(نویں قسط)
مخالفت کا آغاز:
بس خدا کو منظور تھا کہ احرار اس دکھی دنیا کے سب سے زیادہ دکھ بھرے حصے کے لوگوں کی امداد کو پہنچے ۔ ایسا فخر کبھی کسی جماعت کے حصے میں نہ آیا ہوگا۔ ہمیں اپنی ان قربانیوں پر فخر ہے مگر حق اور انصاف کے مخالف ہمارے کشمیر کے داخلے سے پہلے ہی ہمارے حق میں بِس بو کر مطمئن واپس آگئے تھے۔ ہم سری نگر پہنچے تو فضا قدرے مکدّر تھی۔ لوگ غریب جماعت کے غریب افراد کو شک و شبہہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تنگ حال لو گ دوسروں کی تنگ حالی میں کیا مدد کریں گے؟ بس آئے ہیں ریاستی خزانے سے جیبیں بھر کر لوٹ جائیں گے۔
ہمارے ریاست میں آنے کا مقصد ہمارے بعض کانگرسی احباب نے لوگوں کو یہی سمجھایا۔ اور لوگوں نے یہی سمجھا۔ امراء اور رؤسانے غریب پر غریب کا اعتماد جمنے ہی نہیں دیا۔ یہاں کی بے بس آبادی کیسے سمجھتی کہ غریب ہی خدا کے نام پر سب کچھ لٹاتے ہیں اور پھر دنیا میں بے ایمان اوربددیانت کہلاتے ہیں۔غرض ایسے ماحول میں ہم سری نگر پہنچے۔ حکومت کو ابتدا سے اصرار تھا کہ ہم ریاستی مہمان بنیں۔ مقصدیہ تھا کہ ہم ہاؤس بوٹ میں نظر بند رہیں گے اور ملنے والوں پر پوری نگرانی بھی ہوگی۔ ہمارے لیے مناسب نہ تھا کہ ہم آتے ہی ریاست سے اعلانِ جنگ کردیتے اور دریافتِ حال کا مقصد فوت ہوجاتا۔ کیونکہ ڈیپوٹیشن کا مقصد حالات کا جائزہ لینا تھا، الٹی میٹم دینا نہ تھا۔ دوسرے اگر سرکاری خزانہ اخراجات کی ذمہ داری اٹھائے تو ہمارے سر سے سب سے بڑا بوجھ اترتا تھا۔ احرار کی راہ میں مالیات ہی سدسکندری ہے ورنہ ہماری ہمت کو مشکل کیا ہے؟
پس ان دو مصالح کے پیش نظر سرکاری دعوت کو قبول کر ناضروری تھا۔ اس ضروری مجبوری نے غلط فہمیوں کے طوفان کو اور تیز کردیا ۔مجھے ڈاکٹر ی مشورے کے مطابق بستر سے ہلنا نہ تھا۔ مولانا مظہر علی جمعہ کے دن مسجد میں گئے اور تقریر کا موقعہ تلاش کیا۔ مولانا مظہر علی یوں بھی غریب طبیعت اور مسکین حال ہیں۔ کھدر کا لباس رہی سہی کسر پوری کردیتا ہے، کھڑے ہوئے تو لوگوں کو نہ جچے۔ غریب کی پامال خودداری اور برباد خودی امیر انہ ٹھاٹھ کو ہی مستحق توجہ سمجھتی ہے۔ چھوٹے قد اور کم قیمت لباس والے پرکس کو گمان ہوتا کہ وہ علم کا دریا ،عقل کا سمندر اور عزم کا پہاڑ ہے۔ مگر جب کھڑے ہو کر علم کے موتی برسائے اور فصاحت کے دریا بہائے تو لوگ گدڑی کے لعل کی قدر کرنے لگے۔ پھر احساس ہوا کہ یہ ہیرا دنیا کی قیمت پرنہ بکے گا ۔ پھر تو ہمارا ہاؤس بوٹ زیارت گاہ ہوگیا۔مگرحکومت کویہ اندازنہ بھائے ۔مولانا نے سری نگر کے باہر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے شہر سے باہر جانا چاہا مگر حکام نے روڑے اٹکائے۔اگرچہ ہمارے آرام کا ہماری ضرورت سے زیادہ خیال رکھا۔ خورونوش کا سامان ریاست کی شان کے مطابق کیا۔ مگر یہ بات(ہمیں) کھٹکتی رہی۔ غریب جماعت کے کارکن اپنے حال میں رہیں تو عزت محفوظ ہے ورنہ ہاتھ بھر لمبی زبانیں ہر وقت شہرت کی کتربیونت پر آمادہ رہتی ہیں۔ چنانچہ میں نے خورونوش کا خرچ کم کرنے کے لیے کہلا بھیجا اور مناسب حال اخراجات کے مدنظر کھانے کا آرڈر دینے لگا۔ اس پر لوگوں نے اور اطمینا ن کا سانس لیا۔
میکلیگن کالج سٹرائک ستمبر ۱۹۳۱ء:
