(قسط نمبر 22)
مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ
اِلَسپ کمیٹی کی رپورٹ:
اِلَسپ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پگِٹ کمیٹی کی رپورٹ کی تائید کی ہے چنانچہ گورنمنٹ کے فیصلہ ۱۹۰۹ء کے متعلق وہ لکھتے ہیں۔
’’ہمارے خیال میں گورنمنٹ کے منشاء کے متعلق کو ئی شبہہ نہیں کیا جاسکتا یہ ظاہر ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ دوچیزوں میں تفریق کریں۔اولاً سال کے تین اہم دنوں اور باقی ماندہ دنوں میں اور دوسرے باضابطہ مجمع میں(مدح صحابہ) پڑھنے میں اور منفرداً مدح صحابہ پڑھنے میں ۔ان کا مقصد تین دن کے لیے مدح صحابہ روکنے کا تھا یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اس حکم کے مطلب کے متعلق کوئی شبہہ نہیں ہوسکتا تمام پبلک مقامات پر عام مجمعوں میں مدح صحابہ پڑھنے کی مخالفت صرف ان راستوں پر تھی جن پر سے تعزیہ یا دوسرے جلوس نکلیں اور جو ان کی سماعت کے اندر ہوں۔یہ بھی بتایا گیا کہ اگر انفرادی طور پر لوگ ایسے اشعار پڑھیں جن میں دوسروں پرسب وشتم ہوتو ان کے خلاف معمولی قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے او راس میں کسی دن کی تخصیص نہیں۔ اسی طرح سے ہمارا یہ خیال نہیں ہے کہ گورنمنٹ کا مطلب یہ تھا کہ تمام جلسے اور جلوس جن میں مدح صحابہ پڑھی جائے وہ عشرہ چہلم اور ۲۱؍ رمضان کے تین دن کے علاوہ ضروری طور پر ممنوع قرار دیئے جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے ایک عام اصول کے طور پر تحریر کیا تھا کہ ایسے جلسوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو نہ صرف یہ کہ جدید ہوں بلکہ ان سے نقض امن کا اندیشہ بھی ہو۔
اس طرح پر جو مطلب گورنمنٹ کے ریزولیوشن کا پہلے بیان کیا گیا ہے۔ اس کی تائید اِلَسپ کمیٹی نے بھی کی لیکن اِلَسپ کمیٹی کی رپورٹ ۱۵؍ جون ۱۹۳۷ء کوآجانے کے باوجود گورنمنٹ نے نہ اس کے متعلق کوئی فیصلہ صادر کیا اور نہ اس کی اشاعت کی۔
نومبر۱۹۳۶ء میں جب ہزایکسی لینسی گورنر صاحب کے وعدہ پر سول نافرمانی کی تحریک کو ملتوی کیا گیا تھا۔تو خیال یہ تھا کہ تین چار ماہ کے اندر کوئی نتیجہ نکل آئے گا۔ لیکن روز بروز التواہوتا رہا کمیشن کی رپورٹ بھی ۷؍ مہینہ کے بعد پیش ہوئی لیکن وہ بھی پبلک میں شائع نہ کی گئی اس زمانے میں نواب چھتاری وزیراعظم تھے۔ ان کے سامنے بھی مطالبہ پیش کیا گیا لیکن کچھ کارروائی نہ ہوئی۔ جولائی ۱۹۳۷ء کانگریس گورنمنٹ نے عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں لی۔ اس کے بعد اس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس معاملہ میں اپنا فیصلہ د ے اور کمیشن کی رپورٹ کو شائع کردے لیکن اس نے دیگر اہم مصروفیتوں کے ہونے کی وجہ سے مہلت طلب کی۔ سنیان لکھنو برابر صبر کے ساتھ انتظار کرتے رہے لیکن جب فروری ۱۹۳۸ء تک بھی کچھ نتیجہ نہ نکلا تو لوگوں میں بے چینی بہت زیادہ بڑھ گئی بالآخر ۲۸؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو گورنمنٹ نے مدح صحابہ کمیشن کی رپورٹ اور اپنا فیصلہ شائع کیا۔ اگرچہ گورنمنٹ کے فیصلہ کے الفاظ مختلف تھے لیکن مطلب و مقصود وہی تھا جو ۱۹۰۹ء کے فیصلہ کا تھا۔ اس فیصلہ کے پیراگراف ۵ میں گورنمنٹ تحریر کرتی ہے۔
