مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ
قسط نمبر ۱۸
فیصلہ (نومبر ۱۹۳۵ء):
مقدمہ کے تمام پہلوؤں پر نظر غائر ڈالنے اور سامعین پر مرافعہ گزار کی تقریر کے اثرات کا اندازہ کرنے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مرافعہ گزار تعزیرات ہند دفعہ ۱۵۳ کے ماتحت جرم کا مرتکب ہوا ہے او راس کی سزا قائم رہنی چاہیے۔ مگر سزا کی سختی ونرمی کا اندازہ کرتے وقت ان واقعات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے جو قادیان میں رونما ہوئے ۔نیز یہ بات نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ مرزا نے خود مسلمانوں کو کافر، سور او ران کی عورتوں کو کتیوں کا خطاب دے کر ان کے جذبات کو بھڑکایا۔ میرا خیال یہی ہے کہ اپیلانٹ کا جرم محض اصطلاحی تھا چنانچہ میں اس کی سزا کو کم کر کے اسے تا اختتام عدالت قید محض کی سزا دیتا ہوں۔
دستخط
جی۔ ڈی۔ کھوسلہ سیشن جج گورداسپور۔ ۶جون ۱۹۳۵ء
—–
یہ فیصلہ مسلمانوں کی دینی حس اور فطرتی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا باعث ہوا گویا ایسی بہار آئی کہ دلوں کے کنول کھل گئے۔ اہل حق نے اس فتنے کو اصلی رنگ میں دیکھ لیا۔ اور دوسروں کو خبر دار کرنے لگے۔ علامہ سر محمد اقبال ذہنی طور سے احرار تھے۔ انھیں مرزائیوں کے عزائم میں اسلام کے لیے خطرہ نظرآتا تھا۔ وہ مرزائیوں کی اسلام دشمنی کے اوّل سے قائل تھے اور کبھی آنکھوں میں جگہ نہ دیتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے صدر مرزا بشیرالدین تھے، وہ ضرور ممبر ہوگئے تھے لیکن یہ کیفیت اضطراری تھی۔ وہ فوراً سنبھل کر کشمیر کمیٹی کی تخریب میں لگ گئے او راحرار کی تنظیم کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ عرف عام میں ان کے مرزائی شکن بیانات نے تعلیم یافتہ طبقے پر گہرا اثر کیا اور ہوا کا رخ بالکل اِدھر سے اُدھر پھر گیا۔ مرزا سرظفر علی سابق جج پنجاب ہائی کورٹ معاملات دین میں پڑے تھے۔ انھوں نے اپنے اعلان میں خدا لگتی بات کہی کہ نبوتوں کی بنا پر قومیں الگ الگ شمار ہوتی ہیں۔ جب مرزائیوں نے اپنا نیا نبی مان لیا۔ تو وہ لازمی طور سے مسلمانوں سے الگ ہوگئے غرض مرزائیوں کے لیے دنیا تنگ ہوگئی۔ مولانا ثناء اﷲ اور مولانا ظفر علی خان نے مرزائیت کے خلاف ضرور محاذ قائم کیا۔ ان کا سب کو ممنون ہونا چاہیے مگر وہ ’’سوسنار‘‘ کی تھیں اب ’’لوہار‘‘ کی پڑنے لگیں تو مرزائی بوکھلا گئے’’ مُلاّ کی دوڑ مسجد تک‘‘ اور’’ مرزائیوں کی دوڑ انگریزی سرکار تک‘‘ جوں جوں عوام کی ہمدردیاں احرار سے زیادہ ہوتی جاتی تھیں توں توں سرکار اور احرار کے تعلقات اور کشیدہ ہوتے جاتے تھے۔
جناب الیاس برنی کی مرزائی قلعے پر گولہ باری کے سلسلے میں خدمات کا اعتراف نہ کرنا ناشکرگزاری ہوگی۔ انھوں نے ’’قادیانی مذہب‘‘ شائع کر کے قادیانی مرزائیوں کے بدنما چہرہ سے ریاکاری کا نقاب بالکل ہی الٹ دیا ہے۔ کتا ب کی ترتیب میں اپنی رائے سے متاثر کرنے کی ذرہ بھر کوشش نہیں کی گئی بلکہ مرزائیوں کی مستند کتابوں کے حوالہ جات ہی کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ کتاب ردِّمرزائیت کا کارگر نسخہ بن گئی ہے۔ جو طرز اس کتاب میں برنی صاحب نے اختیار کیا وہ بالکل اچھوتا ہے اور ایسا دل نشین ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے کا باعث ہوا۔ غرض مرزائیت کی بیخ کنی کے بہت سے اسباب فراہم ہوگئے۔ من جملہ ان کے مولانا عبدالکریم مباہلہ کی احرار میں شمولیت تھی ۔یہ کفر کے آسمان کا ٹوٹا ہوا ستارہ قادیانیوں کے جراثیم سے مسلمانوں کو محفوظ کرنے کے کام آرہا تھا۔ مولوی عبدالکریم رازدارِ خلافت تھا۔ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کی بدعنوانیوں کو دیکھ کر قادیانی مذہب سے برگشتہ ہوا۔ قادیان سے جان بچا کر بھاگا، اس بھاگ دوڑ میں حاجی محمد حسین صاحب ساکن بٹالہ، مرزا بشیرالدین کے ایک مرید کے ہاتھو ں شہید ہوگئے اور مولانا عبدالکریم بچ نکلے۔ مولانا موصوف نے عدالت میں حلفی بیان دیا کہ وہ خود آخر تک مخلص تھے لیکن بعض دوسرے لوگوں سے الزامات انھوں نے سنے اور تحقیق کر کے انھیں سچاپایا، اس وجہ سے الگ ہوگئے۔ مولانا کے سارے خاندان نے قادیانیوں کے ہاتھوں سخت تکالیف اٹھائیں۔ اخبار مباہلہ بند کرنا پڑا ،جیل بھگتی…… مگر مرزائیوں کا ناطقہ بند کر کے چھوڑا۔ شاید ہی کسی نے کسی سے ایسا کامیاب انتقام لیا ہو جیسا کہ مباہلہ والوں نے لیا۔ آج ان کی آنکھوں کے سامنے مرازائیت بے توقیر ہے۔ آج مرزائیوں پر بے بھاؤ کی پڑ رہی ہیں۔ علماء ہی نہیں بلکہ مسلمان عوام بھی مرزائیوں کے نام سے بیزار ہیں۔
شہید گنج کی گونج:
ہاں یہ سچ ہے کہ مرزائیوں کی نامقبولیت کا ذمہ دار انگریزی سرکار نے احرار کو ٹھہرایا اور بقول مرزا غلام احمد احمدیت برٹش حکومت کا خود کاشتہ پودا تھی۔ اس کو خشک ہوتے دیکھ کر حکومت کا خون خشک ہوتا تھا۔چنانچہ سوچ بچار کے بعد یہ اعلان کیا کہ قادیان میں نماز جمعہ پڑھانے باہر سے کوئی عالم نہ آئے۔ خیال یہ تھاکہ کہیں علاقے سے قادیانی اثر ورسوخ کم نہ ہوجائے۔ ایک ہی فریق کی تبلیغ کے دروازے کھولنا اور دوسروں پریہ دروازے بند رکھنا انصاف نہ تھا، مگر محبت میں انصاف کے تقاضوں کو کون پورا کرتا ہے۔ لیکن ایسے احکام کھلے طور پر احرار کے بڑھے ہوئے اثر ورسوخ کی دلیل تھی۔ درمیان میں ایک واقعہ ایسا بھی رونما ہو اجس سے حکومت کے حواس اور پراگندہ سے ہوگئے ۔ مجلس احرار نے ایک نومسلم بیرسٹر خالد لطیف گابا کو جو سابق وزیر لالہ ہر کشن لعل کا فرزند تھا،اپنی طرف سے امید وار کھڑا کیا۔ مسلمانوں کے سرکار پسند اعلیٰ طبقے نے خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب سابق سیشن جج کو مقابلے کے لیے کھڑا کیا مگر انھیں ناکامی ہوئی۔ اس انتخابی شکست سے حکومت کو احرار کی طاقت سے بجا طور پر خوف معلوم ہوا۔ پنجاب کو ہندوستان کی سیاسیات میں خاص درجہ حاصل ہے حکومت کے اپنے عزائم اور منصوبے اسی ایک خطے سے وابستہ تھے۔ حکومت نہ چاہتی تھی کہ احرار برسراقتدار آجائیں۔ اور انگریزی سرکار کو بیچ بازار للکاریں۔ اور آڑے وقت میں اڑیل ٹٹو بن جائیں ۔ ان بے جااحتمالات کے پیش نظر حکومت کا احرار کے مٹانے پر کمر بستہ ہوجانا دلیل دانائی تھی۔