سری نگر میں ابھی ہم روشناس ہونے لگے تھے کہ لاہور سے ایک اورہنگامے کی خبر آئی۔ میکلیگن انجینئر نگ کالج کے پرنسپل نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بابت ہرزہ سرائی کی، لڑکے سٹرائک کر کے موچی دروازے کے باہرڈیرے ڈال کر پڑگئے۔ پرنسپل ہندو ہوتا تو ہنگامہ زیادہ ہوتا۔ مگر انگریز تھا، بات کچھ دبی دبی رہی اور اندر اندر آگ سلگا کی کچھ بھڑکی نہیں۔ لیکن انگریزی اخبار’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ نے ہر روز اخبار کے ذریعے اگن گولے برسانے شروع کیے۔ لڑکوں کی ہمت بندھ گئی۔ درمیانہ طبقہ تھوڑا بہت متاثر ہوا لیکن امراء حسب معمول چکنے گھڑے بنے رہے۔ بلکہ پرنسپل انگریز ہونے کے باعث حکومت کی ناراضگی سے خائف ہو کر برابر آگ پرپانی ڈالتے رہے۔ مولانا محمد داؤد (غزنوی)بڑے بہادر، جماعت میں قابل اور خداترس آدمی ہیں انھوں نے حالات سے حسبِ معمول متاثر ہو کر اس ایجی ٹیشن میں حصہ لینا شروع کردیا۔ وہ احرار کے جنرل سیکرٹری تھے، ان کے حصہ لینے سے ایجی ٹیشن کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ علامہ اقبال ایجی ٹیشن میں گہری دلچسپی لیتے تھے، انھوں نے یہ ایجی ٹیشن بھی احرار کے حوالے کردی۔ مولانا داؤد کی رہنمائی میں کالج کا پکٹنگ کیا گیا۔ گرفتاریاں ہوئیں، لاٹھی چارج ہوا۔ ایجی ٹیشن شہر کے اسلامی حصے میں سر نکالنے پھرنے لگا، لوگوں کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا۔ ماتھے کے تیوروں میں ہنگامے چھپے تھے۔
لاہور کے لوگ عجب ہنگامہ پرور ہیں۔اگر گدھا زور سے ہینگے تو دکانوں اور گھروں سے پگڑیاں بغل میں دبا کر بھاگتے ہیں اور راستے میں پوچھتے ہیں کہ میاں ماجھے کیا ہوا؟ بھیا گامے یہ کیا شور تھا؟ کہیں لاٹھی چلی ہے کیا؟ مگر کسی کے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟ غرض عجب تماشائی شہر ہے۔ لیکن ایک خوبی ہے کہ بلاٹکٹ تماشا نہیں دیکھتا، ہر ایجی ٹیشن میں مالی قربانی ضرور کرتا ہے۔ ہو سکے تو سرکاری ہنگامے کی گرماگرمی میں لاٹھی بھی بے پروائی سے برداشت کرتا ہے۔ گولی چل جائے تواس کی بھی چنداں پرواہ نہیں کرتا۔ لیکن طبیعت تماشائی ہے اس لیے کسی تحریک میں دل نہیں لگتا۔ ہر تحریک سے چند دن میں جی اکتا جاتا ہے۔ پھر کوئی نیا کھیل دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ لاہور کے لوگوں کی طبیعت میں کچھ مذہبی جوش بھی ہے، وہ خدا کے نام کی شمع پرپروانے کی طرح گرتے ہیں۔ میکلیگن کالج کے معرکے میں انھوں نے جان کی بازی لگادی۔
مولانا مظہر علی کی واپسی:
لیکن میں بیماری میں بے قرار تھا۔ مجھے اپنی قوم کی قوت عمل اور قوت برداشت کا حال معلوم تھا۔ اندیشہ تھا کہ ہم دو تحریکوں کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ مالی استحکام کی کمی اور حقے کی عادت نے قوم کو لمبی جدوجہد کے قابل نہیں چھوڑا۔ مالی استحکام کے معنی امراء کی جماعت پیدا کرنے کے نہیں، بلکہ قومی فنڈیابیت المال کی مضبوطی یا عوام کی خوشحالی کے ہیں۔ امراء ہرقوم کا بیکار حصہ ہوتے ہیں،بہادری کے معرکے کبھی ان لوگوں نے سرنہیں کیے۔ اس لیے میر ی پختہ رائے تھی کہ کشمیر کی تحریک کو آگے بڑھانا زیادہ بہتر ہے اور کالج ایجی ٹیشن میں باعزت سمجھوتہ ضروری ہے۔ مولانا مظہر علی میرے ہم خیال تھے۔ طلبہ کا معاملہ تھا، بات زبانی تھی، پرنسپل واقعہ کی صحت سے انکار کرتا تھا۔ اس لیے اس کے جرم کو اجاگر کر کے واقعہ کو اچھالنا تقاضائے شرافت نہ تھا۔ مولانا مظہر علی کشمیر سے لوٹ کر لاہور پہنچے۔ مولانا داؤد، مولانا احمد علی وغیرہ گرفتار ہوچکے تھے۔ مسلمانوں کا ایک مقتدر وفد پنجاب گورنمنٹ کے افسروں سے ملنے شملے جارہا تھا۔ سب نے مولانا کو شملے لے جانا مناسب سمجھا۔ ان دنوں یورپین حکام اپنے آپ کو بجاطور پر حاکم مطلق سمجھتے تھے، آئین کے روسے وہ مختار کل تھے۔ رائے عامہ بے حد کمزور تھی اس لیے کسی ایجی ٹیشن اور وہ بھی مسلمانوں کے ایجی ٹیشن کو خاطر میں لانا بے حقیقت قوم کو وقیع بنانا تھا۔ مجلس احرار کو ابھی اپنا وجود ثابت کرنے کی ضرورت تھی۔ حکام احرار کے چند افراد کو ضرور جانتے تھے، مگر اتنا ہی کہ یہ چند شوریدہ سر اور بے لگام لوگ ہیں۔ یہ قیاس بھی نہ تھاکہ کبھی ان کے پاس ہزار دو ہزاروالنٹیر ہوجائیں گے یورپین حکام ہم دوتین کوکونسل کے بے غرض اور ان تھک کام کرنے والے سمجھ کرعزت ضرور کرتے تھے۔ یا چند اور کو شعلہ بارمقررجان کر کسی قدر فسادی قوتوں کا مالک جانتے تھے۔ بنابریں اوّل اوّل تو انھوں نے یورپین پرنسپل کی حمایت میں اپنا رویہ سخت کر لیا اور باد کے گھوڑے پر سوار رہے لیکن جب وفد اپنا سامنہ لے کر واپس لوٹ آیا تو کسی قدر ہوش آئی۔ حکومت کے لیے حقیر سے حقیر فرقے کے رہنما کے خلاف ناپاک حملے کی حمایت مفت کی بدنامی اور دردسری تھی۔ پھر اندیشہ یہ ہوا کہ احرار سے کچھ اور ہوسکا یا نہ لیکن انگریزی اخلاق کی پردہ دری کرنے کے علاوہ تھوڑی بہت نفرت ضرور پھیلائیں گے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے لاہور کے حکام کو ہدایت کی کہ مولانا مظہر علی سے سلسلہ گفت و شنید جاری کر کے معاملہ خوش اسلوبی سے ختم کردیں۔ مبادا یہ واقعہ جماعتی نفرت کے لحاظ سے گہرا رنگ اختیار نہ کرے۔ چنانچہ سٹی مجسٹریٹ مولانا کو لاہور سٹیشن پر آکر ملا کہ گفتگو ختم نہ سمجھی جائے، ممکن ہے افسران ضلع مل کر کوئی بہترین حل نکال سکیں۔ حکومتیں حل نکالا نہیں کرتیں بلکہ سوچا سمجھا ہوا حل پیش کیا کرتی ہیں تاکہ سمجھوتے میں ان کا اپنا زاویہ نگاہ قائم رہے اور عوام میں حکومت کی شکست کا تصور نہ پیدا ہو۔ یہی حال مضبوط جماعتوں کا ہے۔ احرار اور وفد نے جس میں میاں عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خاں، عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر شامل تھے، حکومت کی درمیانی راہ کو پسند کیا۔ یعنی پرنسپل نے اعلان کیا کہ’’ میں نے وہ الفاظ جو میری طرف منسوب کیے گئے ہیں نہیں کہے میں پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت کرتا ہوں اور اگر میرے کسی عمل سے مسلمانوں کے دل کوصدمہ پہنچا ہو تو میں معافی کا خواستگار ہوں‘‘۔
جھگڑے کو جتنا بڑھایا جائے بڑھتا ہے۔ جھگڑنا صرف اسی صورت مفید ہے جس میں قوم و افراد کے سیاسی اور اقتصادی مفاد، مجلسی زندگی یا اخلاقی حالت پر اثر پڑتا ہو۔ہتکِ قومی یا شخصی کا بہترین حل معافی ہے تاکہ اس کادوبارہ اعادہ نہ ہو۔ملکوں اور قوموں میں اخلاقی حدود قائم رہیں۔ اچھا ہوا جو اس طرح معاملہ خوش اسلوبی سے ختم ہوا۔ قیدی رہا کر دیئے گئے، طالب علم کالج کو واپس چلے گئے۔
تبلیغی روح کہاں ہے؟:
حالاتِ زمانہ کو تعجب سے دیکھتا ہوں، دنیا کے لٹریچر کاافسوس سے مطالعہ کرتا ہوں……فضاؤں میں اسلام کے لیے برچھیاں تیرتی ہیں، لٹریچر میں نشتر چھپے ہیں۔ دنیا کے پاک ترین انسان کو بدترین مخلوق کا رنگ دیا گیا ہے۔ دنیا کے بہترین مذہب کو تاریک خیالات کا حامل بتایا گیا ہے۔ مگر ایسا کیوں نہ ہوتا غلامی جس قوم کا سیاسی امتیاز اور ساری قوم کاچندا مراء کے ہاتھوں کٹ پتلی ہو کر رہنا جس کی خصوصیت۔ ایسے امتیازات کی حامل ملت کے روحانی سردار کی کیا کوئی قدر کرے۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے دنیا کی بے خبری کی ذمہ داری کس پر ہے؟ ہم پر…… جنھوں نے دنیا کو دین پر مقدم کر کے دین اور دنیادونوں برباد کرلیے ہیں۔ اے اسلام کے بے روح نوجوانو کچھ سوچو کہ آئے دن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر الزام کیوں دھرے جاتے ہیں؟ اس لیے کہ دنیا ہم کو دیکھتی ہے اور ہماری صورت سیرت سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت و صورت کا اندازہ لگاتی ہے۔ درخت کی خوبی اس کے شیریں پھل میں ہے۔ کسی مذہب کی تعلیم کا اندازہ افراد پر اس کے اثر سے ہی تو لگایا جاسکتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر مسلمان آتش بجان مجاہد اور عالم حوصلہ مبلغ ہوتا مگر نہیں دنیا عبرت کی نظر سے ہماری طرف دیکھتی ہے۔ جن لوگوں کی طرف نگاہیں عزت و احترام سے اٹھنی چاہیے تھیں آج نفرت اور حقارت کی نظریں ان پر پڑتی ہیں۔