’’گورنمنٹ اس بات کو صاف کر دینا چاہتی ہے کہ سنیوں کا یہ حق ہر گز مابہ النزاع نہیں ہے کہ آیا انہیں مجالس خاص میں خلفائے ثلاثہ کی مدح کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں بلاشک ان کو یہ حق حاصل ہے جھگڑا صرف اس بات کا ہے کہ کس طریقہ اور کن حالات میں ان کو لکھنو میں مدح صحابہ پڑھنی چاہیے۔ جب مختلف اقوام کے عقائد اور نقطۂ نظر میں فرق ہو تو گورنمنٹ کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ امن عامہ کو قائم رکھنے کے لیے مداخلت کرے اور عام لوگوں کی سہولت کا خیال رکھے۔‘‘
اس طرح پر مدح صحابہ کا حق جیسے پہلے تسلیم کیا گیا تھا گورنمنٹ کے اس فیصلہ میں بھی تسلیم کیا گیا۔ لیکن وقت اور حالات کا تعین کچھ نہیں کیا گیا۔
اس فیصلے کے بعد کی کارروائی:
مارچ ۱۹۳۸ء میں گورنمنٹ کے فیصلہ کے شائع ہونے کے بعد مجلس احرار نے اس مضمون کاریزولیوشن پاس کیا کہ گورنمنٹ کے فیصلہ کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے جب تک اس کا عمل نہ دیکھ لیا جائے نیز یہ بھی طے کیا گیا کہ اس فیصلہ کے متعلق مجلس علماء سے استفتاء کرکے اس کی ہدایت کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔
اس زمانہ میں شیعہ کانفرنس نے اس مضمون کا ریزولیوشن پاس کیا کہ کمیٹی کی رپورٹ اگرچہ کڑوی گولی ہے لیکن ہمیں اسے کھانا ہوگا۔ مدح صحابہ کمیٹی نے بھی گورنمنٹ کے اس فیصلے کا دبے الفاظ میں خیرمقدم کیا مگر گورنمنٹ نے اس کو نافذ نہ کیا اور فضاء کے بہتر ہونے تک اس کے نفاذ کو ملتوی کردیا۔
اپریل۱۹۳۸ء میں مجلس احرار نے بطور آزمائش محفل میلا د کے منعقد کرنے کا اعلان کیا جو قریب قریب کلیتہً سنیوں کی آبادی تھی۔ لیکن اس محفل میلاد کے منعقد ہونے پر لکھنو کی تمام پولیس اور افسران موقعہ پر پہنچ گئے۔ دفعہ ۱۴۴ کی دھمکی دی جس کی وجہ سے کارکنان نے اس وقت احتجاجاً جلسہ کو ملتوی کردیا۔
مذکورہ بالافیصلے کے نفاذ میں گورنمنٹ مسلسل دیر کرتی رہی لیکن اس طرز عمل سے فضا ء کے پرسکون ہونے میں کوئی مدد نہ ملی۔ برعکس اس کے شیعہ جو پہلے گورنمنٹ کی تجویز کو ماننے کے لیے کم وبیش تیار تھے۔ انھوں نے بھی سمجھ لیا کہ اگر فضاء کو مکدر رکھاجائے تو بحالات موجودہ مدح صحابہ کے عام مقامات پر نہ پڑھے جانے یامدح صحابہ کا جلوس نہ نکالنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے دراصل یہ کوشش ۱۹۳۷ء ہی سے شروع ہوگئی تھی جب کہ السپ کمیشن نینی تال میں اپنی رپورٹ تحریر کررہا تھا۔
’’جون ۱۹۳۶ء میں ایام عزاداری ختم ہونے کے بعد شیعوں کی طرف سے حملہ ہوا اور اس کے بعد لکھنو میں بلوہ ہوگیا۔ اس سے قبل بھی چہلم کے موقعے پر شیعوں کا جو جلوس پاٹانالہ میں دارالمبلغین کے سامنے کو گذرا تھا۔ اس کے متعلق بھی شکایت تھی کہ اس نے بہت سے اشعار سب وشتم کے پڑھے تھے۔ مثلاً
