jمفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ قسط : ۱۳
کپور تھلہ ایجی ٹیشن۱۹۳۳ء
ریاست کپور تھلہ کی ایجی ٹیشن مصیبت زدہ کسانوں کی بھیگی ہوئی پلکوں کی دکھ بھری کہانی ہے۔کسی کاحق نہیں کہ راجوں مہاراجوں کے عالی شان محلات سے رعایا کی خوشحالی کا قیاس کرے۔ بلکہ یقین یہی کرے کہ ان سربفلک کشیدہ عمارتوں کی تعمیر کسانوں کی چھوٹی تقدیر نے کی ہے۔ ریاستوں کی دکھی دنیا کی داستانِ مصیبت کو شروع کر کے آنسو رو نے کے بغیر کون ختم کر سکتا ہے۔ انگریزی علاقے کے کسان کے جسم پر چیتھڑے اڑے دیکھ کر گھبراجانے والے اگر ریاستوں کے کاشت کاروں کی پریشان حالی دیکھیں تو انگریزی حکام کی رحم دلی کی داددیں اور انگریزی علاقے کے کسان کو بہشت کا باشندہ سمجھیں ۔ ریاستوں کے رئیس نہ ہندو ہوتے ہیں نہ مسلمان ،وہ خالص رئیس ہوتے ہیں ۔ یعنی خوفِ خدا سے بے نیاز طعنۂ خلق سے بہت دور۔ جب تک سرکار انگریزی کا سایہ ہندوستان میں موجود ہے کوئی روساء کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بداعتدالیوں کی انھیں کھلی چھٹی ہے۔ جیسے قوانین چاہیں جاری کریں، جو لگان چاہیں وصول کریں،شادی اپنی رچائیں اور ٹیکس رعایا پر لگائیں ۔دوسرے ریاستوں کے مدعوراجوں مہاراجوں کے گل چھرے اڑانے کا ڈنڈ مفلس کسانوں سے طلب کریں۔ سرکار انگریزی باز پرس کیوں کرے۔ انگریزی راج کے ساتھ دیسی سوراج کا ایسا نمونہ چاہیے تاکہ لوگ انگریز بہادر کی جے پکاریں او رسب کہیں کہ بھیا فرنگی سرکار میں بڑا امن ہے۔
یاد رکھو کسی ملک میں اچانک ہلچل کا پیدا ہوجانا لوگوں کی تکلیفوں کے گہرے احساس کا مظہر ہے۔ کون ہے جو آرام کو بیچ کر مصیبتوں کو مول لے ۔ خاص لوگ کسی اعلیٰ یا ادنیٰ جذبہ کے ماتحت کبھی ایسا کر بیٹھتے ہیں لیکن عوام کا قانون یہی ہے کہ خوش حالی میں کوئی بے اطمینانی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ جہاں فاقوں سے ماری مخلوق بستی ہے وہاں معمولی ساشوشہ فتنہ قیامت بن جاتا ہے اس لیے کہ اس کی پشت پر گہرے جذبات کام کرتے ہیں۔
کپور تھلہ ایجی ٹیشن ریاستی افق پر ایک نقطہ ابر کی طرح نمودار ہوا جو دیکھتے دیکھتے طوفان بن گیا۔ قصہ یوں ہوا کہ بیگووال میں، جوریاست میں راجپوتوں کا مرکزی مقام ہے، مظلومینِ کشمیر کے حق میں جلسہ عام ہوا۔ درد مندوں کو دیکھ کر اپنے دکھ یاد آجاتے ہیں۔ کشمیر کے ہنگامے نے لوگوں کو خون کے آنسو رلادیئے۔ ابھی اس ریاست میں سیاسی تحریک اٹھانے کا یارا کس کو تھا۔ اس اجتماع سے فائدہ اٹھا کر کچھ اصلاحی کاموں پر توجہ دینا شروع ہوئی۔ یہ کچھ عجب نہیں قدرتی بات ہے کہ مسلمان جہاں مل بیٹھ کر کوئی کام شروع کرتے ہیں عموماً ان کی پہلی توجہ اپنی اقتصادی بد حالی کی طرف جاتی ہے۔ جب وہ اس کے اسباب تلاش کرنے لگتے ہیں تو ہندو دکان دار اور ہندو ساہوکار سامنے آتے ہیں۔ ساہوکار سے زیادہ ہندودکان دار ان کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ پیسہ کماتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ چیز دیتے اور پیسہ ہاتھ میں لیتے وقت مسلمان گاہک سے اچھوت کا سلوک کرتا ہے۔ وقت پر خواہ وہ کسی بے غیرتی دکھا کر اس بدسلوکی کو برداشت کر جائے مگر دل میں گروہ ضرور رہتی ہے، کہ روپیہ بھی خرچ کیا بے عزت بھی ہوئے۔ نقصانِ سرمایہ برداشت ہوسکتا ہے مگر سلوکِ ہمسایہ کو کوئی کب تک برداشت کرے۔ ہندومسلمان کشیدگی کی بنیادی وجہ ہندو کا مسلمان کو اچھوت سمجھنا ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے اول بیگووال کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے اقتصادی اور مجلسی بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور خریدو فروخت عورتوں کے بجائے خود مردوں کے ذریعے کرنا چاہی۔ ہندو دکان دار بڑا ہوشیار ہے، اس نے گربہ کشتن روز اوّل کے مصداق شور مچانا شروع کردیا کہ مسلمانوں نے ہمارا بائیکاٹ کردیا۔ ساہوکاروں نے دکان داروں کی حمایت کی۔ معاملہ ذرا بڑھا۔ بنیا بڑا کائیاں ہے معمولی بات پر کائیں کائیں کرنے لگتا ہے۔ اس ریاست میں ساہوکاروں کا بڑا رسوخ ہے تھوڑا ساشور بڑی پکار بن کر حکام کے کانوں میں پہنچتا ہے۔ لیکن حکام کیا کہیں کہ مسلمانو! تم اپنی عورتوں کو خریدوفروخت کے لیے ضرور بھیجا کرو۔ اس لیے افسران نے ہندوؤں کی پکار پر دھیان نہ دیا۔ ہندوؤں نے ہڑتال کردی ۔ مسلمان ایک دن میں حیران ہوگئے اور لگے بغلیں جھانکنے۔ اور تو کچھ نہ کرسکے ساہوکاروں کی اراضیات کاشت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
جان مجنوں کو ایک رنج و عذاب نہیں،جان شیریں ساری داغ داغ ہے، پنبہ کہاں کہاں رکھے۔ یہاں کے مطابق زمیندار کو ہندودکان دار سے اس کی اچھوت کرنے کا شکوہ، ساہوکار سے خون چوس جانے کا گلہ، حکام سے ہڈیاں پیس ڈالنے کی شکایات، ساہوکار اور سرکار کا شت کے معاملے میں ایک ہوگئے۔ حکم جاری ہوگیا کہ جس گاؤں میں جتھے بندی کے طریق پر کاشت اراضی سے انکار ہوگا اس کا بار اس کے باشندوں پر ڈالا جائے گا۔ پولیس تو حکام کے اشاروں کی منتظر ہوتی ہے، جب ساہوکار اور سرکار ایک ہوں تو پولیس لائن کے تشدد نے معاملے کو ہوادی۔ ساہوکار اور کاشت کار کے سوال نے مہیب صورت اختیار کر لی۔ عوام کو امید تھی کہ ریاستی سرکار ساہوکار اور کاشت کار کے معاملہ میں بدحال کاشت کار کی مدد کرے گی۔ نتیجہ امید کے خلاف پا کروہ احکام سے قطعی مایوس ہوگئے۔ بعض نے ہجر ت کا مشورہ دیا، کیساغلط مشورہ تھا ہجرت قربانی کی بڑی کٹھن منزل ہے۔ مکہ معظمہ کے خوش نصیب مہاجرین کو مدینہ منورہ کے نیکو کار انصار مل گئے لیکن ہر خطہ مہاجرین کامدینہ نہیں۔ ہندوستانیوں کی کابل کی طرف ہجرت کا ہمیشہ سبق یاد رکھنا چاہیے۔ ہجرت اسی حال میں بابرکت ہے جب مہاجر دیس سے زیادہ پردیس میں مصائب جھیلنے کا فیصلہ کر کے گھر بار چھوڑے۔ جوآرام پانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں دکھ اٹھاتے ہیں جو دکھ اٹھاتے چلیں فتح و کامرانی کا منہ دیکھتے ہیں۔
قبل اس کہ میں واقعات اور اس کے نتائج پر بحث کروں۔ اکتوبر ۱۹۳۲ء تک کے حالات کا نظارۂ طائرہ کرلیں۔ سیکرٹری مجلس احرار دسوہہ نے خود واقعات کا جائزہ لے کر جو بیان اخبارات میں دیا اس کا مطالعہ فرمائیں۔
’’ریاست کپور تھلہ کے ہندو ساہوکاروں کی اشتعال انگیز روش‘‘
تحصیل بھولتھ کے مسلمان کاشتکاروں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے منصوبے