مسلمان جوانوں کا تصور جب خود مجھے آتاہے تو میں انھیں کھیت کے کنارے حقہ پی کر بیکار وقت ضائع کرتے پاتاہوں،یا شہر کی گلیوں میں سگریٹ سلگائے آوارہ پھرتے دیکھتاہوں۔ کیسی شرم کی بات ہے جنھیں چیونٹی سے زیادہ محنتی ہونا چاہیے تھا، وہ نکھٹو مکھی کی طرح ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر دوسروں کے آسرے زندہ ہیں۔ ایسے لوگوں میں روحِ جہاد اور روحِ تبلیغ ڈھونڈ نا وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہر مسلمان اپنے طرزِ عمل پر غور کرے کہ اس نے اسلام کی ترقی کے لیے کبھی کا م کیا؟ یا آئندہ اولاد میں کوئی ایسا جذبہ پیدا کررہے ہیں کہ اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کردیں؟جب ہم میں کوئی خوبی نہیں رہ گئی تو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہم خود ہی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر آئے دن حملوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر کھیت پر بیل ٹھیک نہ چلے تو بیچنے والے کو گالی دی جاتی ہے بچہ بد اخلاق ہو تو ماں باپ پر الزام دھرا جاتا ہے، اسی طرح بد اطوار مسلمان اپنے روحانی بزرگوں کی بدنامی کا باعث ہیں۔
آخر یہ ہم کو ہو کیا گیا ہے؟ میں نے تو علمائے دین تک کو دیکھا ہے جن کی روحِ تبلیغ کا شہرہ ہے کہ عمر بھرسے خاکروب گھر پر آتا ہے مگر ان کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ آؤ زندگی میں ایک دن اسے کلمے کی تبلیغ کردیں۔ ساری عمر غیر مسلم ہمسایہ پہلو میں بستا ہے۔ لیکن ایک لمحہ یہ خیال نہیں آتا کہ چلو چل کر اسلام کی خوبی اس کے ذہن نشین کریں۔ دوسروں پر اثر ڈالنے تو وہ اٹھے جس نے خود مذہب کا اثر قبول کیا ہو۔ کاروبار سے فرصت ہوتودین کی حقیقی ضرورتوں کی طرف دھیان جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مذہب تبلیغی اورجہادی روح سے محروم ہوگیا۔ ایسی سوسائٹی تالاب کا پانی ہے جس کا کہیں نکاس نہ ہو اور گندا ہو کر گندی مچھلیاں اور زہریلے مچھروں کی پرورش گاہ بن جائے۔ پس ہم اپنی بد عملی کے لحاظ سے اسلام کی جبین پر کلنک کاٹیکہ ہیں اور پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم پر سب وشتم کا حقیقی باعث۔ جب تک ہماری کثیر تعداد اپنے حال کی اصلاح نہ کرے گی تب تک میکلیگن کالج کے ایسے ہزاروں پرنسپل پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس برائی کے سدباب کی صورت یہی ہے کہ ہم بھلے بن جائیں، دنیا ہمارے عمل کو دیکھ کر نیک اثر قبول کرے۔ ہم میں ہر شخص مجاہد یا مبلغ ہو جس کا سینہ ان دونوں سے سرد ہو تو دوزخ کی آنچ اس کے لیے بے بس ہے۔
احرار نامِ خدازندگی میں ایک نیا عزم لے کر اٹھے ہیں۔ ان میں بھی بعض نوجوانوں کو بیکار وقت ضائع کرنے والا دیکھتا ہوں۔ گوانھوں نے زندگی خدا کے لیے وقف کر رکھی ہے، لیکن کئی کئی دن خدا کے کام سے غافل رہتے ہیں ۔ حالانکہ احرار کا فرض ہے کہ کسب معاش کے بعد اپنا ہر لمحہ صحت بنانے اور مخلوق خدا کی خدمت کر کے اسلام کا نام روشن کرنے میں صرف کریں۔ احرار اور مرد بے کار…… یہ بہت بڑا دھبا ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ جسم میں بے تاب روح اور ان تھک ارادہ پیدا کر کے ملت میں ہمت کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ قوم کا کوئی حصہ تو سوچے کہ بے ہمتی نے ہمار اکیا حال کر دیا۔ کیوں دنیا میں ہر کس و نا کس ہمیں چھوڑ کر پیغمبر پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناموس پر حملہ کرتا ہے۔ باہمت قوموں کے بزرگوں کی تعریف کی جاتی ہے، بے ہمت لوگوں اور بد عمل افراد کے پچھلے پرانے باپ دادوں کی قبروں پر لعنت برسائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور مولانا حبیب الرحمنؒ کی مثال پیش نظر ہے۔ وہ بہت کم بیکار بیٹھتے ہیں تبلیغ اور جہاد دونوں میں پورے ہیں ۔ احرار کے بعض دوست جیل کو بہادری سے کاٹ کر تبلیغی اور جماعتی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری مصیبتوں کا بڑا باعث ہیں۔جیل سے کامیاب واپس آکر جماعتی کاموں اور تبلیغ کی ضرورتوں سے کارکنوں کو بے نیاز سا پا کر باقی ہمدرد بھی وہی رنگ اختیار کرتے ہیں اور ہمارے دفتر بے کار سے لوگوں کے اڈے نظر آنے لگتے ہیں۔پس نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت کو بچانا اور اسلام کو بلند کرنا چاہتے ہو تو زندگی کا پروگرام بناؤ۔ روز نئے عزم کے ساتھ دنیا میں کام کرنے اٹھو ورنہ ایک بدزبان کی بدزبانی روکنے کے لیے ساری قوم کی آتش زیرِ پارکھنا دلیل دانائی نہیں۔
پھر پنجاب کو:
مولانا کے لاہور آنے کے بعد وزیر اعظم کشمیر سرہری کشن کو ل کا پرسنل اسسٹنٹ میری تیمارداری کے لیے ہاؤس بوٹ میں آیا۔ مزاج پرسی کے بعد یوں ہی اس نے سیاسیات کا ذکر چھیڑ دیا۔ اسے اپنی قوت تمیز پر بڑا ناز تھا۔ بے شک وہ اچھی سوجھ بوجھ کا آدمی تھا لیکن عوام کے ذہن کی بنیادی محرکات کو سمجھنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا اسے کوئی تجربہ نہ تھا ۔ اس کو یقین تھا کہ وہ انگریزی فوج کی مدد کے بغیر ریاستی فوج اور پولیس کی قوت سے حالات پر قابو پالیں گے۔ میں تحریک کشمیر کو عوام کے گہرے اقتصادی اور سیاسی زخموں کا نہ مندمل ہونے والا گھاؤ سمجھتا تھا۔ میر اقیاس یہی کہتا تھا کہ اگر مجلس احرار جان و دل سے مدد کو اٹھی تو حالات ریاست کے قابو میں نہ رہیں گے۔ یک بیک میں نے دیکھا کہ اس کی طبیعت پر میرے دلائل کا جادو چل گیا ہے، پھر وہ مبہوت سا ہو کر میرے وجوہات بحث کو سننے لگا اور میری امید سے کہیں زیادہ اثر لے کراٹھا۔دوسرے دن پھر وزیر اعظم کی طرف سے مجھے ملنے آیا پہلے کی نسبت اب اس کارویہ بدلا ہوا تھا۔ اب وہ زیادہ مؤدب تھا، میری ہر بات پر توجہ دیتا تھا ۔ اس نے وزیر اعظم کی طرف سے خواہش ظاہر کی کہ میں کشمیر کی سیاسیات کے متعلق اپنی کل والی رائے کو اپنی اوّلین فرصت میں قلم بند کردوں چنانچہ میں نے باوجود بیماری کے مکمل رائے اردو میں لکھ کر بھیج دی۔
اب مولانا مظہر علی واپس آگئے تھے۔ تعجب ہے کہ حالات نے میری رائے کے مطابق بدلنا شروع کیا۔ شیخ محمد عبداﷲ کشمیر کے لیڈر گرفتار ہوچکے تھے۔ ہم پر پابندیاں زیادہ ہوگئیں لیکن واقعات نے نازک صورت اختیار کر لی۔ تواناؤں کا ناتوانوں کی رائے کو رَد کر دینا کتنا آسان ہوتا ہے۔ وہ اکثر اوقات خطر ے کو برداشت کر نے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں مگر کمزوروں کی رائے کا احترام کرنا اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہم کشمیر سے ناکام لوٹ آئے ۔ مولانا کی ملاقات مہاراجہ صاحب سے بھی ہوئی۔ میں نے واپسی پر وزیر اعظم سے ملنا ضروری سمجھا۔ میں اپنی سیاسی زندگی کے ابتداہی سے سرہری کشن سے واقف تھا۔ وہ جالندھر ڈویژن کے کمشنر تھے جب میں ملازمت سے مستعفی ہو کر آیا۔ ضلع کی خلافت کمیٹی کا صدر او ر کانگرس کاسیکرٹری ہونے کے باعث ان کی تشویش کا باعث ہوا۔ وہ مجھے میرے وطن گڑھ شنکر ملنے آئے مگر میں نے وقت کے تقاضے اور خلافت اور کانگرس کی پیدا کردہ سپرٹ کے ماتحت ملنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ حکام سے عدم تعاون لازمی قرار پاگیا تھا۔ اب صورت مہمانِ عزیز کی تھی، سیاسی دستو ر یہی تھا، اُس دستور کی یہ باعزت استثناء تھی۔