وہ ہاتھ اگر آگ میں جل جائے تو اچھا جس ہاتھ سے شبیر کا ماتم نہیں ہوتا
او کہنے والے تعزیہ داری حرام ہے دشمن ہے تو نبی کا عدوِّ امام ہے
جہاں میں کس لیے بے دیں ہمارا دل جلاتے ہیں عزداری کو کیا سمجھے ہیں جو بے دیں مٹاتے ہیں
یہی ہے بخشش امت کا ساماں سوچ لے بے دیں لعین ابنِ لعیں ہیں عزاداری مٹاتے ہیں
غرض فضاء کے پرسکون ہونے کے بجائے روز روز فضاء کے مکدر ہونے کی صورتیں پیدا ہوتی رہیں۔ اور گورنمنٹ کے اعلان کے بعد اس میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ دارالمبلغین پر حملہ کیا گیا جلوس پر گلی میں سے اینٹیں پھینکی گئیں۔ اور بلوہ ہو ا اس کے نتیجہ میں مولوی عبدالشکور اور ان کے رفقاء کو دفعہ ۱۰۷کے ماتحت گرفتار کرلیا گیا۔
اس نوبت پر مولانا حسین احمد صاحب جو شروع سے تحریک مدح صحابہ کے حامی او راس کے پرجوش مددگار رہے تھے انھوں نے مداخلت کی اور سنیان لکھنو کے لیے تحریری اعلان شائع کیا کہ ان کو موقعہ دیا جائے کہ وہ گورنمنٹ سے کوشش کر کے اس مسئلہ کو ختم کر ادیں ۔آپ نے اس دوران میں سنیان لکھنو کو صبر کے ساتھ انتظار کرنے کی تلقین کی اور کسی قسم کی تحریک سول نافرمانی وغیرہ شروع نہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ نیز یہ بھی یقین دلایا کہ اگر خدانخواستہ ان کو اس مسئلہ کے حل کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو وہ خود مدح صحابہ کے ایجی ٹیشن میں سب سے آگے ہوں گے چنانچہ مولانا حسین احمد صاحب قبلہ کے احترام میں سنیان لکھنو پھر خاموش ہوگئے اور صبر وسکون کے ساتھ حکومت کے تصفیہ کا انتظار کرنے لگے۔
اس دوران میں مولانا حسین احمد صاحب کی گفتگو حکومت یو پی اور کانگریس سے ہوتی رہی اور حکومت کی طرف سے التواء کا عذرہوتا رہا۔ اور مجلس احرار اور مجلس تحفظ ناموسِ صحابہ کی طرف سے پبلک کو یقین دلایا جاتا رہا کہ عنقریب گورنمنٹ اپنے مذکورہ بالافیصلہ کو جامۂ عمل پہنادے گی لیکن اس کو مہینہ دو مہینہ چار مہینے چھ مہینے گذر گئے۔ مگر ہنور روز اول رہا یہاں تک کہ مجبور ہو کر حکومت کے مذکورہ بالااعلان کے شائع ہونے کے سال بھر انتظار کرنے کے بعد مولانا عبدالشکور صاحب و دیگر حضرات نے ایک روز یہ مطبوعہ اعلان شائع کرادیا کہ امین الدولہ پارک میں مدح صحابہ کا جلسہ منعقد ہوگا۔اس اعلان کے شائع ہوتے ہی گورنمنٹ نے مولانا موصوف اورا ن کے رفقاء کو حسب دفعہ ۱۰۷گرفتار کر لیا۔ اب مولانا حسین احمد صاحب نے حکومت یوپی کی وعدہ خلافی سے مجبورہو کر اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ سنیان لکھنو کو مزید انتظار کرنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے۔ چنانچہ اس کے بعد وہ خود اپنے وعدے کے مطابق میدان عمل میں اترآئے۔ احرار کی جانب سے بھی سول نافرمانی شروع کردی گئی۔
