تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ احرار (پہلی قسط)

مؤلف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
مقدمہ: امام سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
کلمات
أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ۔ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔
أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! وَلَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ وَحْدَہ۔ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلٰی سَیِّدِنٰا وَمَوْلیٰنا وَقٓائِدِنٰا الاعظَمِ وَالرَّسُولِ الْأَفْخُمِ مُحَمَّدِنِ المَبعُوثِ لِتَتمِیمِ مَکَارِمِ الأَخَلاقِ أَلذِی لاٰ یُخْلَقُ وَلایُبْعَثُ نَبِیٌّ وَّلَا رَسُولٌ بَعدَہ۔ وَعَلٰی أَصحٰابِہِ الَّذِینَ ھُم کَالنُّجُومِ فِی السَّمٰاءِ لِلِاقتِدآءِ وَالاِ ہِتدَآءِ وَمِعیٰارٌ لِلْحَقّ وَالدِّینِ وَأُمَّھٰاتِ المُؤمِنِین۔ أَصلِ أَھلِ بَیتِہٖ۔ أَزْوَاجِہِ المُطَھَّرَأتِ وَذُرِّیّٰاتِہٖ وَأَتبٰاعِہِ الَّذِینَ أَوفُوا عَھدَہ
أَمَّا بَعدُ
عام انسانی افتاد طبع کے مطابق اکثر دیکھنے والے کسی عمارت کی نگاہوں سے ٹکرانے والی بلندی، ڈیل ڈول، انداز تعمیر، رنگ وروغن اورزیبائش و خوش نمائی پرہی نظر ڈالتے ہیں۔ وہ دیدہ ور اور حقیقت شناس بہت کم ہیں جن کا خیال وتصور عمارت سے پہلے لاکھو ں من بوجھ تلے مدفون اس کی گہری ہموار او رمضبوط بنیادوں کی طرف متوجہ ہو جو اس کے قیام وپائداری کے اصل سبب کو خراج عقیدت وتحسین پیش کریں۔ اس کے مخفی وگم نام بانی کی تجویز و نقشہ کشی اور مہارت و سلیقہ مندی کا زندہ ثبوت سامنے دیکھ کر اس کے حق میں کلمۂ خیرو آفرین زبان پر لائیں۔
کسی فرد کی سیرۃ یا تحریک وجماعت کی تاریخ اس کے لیے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس طرح انفرادی سیرت کا بھر پور نفسیاتی جائزہ لینے سے اور پھر اظہار رائے میں اس کی دیانت دارانہ عکاسی وترجمانی سے فرد کی ذات کا مکمل تعارف حاصل ہوتا ہے ایسے ہی کسی تحریک و جماعت کا چہرہ بھی اس کی تاریخ کے آئینہ میں دیکھ کر ہی اس کے اجتماعی وجود کی اُٹھان، نشوونما، نظم وترتیب، وسعت وارتقاء، قیام واستقلال، رسوخ واستحکام اور جذب وکشش کے حقیقی اسباب وعلل کی صحیح نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