واپس آکر پرامن جنگ کو ہم نے ضروری سمجھ لیا تھا۔ دلائل بغیر قوت کے بیکار ہیں۔ کمزور کی دلیل بے دھار کا کھانڈ ا ہے، نہ اپنے ہاتھ کی زینت نہ دوسروں کے گلے کی کاٹ۔ ہم نے قوت کی فراہمی پر پہلے سے زیادہ زور دیا۔ اب ریاست کو پہلے سے قوی تر خطرہ ہوگیا۔ شیخ محمد عبداﷲ کو رہا کردیا۔ گورنمنٹ آل انڈیا اور ریاستی حکومت نے ہمارے ساتھ معاملہ کرنے کی لائن تیار کی۔ ہمیں کشمیر آنے کی دوبارہ دعوت دی گئی۔ ہم پھر وہاں گئے ہم ریاست میں ذمہ دار حکومت کے طالب کیے گئے تھے۔ شیخ محمد عبداﷲ کے ذہن میں یہ ڈالا گیا تھا کہ اوّل تو احرار حکومت انگریزی کی مخالف جماعت ہے، گورنمنٹ آف انڈیا میں ان کا اثر معکوس ہے، دوسرے ان کا یہ مطالبہ انقلابی نوعیت رکھتا ہے، مناسب ہے کہ تم ریاستی لیڈر کی حیثیت سے اقل ترین مطالبہ کرو اور احرار سے بے نیاز رہو۔ بدنصیبی سے احر ا رکے خلاف یہ ہتھیار بڑا موثر ثابت ہو ا۔شیخ محمد عبداﷲ کو ہم اپنا ہم خیال نہ بنا سکے ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہ تھا کہ ہم بھی ریاست میں سے ذمہ دار حکومت کا کوئی طالب بنائیں۔
گورنمنٹ آف انڈیا اورہم دونوں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم آئندہ بیس برس کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اور لڑائی اسی بات کی ہے کہ عوام کو کس قدر اختیارات دیئے جائیں؟ اگر شیخ محمد عبداﷲ جیسا وسیع النظر بااثر ریاستی لیڈر دل سے ہمارا ہمنوا ہوتا تو ہم نہ صرف ریاست کشمیر بلکہ دوسری ریاست کے باشندوں کا بہت کچھ راستہ صاف کردیتے۔ فوج میں بہادری کے ہزار جوہر ہوں مگر کمان کرنے والے جرنیل ہم خیال نہ ہوں توقوت کمزور ہو جاتی ہے۔ ہم شیخ محمد عبداﷲ کی پارٹی کو بدیانت یا بزدل نہیں کہتے مگرمعاملہ سمجھنے میں انھوں نے بڑی ٹھوکر کھائی۔ رائے کا یہ اختلاف حوصلہ شکن ہو سکتا تھا لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری۔ سیالکوٹ پہنچ کر فوراً والنٹیروں کو ریاستی حدود میں داخل ہونے کا حکم دے دیا۔ خود مولانا مظہر علی نوجوانوں کا ایک دستہ لے کر ریاست کے حدود کی طرف بڑھے ۔ ریاست نے آسان کھیل سمجھ کر ان پر ہاتھ ڈالا لیکن ان کی گرفتاریوں سے گویا جنگل میں آگ لگ گئی۔
زور آزمائی:
گورنمنٹ آف انڈیا کی اطلاع پر ریاست نے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائش کا انتظام کررکھا تھا یہ ہماری قوت کا انتہائی اندازہ تھا۔ اس اندازے سے ہم بھی غیر مطمئن نہ تھے۔ وقت کی بات ہوتی ہے، ہم چھوٹے بڑے سب جان لڑانے کے لیے آمادہ تھے، جب ارادہ ہوتو کام کی راہیں نکل آتی ہیں۔ دنیا نے تعجب سے دیکھا کہ مردہ قوم زندگی کی کروٹیں لینے لگی۔ سیال کوٹ سے اکیس اکیس نوجوانوں کے جتھے رات کی تاریکی میں دشوار گزار راستوں سے گزر کر نور کے تڑکے جموں میں داخل ہوئے۔ جب گلی کوچوں سے تکبیر کے نعرے بلند ہوئے تو ہندوؤں نے سمجھا کہ محمود سومنات پر چڑھ دوڑا۔ دیویوں نے بچے چھاتیوں سے لگا لیے او رایشور جپ جاپ کرنے لگیں کہ ہرے بھگوان ان ملیچھوں کا ناش کرو یہ موئے منڈی کاٹے کہاں سے آگئے۔ پولیس بے خبری میں خراٹے لے رہی تھی وہ ڈراؤنے سپنے کی طرح اﷲ اکبر کے نعروں سے دھڑ دھڑا کر اٹھی۔ افسروں نے گھبرا گھبرا کر فال إن (FALL IN FALL IN ) کہنا شروع کیا۔ مشہور ہے کہ بد حواسی اورجلدی میں کوٹ کو برجس سمجھ کر بعض سپاہیوں نے اس کے بازوؤں کو ٹانگوں پر چڑھالیا۔ خیریہ تو مبالغہ آمیز اور مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے مگر ریاست کی پولیس کو اچانک ان حالات سے دوچار ہونا پڑا جن کے لیے وہ تیار نہ تھی۔ ہر طرف: آگئے! آگئے! ہوتا تھا مگر کسی کو یہ نہ سوجھتی تھی کہ یہ آگئے ہیں تو ان کا کریں کیا؟۔ سیالکوٹ کی ماؤں نے قرون اولیٰ کی عورتوں کا نقشہ پیش کردیا۔ ہر گھر میں نوجوانوں کو احرار کا ساتھ دینے کا تقاضا تھا۔ بہنوں نے بھائیوں کو پیارسے جدا کیا۔ بیویوں نے خاوندوں کو ڈبڈبائی آنکھوں سے الوداع کہی۔ جوش و خروش کے ایسے نظارے چشم فلک نے کہاں دیکھے ہوں گے۔ نورِ ایمان لوگوں کی آنکھوں سے ٹپکنے اور چہروں سے چھلکنے لگا۔ کفر دروازے بند کر کے دروازوں سے سہم سہم کر دیکھنے لگاکہ اسلامخون کا بھاؤ کیوں پوچھتا پھرتا ہے؟