اس سول نافرمانی کا نتیجہ جو کچھ ہو ا وہ زیادہ دنوں کی بات نہیں۔ یعنی حکومت نے سال بھر میں ایک دن(یعنی ۱۲؍ ربیع الاول کو)جلوس نکالنے کا وعدہ کیا۔اب شیعہ اس بات پر بہت چراغ پاہیں ۔ حالانکہ سنیوں کے ساتھ جو بے انصافی کی گئی ہے اس کی تلافی اب تک نہیں ہوئی ہے اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سنی تین دن کی مدح صحابہ کی پابندی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان تین دنوں کے علاوہ سال کے بقیہ ایام میں ۱۹۰۸ء سے ان کا حق علانیہ مدح صحابہ پڑھنے کا تسلیم شدہ چلاآرہا تھا۔
مصالحت کا سوال:
اب مصالحت کا سوال پھر اٹھا ہے لیکن سوا ل یہ ہے کہ مصالحت کس طرح ہو اگر سنیوں کو مدح صحابہ کے لیے ۱۰یوم دیئے جاتے تو ممکن تھا کہ مصالحت ۹ پر ہوجاتی اگر ۵ دیئے جاتے تو ممکن تھا کہ ۴پر مصالحت ہوجاتی لیکن اب ملا کیا ہے جس پر مصالحت کی جائے ۔موجودہ حالات میں تو مصالحت کی صورت صرف یہ ہوسکتی ہے کہ سنی اپنے حق سے بالکلیہ دستبردار ہوجائیں۔
لیکن واضح رہے کہ یہ مسئلہ کا تصفیہ پورے طور پر لکھنو سے باہر رہنے والے حضرات کے طے کرنے کا نہیں ہے جب تک کہ سنیان لکھنو کا اطمینان نہ کردیا جائے ۔اس ہیجان کے ختم ہونے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔لکھنو میں سنیوں کی تعداد اَسی ہزار(۸۰۰۰۰) کے قریب ہے اور شیعوں کی تعداد بیس ہزار(۲۰۰۰۰) کے قریب ہے۔ سال بھر میں شیعوں کے بیسیوں جلوس نکلتے ہیں لیکن سنیوں کا کوئی جلوس خالصتہً سنی ہونے کی حیثیت سے نہیں نکلتا۔ لکھنو میں ان کو کسی جلوس ہی کے نکالنے کی ممانعت نہیں بلکہ جلسے کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ وہ جلسوں میں بھی مدح صحابہ نہیں پڑھ سکتے پچھلے ایجی ٹیشن میں جن اشعار کے پڑھنے پر سنیوں کی گرفتاریاں ہوئیں ان میں سے بعض بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہوگا کہ لکھنو میں سنی کس حق کے لیے تکلیفیں اٹھارہے ہیں اور وہ کون ساحق ہے جس کی مخالفت تبرا پڑھنے کی دھمکی دے کر کی جارہی ہے۔
خداوندا قسم تجھ کو شفیع روز محشر کی محبت دے ابوبکرؓ وعمرؓ وعثمانؓ وحیدرؓ کی
خدا شاہد نبی شاہد زماں شاہد صداقت کل جہاں نے مان لی صدیق اکبر کی
مشرف جب ہوئے فاروق اعظم دین احمد سے صدا کانوں میں پہنچی ہر طرف اﷲ اکبر کی
ہمیں اے جذبہ اسلام تجھ سے کام لینا ہے ابوبکرؓ و عمرؓ عثمانؓ علیؓ کا نام لینا ہے
أَشِدّاءُ عَلَی الکفار ان کی شاں میں آیا کلام اﷲ کی تفسیر ان کا نام لینا ہے
نہ تخت روم لینا ہے نہ ملک شام لینا ہے ہمیں دنیا کے ہر گوشے میں حق کا نام لینا ہے
ابوبکرؓ وعمرؓ عثمانؓ علیؓ کا ہم پہ احساں ہے ہمیں اس واسطے یہ نام صبح وشام لینا ہے
جلال وجذبۂ فاروق اعظم ہم کو دے یارب اگر دنیا میں ہم سے خدمت اسلام لینا ہے
دل آزاری کسی کی ہم نہ کرتے تھے نہ کرتے ہیں ہمیں تو صرف آقاؤں کا اپنے نام لینا ہے
شجاعانِ جہاں ڈرتے تھے فاروق ؓدلاور سے کہ ان کا سامنا تو موت کا پیغام لینا ہے