’’کئی ماہ سے تحصیل بھولتھ ریاست کپور تھلہ کے متعلق ہندو اخبارات کے پرپیگنڈا سے بے شمار غلط فہمیوں دوآبہ بست جالندھر میں خصوصاً اور پنجاب کی اخباری دنیا میں عموماً پیدا ہوگئی ہیں۔ بحیثیت ایک خادم ملت مجھے اس امر کے احساس نے صحیح حالات کی تحقیق پر آمادہ کیا۔ چنانچہ ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو میں نے اسی امر کی جستجو میں تحصیل ہذا کے شمالی حصہ کے دس دیہات کا دورہ کیا جس کے نتائج امید ہے کہ ان غلط فہمیوں کے ازالے کا باعث ہوں گے۔
گزشتہ رمضان مبارک میں جب سرفروشانِ احرار ریاست کشمیر کے عاقبت نااندیش حکام کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف مصروف جہاد تھے، اس وقت بیگو وال کے حساس مسلمانوں کو بھی اپنے ان مظلوم بھائیوں کی اخلاقی ومالی امداد کے فریضے کی ادائیگی کی طرف رغبت ہوئی تو میر پورڈے کے عظیم الشان جلسے میں بمقام بیگووال قرار پایا کہ عید الفطر کے موقعہ پر چند ہ فراہم کر کے مظلومین کشمیر کی بذریعہ مجلس احرار امداد کی جائے۔ ساتھ ہی مسلمانانِ علاقہ کی اخلاقی واقتصادی اصلاح نمازو روزہ کی پابندی کے لیے تبلیغ کا انتظام بھی کیا گیا۔ ہندوساہو کاروں کی قلیل آبادی کو یہ امر شاق گذرا۔ اس پر وہ چراغ پاہوئے اور شور محشر برپا کردیا۔رضاکار انِ اسلام بیگووال کی جماعت نے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا کہ مسلمان عورتیں خریدوفروخت کے لیے بازار میں نہ آئیں کیونکہ یہ اخلاقی اور اقتصادی اصلاح کے لیے ضروری تھا۔ جب عورتوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ خریدوفروخت مردوں کے ذریعے ہو اور اگر کسی بہن کو دقت محسوس ہو تو ہم خود اس کی ضرورت کی اشیا خرید کر لادیں گے۔اسے ہندو ساہوکاروں اور دکان داروں نے پکٹنگ کا جامہ پہنا کر حکام ریاست سے شکایتیں شروع کردیں۔
حالانکہ رضاکار نہ بازار میں جاتے تھے اور نہ دکانوں پر خرید و فروخت میں رکاوٹ پیدا کرتے تھے۔ بلکہ گھروں پر جا کر سمجھاتے بجھاتے تھے اور ایسی عورتوں کا سودا خود خرید کر ان کے گھر جاتے تھے جن کے مرد موجود نہ ہوں۔ یہ ہے حقیقت اس پکٹنگ کی جس کے متعلق آج تک بدستور شکایت کی جارہی ہے اور افسران علاقہ ہندودکان داروں کی شکایات پر بلا تحقیق مسلمانوں کو دھمکاتے ہیں۔
رضاکار صبح اور شام کے وقت مساجد میں نماز ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کے گھروں پر کلمہ طبیہ کا ذکر کرتے ہوئے جاتے اور غافل مسلمانوں کو مسجد میں آکر نماز ادا کرنے کے لیے توجہ دلاتے تھے۔ بیگووال کے ساہوکاروں نے اس پر بھی بے شمار اعتراضات کیے، یہاں تک کہ نعرۂ تکبیر کی قطعی بندش کے لیے حکام ریاست سے امداد طلب کرتے تھے۔ عامۃ المسلمین ان اعتراضات پر اکثر برافروختہ ہوتے مگر ذمہ دار اصحاب کی دانشمندانہ تدابیرانھیں جادۂ عدل سے باہر قدم نہ نکالنے دیتیں۔ اسی وجہ سے کام صلاحیت سے چلتا رہا۔
اسی اثنا میں مسلمانوں کے لیے ہندو دوکانداروں نے دو روز ہڑتال کردی۔ ہڑتال کے پہلے ہی دن ایک مسلمان بقضائے الٰہی فوت ہوگیا۔ اس کا وار ث کفن کا کپڑا خریدنے کے لیے دکانوں پر آیا تو جواب صاف پایا۔ اس غریب کے کفن کا کپڑا پیر سید جعفر حسین صاحب نے مہیا کیا۔ اسی طرح دو روز تک مسلمانوں کے لیے روزانہ ضرورت کی اشیا کی فروخت بند رہی۔ اس پر خاص بیگووال اور بھولتھ دیہات سے اپنی دوکانوں کے اجراء کا تقاضا شروع ہوا۔ اور بہت جلد بیگوال اور اس کے نواح میں مسلمانوں کی دکانیں کھل گئیں جس نے ہندو سرمایہ داروں کو اس علاقہ کے غریب مزدوروں اور کاشت کاروں کے اور بھی درپے آزاد کردیا۔ انھوں نے یہ متفقہ فیصلہ کر لیاکہ ان لوگوں کو آئندہ قرض نہ دیا جائے اور سابقہ قرضوں کا فی الفور تقاضہ کیا جائے چنانچہ ساہوکاروں کی طرف سے اس فیصلہ پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔ اور نہایت سختی کے ساتھ مقرضوں سے وصولی قرضہ کا مطالبہ شروع ہونے لگا۔ اس پر کاشتکاروں کواس امرکا احساس پیدا ہوا کہ پہلے کی طرح اب بلا رسید لیں دین نہ کریں گے۔ چنانچہ ساہوکاروں کی اراضی کی پیداوار کی بٹائی کی کاشت کاروں نے رسیدیں طلب کیں جو اس وقت تک حاصل نہ کرسکے جب تک تحصیل دار صاحب علاقہ نے ساہوکاروں کو رسیدات دینے کے لیے مجبور نہ کیا۔
اب زور مالیہ ادا کرنے کا وقت آیا تو زمینداروں اور ساہوکاروں نے مالیہ بصددقت وقت پر ادا کردیا۔ اور ساہو کاروں کو قرضہ جات کے سود واپس نہ کرسکے کیوں کہ یہ امر یقینی تھا کہ اگر پیداوار فصل ربیع ساہوکاروں کو دے دیتے تو مالیہ کی ادائیگی ان کے لیے ناممکن ہوجاتی۔
ماہ جون کے اخیر میں تحصیل بھولتھ کے ذمہ دار اصحاب نے مطالبات کی ایک طویل فہرست مہاراجہ بہادر کی خدمت میں پیش کی جن کی تائید ریاست کے ہر حصے سے ہوئی۔ ان میں سے پانچ نہایت اہم ہیں جن کے باعث آج تک کش مکش جارہی ہے۔
۱۔ آئندہ اصلاحات کے مطابق ہندوستان میں جو اختیارات صوبجاتی کونسلوں کو دیئے جائیں انھی پر ریاست میں عمل درآمد ہو۔
۲۔ ایکٹ انتقال اراضی مروجہ پنجاب جلد از جلد ریاست میں نافذ ہو۔
۳۔ مزدوروں اور پیشہ وروں کی جائیداد غیر منقولہ( مکانات رہائشی وغیرہ) قُرق ہونے سے مستثنیٰ قراردی جائے۔
۴۔ قرضوں کی اصلیت کی تحقیق کی جائے کہ اصل زرمیں کتنا سود شامل ہوچکا ہے اور دو چند سے جتنی رقم تجاوز کر چکی ہے ناواجب قراردی جائے۔
۵۔ مالیہ ریاست میں مناسب ومعقول مستقل تخفیف کی جائے۔
ان مطالبات نے کش مکش میں اور بھی اضافہ کردیا۔ جو ساہوکاروں، کاشتکاروں اور مزدوروں کے مابین بے اعتمادی کی آخری حد کا باعث ہوئے۔
اب ساہوکاروں کو اپنی اراضی کی کاشت مطلوب تھی۔ اور مقروض کا شت کار اور مزدوروں کو ایسے زرِقرضہ کی رسیدیں درکار تھیں جو یہ ساہوکاروں کو واپس کر چکے تھے۔ یہ وصولی کی رسیدیں دینے سے انکار کرتے تھے، اور وہ کاشت اراضی سے دست کش تھے۔ عوام کی ہمدردی اس غریب طبقہ سے فطرتی تقاضاتھا۔
اس تحصیل بھولتھ کے باشندگان کے باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے مہاراجہ بہادر کی طرف سے ایک ایسی کمیٹی کا تقرر ہوا جس کا صدر مجسٹریٹ ملانہ تھا۔ جب اس کمیٹی کے روبرو یہ معاملہ پیش ہوا۔ تو صاحب صدر نے بعد استصواب وزیرعظم حسابات کی جانچ پڑتال کے اعتراض پر غور کر نے سے انکار کردیا۔ اور ساہوکاروں کی اراضی کاشت کرانے کے لیے ممبران کمیٹی پر زور ڈالا اور وہ بھی اس وقت جب کہ زمینیں خشک ہوچکی تھیں۔ اور قابل کاشت نہ تھیں۔ اتحاد کمیٹی کے صدر نے نہ معلوم اس سوال کو بعد ازوقت کیوں اٹھایا اور جوں توں کر کے وقت کیوں ضائع کیا؟
عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اتحاد کمیٹی کا صدر اتحا د کا معاملہ تعویق میں نہ ڈال رکھتا تو پہلی نشست میں اس کے تفصیہ کی طرف راغب ہوتا۔ طرفہ یہ کہ ساہوکار اور زمیندار نمائندے وقتاًفوقتاً توجہ بھی دلاتے رہے۔ مگر صاحب صدر نے توجہ نہ کی۔