اسی زمانے میں احرار نے میاں سرفضل حسین کو جو بساط سیاست کے کامیاب کھلاڑی تھے، جن کی چالیں بے حد گہری اور جن کی تدبیریں بہت مؤثرہوتی تھیں، ناراض کر لیا بلکہ اس کے خلاف ایک محاذ قائم کیا۔ سرظفر اﷲ کو میاں سر فضل حسین نے یہاں تک نوازا کہ اس کی سفارش حکومت ہند تک کی۔ حکومت ہند گویا اس سفارش کی منتظر ہی تھی۔ مرزائیت کا حکومت انگریز سے جو تعلق ہے اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ حکومت ہند کے ایگزیکٹو کونسلر کے عہدہ پر ایک مرزائی ظفر اﷲ کا تقرر تو درحقیقت انگریز کے خو دکاشتہ پودے کی آبیاری تھی۔ مگر احرار کو صدمہ یہ تھا کہ میاں صاحب جیسے بالغ النظر شخص نے دیکھ کر قادیانی مکھی کیسے نگلی؟ ادھر میاں صاحب کی مجبوری یہ تھی کہ سرسکندر حیات خاں کے تیور بے حد بگڑے نظر آتے تھے۔ وہ سرسکندر حیات کے گروپ کے مقابلے میں اپنے ونگ کو مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔ ایسی مصروفیتوں میں بعض اوقات غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ یہ فاش غلطی ہوگئی اب وہ غلط قدم واپس کیا لیتے؟ پھر انھوں نے اسے اپنے وقار کا سوال بنالیا۔ مرزائیوں کی مخالفت احرار کی تبلیغ کا اہم جزو تھا۔ انھوں نے میاں صاحب کو للکارا۔ اس طرح احرار نے ہندوستان کے مضبوط ترین مدیر کو اپنا بیری بنالیا۔ لیکن اس زمانے میں احرار کا بول بالا تھا۔ کسی مخالف کی کچھ پیش نہ جاتی تھی۔مگر سب گھات میں تھے کہ موقعہ پائیں تو چاروں شانے چت گرائیں۔ احرار کا جتنانام تھا اسی نسبت سے مخالف خارکھا رہے تھے۔
ہمارے دوستوں کا وہ طبقہ جسے میں نے اوائل باب میں طبقہ اولیٰ قرار دیا تھا جو اپنی امیدیں کانگرس سے وابستہ سمجھے ہوئے تھے، کباب سیخ ہورہا تھا۔ راولپنڈی میں کچھ پخت وپز ہوئی۔ مولانا ظفر علی خاں ان کے سرگردہ چنے گئے۔ مولانا لائل پور احرار کانفرنس پرآئے تو خلاف توقع قادیانیوں کے خلاف احرار کے محاذ بنانے پر برسے۔ جس نے سنا تعجب کیا کہ مولانا کی عمر بھر کی خدمات اسلامی کاطول وعرض تو یہی مرزائیت کی مخالفت ہے۔ یہ اب احرار پر اچانک حملہ آور کیوں ہوئے؟ اس پر کسی نے تقریر میں اسی خیال کا اظہار کیا۔ اس پر مولانا بگڑے اور کانفرنس سے ناراض چلے آئے۔
ابھی ہم لائل پور میں تھے کہ دوسرے دن لاہور سے اطلاع ملی کہ سکھوں نے شہید گنج کو گرانا شروع کردیا ہے ۔ مولانا مظہر علی صاحب لاہور میں تھے۔ ان سے معلوم کر کے اطمینان ہوا کہ حالات پر قابو پالیا گیا۔ اور مولانا نے مسلمانوں کو مناسب ہدایات دی ہیں غرض احرار مطمئن سے ہوگئے۔
میں اور مولانا مظہر علی شملے کونسل کی ایک سب کمیٹی میں شامل ہونے چلے گئے۔ یک بیک ہمیں شملے میں معلوم ہوا کہ لاہور میں حالات بگڑ گئے ہیں ہم دونوں لاہور پہنچے حالات اشتعال انگیز تھے۔ مگر پولیس کے چوکی پہرے لگے ہوئے تھے کیوں کہ رات مسجد شہید گنج شہید کردی گئی تھی۔ آتے ہی حالات معلوم کیے تو پتہ چلا کہ ہر خیال کے مسلمانوں کی مجلس میاں عبدالعزیز بیرسٹر کے مکان پربلائی جاچکی ہے اور بڑے بڑے مفتی او رصاحب اثر حضرات اس میں شامل ہیں۔مسجد کا معاملہ سب مسلمانوں کا مشترکہ تھا اسے پارٹی کا سوال بنانا خلاف دانش تھا۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ ایک مضبوط جماعت اس کام کو سرانجام دینے کے لیے بنائی جا چکی ہو لیکن اندر ہی اندر ہمارے خلاف زہر پھیلانی شروع کردی گئی۔ حالاں کہ اس عرصہ میں مولانا ظفر علی خاں صاحب سے فاش غلطیاں ہوئیں۔ انھوں نے جلسہ عام میں عدالتی طور پر انہدام مسجد کے سلسلے میں حکم امتناعی حاصل کرنے کا مسلمانوں کی طرف سے اختیار حاصل کیا۔ لیکن عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا بلکہ ڈپٹی کمشنر کے وعدے پر اعتماد کر لیا۔ اور اس طرح مسلمانوں کو قانونی طاقت سے محروم کردیا۔ مسلمانوں کو قانونی طور پر بے بس کر کے شرارت پسند سکھوں اور ان کی امداد کرنے والی قوتوں کو مسجد کے شہید کرنے کا موقع مہیا کر دیا ۔ پھر سکھ لیڈر مسلمانوں سے مسجد کے معاملہ میں باعزت سمجھوتے کے خواہاں تھے مگر مولانا ظفر علی خان نے اسلام کے مفاد کے خلاف صاف انکار کردیا ۔اگر وہ ایسا نہ کرتے تو مسجد انہدام سے بچ جاتی لیکن ان کے ذہن میں بھی بات ان کے دوستوں نے ڈالی تھی کہ کوئی کارنامہ ایسا کرکے دکھاؤ کہ احرار مات کھا جائیں۔ ان کے پیش نظر مسجد کو بچانا نہ تھا بلکہ احرار کو گرانا تھا۔ اس لیے سرکاری درباری لوگوں نے بھی مولانا کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ کیوں کہ احرار کا عروج ان کی موت تھا۔ اپنی زندگی کے لیے وہ احرار کو مارنا ضروری سمجھتے تھے۔ سرمایہ دار جماعتوں کا عروج سرمایہ دار برداشت کرلیتے ہیں لیکن غریبوں کا اقبال سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔ یہ دنیا دار ایمان بیچ کر مفلسوں کا خون نچوڑ کر دولت جمع کرتے ہیں ۔ او راس کے ذریعے لوگوں میں اثرورسوخ بڑھاتے ہیں۔
مسجد شہید اور حکام:
حکام جو صوبے کے امن کے ذمہ دار تھے۔ ان کی پوزیشن اور بھی مضحکہ خیز تھی۔ اگر وہ صاف طور پر ارادہ کرتے تو مسجد کو انہدام سے بچا سکتے تھے۔ کیا کوئی قوم حکومت کے اقتدار سے باہر تھی؟ حکومت انگریزی کو اپنے اثر اور طاقت پر ناز رہا ہے۔ حکومت نے نہ صرف متکبرانہ لاپروائی برتی بلکہ شرارت پسندوں کو مواقع اور سہولتیں بہم پہنچائیں۔ کیا حکومت خود مسجد کو پولیس او رفوج کے ذریعے محفوظ نہ کرسکتی تھی؟ کیایہ واقعہ نہ تھا کہ باوجود سکھ ڈیپوٹیشن کے گورنر پنجاب سرہربرٹ ایمرسن کو یقین دلانے کے کہ ان کا ارادہ مسجد گرانے کا نہیں پھر بھی مسجد کو محفوظ نہ کیا گیا؟ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کی ورکنگ کمیٹی گورنر سے کیے گئے وعدہ کی تصدیق کرنے کے لیے جمع ہوئی تھی کہ انھیں اطلاع ملی کہ مسجد راتوں رات منہدم ہوگئی۔ پربندھک کمیٹی نے پھر بھی منہدم کرنے والوں کو باز رکھنے کے لیے سردار منگل سنگھ ایم ۔ ایل۔ اے کو بھیجا۔ مگر حکام نے انھیں مسجد شہید تک جانے سے روک دیا تاآنکہ مسجد ہموار کردی گئی۔
اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مضبوط عمارت رات بھر میں کیسے شہید کردی گئی کہا گیا کہ سرکاری کرین استعمال ہوئی۔ پھر حکومت نے سوچا کہ ہم تو پھنس گئے پھر کہا گیا کہ کرین نہیں ونچ استعمال ہوئی۔ اور یہ ونچ گوجرانوالے کے فلاں سکھ ٹھیکیدار کی تھی۔ تعجب ہے کہ اس ٹھیکیدار نے اعلان کردیا کہ مجھے ناحق بدنام کیا جارہا ہے نہ میری ونچ استعمال ہوئی نہ میں ان دنوں لاہور گیا۔ نہ انہدام میں میرا کوئی ہاتھ ہے غرض حکومت کا کیس ایسا کمزور تھا کہ اگر مسلمان بروئے انصاف ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالتے تو وہ دوقوموں میں باعزت سمجھوتہ کرادیتی۔ لیکن حکومت کے لگے بندھوں کو حکومت کا پریشانی میں ڈالنا منظور نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہواکہ حکومت کاقانون سکھوں کا طرف دار ہوگیا۔ اعلیٰ طبقہ بلوں میں گھس گیا۔
طبقہ اولیٰ کی شرارت :