بلاشُبْہَہْ تاریخ احرار کو بھی مجلس احرار اسلام کی زندگی میں یہی اصولی مقام اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جس کا مطالعہ کیے بغیر کوئی بھی شخص برصغیر ہندوپاک میں قومی وجود کے تحفظ وبقا کی مربوط اور مسلسل تحریک کا صحیح جائزہ نہیں لے سکتا اور کائنات میں اسلام کے سب سے بڑے اور بُرے دشمن، فرنگی سام راج کے غاصبانہ اقتدار اور اس کے پنجہ ظلم واستبداد سے آزادی ورہائی حاصل کرنے کی اجتماعی جدوجہد کے ہرمدوجزر اورنشیب وفرازسے پوری طرح باخبر نہیں ہوسکتا۔ آزادی کا وہ گوہر بیش بہا جو آگ اور خون کے سمندر میں غوطہ زنی سے حاصل کیا گیا ہے اس جیسی نعمت عظمیٰ کی صحیح قدر دانی کے لیے اس خِطۂ زمین پر غلبۂ اسلام کا پرچم لہرانے کی دیرینہ معصوم امنگوں اور حسین آرزوؤں کی سچی داستان معلوم نہیں کی جا سکتی اورنہ ہی مقصد وورثۂ نبوت کی آئینہ دار، امارت اسلامیہ، خلافت راشدہ، جمہوریت کاملہ اور شورائیت عادلہ کا مثالی نظام برپا کرنے کی صدیوں پر محیط انقلابی دعوت کے بنیادی محرکات وعوامل سے علمی وفکری رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ برصغیر کی کوئی بھی دینی یاسیاسی دستاویز تاریخ احرار کے ناقابل فراموش دفتر ایثار وقربانی کا پیوند لگائے بنا مکمل تاریخ آزادی کی شکل اختیار نہیں کرسکتی۔ بلکہ فی الحقیقت صرف تاریخ آزادی کہلانے کا استحقاق بھی نہیں رکھتی۔
یہ ایک اتفاقی مگر سخت افسوس ناک امر ہے کہ جو مجلس احرار اسلام امت مرحومہ کے متفقہ عقائد اور اجماعی مقاصد ملحوظ رکھتے ہوئے بے پناہ عزائم کے ساتھ اجتماعی قیادت کے لیے میدان عمل میں اتری تھی۔ وہی جماعت اپنی برپا کردہ تحریک کے نشیب وفراز پر مشتمل سوانح وواقعات کو ابتدائی دور میں مناسب نظم وترتیب کے ساتھ قلم بند کرانے کا اہتمام نہ کرسکی۔ پھر اصول فطرت کے تحت ہر رہنما کا اپنا ایک مستقل مزاج تھا یہاں جماعت کے تمام اہل علم وقلم اصحاب کا نہ تو مکمل تعارف اور استقصاء مقصود ہے اور نہ ہی تَقدِمہ کی محدود تحریر میں اس تفصیل کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے صرف دو اصل بنیادی ومرکزی اکابر اور ان کے چند ایسے رفقاء کا مجمل ومختصر ذکر کیا جاتا ہے جن کی تقریر وتحریر جماعتی اصول ومقاصد کے لیے سب سے زیادہ مستند ترجمان کی حیثیت رکھتی ہے۔
سیدنا حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کو اﷲ تعالیٰ نے خطابت کا شہنشاہ تو بنایا ہی تھا اس کے ساتھ ہی قلم کے ذریعہ اظہار مافی الضمیر کی زبردست صلاحیت و قوت بھی عطاء فرمائی تھی جس کا بڑا واضح ثبوت آپ کے بیاض وخطوط وغیرہ کی انتہائی سادہ وسہل، شستہ وشگفتہ اور جامع تحریرات میں ملتا ہے۔ لیکن ایک تو تصنیف وتالیف افتاد طبع کے مطابق نہ تھی اور نہ ہی اس کی طرف کچھ میلان اور شوق تھا، دوسرے جس قسم کی مصروف ترین عوامی زندگی تبلیغی جد وجہد میں بہ حد آخر انہماک اور ریل جیل کے چکرنے آپ کو گھیر لیا تھا۔ اس حالت میں یہ شغل اختیار فرما بھی لیتے تو نبھ نہ سکتا۔ ورنہ اپنی سراپا باغ وبہار فطرت آمادہ و مستعد اور موزوں طبیعت، ذہانت وذکاوت، فراست وبصیرت، علمی وادبی او رشعری ذوق، چہل سالہ بے پناہ مطالعہ ومشاہدہ اور عملی تجربہ کے پیش نظر جو کچھ بھی قلم بند فرماتے وہ ضخیم دفاتر پر مشتمل، تمام مسائل پر حاوی دستاویز اور حرف آخر کا درجہ رکھتا۔ اس میں ’’بیرون در‘‘ کے ہر تماشا کی رُوداد تو ہوتی ہی لیکن ہر تحریک و جماعت اور ان کی بڑ ی بڑی ہول ناک جغادری شخصیات کے کھوکھلے اور وحشت انگیز کرداروں سے متعلقہ ’’اندرون خانہ‘‘ کے سیکڑوں سربستہ رازوں کی نقاب کشائی اور حقیقت نمائی بھی ہوتی کہ آج ہم تاریخِ سیاست وحریت کے مطالعہ وتحریر میں ان مخفی داستانوں کی ایک ایک سطر کے لیے بے شمار مگر مجمل مطبوعات کے محتاج ہیں۔ پھر رطب و یابس اور حق وباطل کا ملغوبہ اخباری ذخیرہ او ردشمنانِ اسلام ودشمنان تحریک آزادی کے بغض وانتقام کے زہر میں بجھے ہوئے ظالم قلم سے دن رات میں دھڑا دھڑ نکلنے والے یہودیانہ لٹریچر کا انبار سامنے ہے جو ہمارے لیے تعجب و حیرت اور افسوس وحسرت او ر فکرِ مستقبل کی مجسم دعوت بنا ہوا ہے۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ اﷲ علیہ بھی اکثر خطوط وبیانات لکھتے اور کتابی مواد بہت کم قلم بند فرماتے تھے تاہم خطبۂ صدارت، خود نوشت سوانحی خاکہ، اسلامی حکومت وغیرہ عنوانات سے جو چند اوراق بھی آپ نے لکھے وہ ان کے عقائد اسلامی کی طرح مستحکم اٹل واضح دینی فکر، صَیقَل شدہ سیاسی شعور وبصیرت، ذکاوت ونکتہ رسی اور تدبر کامل کے آئینہ دار ہیں۔
قائدِ احرار محترم شیخ حسام الدین رحمتہ اﷲ علیہ اصطلاحی طور پر کوئی مصنف یا مؤلف نہ تھے۔ البتہ فطری استعداد، علم دوستی، ادب و انشاء سے والہانہ ربط ودلچسپی، ذوق شعر و سخن فہمی، وسیع سیاسی مطالعہ و مشاہدہ، ربع صدی پر محیط دینی قومی اور ملکی معاملات میں تلخ و صبر آزماسیاست کا عملی تجربہ اور سب پر ُمستزاد اپنے عہد کے جید علماء و صلحاء اور آزمودہ کار احباب و قائدین کی سراپا شفقت صحبت اور برکت آمیز تربیت۔ ان اجزاء وعناصر نے ان کی طبیعت اور مزاج کو تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے فن سے بہت مانوس وقریب کر دیا تھا۔ لیکن ہر لحظہ کی پر خطر انقلابی زندگی کے بے پناہ مشاغل کے سبب سے انھیں بھی یکسوئی اور استقلال کے ساتھ اس فن کے مقتضیات پورے کرنے کی مہلت نہ مل سکی۔ تاہم اس افراتفری میں بھی ان کے قلم سے چند ایک قابل قدر اور مفید چیزیں ضبط تحریر میں آگئی ہیں۔ مجلس احرار اسلام کے اصول و مقاصد اور جدوجہد آزادی کے دوران میں اس کے مثبت لائحۂ عمل کے اظہار کے لیے مختلف مواقع میں آپ کے چند ایک خطبات، بہت سی تقاریر اور متعدد بیانات کا مطبوعہ و غیر مطبوعہ ذخیرہ موجود ہے۔ یہ تحریرات قومی نفسیات پر ان کی گہری نگاہ، فرنگی کی عیارانہ ڈپلومیسی نیز اس کے ہندو مسلم گماشتوں اور ملت و وطن دشمن رجعت پسند ٹوڈی تحریکات کے پس منظر سے آگاہی کی دلیل ہیں۔ اور خصوصا بین الاقوامی سیاست سے ان کے غیر معمولی شغف اُس کے عالمانہ شعور، وطن عزیز اور عالم اسلام کے مستقبل پر یہود و نصاریٰ اور دہریوں کے بے پناہ وروزافزوں اقتدار وتسلط کے اسباب وعلل پر ماہرانہ عبور اور مبصرانہ تجزیہ نگاری کا عکس جمیل ہیں۔ جماعت کی مرکزی عاملہ و مجلس مندوبین (جنرل کونسل) کے اجتماعات میں مُرَتّبہ اکثر و بیشتر قرادادیں حضرت شیخ صاحب مرحوم کی فکری پختگی اور سیاسی بصیرت کے تجزیہ کے لیے بہترین معیار و میزان کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایک فرنگی مصنف کی مشہور سیاسی کتاب کا مفید مطبوعہ اردو ترجمہ بنام ’’انقلابِ سن ستاون کی تصویر کا دوسرا رخ‘‘ اہم تاریخی خدمت کا درجہ رکھتا ہے۔ نیز پچاس سال پہلے جب روس اور اس کے ماحول میں ایک خالص مادہ پرستانہ فکری بغاوت ابھری اور عالمی سطح پر انتہائی مؤثر و خطرناک دہریت آمیز و اباحیت انگیز اشتراکی انقلاب برپا ہوا تو اُس وقت روس میں ایک غیر ملکی مبصر و مؤلف مقیم تھا جس نے داستانِ انقلاب کو جامع صورت میں محفوظ رکھنے کے لیے ایک زبردست تاریخی اور سیاسی کتاب تالیف کی۔ حضرت شیخ صاحب مرحوم نے اس کتاب کا دو ضخیم جلد میں معنی خیز، شستہ و شگفتہ اور سلیس و رواں اردو میں ترجمہ کیا جو ان کی زبان دانی، انشائی صلاحیت، مقصودِ مصنف اور موضوع ومضمون کے صحیح فہم و احساس اس کی کامیاب عکاسی اور بھر پور ترجمانی کا بہترین شکار ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے متعدد خطبات و بیانات نیز ملکی امور اور وقتی تحریکات میں قائدانہ رہنمائی کے نقطۂ نظر سے بہت سی تقاریر کا ایک ذخیرہ بھی موجود ہے۔ جو مجلس اور قوم کی نئی پود کے لیے جماعتی عقائد وافکار، اصول و مقاصد اور بنیادی محرکات وعوامل کا محتاط جائزہ کہلانے کا مستحق ہے۔ جماعت کے خلوص وایثار، حیرت انگیز و روح پرور، ایمان افروز، قابل رشک احوال اور ناقابل تردید واقعات پر مشتمل یہ ذخیرہ جو ا س کی تاریخ کے ایک اہم باب اور ملکی سیاست کے لیے آئینۂ حقیقت نما کی حیثیت رکھتا ہے اپنوں کے لیے روشن و شاندار ماضی کی عظیم فکری دستاویز ہے اور اغیار کے لیے ایک دفترِ نصیحت وعبرت۔!
جناب مولوی مظہر علی اظہر شیعہ مذہب ہونے کے باوجود اپنے وقت میں جماعت کے بلند پایہ سیاسی ترجمان اس کی ملکی پالیسیوں کے بہترین مجوز و شارح اور معتر ضین و مخالفین کے مقابلہ میں بے نظیر جوابی مقرر تھے۔ علمی و اصولی بحث کے وقت روشن فکر، شستہ زبان اور استدلال و منطق کے ہتھیار وں سے مسلح بے باک نقاد و مبصر تھے۔ انھوں نے بھی متعدد خطبات و مضامین سپر د قلم کیے خصوصاً تحریک شہید گنج، تحریک مدح صحابہ اور ہمارے فرقہ وارانہ فیصلہ کا استدراج یا جداگانہ انتخاب سے پاکستان تک جیسی اہم تالیفات کے ذریعہ تاریخ سیاست و اجتماعیات کے اساتذہ اور خوشہ چینوں سے بے پناہ خراج تحسین وصول کیا۔!