۱۴؍اکتوبر کو وزیراعظم صاحب ریاست نے ساہوکاروں اور کاشت کاروں کے نمائندوں کو اپنے درِدولت پر طلب فرمایا۔ ساہوکاروں کی شکایات نہایت تحمل سے سنی گئیں۔ اور کاشت کاروں کو جواب کی مہلت سے محروم رکھتے ہوئے ذیل کا حکم نافذ کردیا گیا۔ کہ جن دیہات میں جتھے بندی کے طریق پر کاشت اراضی سے انکار ہوگا۔ ایسی اراضی کا معاملہ ان کے دیہات کے باشندوں پر بار ہو کر وصول کیا جائے گا۔ یہی حکم میں نے کئی دیہات میں قلمی لکھا ہوادیواروں پر چسپاں دیکھا۔ اس خلاف قانون حکم کو دیکھ کر میری حیرت و استعجاب کی کوئی انتہانہ رہی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کسی کاشت کار کو کس ضابطہ وقانون کے ماتحت کسی زمین کی کاشت کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر وہ کاشت نہ کرے تو ادائیگی مالیہ اراضی کا کاشتکار کیسے ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے انوکھے حکم سے تحصیل بھولتھ کے باشندوں میں بے چینی و بد دلی کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔ حکام کا ایک ایسا متشددانہ رویہ امن عامہ میں ہمیشہ خلل کا باعث ہوا ہے۔ علاوہ ازیں پولیس کو غالباً ریاست میں غیر محدود اختیارات آج کل دے دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ شاخ تراشی کے جھگڑوں پر بھی پولیس افسر بھاگے بھاگے پھرتے ہیں اور غریب کاشت کاروں کو مرعوب و دہشت زدہ کرنے کے تمام وسائل عمل میں لارہے ہیں۔
اس تحصیل کے کاشت کار و مزدور اس وقت زندگی کے نازک مراحل میں سے گزر رہے ہیں۔ تحصیل کا شمالی علاقہ جو بالکل مسلمان کاشت کاروں کی آبادی ہے سول و پولیس افسروں کی سختیوں کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ اور حکام ریاست نے ان کا عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہجرت کر جانے پر آمادہ ہیں۔ ایسے نازک وقت میں مہاراجہ صاحب کو حکام کی من مانی کارروائیوں کا سدباب کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے کہ اس سے وفادار اور پر امن رعایا کو مشتعل ہو کر مظاہروں کا موقع ہاتھ آئے۔ اور ساتھ ہی زمینداروں کاشت کاروں اور پیشہ وروں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے میں والئی کپور تھلہ کو تامُل نہیں کرنا چاہیے۔ اگر مہاراجہ بہادر نے صورت حالات کی اصلاح کی طرف جلد توجہ نہ دی اور نااہل افسروں پر ہی تمام معاملہ کو چھوڑ رکھا تو نتائج ایسے مرتب ہونے کا امکان ہے جو ریاست اور باشندگان ریاست کے لیے نقصان عظیم کا باعث ہوں گے۔جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام دسوہہ ضلع ہوشیار پور۔ (روز نامہ ’’زمیندار‘‘)
تحریک کی رہنمائی
چودھری عبدالعزیز خان آف بیگووال احرار کے نائب صدر تھے۔ یہ تحریک ان کی رہنمائی میں پرامن طور پر شروع ہو گئی۔ اور ہجرت کے احتمالات جاتے رہے۔ وہی ریاست میں سینٹرل زمیندار لیگ کے جنم داتاہیں۔ زمیندار لیگیں عام طور پر امیر طبقے کی اُپج ہو تی ہیں۔ چھوٹے زمینداروں کا نام لے کر بڑے زمیندار حکومتوں سے اپنے لیے مفاد حاصل کرتے ہیں لیکن یہ جماعتی ذہن کا اثر تھا کہ سینٹرل زمیندارہ لیگ کی عرضداشتوں کا رخ ہر قسم کے سرمایہ داروں کے خلاف تھا۔ چودھری عبدالعزیز خاں نے ’’انصاف اور روٹی کی پکار‘‘ کے عنوان سے جو عرضداشت بحیثیت سیکرٹری جنرل زمیندارہ لیگ مہاراجہ صاحب کی خدمت میں بھیجی وہ قابل غور ہے۔ اگرچہ ابھی عرضداشت کے مطالبات انقلاب پیدا کرنے والے نہیں لیکن وہ فرض جو یہ تحریر پیدا کرنا چاہتی ہے وہ انقلابی ہے۔ وہ ہر قسم کے سرمایہ داروں سے غریب اور کسان کی جان چھڑانے کو نصب العین قرار دیتی ہے۔ چھوٹے طبقے کی محنت کے ثمرہ کو سرمایہ داروں اور امتیازی خاندانوں کی پرورش پر صرف کرنے کے فعل پر صدائے ناراضگی بلند کرتی ہے۔ پنجاب کے زمینداروں میں یہ پہلی لیگ ہے جس نے طبقاتی کشمکش کو حوصلہ مندی سے اپنے سامنے رکھا۔ اور انقلابی نصب العین کے لیے بسم اﷲ کہہ کر کام شروع کیا۔ انصاف اور روٹی کی پکار کے آخری حصوں کو احرار مطالعہ کرے اور پیش نظر رکھے۔ کہ ابتداہی سے مجلس احرار کے ذمہ دار احرار لیڈر وں کے سامنے یہی مقصد حیات تھا کہ مزدور اور کسان کو خاص حقوق اور مراعات رکھنے والے لوگوں کے خلاف منظم کیا جائے تاکہ ان امتیازی خاندانوں اور مالداروں کو غریب کاشتکاروں اور مزدوروں کی محنت کا ثمرہ اڑا لے جانے سے رو کا جائے۔ اور اسلام اور اشتراکیت کا لٹریچر ان ہی چند فقروں کی تفصیل ہے بہر حال وہ پوری عرضداشت درج ذیل ہے۔
’’انصاف اور روٹی کی پکار‘‘
حضور والا!
عقیدت و فرمانبرداری کے جذبات کے ساتھ اجازت چاہتاہوں کہ حضور والا کی خدمت میں مفصلہ ذیل چند سطور گزارش کروں اور مجھے امید ہے کہ حضور والا مہربانی سے اس معاملہ پر غور فرماتے ہوئے ازراہ نوازش اپنی غریب زمیندار رعایا کی حفاظت کی خاطرفوری احکام صادر فرمائیں گے۔ ریاست ہذا میں قانونِ انتقال اراضیات پنجاب کے نفاذونیز تخفیف ابواب یعنی ملبہ و بیگار کا مطالبہ دیرینہ ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے جس نے زمینداران کے درمیان گزشتہ پندرہ سال کے عرصہ کے اندر طاقت حاصل کرنے کے بعد ایک عام تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے۔ زمینداران نے اپنی حالت کا پورا مطالعہ کرنے کے بعد آج سے بہت عرصہ پہلے حضورِ والا کی خدمت میں اپنے مطالبات جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے پیش کیے تھے۔
۱۔ یہ کہ محصولِ مالیات کا معیار اسی پیمانے کے مطابق ہونا چا ہیے جس کا عملدرآمد ملحقہ اضلاع برطانوی ہند میں ہے۔
۲۔ ابواب مالیات مثلاً بیگار ملبہ جوداخل خزانہ سرکار ہوتا ہے ترک کیا جا کر یکدم بند فرمایا جائے۔
۳۔ تحفظ حقوق زمینداران کے پیش نظر قانون انتقال اراضیات پنجاب کے اصول پر ریاست میں بھی قانون نافذ فرمایا جائے۔
۴۔ اسمبلی ریاست آئندہ صحیح طور پر ایک نمائندہ مجلس ہونی چاہیے جسے وضع قوانین اور اسی قسم کے دوسرے اختیارات حاصل ہوں جن سے برطانوی ہندوستان کی ایسی مجالس بہرہ اندوز ہو کر استفادہ کررہی ہیں۔
۵۔ بلا ضرورت اسامیوں بلکہ محکمہ جات کو تخفیف میں لایا جا کر بچت شدہ رقم دیہاتی اصلاح پر صرف کی جائے۔