مولانا ظفر علی خان ہندوستان کی سیاست میں متلون مزاجی اور بے سودہنگامہ آرائی کا مظہر رہا ہے۔ اس کے اس وقت کے ساتھی وہی طبقہ اولیٰ تھا، یعنی مولانا عبدالقادر قصوری ، ڈاکٹر محمد عالم وغیرہ جانتے تھے کہ یہ ہنگامہ قوم کی رسوائی ہے، مگر میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹر کے مکان پر اکٹھے ہوئے، بولے احرار کو کچھ کرنا چاہیے ۔ تمام حالات پر بحث کر کے وہ یہ بات مان گئے کہ صورت حال ایسی نہیں جس کا آسانی سے فیصلہ ہو سکے۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ کسی اور تاریخ پر اکابرین قوم کو جمع کر کے استصواب کیا جائے کیوں کہ یہ مسئلہ سول وار تک لے جانے والا ہے۔ اسی جگہ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ دوسرے دن جو جلسہ عام ہونے والا ہے اس میں احرار شریک نہ ہو ں اسے مولانا ظفر علی خان اور ان کے ساتھی بھگتا۔ لیں اب تک بھی ہم اس گروہ کے عزائم سے ناآشنا تھے۔ لیکن اس گفتگو میں ،میں مولانا عبدالقادر صاحب کے طرزِ عمل سے بڑا پریشان ہوا۔ وہ خود رہنمائی نہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر احرار پر زور دیتے تھے کہ وہ کچھ کریں۔ اور وہ یہ بھی مانتے تھے کہ احرار کا اقدام قوم کے لیے خطرات کا باعث ہوگا۔ بہر حال ہم اس پر پیچ مسئلے کو ایک بڑے اجتماع کی رائے کے مطابق حل کرنے پر مطمئن تھے۔ دوسرے روزعام جلسہ تھا یک بیک مولانا ظفر علی خان کو رقعہ آیا کہ جلسہ میں نہ جائیے۔ اتنے میں مولانا سید حبیب جو ان دنوں مولانا ظفر علی خان کے زیرِ ہدایت کام کر رہے تھے آئے اور انھوں نے مولانا اختر علی خان کے خلاف سخت بے اعتمادی کا اظہار کیا۔ وہ چلے گئے تو ہم ایسی بداعتمادی کی فضا میں کام کرنے کی مشکلات پر غور کررہے تھے کہ معلوم ہوا کہ ملک لعل خا ن صاحب نے جلسہ میں نیا گل کھلایا۔ لوگوں کو ہمارے خلاف جھوٹ بھڑکایا۔اس واقعہ کے بعد تو گویا ہمارے خلاف منظم جھوٹ کا طوفا ن اٹھ کھڑا ہوا۔ کبھی کہا گیا کہ احرار مسجد کو سکھوں سے لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ وہ گورنمنٹ کے ہتھے چڑھ گئے۔ عوام کو اندر ہی اندر بھڑکا یا گیا۔ بالآخر حکومت نے مولانا ظفر علی، ملک لعل خان، سید حبیب وغیرہ کو نظر بند کر لیا۔ پھر تو اخبار زمیندار نے نت نیا جھوٹ تصنیف کرنے کا معمول کر لیا۔ سرکاری فریق نے اندر ہی اندر مسلمانوں کو ابھارا کہ اگر کوئی اقدم کر وتو مسجد ضرور مل جائے گی۔ ان کی علانیہ اور خفیہ ریشہ دوانیوں کانتیجہ یہ ہوا کہ دہلی دروازہ کے باہر گولی سے کئی ایک مسلمان شہید ہوئے۔ یہ ساری داستان درد مولانا مظہر علی صاحب نے’’ خوفناک سازش‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کی ہے۔ اس لیے سارے واقعات کی تفصیل اس کتاب سے معلوم ہوسکتی ہے ۔ہم نے ہر چند چاہا کہ مسلمان صورت حال کا صحیح جائزہ لیں اور ایسے اقدامات سے بچ جائیں جس کا نتیجہ کچھ نہ ہو۔ جتنا ہم نے روکنا چاہا اتنا ہی غلط فہمیوں کا شکار بنالئے گئے۔
مرزائیوں کی شرارت:
احرار پر ایسا ابتلاء کا زمانہ آیا کہ شاید ہی کسی جماعت پر آیا ہو۔ مسلمانوں کو ہمارے خلاف بھڑکانے کا اہم کام مرزائیوں نے سرانجام دیا۔ روپے کو پانی کی طرح بہایا اخبارات کو مالی مدد پہنچائی گئی۔ افراد کو وظائف دیئے گئے اور سات سو کے قریب مرزائی قادیان سے لاہور امرتسر اور بڑے بڑے مقامات پر خاص ہدایات دے کر بھیجے گئے۔ تاکہ احرار کے دشمن اسلام اور ملت کے غدار ہونے کا پروپیگنڈا کریں، اتنی کثیر تعداد میں ہمارے خلاف اشتہارات شائع کیے گئے کہ شاید ہی ہندوستان میں کسی جماعت کے خلاف اتنی اشتہار بازی ہوئی ہو۔ اس طوفانی مخالفت کا مقابلہ آسان نہ تھا۔ خصوصاً جبکہ سرکاری درباری لوگوں کا اثر ورسوخ اس سارے پروپیگنڈہ کی پشتیبانی کررہا ہو۔ ضرورت کے مطابق پیشین گوئی کرنا موجود خلیفہ نے باپ سے سیکھا ہے۔ احرار کے خلاف بڑے زور سے جھوٹی پیشین گوئیاں شائع کی گئیں۔ او رمرزابشیرالدین نے احرار کو تباہ کرنے کے لیے اتنا روپیہ خرچ کردیا جس سے جماعت مرزائیہ تڑپ اٹھی قادیان میں کانا پھوسی شروع ہوگئی اور اس کے خلاف جماعت میں ہی محاذ بن گیا۔ اس لیے اپنے اس خرچ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ تسلیم کرنا پڑا، ہر مرزائی کو سمجھایا گیا تھا کہ ہندوستان میں یہی ایک جماعت مرزائیت کے راستے میں کارگرر کاوٹ بنی ہوئی ہے احرار کو مار لوتو میدان مارا ہوا سمجھو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فرقہ ضالہ کے ہر فرد نے احرار پر زخم لگانے کی پوری سعی کی۔ اسلام اور کفر کے مقابلے میں احرار اسلام مرزائی کافروں سے نیکی کی امید نہیں رکھ سکتے ۔
مخالفوں کے پروپیگنڈے میں خامی:
ہمارا ہر مخالف سچائی کو اپنے دل میں نہ پاتا تھا۔اصل مسئلے کے متعلق وہ جانتا تھا کہ احرار اس میں حق بجانب ہیں۔ انھوں نے محض ہماری مخالفت کے لیے جھوٹ کی بنیاد پر عمارت کھڑی کرنا چاہی۔ سب جانتے تھے کہ مقدمہ کرنے کے بعد بھی کوئی کامیابی نہیں۔ یہی مسجد تھی انجمن اسلامیہ اگر چاہتی تو کوڑیوں کے بھاؤ خرید سکتی تھی۔مگر اس نے ایسا نہ کیا۔ اسی ایجی ٹیشن سے پہلے اسی مسجد کے متعلق دعویٰ دائر کر کے پوری پیروی تک نہ کی ۔ اب جب ہم نے درست رہنمائی کر کے کہا کہ صبرو سکون سے کام لو تو یہی نصیحت ہمارا جرم ہوگیا۔ ہمارے مخالفوں کا مقصد عوام کو بھڑکانا تھا۔ خود کوئی قربانی کرنا نہ تھا۔ مولانا ظفر علی خان نظر بند ہوئے اپنا وظیفہ بڑھانے میں لگ گئے۔ پیرسید جماعت علی شاہ صاحب کو امیر ملت بنایا گیا۔ وہ قید و بند کو کیا جانیں؟ ہمارا ہر مخالف اپنی جان بچا کر دوسروں کو قربان کرنا چاہتا تھا ۔یہ ہماری اور ملت اسلامیہ کی خوش قسمتی تھی کہ تحریک شہید گنج کے علم بردار متذبذب اور بزدل تھے ۔انھیں کامل یقین تھا کہ وہ محض اغراض پرستی کے لیے احرار کی مخالفت کر رہے ہیں۔ رہ رہ کے ان کے ضمیر انھیں ملامت کرتا تھا کہ ایک جماعت کو فنا کرنے کے لیے ہم یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ وہ مخالفت جس میں سچائی نہ ہو کمزور ہو جاتی ہے لیکن افراد اگر حوصلہ مند ہوں تو جھوٹ کو بھی فروغ دے دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے نہ مرزائیوں میں حوصلہ تھا اور نہ ہمارے دوسرے مخالفوں میں دلیری تھی۔ اگر وہ جھوٹ کے لیے بھی بہادری دکھاتے تو ہماری مصیبتوں میں اور اضافہ کر سکتے تھے۔
احرار سیسہ پلائی ہوئی دیوار:
دنیا میں تھوڑے ہی بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو اچھے ناموں سے پکارے جائیں اور وہ اسم بامسمیٰ نکلیں۔ احرار ہندوستان میں خوش قسمت ہے جس کا نام اور کام باہم مناسبت اور مطابقت رکھتے ہیں۔ آزادی کی طلب اور شرافت کا مسلک احرار کی گھٹی ہے ۔ شہید گنج کے واقعہ ہائلہ نے جماعت کو بہت جلد دشواریوں میں ڈال کر اس کے نام کے مطابق اس کے کام کا جائزہ لیا۔ سیاسیات میں شرافت کا ثبوت یہی ہے کہ جماعت خود مٹ جائے مگر قوم پر آنچ نہ آئے۔ غلط کاروں کی ہاؤ ہو سے ڈر کر قوم کے بچوں کو ایسی بھینٹ نہ چڑھائے جس بھینٹ کا نتیجہ کچھ نہ ہو۔ ہمارے مخالفوں کو قطعی طور پر معلوم تھا کہ ان کی سعی بے نتیجہ ہے۔ پھر بھی وہ قوم کو بے سود عمل پر ابھارتے تھے۔ اور ساتھ ہی انھیں احرار کی دیانت داری پر یقین تھا کہ احرار کبھی قوم کو بے سود خطرے میں نہ ڈالیں گے بس یہی شرانگیز دانائی ہمارے مخالفوں کو بلند بانگ کررہی تھی۔ لیکن قدرت کو ہم سے جیل خانوں سے سخت تر امتحان لینا منظور تھا۔ مفسد مخالفوں کی نتیجے کے اعتبار سے فضول مگر طوفانی مخالفت اٹھانے کے لحاظ سے بے حد موثر غوغاآرائی نے بے شک ہمارا ناطقہ بند کردیا۔ اور خدا کی زمین ہم پر تنگ کردی گئی لیکن ابتلاء کے اس زمانے میں جماعت کے ایک والنٹیرکے منہ سے بھی مخالفانہ آواز توسنائی نہ دی ہمارا ہر شخص جانتا تھا کہ مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ نے ۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کی بازیابی کی آواز ہی کو شر انگیز صدا قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر محمد عالم مسجد شہید کی تقدیس کے قائل نہ تھے کہ اس کے لیے قربانی پر آمادہ ہوتے۔ ہمارے ہر کارکن کے ضمیر کی آواز اور عقل کی رہنمائی اسی طرف تھی کہ یہ تحریک محض احرار کی مخالفت کے لیے اٹھائی گئی ہے۔ اس کی محرک سچائی اور صداقت نہیں بلکہ احرار کو انتخابات میں پچھاڑ کر خود اسمبلی میں پہنچنا ہے۔ اسی بنا پر سب احرار اغراض پرستوں کے خلاف نبردآزما تھے ۔ ایک ایک نوجوان مضبوط کپتان کی طرح اپنی جگہ کھڑا تھا۔ طوفان کا سمندر امڈ آتا تھا اور سر ٹکرا کر لوٹ جاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرد مجاہد سمندروں کے بگڑے تیوروں کو دیکھ کر خوف و ہراس کے بجائے بے پروائی سے کھڑا مسکراتا ہے۔ ہماری آنے والی نسلیں نہ اس ابتلا کا اندازہ کر سکتی ہیں نہ اس استقلال کا صحیح تصور کر سکتی ہیں جو جماعت کے ہر فرد نے دکھایا۔ نہ دوسری قوموں اور جماعتوں نے ہماری عظیم الشان خدمات کا اعتراف کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جماعت ہماری موت پر خوش تھی۔ کانگریس کے اکابر یہ سمجھتے تھے کہ ہم مسلمانوں کو کانگریس کی شمولیت سے روکے ہوئے ہیں۔ سکھ سمجھتے تھے کہ یہی مسلمانوں میں انقلابی جماعت ہے جو ایثار اور قربانی کی بنا پر ان کے عزائم میں حائل ہے۔ مسلمان امراء اس امر سے پریشان تھے کہ یہ غریب جماعت موری کی اینٹ چوبارے میں لگنے کی آرزو مند ہے اور حکومت پر چھا جانے کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے ہوتو ہو یہ کہ جماعت نذر طوفان ہو۔ مولانا ظفر علی خان ، مولانا عبدالقادر ، ڈاکٹر عالم وغیرہ حضرات یہ قیاس کرتے تھے کہ احراری کباب میں ہڈی ہیں۔ انھیں نکال دیا جائے تو مزے ہی مزے ہیں اور احرار سب میں گھر ے کھڑے تھے۔ انھیں چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی تھی۔ احرار لیڈروں کی برملا بے عزتی کی جاتی تھی ان پر قاتلانہ حملے شروع ہو گئے تھے۔ صبر و سکون کی ہدایت کی جاتی تھی تا آنکہ پانی سر سے گذرنے لگا ہمارے مخالفوں نے شرافت کے سارے آئین کو بالائے طاق رکھ دیا۔ آخر ہمیں معلوم ہوا کہ جبرجبر کی حد سے بڑھ گیا ہے۔ اب ترکی بہ ترکی جواب دینے کے سوا چارہ نہیں۔ ہم مدافعانہ جنگ میں پسپا ہوتے ہوئے اس مدافعتی خط پر پہنچ گئے جہاں مزید پسپائی کی گنجائش نہ تھی ہمارے خلاف ہر روز نیا جھوٹ تراشا جاتا تھا کبھی کہا جاتا تھاکہ دہلی دروازے کے شہدا کے کتے کی موت مرنے والا کہا گیا۔ ہمارے مخالف جانتے تھے کہ شہداء کو متعلق یہ ناقابل برداشت فقرہ ہے جب ہم تردید کرنا چاہتے تھے تو اخباروں میں ہماری تردید کوئی شائع نہ کرتا تھا۔
ایک تائیدی آواز پھر بزن:
مخالفت کے نقار خانے میں جہاں دشمنوں کے شور میں ہماری آوازسنائی نہ دیتی تھی۔ پنجاب کے سوشلسٹوں کی آواز تھی جو گاہے ماہے قوم کو خانہ جنگی سے متنبہ کرتی تھی۔ اور عملاً احرار کے ساتھ ہم آہنگ تھی۔ اور جو واضح طور پر اس رائے کی تھی کہ مسجد شہید گنج کی شہادت خوفناک سازش ہے اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ آواز کسی حدتک بعض لوگوں کی توجہ کا مستحق بنی لیکن سوشلسٹوں کے لیڈر جلد ہی دھر لیے گئے۔ اس لیے گئے اور انھیں سخت سزائیں دی گئیں۔ پھر حق و صداقت کے لیے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ ہماری حالت یہ تھی کہ ہم مسلمانوں میں خوں ریزی اور سر پھٹول کے خوف سے جلسہ نہ کرتے تھے۔ مخالفوں نے غلط اندازہ لگایا کہ ہم مخالفت کے خوف سے معتکف ہیں۔ آخر میں ہمیں اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا کہ ہم شیر کی طرح مخالفت کے بہاؤ میں سیدھے تیریں۔ اور خم ٹھونک کر میدان میں نکلیں چنانچہ بعض احتمالات کے پیش نظر لاہور میں یک روزہ کانفرنس کی گئی تاکہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ مولانا ظفر علی خان اور ان کے ساتھیوں نے خود پس پر دہ بیٹھ کر اپنے ہم خیال نوجوانوں کے مضبوط جتھے کو دہلی دروازے کے باہر بھیجا کہ احرار کو جلسہ نہ کرنے دیا جائے ہم نے ہر چند چاہاکہ ہم پر امن جلسہ کریں۔ ان نوجوانوں کو یقین دلایا کہ ہم آپ کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکتے ہیں مگر انھوں نے کوئی دلیل اپیل نہ سنی ۔ اپنی سی کہتے رہے کہ احرار کو ہر گز جلسہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انھوں نے سٹیج پر قبضہ کر لیا اور غنڈہ گردی شروع کر دی۔ جب ہمارے لیے باعزت بھاگنے کی بھی راہ نہ رہی تو احرار والنٹیروں کے سالار نے بھی بزن کا حکم دے دیا۔ احرار کے والنٹیر دست بدست لڑائیوں میں زیادہ سلجھے ہوئے تھے۔ ان کا ہاتھ دوسروں کی نسبت زیادہ رواں تھا۔ آدھ گھنٹہ کی دھینگا مشتی اور لٹھم لٹھا کے بعد مولانا طفر علی خان کی فوج ظفر موج اس طرح پسپا ہوئی کہ جوتے پگڑیاں وہیں چھوڑ گئی۔ زمیندار، احسان ،انقلاب وغیرہ تمام مخالف اخباروں نے خطرناک سرخیاں دے کر خبریں شائع کیں۔ اس طرح کونے کونے کے احرار کو خبر پہنچ گئی کہ اب مرکز کی پالیسی یہ ہے کہ مخالفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے غریبوں میں زخم کھانے او رزخم لگانے کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے مخالفوں کو جلدی ہی معلوم ہوگیا کہ زد و خورکے معاملہ میں ابھی احرار کے مقابلہ کو مدت چاہیے۔ دوہی ماہ کے عرصے میں تمام مخالف ہتھیار ڈال کر دور جا کھڑے ہوئے۔ اب صرف اخباروں کے کالموں میں جھوٹ کے پلندے باندھ باندھ کر ہمیں ڈرانے لگے۔ (جاری ہے)