا تھا، تحصیل کے ایک برج سے بھی تین چار فائر ہوئے۔ تکیہ راجپوتاں میں اور ویٹرنری ہسپتال کے قریب جو لوگ شہید یا زخمی ہوئے وہ سب ہٹ صاحب کی گارد کے فائر سے ہوئے۔ ایک شخص شادی کمبوہ سکنہ الوپو ر چراغ شاہ کے مکان کے قریب گولی کا نشانہ بنا اور وہیں جاں بحق ہوا۔ فائر بند ہوجانے کے بعد بھی ہٹ صاحب سے تین فائر ہوئے۔ فائر بند نے کے قریباً ۲۰ اور ۲۵ منٹ بعد میں جائے وقوع پر پہنچا۔ زخمی زیادہ تر موٹروں میں ہسپتال بھیجے جا چکے تھے۔ شہدا ء کی نعشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر لاریوں میں لادا جاتا تھا۔ موقع پر صرف ایک ڈاکٹر تھا، نہ کوئی سٹریچر تھا اور نہ مرہم پٹی کا کوئی انتظام یہاں تک کہ بعض زخمی شدت پیاس کے باعث بے تاب تھے، پانی کے چند قطروں کے لیے ترستے ہوئے جان بحق ہوئے ۔ہٹ صاحب اور تحصیل کے برج کے علاوہ اس بلند مقام یعنی آواز سے بھی فائرہوئے جو اس مقام سے جہاں لوئیس گن رکھی ہوئی تھی جنوب مشرقی گوشہ میں واقع ہے۔ مسلح سکھ اور مہابیردل کے والنٹیرکر پانوں برچھیوں اور لاٹھیوں سے مسلح فوج کے پیچھے کثیر تعداد میں موجود تھے۔جو دیکھنے والا ان کو میجر کوٹھا والا کی ریزروفورس ہی تصور کر سکتا ہے۔
چودھری عبدالرشیدخاں مجسٹریٹ علاقہ میرے حقیقی بھائی ہیں، کیپٹن عزیز احمد بھی میرے چھوٹے حقیقی بھائی ہیں، لوئیس گن پر کام کرتے ہیں، میں نے ایک سکھ سپاہی کو دیکھا لوئیس گن کی آواز بھی بخوبی پہچان سکتا ہوں شہداء کے زخموں کی کیفیت سے بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ زخم لوئیس گن کی گولیوں سے واقع ہوئے ہیں۔ مثلاً نبی بخش سقہ جس کے سینہ میں ۶ گولیاں تھیں اور پیروہمشیرہ زادہ رحمت تعزیہ والا جس کے پیٹ میں کئی گولیاں تھیں ،ایک ہی نشان پر کئی گولیوں کا لگنا صرف لوئیس گن ہی سے ہو سکتا ہے۔
س: اگر ایک ماہر نشانچی ٹھیک نشانہ پر کئی ایک باررائفل سے فائر کرے اور یہ سب گولیاں ایک ہی مقام پر لگیں تو کیا ایسے ہی زخم پیدا نہیں ہوسکتے جو نبی بخش اور پیرو کے آپ نے دیکھے اگر نہیں تو کیوں ؟
ج: رائفل کا فائر اتنا تیز نہیں ہوسکتا جتنا کہ لوئیس گن کا ہوتا ہے، رائفل کی پہلی گولی جس شخص کے لگے گی وہ لازماً اپنی پہلی پوزیشن سے حرکت کرے گا۔ اس لیے دوسری گولیاں اس نشانہ کے قریب نہیں لگ سکتیں۔ یہ لوئیس گن کے تیز فائر ہی سے ہوسکتا ہے کہ کئی ایک گولیاں ایک ہی نشانہ پر یا ایک ہی نشانہ کے قریب لگ سکیں۔
س: کیا واقعہ سلطان پور کا داخلی سیاسیات سے کچھ تعلق ہے یا یہ محض اتفاقی ہے؟
ج: میں اس فائرنگ کے متعلق پہلے بیان کرچکاہوں کہ ایسے حالات پیدا کرنے کی بعض ملازمین ریاست خود کوشش کررہے تھے۔ میں اسے محض اتفاقی حادثہ قرار نہیں دیتا۔
س: یہ کوششیں کیوں اور کب شروع ہوئیں ۔کیا آپ اس امر کا مفصل بیان فرما سکتے ہیں۔
ج: ریاست کپور تھلہ میں سالہا سال سے مسلمان پسماندہ قوم کی حیثیت میں زندگی بسر کررہے ہیں باوجود کہ تناسب آبادی کے لحاظ سے قریباً ستاون فی صدی مسلمان آباد ہیں لیکن ریاست کے ہر محکمہ میں ملازمتوں کے اعتبار سے مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ مسلمان اس وقت بھی تقریباً ساٹھ فی صدی مالیہ ادا کرتے ہیں مگر وظائف اور اوقات میں انہیں صرف آٹھ ہزار چارسو چالیس روپیہ ملتا ہے ،برعکس اس کے غیر مسلموں کو ۶۸۳۳۸ روپیہ نقد ملتا ہے اس کے علاوہ مندروں اور دھرم شالاؤں کے نام معافیات ہیں۔ غرض زندگی کے ہرشعبہ میں مسلمان کپور تھلہ میں نہایت کمتر درجہ میں رکھے گئے ہیں۔
