(قسط نمبر 21)
مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ
سنّیوں پر پابندیاں:
ظاہر بات یہ ہے کہ ماتمی جلوس کے روز شادی کا جلوس گوارانہیں کیا جاسکتا لیکن جس ملک میں مختلف العقائد ومختلف المذاہب اقوام آباد ہوں وہاں ایک دوسرے کے رسم ورواج کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ اور عشرہ محرم کے روز شادی کے جلوس کی بھی ممانعت نہیں کی جاتی تو پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ سنیوں کو ان کے مخصوص طریقے سے محرم کے جلوس نکالنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ بالخصوص جب ان کے راستے اور اوقات شیعوں کے جلوس کے راستوں اور اوقات سے بچا کر مقرر کیے جاتے اور کسی قسم کے تصادم کا اندیشہ نہ ہوتا ۔ لیکن گورنمنٹ کی اس خواہش کی وجہ سے کہ دونوں جلوس پھر آئندہ چل کر ایک ہوجائیں۔ سنیوں کے جلو س پر بہت سی پابندیاں عائد کی گئیں جن میں سے حسب ذیل پابندیاں قابل توجہ ہیں۔
(۱) کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جو پابندی عشرہ محرم چہلم اور ۲۱ رمضان کے جلوسوں پر عائد کی جانے والی تھی۔ اس پر شیعوں نے کچھ اعتراضات کیے تھے۔ اور اس پر ایک ترمیم پیش کی تھی۔ گورنمنٹ نے ان کی ترمیم کو منظور کر لیا اور پابندی حسب ذیل الفاظ میں درج کر دی گئی۔
’’کوئی شخص ایسے اشعار یا نظمیں یا دوسرے ایسے الفاظ جن میں ابوبکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عہنم کی تعریف کی گئی ہو یا ان کی مدح میں ہوں کسی دوسرے اسلامی جلوس کے راستے پر نہ پڑھ سکے گا اور نہ ایسے مقام پر پڑھ سکے گا جہاں سے جلوس تک آواز پہنچ سکے اور نہ کوئی مجمع کسی پبلک مقام پر ایسے مدحیہ اشعار اور نظمیں پڑھ سکے گا ۔ اگر کوئی شخص احکام مذکورہ بالا کی خلاف ورزی کرے گا ۔ تو وہ فوراً گرفتار کر لیا جائے گا۔ اور اس پر حسب دفعہ ۲۹۸ یا کسی دوسری مناسب دفعہ تعزیرات ہند کے ماتحت مقدمہ چلاجائے گا۔ (دفعہ ۹ ضمیمہ گورنمنٹ ریزولیوشن)
(۲) محرم کے جلوس یا تعزیوں کے ساتھ ہر ایسا جھنڈا لے جانے کی ممانعت کی گئی جو شباہت وشکل میں علم یعنی حضرت امام حسین کے جھنڈے یا جھنڈوں کے مطابق نہ ہوں اور جو سوائے حضرت امام حسین یا ان کے علمبردار حضرت عباس کے علاوہ کسی اور شخص کے اعزاز میں ہو، (پیراگراف۹ گورنمنٹ ریزولیوشن)
حسب مذکورہ بالایہ پابندیاں محض تین ایام کے لیے تھیں یعنی عشرہ محرم چہلم اور ۲۱ رمضان کے لیے ان پابندیوں کی تائید میں گورنمنٹ نے حسب ذیل الفاظ تحریر کیے۔
’’بہت پرجوش سنی کے لیے بھی اس امر پر استدلال کرنا ممکن نہیں کہ لکھنو میں اس کے ہم مذہبوں کویہ اختیار حاصل ہے کہ حضرت امام حسین کی شہادت کی یادگار میں جو جلوس لکھنو کی سڑکوں پر نکالے جاتے ہیں۔ اور جن میں شرکت کی اس کواجازت دی گئی ہے۔ ان جلوسوں کو بے وقت اور بلا اختیار حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہم کی مدح سرائی کے جلوس میں مبدل کردے۔ کمیشن کی اکثریت کی رائے جس سے لیفٹیننٹ گورنر کو کلی طور پر اتفاق ہے یہ ہے کہ اس کی خرابی کو اس حد تک دور کیاجائے جہاں تک اس سے کوئی غیر ضروری مداخلت سنیان لکھنو کے اس حق میں نہ ہو جو ان کی ہز مجسٹی کی رعایا ہونے کی حیثیت سے تمام دیگر رعایا کے ساتھ حاصل ہے۔ کہ وہ مناسب مقامات کے اوپر اپنے عقائد کے خصوصی اصولوں کا اعلان کرے اگر سنی گواہان جن کی شہادت کمیٹی کے سامنے ہوئی ہے ان کا ہر لفظ بھی مان لیا جائے پھر بھی یہ سوال باقی رہے گا کہ وہ خرابی جس کی وجہ سے لکھنو کے محرم کے جلوسوں کا طریقہ کلیت بدلنے کا اندیشہ ہے۔ وہ کسی ایسی کارروائی سے رفع ہوسکتی ہے جو تجویز متذکرۃ الصدر سے کم ہو‘‘ (پیراگراف ۱۲)