چونکہ قانون انتقال اراضیات کا مسئلہ زمینداروں کے نزدیک نہایت اہم تھا۔ اس واسطے اس سوال کو سب سے پہلے اٹھایا گیا۔ ابتداءً منظور فرمایا گیا کہ طرفین یعنی زمیندار ان وساہوکاران اپنے اپنے مقدمات جدا گانہ طور پر سری حضور ٹکاراجا صاحب وجناب وزیراعظم صاحب کے روبروبیک وقت پیش کریں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت ریاست نے ایک بل مرتب کر کے عوام کی رائے حاصل کرنے کے لیے شائع کردیا۔ ساہوکاران نے شروع ہی سے اس کے متعلق مباحثہ میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ بلکہ اس سب کمیٹی کے جلسوں کا بھی مقاطعہ کیا جو اس مسودہ قانون کی تفصیلات پر غور کرنے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ مگر زمینداروں نے حکومت کے ساتھ یہاں تک تعاون کیا کہ مسودہ مذکور کی بعض دفعات کے خلاف اپنے اعتراضات پیش کر دیئے۔ا مید کی جاتی تھی کہ نہایت قلیل عرصہ کے اندر زمیندا ر ان ریاست کی حفاظت کے لیے کوئی قانون ضرور نافذ ہوجائے گا۔ حضور والا کی یورپ کو روانگی کا وقت قریب آگیا تھا۔ چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں زمیندار ان ریاست نے بسر پر ستی مرکزی زمیندارہ لیگ کپور تھلہ میں برمحل اکٹھے ہو کر ۱۶؍پھاگن ۱۹۸۹ بکرمی حضور والا کی خدمت میں اپنی مشکلات کے رفع داد کے لیے گزارش کی۔ حضور والانے ان کے وفد کو حاضر ہونے کا شرف بخشا۔ اور ان کی معروضات سماعت فرمانے کے بعد بڑی مہربانی سے اس مجمع کثیر کے درمیان تشریف لے جا کر ایک اعلان عام فرمایا جس کا منشا یہ تھا کہ حکومت ریاست کی نظر میں قانون انتقال اراضیات پنجاب کی قسم کا کوئی قانون ریاست ہذا میں نافذ کرنا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ اعلان بصورت گزٹ اشاعت پذیر ہوگیا جس سے حالات ایک حد تک سلجھ گئے۔ مگر چند ماہ بعد یہ اعلان منسوخ کیا جاکر اس کی جگہ ۲۸؍ہاڑ۱۹۹۰ بکرمی کو ایک اور یادداشت جاری ہوئی۔ یہ یادداشت نہ تو حضور والا کے اعلان کی حامل تھی اور نہ زمینداروں کے مطالبات سے مطابقت رکھتی تھی۔ گو زمیندار اس کے اجراء سے کمال مایوس ہو ئے لیکن اصولاً باامن رہتے ہوئے حضور کی یورپ سے تشریف آوری پر مزید پر امن تحریک کا فیصلہ کیا۔
بتاریخ ۵ مگھر ۱۹۹۰ بکرمی کو مرکزی زمیندارہ لیگ کے ایک وفد نے جناب وزیرا عظم صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر باضابطہ عرض کی کہ یادداشت مجریہ ۲۸ ہاڑ ۱۹۹۰ بکرمی غریب زمینداروں کے حق میں ہونے کی بجائے زیادہ تر ساہو کاران کے مطالبات کی حفاظت کرتی ہے اور اس یادداشت جدید میں حسب ذیل ترامیم وایزادی تجویزکی۔
ا۔ زمینداروں کی اراضیات کا دوامی انتقال اجرائے ڈگریات میں قطعاً ممنوع قرار دیا جائے۔
ب۔ اجرائے ڈگریات میں جو زمین ڈگری داروں کو منتقل کی جائے وہ مقرر میعاد کے لیے ہو جو کسی حالت میں بھی بیس سال سے زائد نہ ہو او راس میعاد کے ختم ہونے کے بعد اراضی منتقلہ مالک اراضی کے نام ہر قسم کے بار سے آزاد دوبارہ منتقل ہو جائے۔
ج۔ زمینداروں کو اپنے درمیان اراضیات کے انتقال کی آزادی حاصل ہو۔
د۔ تمام ایسی بے ضابطہ کارروائیاں جو سابقہ قوانین مرتبہ ۸ ماگھ ۱۹۳۳ بکرمی کے خلاف عمل میں آئی ہیں کالعدم تصور فرمائی جا کر تکمیل قانون کی غرض و غائت کے لیے منسوخ و مسترد فرمائی جائیں ۔ دوبارہ ۲۱ مگھر ۱۹۹۰ کو مرکزی زمیندارہ لیگ کا دوسرا وفد جنا ب وزیراعظم صاحب کے پیش ہوا اور سابقہ معروضات کا اعادہ کیا صاحب موصوف نے زمینداروں کو ہدایت کی کہ انھیں صبروتحمل کے ساتھ ہنگامہ آرائی کے بغیر اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک کہ ہدایت مجریہ ۲۸ہاڑ ۱۹۹۰ کے عملی نتائج سامنے نہ آجائیں ۔ زمیندار اس جواب سے اس قدردل برداشتہ ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی حالت کو خوف سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے لیے بحالات موجود ہ زیادہ عرصے تک انتظار کرنا محال ہے۔