یہ ہیں وہ اشعار جن کے متعلق شیعوں کا قول ہے کہ ان کو سن کر انھیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ یاللعجب! لیکن حکومت کے لیے تو صرف شیعوں کا کہنا کافی نہیں ہونا چاہیے دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ آیا عام طور سے اور عام اصول اخلاق وآداب معاشرت کے لحاظ سے یہ اشعاردل آزار ہیں یا نہیں البتہ اس بات کے متعلق شیعوں کو اطمینان کرایا جاسکتا ہے کہ ان جلسوں اورجلوسوں میں کبھی ایسے اشعار نہ پڑھے جائیں گے نہ ایسی باتیں کہی جائیں گی جن سے اشارۃً یا کنایتہ ان پر کسی قسم کا حملہ ہو۔
ایک مطالبہ حضرات شیعہ کی جانب سے یہ کیا جاتا ہے کہ جب سنیوں کو ایک حق مل گیا تو ان کو چاہیے کہ اپنے بھائیوں کی دل آزاری کے خیال سے دستبرادار ہوجائیں ۔مجھے اخلاقی طور سے ان کے اس مطالبہ سے انکار نہیں اور میں ایسے بہت سے حضرات کو جانتا ہوں جنھوں نے بارہا یہ کہا کہ جلوسوں کی اگر عام اجازت ہوجاتی ہے تو سنیوں کو ان کے ترک کردینے میں کوئی عذر نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت تک اجازت ملی بھی ہے یا نہیں اگر بارہ مہینہ کی عام اجازت مل جاتی ہے۔ اور پھر شیعہ حضرات لکھنو میں ایک اور جلوس سکون کے ساتھ نکل جانے دیتے تو پھر بے شک ان کو یہ کہنے کا حق ہوسکتا تھا کہ وہ جلوسوں سے دستبردار ہوجائیں۔ لیکن جب زبردستی اور زور سے اس جائز حق کے استعمال سے روکاجاتا ہے تودوسرے لوگوں اور بالخصوص سنیان لکھنو سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس حق سے دستبردار ہوجائیں گے ایک ناممکن بات ہے۔
مولانا حسین احمد صاحب اور تحریک مدح صحابہ:
اکثر حضرات مولانا حسین احمد صاحب اور احرار کے متعلق یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ انھوں نے تحریک مدح صحابہ میں کیوں حصہ لیا۔ لیکن شاید ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب حضرت مولانا حسین احمد صاحب کا بیان اِلَسپ کمیٹی کے سامنے بطور گواہ کے ہوا تھا تو انھوں نے صراحت سے اس زمانہ کے حالات کے اعتبار سے مدح صحابہ کی مخالفت کو مداخلت فی الدین فرمایا تھا۔ اور اس کی وجوہات تفصیل کے ساتھ کمیشن کے سامنے پیش کی تھیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے جسے وہ بار بار مختلف موقعوں پر بیان فرما چکے ہیں۔ تحریک مدح صحابہ میں شرکت نہ شیعوں کی مخالفت پر مبنی ہے اور نہ اس کا باعث پچھلی تحریک مدح صحابہ ہے۔ جب مدح صحابہ کا ایجی ٹیشن ملتوی ہوا اور مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ قائم ہوا تو مولانا حسین احمد صاحب ہی مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے روح ورواں تھے۔ مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ میں بعض شیعہ امیدوار سنی امیدواروں کے مقابلہ میں منتخب کیے گئے اورمولانا موصوف نے ان امیدواروں کی پوری تائید کی اور بعض شیعہ امیدوار توایسے ہیں جو صرف مولانا موصوف کی امداد سے ہی کامیاب ہوئے۔