مفکر احرار امیر افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ بنیادی طور پر ایک مفکر و مصلح اور خوش فکر ادیب و انشاء پرداز تھے۔ ابتدا سے ہی قلم و قرطاس سے لگاؤ تھا۔ دینی نقطۂ نظر، اصلاح، اخلاق و اعمال خصوصاً قومی اور سیاسی زندگی کو سرمایہ پرستی، معاشی استحصال اور ظلم وتشدد کی آلائشوں سے تطہیرو تہذیب سے ہم کنار کرنا ان کا فطری جذبہ اور دل پسند و حقیقی موضوع رہا۔ چنانچہ دنیامیں دوزخ، زندگی، جواہرات، شعور، دیہاتی رومان، آزادیٔ ہند، محبوب خدا، میرا افسانہ، دین اسلام نیز متعدد خطبات بیانات اور توضیحی مضامین کے مختلف عنوانات کے تحت ان کے خامۂ گوہر بار کے ذریعہ ہزاروں صفحات میں پھیلاہو ابیش بہا تحریری سرمایہ موجود ہے۔ جو ان کے تقدسِ عقائد، علُوّفکر، اخلاصِ نیت، جذبۂ اصلاح، دردمندی، نفسیاتی تبحر، سلامت ذوق، حسن و معصومیتِ تعبیر، نفاست طنز، بلاغت تطبیق یعنی عروج انسانیت اور کمال اسلامیت کاامین اور عکاس وترجمان ہے۔
ان اوصاف کے ساتھ ساتھ ہر بزر گ عقائد، تبلیغ، سیاست، معاشیات وغیرہ مختلف مضامین میں سے کسی نہ کسی موضوع کی طرف ایک مخصوص طبعی رجحان رکھتے تھے۔ نیز اپنے اپنے فقہی مسلک اور مذہب سے وابستگی کی بناء پر مختلف خیالات کے بھی پابند تھے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلافِ فکر و مذہب مختلف قومی مسائل پیدا ہونے پر ہر موقع کی مناسبت سے بالکل واضح طور پر سامنے بھی آجاتا۔ بڑے پیارے انداز میں ضابطہ کی شکایات بھی ہوتیں اور ان پر بحث و تمحیص بھی ہوتی۔ کیوں کہ ارض ہند و پاک کی مختلف اقوام میں کفر واسلام کا اختلاف اورمذہبی گروہوں میں مسلک حق وباطل کی نسبت قائم ہونے کے باوجود چونکہ آزادی کا مرحلہ ابھی دور تھا اور جذبۂ خود اختیاری کے مطابق دینی بنیادوں پر سب کے حقوق کی تعیین اور دستورو قانون سازی کا مسئلہ ابھی زیر بحث اور زیر عمل لانے کا وقت ہی نہیں آیا تھا بلکہ غلامی کی صدیوں سے محیط اور ملک گیر آفت کے سدباب کے لیے نیز سردست ایک ظالم وغاصب بیرونی اقتدار کی جڑیں اکھیڑنے کی غرض سے مشترک دشمن انگریز کے خلاف اصل محاذ قائم تھا اور آزادی وطن کے بعد خود مختار، قومی حکومت کی تشکیل کے ذریعہ ایک روشن مستقبل اور پر امن و فراغت زندگی کی حسین امید و آرزو اور پاکیزہ جدوجہد پیش نظر تھی اور یہی موضوع اپنی بنیادی اور مرکزی حیثیت کے سبب سے تمام مسائل پر حاوی تھا۔ اس لیے خطرناک سے خطرناک ابتلا ء کے وقت بھی الحمد للّٰہ جماعت اندرونی طور پر کبھی بھی فرقہ وارانہ کشمکش کا شکار نہ ہوئی اور مختلف الخیال و مختلف المسلک لوگوں کا یہ عجیب و غریب اجتماع نہ تو کبھی راہ راست سے انحراف کا ذریعہ اور نہ ہی منزل مقصود سے اس کی دوری کا سبب بن سکا۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس ہوتا یہ تھا کہ یہ نرالے لوگوں کی مناسب دماغی جنگ اور محتاط عملی اختلاف کی سیرو تفریح کے بعد پھر اصولی اتحاد کی قدر مشترک پر جمع ہو کر اپنے اصل مقصد کے لیے مصروف کار ہوجاتے تھے۔ غرض ان کی دوستی، اجتماع و اختلاف ، بحث و نزاع اور اتحاد ساری جدوجہد صرف اور صرف دین اور قوم و وطن کے لیے تھی ذاتی غرض کا اس میں شائبہ تک نہ تھا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی!