اس طرح پریہ ظاہر ہے کہ جو کچھ جھگڑا قضیہ مدح صحابہ پڑھنے اور چاریاری جھنڈو ں کے نکالنے پر تھا اس کی ممانعت محض تین دن کے لیے کی گئی تھی اور وہ بھی اس لیے کہ گورنمنٹ یہ چاہتی تھی کہ آئندہ دونوں جلوس یکجا ہو جائیں اور سنی و شیعہ جلوسوں کی تفریق باقی نہ رہے۔ اس کمیشن نے چاریاری اشعار کی تقسیم دوحصوں میں کی ہے۔ ایک اشعار تو وہ ہیں کہ جن میں چاروں خلفاء کی تعریف کی جاتی ہے اور دوسرے وہ ہیں جن میں خلفاء کی تعریف کے ساتھ ان لوگوں کو جو تین خلفاء کو نہیں مانتے اور ان کی عزت نہیں کرتے کافر اور جہنمی بتلایا جاتا ہے۔ کمیشن نے ایسی مدح صحابہ کو جس میں سب وشتم کیا جائے تبرے کی سطح پر سمجھاہے اس بارے میں گورنمنٹ کے حسب ذیل الفاظ نے اس مطلب کی تشریح کی:
’’شیعوں کی خواہش جو ان کے میموریل سے بخوبی ظاہر ہے یہ ہے کہ وہ گورنمنٹ سے اس امر کا اعلان چاہتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ کی تعریف سے ہر وقت اور ہر موقعہ پر اشتعال کا اندیشہ ہے اور امن عامہ کے خلاف جرم ہے۔ لیکن گورنمنٹ کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا اعلان کرے کیوں کہ سنیوں کو ایسا ہی حق حاصل ہے جیسا شیعوں کو ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مخصوص اصولوں کا اعلان عام کریں ۔البتہ موقعہ اور محل کا لحاظ اور دفعہ ۲۹۸تعزیرات ہند کی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ شیعوں کو تبراپڑھنے کی ہمیشہ سے ممانعت کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ تبراسے صرف اس عقیدہ کا اظہار نہیں ہوتا کہ حضرت علی، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فوراً خلیفہ ہوئے بلکہ پہلے تین خلفاء پر سب وشتم کیا جاتا ہے جو پبلک مقامات پر محض ان لوگوں کے جذبات کو صدمہ پہنچانے کے لیے کیا جاسکتا ہے جو ان تین خلفاء کو مانتے ہیں۔ مدح صحابہ سے ملتی ہوئی تمثیل شیعوں کے اس اصول میں ملتی ہے کہ جس کی رو سے وہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ بلافصل کہتے ہیں او راس طرح پر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ نبی کے بعد وہی خلیفہ ہوئے شیعہ اس بات کے سخت مخالف ہیں کہ ان کو خلیفہ بلافصل کے الفاظ کو علانیہ لکھنے سے منع کیا جائے‘‘۔ (پیراگراف ۵ گورنمنٹ ریزولیوشن)
مدح صحابہ کے متعلق گورنمنٹ کا فیصلہ:
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت کمیشن کے نزدیک جس سے گورنمنٹ نے بھی کلیتہً اتفاق کیا تھا۔ مدح صحابہ کی دو قسمیں تھیں ایک سادہ اور دوسری سب وشتم والی۔ جس مدح صحابہ کے ساتھ سب وشتم بھی ہواس کو وہ تبرا کے مترادف سمجھتے تھے، لیکن محض مدح صحابہ کو سنیوں کا ایسا ہی جائز اعلانِ عقیدہ سمجھتے تھے جیسا کہ شیعہ اپنی اذان میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ بلافصل کہہ کر اپنے عقیدہ کا اعلان کرتے ہیں۔ نہ وہ خلیفہ بلافصل کو روکنے کے لیے تیار تھے اور نہ مدح صحابہ پر کوئی ایسی پابندی عائد کرنے کے لیے تیار تھے ۔ البتہ تین ایام کے لیے اس غرض سے کہ آئندہ سینوں اور شیعوں کے جلوس یکجا ہو جائیں۔ اس بات کی قطعی ممانعت تھی کہ مدح صحابہ ان تین ایام میں(یعنی عشرہ چہلم اور ۲۱رمضان )پڑھی جائے۔