ماں کی گود ہی اقوام وملل کی پرورش گاہ ہے، یہاں کا عزم بیٹے کی سربلندیٔ عمل کا باعث ہوتا ہے۔ سیال کوٹ کے نوجوانوں میں روحِ جہاد کی ذمہ دار سیالکوٹ کی مائیں بہنیں اور بیبیاں ہیں۔ اپنے عزیزوں کو الوداع سے شیر طبیعت مجاہد بنا دیا۔ میں نے کسی اسلامی شہر میں عورتوں میں سیاسی جلسوں میں شمولیت کا ایسا شوق نہیں دیکھا۔پس پہلے عورتوں نے ضرورتِ زمانہ کو سمجھا پھر بچوں کو سرفروشی کے لیے آمادہ کیا۔ جس ملک و قوم کی مائیں دنیا کے حالات اورضرورت سے بے خبر ہیں اس ملک کے نوجوان روحِ جہاد کوضائع کر کے حرم سراؤں کے خواجہ بن جاتے ہیں۔ پس قوموں کی درست تربیت عورتوں کی درست تعلیم پر ہے۔ سیالکوٹ کے بہادر فرزندوں نے ہندوستان کی سول نافرمانی کے سارے ریکارڈ کو مات کردیا۔ باوجود اس امر کے کہ متعدد مقامات پر وہ سنگینوں پر دھر لیے گئے لیکن انھوں نے سرہتھیلی پر رکھ کر سرد راتوں میں یلغار کر کے جموں کے قریب تندوتیزندی ہمت سے عبور کی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ۲۱؍ نوجوانوں کا دستہ شہر سے روانہ ہو کر رات کی تاریکی میں گم ہوجاتا تھا۔ سات دن کے اندر دس ہزار شیردل مجاہدوں نے سر حد کو عبور کر کے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا۔ بے مثال قربانی کی یہ مثال دیکھ کر ریاستی حکام کے دماغ پریشان ہوگئے اور ساری سلطنت کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ صرف جموں ہی ایک محاذ نہیں بنایا گیا۔ بلکہ جہلم کے راستے میر پور ایک اور پر امن جنگ کا محاذ تجویز ہوا۔ جہاں شہید الٰہی بخش کا ریاست کے ایک ذمہ دار افسر نے نوکِ سنگین سے سینہ چھید کر مسلمانوں کے سینوں میں ناسور ڈالا اور وہ ماہی بے آب کی طرح خاک اور خون میں تڑپا۔ موت کی بے کلی میں بھی کلمہ پڑھتے شہید ہوا ۔ خونِ ناحق کا بہنا تھا کہ پنجا ب کے غریب نوجوانوں کا خون کھولنے لگا۔ ہر طرف سے پیدل جتھے کشمیر کی سرحدات کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے پیدل مارچ نے عوام میں جوشِ جہاد کو اور زیادہ کردیا۔ خواجہ غلام محمد تیس سرفروشوں سے قرآن پر حلف لے کر لاہور سے رالپنڈی اور پھر کوہالہ پہنچا۔ حلف یہ تھا کہ جان دے کر بھی کوہالے کے پل کو بند کردیں گے۔ دریاجہلم وہاں کتنا پرجوش تیزوتند ہے، کئی نوجوان دریا میں گرے، کچھ سپاہیوں کی سنگینوں پرپڑے، تیسرے دن خبر آئی کہ احرار نے پل پر قبضہ کر کے آمدورفت کا دروازہ بند کردیا ہے۔ کشمیر کی تجارت کی یہی شاہراہ ہے، دودن میں ہزاروں لاریاں دونوں طرف رک گئیں۔ ریاست کو گولی میں تذبذب تھا کیوں کہ علاقہ پہاڑی اور ہر شخص مسلح تھا گولی چلنے سے ایسی آگ بھڑک اٹھنے کا اندیشہ تھا جس کا فرو کرنا ریاست کے بس کی بات نہ تھی۔
ریاست کا انتظام:
ریاست کے جیلوں کا سارا انتظام تارِ عنکبو ت ہوگیا۔ احرار قیدیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی۔ کہ خاردار جیل خانے سیر گاہ بن گئے۔ بد انتظامی کے باعث جو جب چاہے گھر کو آجائے، جو چاہے بغیر گرفتاری کے جیل میں داخل ہوجائے۔ اتنی بھاری قیدیوں کی تعداد کے لیے جیل کا سٹاف پورانہ تھا۔ یہاں جیل سچ مچ کھیل بن گئے۔ ابھی نئے احرار دستوں کی آمد آمد تھی۔ حالات سے گھبرا کر آخر ریاست نے انتظام وائسرائے کے حوالے کردیا۔ جس نے غیر معمولی (ایمرجنسی) گزٹ کے ذریعہ ریاستی انتظامات کو اپنے ہاتھ میں لے کر احرار کی قوت کا علانیہ اعتراف کیا۔ گزٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی مسلمان امراء کی طرف سے اعلان شائع ہونے شروع ہوئے کہ احرار کو سول نافرمانی اب بند کرنا چاہیے، اب سول نافرمانی کا جاری رکھنا انگریز کی ہمدردی کو بے سبب ضائع کرنا ہے۔ گویا انگریز ریاستو ں میں ترقی پسند آئین چاہتا تھا۔ اونچے طبقے کی کیا بات ہے انھیں اندیشہ یہ ہوا مباد ا حکومت ساری مسلم قوم کے سرسوار ہوجائے کہ تم سب باغی ہو اور وہ غریب احرارکے ساتھ گھن کی طرح نہ پس جائیں۔ دفتر میں گروہ درگروہ آئے کہ بھیا بہت ہولی اب بس بھی کر و ۔ ایسا نہ ہو کہیں سرکار ناراض ہوجائے میں نے کہا: بزرگو! نبرد آزمائی تو احرار او رسرکار میں ہورہی ہے، تمہاری سانس کیوں پھول رہی ہے؟ اطمینان سے تماشا دیکھتے جاؤ، ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ کرے مونچھوں والا اور پکڑا جائے ڈاڑھی والا۔ انھوں نے کہا سنا نہیں کہ اونٹوں کو بیگار میں پکڑتے تھے۔ تو احتیاط کے تقاضوں کے مطابق لومڑی بھی ڈر کے مارے بھاگ نکلی۔ کسی نے کہا: بی لومڑی تم کیوں بھاگی جارہی ہو؟ بولی بھیا اونٹوں کو بیگار میں پکڑا جارہا ہے کسی کا کیا بگڑے جو کوئی یہ کہہ دے کہ یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے اور میں بھی اونٹوں کے ساتھ دھر لی جاؤں۔
غرض میری خواہش تھی کہ امراء کی طرف سے سول نافرمانی کے خلاف اعلان نہ ہو مگر انسان کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔ جن کی اغراض حکومت کے ساتھ وابستہ ہوں وہ غریب جماعت کا ساتھ کب تک دے سکتے ہیں؟ حکومتِ ہند کو ضرورت تھی کہ ثابت کرے کہ نام نہاد سنجیدہ طبقہ احرار کے بجائے سرکار کے ساتھ ہے۔ کمزور طبیعت غریبوں پراس اعلان کا اثر ضرور ہوا مگرجلدی ہی احرار نے سنبھال لیا۔ گورداسپور اور گجرات کی سرحدات کی طرف سے والنٹیروں نے نئی یلغار شروع کردی۔ لکھنو کے مشہور احرار میاں منے خان گورداسپور کے قافلہ کے سالار تھے۔ علاقہ ہندوؤں کا تھا وہاں ہندو آبادی نے ان کو گھیرلیا اور ڈوگروں نے سب کو جوتوں سے پیٹنا شروع کیا۔ جب والنٹیر بے ہوش ہو گئے تو ان کو انگریزی علاقے میں پھینک کر چلے گئے۔ منے خان پھر اٹھ کر ریاست میں داخل ہوئے، ساتھی ان کے ساتھ تھے۔ پھر پہلے سا استقبال ہوا، اس دفعہ زیادہ زخم آئے۔ مرکزی دفتر نے اس سمت کی یلغار روک دی۔ دوسرے محاذوں پر گرفتاریاں دن دگنی رات چوگنی ہوتی گئیں۔
انگریزی انتظام:
انگریزی حسن انتظام کی ایک دنیا قائل ہے۔ او رسچ بھی یہ ہے کہ انگریز قوم اس زمانے میں بھی جرمنی سے دوسرے درجے پر خوش سلیقہ ہے۔ مگر احرار کی یلغار نے اسے بھی حواس باختہ کردیا۔ پنجاب کے جیلوں کی گنتی چار گنا ہوگئی۔ کمبل کپڑے نہ ہونے سے قید خانے محتاج خانے نظر آنے لگے۔ احرار قیدیوں کی حالت سڑک کے فقیروں کی سی ہوگئی جن کے جسم کے کپڑے غلیظ اور تارتار تھے۔ یہ تو جیلوں کے اندر کی صورت تھی، باہر برابر جوش ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔ حکامِ جیل یہاں تک مجبور ہوگئے کہ نووارد قیدیوں کے گلے میں تختیاں لٹکا کر احرار کے دفتروں میں چھوڑ جاتے تھے کہ انھیں صبح لے جائیں گے۔ ریل گاڑی سے بعض قیدی اترتے جاتے تھے تعداد پور ی کرنے کے لیے الوداع کہنے آئے اور والنٹیروں کو پولیس منت سماجت کر کے قیدی بنا کر لے جاتی تھی۔ کئی ایک کو دھکے دے کر جیلوں سے باہر نکال دیا گیا کہ اندر کا انتظام تباہ نہ ہو۔ میری اس تحریر اور انتظامی افراتفری کااس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوگا کہ سینکڑوں رضاکار موت کے منہ سے بچے۔ تاہم اکیس نوجوان نمونیہ سے جیلوں میں وفات پاگئے کیونکہ سردی سے بچنے کامناسب انتظام نہ تھا۔قلم قوم مسلم کے جو ش کا کماحقہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ صرف پنجاب سے ہمارے اندازے کے مطابق ۴۵؍ہزار نوجوان گرفتار ہوئے۔ ۵ہزار باہر کے صوبوں سے بھی شریک حال ہو کر جیل گئے۔ (جاری ہے)