مجلس احرار نے بھی خود لکھنو میں شیعہ امیدواروں کی پورے طور پر تائید کی ۔ ہمیشہ سے ان کا دعویٰ ہے کہ مدح صحابہ کی جنگ ایک شہری اور مذہبی حق کی جنگ ہے وہ شیعوں کی عداوت یا اقلیتوں کی حق تلفی کرنے پر مبنی نہیں ہے۔ چنانچہ ہمیشہ گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ بجائے دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ اور دفعہ ۱۸۸ میں سزا دینے کے مدح صحابہ پڑھنے والوں کو تعزیرات ہند کورٹ سے اس امرکا فیصلہ حاصل کرسکیں کہ آیا مدح صحابہ پڑھنا قانوناً جرم ہوسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ میں سارے سُنَّیَان ہندوستان کی طرف سے علیٰ رُؤسِ الاشہاد یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر ہندوستان کا کوئی ہائی کورٹ یہ طے کردے کہ مدح صحابہ پڑھنا دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند کا جرم ہے تو ہم اپنے اس حق سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوجائیں گے۔ اسی طرح سے اگر تبرا کے متعلق مقدمہ چلا کر ہائی کورٹ سے تجویز لے لی جائے تو وہ بھی ہمارے لیے قابل پابندی ہوگی لیکن گورنمنٹ نے کبھی مدح صحابہ پڑھنے والوں پر ہمارے مطالبہ کے موافق اور خود گورنمنٹ کے ۱۹۰۹ء کے ریزولیوشن کے مطابق مقدمہ نہیں چلایا۔
ان معروضات سے یہ معلوم ہوگا کہ اس تحریک کے چلانے میں نہ اکثریت کا غرور ہے نہ اقلیت کی تحقیر بلکہ لکھنؤ کے ۸۰ ہزار پریشان حال سنیوں کے ایک جائز مطالبہ اور حق کی تائید ہے۔
۱۹۳۹ء میں کانگریس حکومت کے زمانہ میں بارہ وفات کے روز جلوس مدح صحابہ نکالا گیا۔ اس وقت صوبہ میں سرہنری ہیگ گورنر تھے پھر ۱۹۴۰ء میں جب صوبہ میں جمود پیدا ہوچکا تھا اور مسٹر گوبندبلبھ پنتھ کی وزارت مستعفیٰ ہوچکی تھی۔ صوبہ متحدہ کے گورنر سرمارس بیلٹ کے زمانہ میں بھی یہ جلوس نکلا۔ اسی طرح برابر دوسال تک یہ جلوس نکالاگیا۔ اس سال ۱۹۴۱ء میں بھی حسب دستور مسلمان جلوس مدح صحابہ کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ دفعۃً ۵؍ اپریل ۱۹۴۱ء کو سنیوں کے ایک وفد کو جو جلوس مدح صحابہ کے راستے کے لیے مسٹر یونیس لائیڈینے ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا تھا موصوف نے بتایا کہ شیعوں کو ایک جوابی جلوس کی اجازت دی جانے والی ہے اور یہ بتایا کہ اس میں تاریخی نکات ہیں جو نظم میں بصورت درخواست انجمن تنظیم المومنین کے سیکرٹری نے پیش کیے ہیں۔ ایک شیعہ مجسٹریٹ نے جو اس وقت موجود تھے یہاں تک کہا کہ اس کو دکھلا دیا جائے لیکن ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ یہ مناسب نہ ہوگا کہ کسی کے جذبات کو مجروح کیا جائے۔ اس لیے کہ کئی روز قبل اخبار تنظیم میں جوشیعہ جماعت انجمن تنظیم کا ایک ذمہ دار آرگن ہے یہ شائع ہوچکا تھا کہ مسٹر سید اشرف حسین وکیل نے جو انجمن تنظیم کے سیکرٹری ہیں تبرا کے جلوس کے لیے ایک درخواست ڈپٹی کمشنر کو دی ہے۔ اس اطلاع کے ملنے پر کہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ایک ایسے غیر قانونی جلوس کی اجازت دینے والے ہیں جو صحابہ کرام کی ذات پر تبراؤ تنقید یاقدح کرے گا۔ لکھنؤ کے مسلمانوں میں ایک آگ لگ گئی۔ا ور انتہائی بے چینی پیدا ہوگئی۔