کمیشن کی سفارشات تین دن کی ممانعت پر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد ایک اور مسئلہ تھا جس پر اگر چہ کمیشن نے کوئی رپورٹ نہیں دی تھی۔ لیکن گورنمنٹ نے اس کے متعلق اپنا اظہار رائے کیا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ وہ دومہینہ دس دن تک جب شیعہ اپنے علم نکالتے تھے۔ سنی اپنے چاریاری جھنڈے نکالتے تھے اور چاریاری جھنڈوں کے ساتھ جو نظمیں پڑھی جاتی تھیں ان میں بالعموم خلفاء ثلاثہ کے نہ ماننے والوں پرسب وشتم کیا جاتا تھا۔چار یاری جھنڈوں کے ساتھ جونظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ اس کے لیے حسب ذیل اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔
ایراں میں علم آیا فاروق معظم کا کفار میں ہلچل ہے اک شور ہے ماتم کا
تھے یہ چاروں جاں نثارانِ نبی ان کی الفت عین الفت ہے رسول اﷲ کی
ایک سے بھی دشمنی رکھے اگر کوئی شقی حسبِ فرمان محمدؐ دوزخی ہے دوزخی
ان چاریاری نظموں کے خلاف شیعوں کو شکایت ہوئی۔ چنانچہ کمیشن کی رپورٹ کے بعد انھوں نے گورنمنٹ سے پھر احتجاج کیا۔ جس پر گورنمنٹ نے حسب ذیل الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا:
’’اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ آیا کمیٹی کے شیعہ ممبروں کی یہ خواہش مبنی برانصاف ہے کہ اس ممانعت کی توسیع پورے دو مہینے دس دن یوم تک کے لیے (یعنی جب تک کہ محرم منایا جائے) کی جائے۔ لفٹنٹ گورنر اس امرکا اظہار کرتے ہیں کہ شیعہ قوم نے جو میموریل ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس میں یہ شکایت کی تھی کہ چہلم سے قبل اورچہلم کے دن سنی جلوسوں کے ساتھ جھنڈے نکالتے ہیں اور ان کے ساتھ چاریاری اشعار پڑھتے ہیں کمیٹی کے سامنے دورانِ تحقیقات میں جو لوگ کہ شیعوں کے مطالبات پیش کررہے تھے۔ معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے اپنی پوری توجہ ہر قسم کے چاریاری اشعار پڑھے جانے کے ممنوع قرار دیئے جانے پر مرکوزکر دی تھی۔ انھوں نے اس شکایت کو ثابت کرنیکی کوئی کوشش نہیں کی کہ علاوہ عشرہ اور چہلم کے اور ایام میں بھی چاریار ی جلوس نکالے جاتے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر کے خیال میں کمیٹی نے اس خاص شکایت کے متعلق کوئی قاعدہ اس وجہ سے تجویز نہیں کیا کہ یہ شکایت ان کے سامنے پیش ہی نہیں کی گئی۔لیکن اگر پہلے کوئی ایسی کارروائی کی گئی ہے یا آئندہ کی جائے تو ظاہر بات ہے کہ یہ قابل اعتراض ہے اور اس کے متعلق حکام کو کارروائی کرنی چاہیے۔ جو قواعد کہ لکھنو میں نافذ ہیں ان کی رو سے شارع عام پر ڈپٹی کمشنر کی اجازت سے جلوس نکالے جاسکتے ہیں اور ان کا انتظام بھی ڈپٹی کمشنر ہی کرتے ہیں۔ گورنمنٹ اس بات کے لیے تیار نہیں ہے کہ کوئی ایسا عام اعلان کرے کہ جس کی رو سے اس بات کی عام ممانعت کردی جائے کہ کوئی شخص کسی پبلک مقام پر اور کسی حالت میں بلند آواز سے ایسے اشعار نہ پڑھے جو خلفائے ثلاثہ کی تعریف میں ہوں جیسا کہ کمیشن کی اکثریت نے تحریر کیا ہے۔ دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند شہر لکھنو سے منسوخ نہیں ہوگئی۔ اگر کوئی شخص دوسرے کی سماعت میں ایسے الفاظ لائے جس سے وہ قصداً اس کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچانا چاہتا ہو۔ تو ایسا شخص مستو جِبِ سزاہوگا۔ جب تک کہ وہ ثابت نہ کردے کہ وہ تعزیرات ہند کی کسی دفعہ کی رو سے اس سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔‘‘ (پیراگراف ۱۷ گورنمنٹ ریزولیوشن)
گورنمنٹ کے اس ریزولیوشن کا خلاصہ حسب ذیل طریقہ پر کیا جاسکتا ہے:
(۱) مدح صحابہ پڑھنے کی بشرطیکہ اس میں کسی پر سب وشتم نہ ہو، کوئی ممانعت باستثناء تین ایام کے، نہیں۔ یعنی عشرہ چہلم اور ۲۱ رمضان اوران تین دنوں میں بھی ممانعت صرف اس قدر ہے کہ کوئی شخص جلوس کے راستہ پریا جلوس کی سماعت میں مدح صحابہ نہ پڑھے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی پبلک مقام پر جو جلوس کی گذر گاہ نہ ہو اور جلوس کی سماعت سے باہر ہو ان تین ایام میں بھی مدح صحابہ پڑھ سکتا ہے اور نجی مقامات میں مدح صحابہ کے جلسے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کی بھی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
(۲) چاریاری جھنڈے کے جلوس اور اشعار جن میں دوسرے فریق پر سب و شتم کیا جاتا تھا اس کے متعلق کوئی ممانعت عام گورنمنٹ نے نہیں کی۔ البتہ مقامی حکام کی توجہ دفعہ ۲۹ تعزیرات ہند کی طرف دلائی اور یہ کہا کہ جو جلوس دوسروں کی دل آزاری کے لیے نکالے جائیں ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جاسکتی ہے۔
۱۹۰۹ء کا اعلان:
گورنمنٹ کے اس فیصلہ کی عائد کردہ پابندیوں کے خلاف سنّیوں میں سخت ہیجان پیدا ہوگیا۔ چنانچہ چہلم ۱۹۰۹ء کے موقعہ پر سنّیوں نے علی الاعلان اپنے ایک تعزیہ کے ساتھ مدح صحابہ پڑھی۔ اس سلسلہ میں ایک ہزار کے قریب آدمی گرفتار ہوئے۔ ان پر مقدمات چلائے گئے اور وہ سزایاب ہوئے۔ اس ہیجان کو رفع کرنے کے لیے ۲۶ مارچ ۱۹۰۹ء کو مسٹر ریڈی سی نے جو اس زمانہ میں لکھنو کے ڈپٹی کمشنر تھے ایک اعلان شائع کیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خلفاء ثلاثہ کی مدح پڑھنے کی عام ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ ممانعت محض تین ایام یعنی شعرہ چہلم اور ۲۱ رمضان کے لیے ہے۔ لیکن ان ایام میں بھی پولیس ایکٹ کی دفعات کے ماتحت لائسنس حاصل کر لینے کے بعد مدح صحابہ پڑھی جاسکتی ہے (اگرچہ اب گورنمنٹ کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اعلان بعد میں مسٹر ریڈی سی نے واپس لے لیا لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ چنانچہ اس کے متعلق ۱۹۳۶ء میں صوبہ کی کونسل میں سوالات بھی کیے گئے،لیکن گورنمنٹ اس اعلان کے واپس لینے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی)۔ سنّی عام گرفتاریوں اور مقدمات سے سخت پریشان ہوچکے تھے۔ بنابریں اس اعلان کے جب کہ سرجان ہیوٹ کی مدت گورنری بھی ختم ہوچکی تھی۔ سنّیان لکھنو نے سر جیمس مسٹن جدیدگورنر کے یہاں اس پابندی کے خلاف عرضداشت پیش کی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس پر مسلسل احتجاج ہوتا رہا لیکن جب سنّیوں کو ناکامی ہی ہوتی رہی تو ۲۴مئی ۱۹۳۵ء کو چہلم کے موقعہ پر غازی منے خان، مولوی یونس خالدی احراری اور ایک اور شخص نے سول نافرمانی کرتے ہوئے مدح صحابہ پڑھی جس کے بعد اس احتجاج نے پھر عملی صورت اختیا رکر لی۔ اس کے بعد عشرہ محرم یعنی ۳؍ اپریل ۱۹۳۶ء کے موقع پر پھر دوشخصوں نے چوک میں مدح صحابہ پڑھی اور وہ گرفتار ہو کر سزا یاب ہوئے ۔ ۱۳؍ مئی کو چہلم کے موقع پر پھر ۱۴؍آدمی اسی طرح مدح صحابہ پڑھتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس وقت تک یہ احتجاج صرف ان ہی تین ایام کی مخالفت کے خلاف تھا۔
مدح صحابہ کمیٹی بنائی گئی:
عوام کے اس ہیجان سے متاثر ہو کر لکھنو کے تعلیم یافتہ طبقہ نے ۱۶؍ مئی ۱۹۳۶ء کو مدح صحابہ کمیٹی بنائی جس کا مقصد بھی اسی تین دن کی پابندی کو ہٹوا نا تھا لیکن حکام کے رویہ سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ گورنمنٹ ریزولیوشن کے صاف الفاظ اور مسٹر ریڈی سی کے اعلان کے خلاف نہ صرف ان ایام میں بلکہ ان کے علاوہ اور ایام میں بھی مدح صحابہ کے جلوس نکالنے اور مدح صحابہ پڑھنے کے روادار نہ تھے۔
چنانچہ لکھنو میں کئی سال پہلے سے بارہ وفات کے موقعہ پر میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ایک عام جلوس نکالا جایا کرتا تھا۔ ۱۹۳۶ء کو یہ جلوس ۳ جون کو نکلنے والا تھا۔ یکم جون ۱۹۳۶ء کو مقامی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جو شیعہ تھا حسب دفعہ ۴۴ ۱ نوٹس جاری کیا کہ ۳ جون کے جلوس میں مدح صحابہ نہ پڑھی جائے مدح صحابہ پڑھنے کی مخالفت حسب ِذیل الفاظ میں کی گئی:
’’ہر گاہ ایک جلوس لکھنو میں تاریخ ۳؍ جون ۱۹۳۶ء بروز بارہ وفات حضرت پیغمبر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعزاز میں نکالا جانے والا ہے وہرگاہ یہ جلوس چند سال ہوئے پہلے نکالا گیا تھا تو سنی اور شیعہ مسلمانوں کا مشترکہ جلوس تھا۔اور اس وقت سے مشترکہ جلوس رہا ہے۔ ہر گاہ امسال بھی جلوس کے سنی منتظموں نے شیعہ مسلمانوں کو جلوس میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔اور انھوں نے شرکت کی رضامندی دے دی ہے۔ اور ہرگاہ کہ پولیس کی اطلاع ونیز دیگر ذرائع کی اطلاع پر یہ یقین کرنے کے لیے کافی وجوہ موجود ہیں کہ کچھ غیر ذمہ دار لوگ ایسی نظمیں جو مختلف فیہِ ہیں۔ اس جلوس میں پڑھیں گے کہ جس میں ایسی نظموں کی معقول گنجائش نہیں ہے اور ہر گاہ ایسی نظموں کے جن کے جلوس کے منتظمین حامی نہیں ہیں پڑھنے سے اندیشہ نقص امن عام کا ہے۔ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھنو حسب ذیل حکم زیر دفعہ ۱۴۴ ضابطہ فوجداری نافذ کرتا ہوں۔
(۱) کوئی شخص جلوس میں یا جلوس کے لوگوں کی سماعت کے اندر یا کسی شارع عام پر مجمع میں مدح صحابہ نہ پڑھے گا۔
(۲)کوئی شخص دشنام آمیز الفاظ یا کوئی الفاظ اشعار جن سے کسی دوسرے فرقہ کے پیروؤں کی ذلت یاہتک ہوتی ہو اس جلوس کے راستہ میں یا جلوس کے لوگوں کی سماعت کے اندر یا کسی شارع عام پر کسی مجمع میں نہ استعمال کرے گا نہ پڑھے گا۔ وغیرہ وغیرہ