۱۹۳۱ء میں مسلمانوں نے حقوق طلبی کی پہلی ہلکی سی آواز بلند کی تھی اور ساتھ ہی زمیندار جو آئے دن بے انصافی کاشکار ہوتے تھے ان کی اس تباہ حالی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے ایک زمیندار ہ تحریک کی بنیاد ڈالی چونکہ زمیندار اقوام میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے ،اس لیے ہندوساہوکاروں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی ہر امکانی کوشش کی۔ سکھ زمیندار بہت تھوڑی تعداد میں اس تحریک میں شامل ہوئے کیونکہ وہ ایسے سکھ افسروں کے زیرِ اثر تھے جو خود بڑے پیمانے کا ساہوکارہ کا کام کرتے ہیں اور مسلمانوں میں بیداری اور حقوق طلبی کے جذبہ کے وہ متحمل نہ ہوسکے۔ اس لیے وہ تحریک خالص زمیندارہ تحریک تھی جو ہندوساہوکاروں کے علاوہ ریاست کے ذمہ دار اہل کاروں کو بھی ناگوار گزری۔ اور انہوں نے اپنے اپنے آوردوں اور پروردوں کے ذریعے اس تحریک کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ اور اس تحریک کو کچلنے کے لیے مسلمان ز مینداروں کوبے طرح تنگ کیا جاتا رہا۔ جنوری ۱۹۳۴ء کے پہلے ہفتہ میں قانون تحفظ اراضیات زمینداران کی ترمیم اس تحریک کا نتیجہ ہوئی۔ اس ترمیم کے بعد ہندوؤں نے سول نافرمانی کی تحریک بڑی شدومد سے جاری کی۔ اور منجملہ دیگر مطالبات ایک یہ مطالبہ بھی پیش کیا کہ نظام ریاست کی ذمہ داریاں ایک انتظامیہ کونسل کو سونپی جائیں جس کو مہاراجہ صاحب نے منظور کرتے ہوئے اس طرح ترتیب دیا کہ ۶؍ ممبروں کی کونسل مرتب کی جن میں سے دو مسلمان تھے، مسلمانوں کو اس کے خلاف شکایت تھی کہ کونسل میں ان کی نمائندگی ان کے تناسب آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے ہندوؤں کی اس تحریک کی کامیابی کے بعد ہر طبقہ کے مسلمان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ہندوؤں کی خوشنودی کے لیے ریاست اپنے دیرینہ اصول کے مطابق مسلمانوں کے حقوق اور بھی زیادہ پا مال کرے گی۔ میرا ذاتی خیال بھی یہی تھا اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے احرار کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جو ۳و۴ اپریل ۱۹۳۴ء کو ہوئی اس کانفرنس میں ذمہ دار اسمبلی، مسلمانوں کے لیے ملازمتیں بلحاظ تناسب آبادی اور چند دیگر اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔ مہاراجہ صاحب کی طرف سے کانفرنس کے پنڈال میں وزیراعظم صاحب نے اعلان کرتے ہوئے یقین دلایا کہ سرکار کی واپسی از یورپ پر مطلوبہ اسمبلی قائم کردی جائے گی۔ اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ بھی یقین دلایا گیا کہ جن محکمہ جات میں مسلمان کم ملازم ہیں، وہ کمی پوری کی جائے گی۔ انھی مطالبات میں جگت جیت انفنٹری اور محکمہ جنگی کی دوسری شاخوں میں جہاں مسلمان بہت کم تعداد میں ہیں مسلمانوں کی کمی کو پورا کرنا بھی شامل تھا۔ اس کانفرنس کی کامیابی اور حکومت ریاست کا اعلان اور بالخصوص اس تیسرے مطالبہ نے ریاست کے اکثر غیر مسلم ذمہ دار افسروں کو اور بھی چر اغ پا کردیا اور مسلمانوں کو کچلنے کے منصوبے گانٹھے جانے لگے۔ سلطان پور کا واقعہ ہر ذی فہم کے نزدیک انہی اسباب کا ایک نتیجہ تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی سیاسی بیداری ان کے لیے جو ریاست کے ہر شعبہ پر قابض ہیں اور ان کے معاونین کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اس سیاسی بیداری اور حقوق طلبی کی سپرٹ کو ہمیشہ کے لیے فنا کرنے اور مسلمانوں کے شیرازے کو بکھیرنے کے لیے سلطان پور کا قتل عام ظہور میں آیا۔ ورنہ شارع عام پر ایک بڑ کے درخت کی چند شاخوں کے لیے جو میونسپلٹی کی زمین میں ہو، مسلمانوں کا اس بے دردی سے خون بہایا جانا اور کیا معنی رکھتا ہے۔ میں اس امر کو اپنے بیان کے پہلے حصہ میں واضح کر چکاہوں کہ مسلمانوں کے اس مجمع سے نقضِ امن کا کوئی خدشہ نہ تھا جوکچھ ۱۰؍ محرم کو ہوا ایک خاص سازش کا نتیجہ تھا ،جس میں ریاست کے بڑے بڑے ذمہ دار افسروں کی شمولیت ہے۔
(جاری ہے)