چنانچہ ایک بہت بڑا جلسہ مجلس احرار لکھنؤ اور انجمن ناموس صحابہ کا مشترکہ احاطہ شیخ شوکت علی مرحوم میں ۷؍اپریل ۱۹۴۱ء کو بصدارت مسٹر وصی احمد منعقد کیا گیا۔ جس میں ۵۰ہزار مسلمانوں نے شرکت کی۔
مقررین نے حکومت کو انتباہ کیا کہ اگر خدانخواستہ اس جلوس کی شیعوں کو اجازت دے دی گئی تو ہم سنی مسلمان اپنی جانیں قربان کردیں گے اور کسی طرح ایسے جلوس کونہ نکلنے دیں گے۔
اس جلسے میں دوروز کے لیے مکمل ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ چنانچہ ۸ اور ۱۰؍ اپریل(تین روز) تک شہر میں مکمل ہڑتال منائی گئی۔ ۸؍اپریل ۱۹۴۱ء اخبار ’’پانیر‘‘ میں مسٹر لوئیس لائیڈ کایہ حکم نکلا کہ شیعوں کو ایک جوابی جلوس کی اجازت بارہ وفات کے روز دے دی گئی اور شیعہ جلوس شاہ نجف سے شرغہ پارک تک کشمیری محلے میں رہے گا۔ سنیوں کو اجازت نہ ہوگی کہ وہ اس جلوس کے قریب جائیں۔شیعہ اخبار تنظیم نے اپنا ایک اسپیشل نمبرنکالا جس میں یہ بتایا گیا کہ شیعہ جس کے لیے ہر ممکن مساعی سے جدوجہد کررہے تھے وہ حق مل گیا، کانگریس حکومت کی ناانصافی انصاف سے بدل گئی۔ یہ یاد رہے کہ سرسلطان احمد وغیرہ کانگریس حکومت کے زمانہ میں بھی اس جلوس کے لیے کوشش میں رہے مگرناکام رہے۔ یہ اطلاع جیسے ہی مسلمانوں کو معلوم ہوئی ۔ انھوں نے فوراً ہی ایک جلسہ احاطہ شوکت علی میں سہ پہر کو طلب کیا لیکن کرفیو آرڈر کے نفاذ کے باعث دوسرے دن صبح کو ہوا۔اگرچہ ہر طرف پولیس تھی اور مولانا عبدالقیوم (کان پوری حال مقیم حیدر آباد سندھ) ،سالار اعظم جیوش احرار یوپی مسٹر وصی احمد، سیکرٹری مجلس احرار حافظ مشتاق احمد، سابق صدر مجلس ٍاحرار اسلام غازی منے خاں اور مولانا کلیم اﷲ وغیرہ کے پہلے سے وارنٹ نکال دیے گئے تھے کہ یہ لوگ جلسہ ہونے سے قبل ہی گرفتار ہوجائیں۔ لیکن یہ لوگ کسی نہ کسی طرح سے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔ اور انھوں نے مولانا عبدالشکور صاحب کے نائب مولوی کلیم اﷲ کے ہاتھ پر اپنی اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بیعت کی اور مسلمانوں سے شرعی عہد لیاکہ وہ اب ایسی حالت میں زندہ رہنا نہیں چاہتے اور نہ کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب ہے ۔عین جلسے میں یہ لوگ گرفتار کر لیے گئے۔
تین بجے کے بعد اسی ۹؍اپریل سہ پہر کے وقت ایک جلسہ پھر ہوا جس میں مولانا عبدالشکور خاں صاحب نے بھی تقریر کی اور آخر میں یہ اطلاع ملی کہ ڈپٹی کمشنر نے قدح صحابہ کا جلوس ایک ہفتہ کے لیے بند کردیا۔ اسی کے ساتھ بارہ وفات کے روز جلوس مدح صحابہ کو بھی نقص امن کے پیدا ہونے کے اندیشے سے روک دیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کے اس اعلان سے صورت بدل گئی۔ کیوں کہ شیعہ جلوس روک دیا گیا تھا۔ لیکن مدح صحابہ کے جلوس پر یہ پابندی کسی طرح سے مبنی برانصاف نہ سمجھی گئی۔ کیوں کہ ۳۱؍مارچ ۱۹۳۹ء کو یو۔پی گورنمنٹ نے جو کمیونک شائع کیا تھا۔ اس میں یہ صاف تصریح تھی کہ ہر حالت میں یہ جلوس اٹھے گا۔ صرف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راستہ کا تعین کرے گا۔