زمینداروں کی خصوصاً چھوٹے زمینداروں کی حالت زار اقتصادی نکتہ خیال سے بڑی قابل رحم ہے زمینداروں کو برطانوی اضلاع کی مروجہ شرح مالیات سے بڑھ کر مالیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ او راس رقم میں مزید اضافہ جریب کے چھوٹے ہونے کے باعث ہوجاتا ہے۔ مزید براں ابواب کا زائد بار ملبہ و بیگار ناقابل برداشت ہے۔
حضور والا! یہ امر واضح ہے کہ زمیندار ان گراں بازذمہ داریوں اور ادائیگی مالیہ ریاست کے بوجھ تلے بے طرح د ب گئے ہیں۔ یہ زمیندار ان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے مقدمہ کی طرف حضوروالا کی نظر عنایت منعطف نہیں ہوسکتی تاکہ یہ معاملہ جو ان کے لیے حد سے زیادہ اہم او ردقیع ہے حل ہوسکتا۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ حضور والا ان تمام حالات سے کماحقہ واقف ہیں لیکن زمینداروں کے مصائب اور ان کے ساتھ حضور والا کی دوسری غریب رعایا کی تکلیفات اس لیے بھی حد سے تجاوز کر گئی ہیں کہ ریاست کی عدالتوں کا رویہ نہایت غیر منصفانہ ہے۔ غریبوں کو خواہ کسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں ان عدالتوں سے انصاف کی قطعاً توقع نہیں ۔ یہ عدالتیں جو حضور والا نے انصاف کے لیے قائم کی ہوئی ہیں۔ ان عدالتوں کی تمام تر ہمدردی سرمایہ داروں کے لیے وقف ہے۔ برعکس اس کے غریب زمینداران وکاشت کار کے حقوق عدالتی کاروائیوں میں نہایت بے دردی سے پامال کیے جاتے ہیں۔
ایک بیدار مغز حکمران ہوتے ہوئے حضور والا سے قرار واقعی توقع تھی کہ چھوٹے زمینداران کاشت کاران اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے سامان مہیا کرنے کی طرف کامل توجہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مالداروں پر نوازشات کی بارش ہو رہی ہے اور غریب کاشتکاران ومزدو ران کی محنتوں کا ثمرہ بڑی بے رحمی سے محض سرمایہ داران اور بعض امتیازی خاندانوں کی پرورش پر صرف کیا جاتا ہے۔
حضوروالا میں بلا کم و کاست یہ واضح کر دینا چاہتاہوں کہ ہمارا مقصد و احد چھوٹے چھوٹے زمینداران و مزدور پیشہ کسانوں کی سیاسی اور مالی حالت کی اصلاح وارتفاع ہے۔ ان ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ہم تہ دل سے خواہاں ہیں کہ غریب زمیندار ان کے مقدمے کو جامع طور پر گزارش کریں۔ نیز ہم اس امر کے متمنی ہیں کہ حضور کی توجہ زمینداران کی حالت زار کی طرف مبذول کرائیں۔ میں بلاتکلف یہ ظاہر کرنے کی جرات کرتاہوں کہ بڑی کوشش سے وہ ایسارویہ اختیار کرنے سے بازر ہے ہیں جس کا ظہور ہر گز مستحسن متصّور نہیں ہوگا تاوقتیکہ ان کی شکایات کو رفع کرنے اور ان کے پورا کرنے کے لیے فوری اقدام اور موثر انتظام نہ کیا گیا۔ میری نظر میں حالات پر قابو پانا حددرجہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا میں التجا کرتا ہوں کہ متذکرہ صدر معاملات پر کامل غور فرمایا جائے۔
’’چودھری عبدالعزیز آنریری سیکرٹری
سنٹرل زمیندارہ لیگ کپور تھلہ سٹیٹ‘‘
(جاری ہے)