حکامِ لکھنو کی طرح سے مدح صحابہ پر پابندی عائد کرنے کی یہ ابتداء تھی جس کا سبب یہ بتلایا گیا تھا کہ اس جلوس میں شیعہ بھی مدعو ہیں۔ سنّیوں نے حکومت کے اس حکم کو جس نظر سے دیکھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے بطور احتجاج اس جلوس کو منسوخ کر دیا اور ان کا ایک وفد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس حاضر ہوا اور ۱۲؍ جون کومیلادالنبی کے سلسلہ میں جلوس نکالنے اور مدح صحابہ پڑھنے کی اجازت چاہی۔ نیز ایک باضابطہ درخواست سپرنٹنڈنٹ پولیس کے یہاں بھی پیش کی گئی۔ اس درخواست پر بھی ۹؍جون کو سپرنٹنڈنٹ پولیس نے مدح صحابہ کی مخالفت کے ساتھ اجازت دی۔ اس کے بعد ۲۴؍ جون ۱۹۳۶ء کو ایک دوسری درخواست ۲۸؍جون ۱۹۳۶ء کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی یاد منانے کے لیے پیش کی گئی۔ اس درخواست کو سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ابوطالب نقوی (شیعہ) سٹی مجسٹریٹ کے پاس اس ریمارک کے ساتھ بھیج دیا کہ چوں کہ یہ جلوس جدید ہے اس لیے اس کی اجازت نہ دی جائے۔ مسٹر نقوی نے جلوس کی اجازت نہیں دی اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو یہ حکم دیا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ جلوس نکالا تو نہ جائے گا تاکہ اگر جلوس نکلے تو وہ دفعہ ۱۴۴؍ نافذ کرسکیں۔ اس طرح پر لکھنو کے مقامی حکام نے اپنے رویہ سے اس امرکا پورا ثبوت دے دیا کہ ان کے نزدیک مدح صحابہ پڑھنے کی لکھنو میں کسی حالت میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سنیوں کی طرف سے مصالحت کی کوشش:
پھر انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا۔ ۷؍جون کو تین احراری کارکنوں کو جن کے متعلق ان کو شبہہ تھا، حسب دفعہ ۱۰۷؍ گرفتار کر لیا ۔ اس طرح پر مسلمانوں میں ایک عام ہیجان پیدا ہوگیا۔ اور ۱۰؍جولائی یوم جمعہ سے بعد نماز جمعہ مجلس احرار کے رضاکار مدح صحابہ پڑھ کر گرفتار ہونا شروع ہوگئے۔ حکام نے گرفتاریاں شروع کیں۔ گرفتار شدگان کو سزائیں اورجرمانہ کی سخت سزائیں دی گئیں۔ جس سے ہیجان روز بروز بڑھتا گیا۔ یہ سلسلہ گرفتاریوں کا نومبر تک جاری رہا۔ اور مقامی حکام نے بعض مواقع پر یہاں تک سختی کی کہ ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا جو اپنے مکانوں میں محفل میلاد منعقد کرتے تھے۔ اسی زمانے میں مدح صحابہ کمیٹی کا ایک ڈیپوٹیشن جس میں مجلس احرار کی نمائندگی بھی کمیٹی مذکورکی خواہش پر ہوگئی تھی، گورنر کے روبرو ۱۴؍ نومبر کو پیش ہوا۔ گورنر صاحب نے یقین دلایاکہ وہ سنّیوں کی شکایا ت کی تحقیقات کریں گے او رکوشش کریں گے کہ فریقین میں مصالحت ہوجائے۔ ورنہ بعد میں ان کی دادرسی کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس تمام کارروائی سے قبل ضرورت اس کی ہے کہ تحریک سول نافرمانی بند کردی جائے اور فضا کو پرسکون بنایا جائے۔ چنانچہ اس کے بعد لکھنو میں مجلس احرار کی جانب سے متعد د جلسے ہوئے اور لوگوں کو یقین دلایا گیا کہ اس وقت سول نافرمانی کی تحریک کو ملتوی کردینا حصول مدعا کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ تحریک ملتوی کردی گئی اور شیعوں کے ساتھ گفتگوئے مصالحت شروع ہوئی لیکن باوجود ہر قسم کی کوشش کے کوئی مصالحت نہ ہوسکی۔ بالآخر گورنمنٹ نے کمیشن کا اعلان کیا۔ جس کے ممبران جسٹس السپ جج ہائی کورٹ الٰہ آباد اور مسٹر داس کلکٹر تھے۔ اس کمیٹی نے ۳؍ اپریل ۱۹۳۷ء سے کارروائی شروع کی ۔ فریقین کے گواہان کی شہادتیں لیں۔ اور بحث سننے کے بعد ۱۵؍ جون ۱۹۳۷ء کو اپنی رپورٹ پیش کردی۔ (جاری ہے)