چنانچہ ۱۰؍ اپریل کو بارہ وفات کے روز تقریباً ایک ہزار سے زائد مسلمانوں نے عیدگاہ سے جلوس نکالا۔ اور گرفتار ہوئے۔ اگرچہ ۹؍اپریل کو سہ پہر کے وقت یہ اطلاع ملی کہ گورنمنٹ نے ۳۶ گھنٹہ کاکرفیو آرڈ نافذکردیا ہے تاکہ شیعہ اور سنی گھروں سے نہ نکلیں۔
دوگھنٹے کا وقت ملنے پر سات بجے سے پہلے ہی ہزاروں مسلمان عیدگاہ پہنچ گئے۔ اس اطلاع کے ساتھ ہی پولیس اور سوار بھی پہنچے اور رات بھر ان کا محاصرہ جاری رکھا گیا حتیٰ کہ ہندو خوانچہ والے بھی نہ جاسکے اور وہ لوگ بھوکے پیاسے رہے ۔ ۲ ؍بجے دن سے عین جلوس نکلنے کے وقت سے سول نافرمانی شروع کردی گئی اور چارچار آدمیوں کے جتھے مدح صحابہ پڑھتے ہوئے گرفتار ہوئے اگلی شام تک ایک ہزار سے زائد گرفتار ہوگئے، جس میں مولانا انور صابری ، مولوی وحیدالحسن وکیل، حافظ مشتاق احمد لدھیانوی، صدر احرار نذیر احمد ایڈوکیٹ، مسٹر بادشاہ علی، مسٹر عبدالحی اور ڈاکٹر محبوب وغیرہ بھی شامل تھے۔ رات کو تمام لوگ چھوڑ دیے گئے اور پانچ روپیہ فی کس جرمانہ کیا گیا۔ لیکن مولانا صابری، حافظ مشتاق احمد، مسٹر نذیر احمد ایڈووکیٹ کو تین تین ماہ کی قید سخت اور دو سوروپیہ جرمانہ کیا گیا۔
۱۱؍اپریل جمعہ کو عید گاہ میں مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں مولانا عبدالشکور صاحب نے تقریر کی اور ۱۴؍اپریل تک کے لیے سول نافرمانی بند کر دی گئی۔
۱۴؍اپریل دوشنبہ کو عیدگاہ میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا۔ اس کے بعد سول نافرمانی شروع ہوگئی اور ۸؍سو سے زائد مسلمان گرفتار ہوئے خود مولانا عبدالشکور صاحب اورمجلس احرار کے تمام بڑے بڑے لیڈر پہلے ہی گرفتار ہوگئے تھے اورغازی منے خاں، مولانا عبدالقیوم، مسٹر وصی احمد، مولانا کلیم اﷲ پر دفعہ ۳۰۲لگائی گئی۔ سول نافرمانی جاری ہے اور چھبیس سو سے زائد مسلمان بارہ وفات ۱۰؍اپریل سے اب تک اپنے کو گرفتار کراچکے ہیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ مدح صحابہ پڑھ کر جاری ہے۔
مسلمان صرف ایک جائز حق کے لیے جوہندوستان کے دوسرے فرقوں کو حاصل ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی تعریف کریں۔ قربانیاں کررہے ہیں۔ آج لکھنؤ میں حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ کی تعریف کرنا اور ان کا نام لینا جرم ہے جن کو دنیا کی بڑی بڑی غیر مسلم ہستیاں خراج عقیدت پیش کرچکی ہیں۔
لکھنو ٔکی سرزمین پر شیعہ حضرات سا ل بھر میں ایک سو چوالیس جلو س نکالتے ہیں لیکن سنی مسلمان اپنا کوئی مذہبی جلو س نہیں نکال سکتے جو سنیوں کا خاص مذہبی جلوس ہو۔ (جاری ہے)