یہ تمام صورت حال جماعت کے حق پرست اکابر اور وسیع الظرف، بہادر اور جان نثار کارکنوں کے خلوص نیت، سچی لگن اور محنت کا ثمرہ تھا۔ ورنہ حقیقتاً نہ تو اس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں حتیٰ کہ آج تک بھی ایسے مختلف و متنوع معاصر کا ایسا کامیاب اجتماع بروئے کار آسکا اور نہ ہی قومی معاملات میں ملک گیر پیمانہ پر ایسے بابرکت وپر تاثیر اور مثبت انقلابی نتائج ہی برآمد ہو سکے اور آئندہ کے لیے تو ان باتوں کی امید بلکہ خیال بھی دیوانہ کا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اور یوں تو جب تک سانس تب تک آنس وما ذالک علی اللّٰہ بعزیز۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ دیوبندی، بریلوی، غیر مقلد، تفضیلی شیعہ حتیٰ کہ انقلاب روس سے کچھ متاثر آزاد خیال چند نوجوانوں کے اس عجیب و غریب اور بہ ظاہر متضاد اجتماع کے وقت بھی شیعہ تو ملکی سطح پر بھی حد سے حد، دس سے زائد نہ تھے۔ البتہ مقلد حنفی، بریلوی اورغیر مقلد اہل حدیث کی تعداد بلا شبہ سیکڑوں تک پہنچتی تھی اور ان کے بعد تو جماعت کے ہزاروں اور لاکھوں متعلقین کی قطعی اکثریت امت کے ننانوے فی صدی متفقہ عقائد کے مطابق اہل السنۃ والجماعۃ اور اکابر دیوبند مسلک پر کار بند تھی۔ یعنی پوری جماعت پر اصولا ہمیشہ سے صحیح العقیدہ اکابر اراکین و معاونین اور رضاکاروں کی جمہوریت قابض اور اس کی تمام دینی اور ملکی مہمات میں کار فرما روح و رواں تھی۔ اور اس اکثریت کی نہایت بہترو موزوں نمائندگی کے لیے بھی قدرت نے سید الاحرار حضرت امیر شریعت اور حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ اﷲ علیہما کو منتخب کردیا تھا۔ ان کا اعتقادی تصلب، غیرت مندانہ موقف و مسلک اور خاندانی و شخصی وجاہت، اختلاف اور شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ جماعت کی اصل دینی و سیاسی قیادت ان عبقری الفطرت (جینئس) اور اہل ترین اشخاص کے فکرو عمل سے مربوط ہونے کے سبب سے بفضلہ تعالیٰ ہر قسم کے فکری اختلال اور عملی تزلزل سے محفوظ رہی۔ جماعت کے صراط مستقیم پر گام زن رہنے کی ایک تو یہی بنیادی وجہ تھی اور دوسری وجہ جو اسی سے ملتی جلتی ہے وہ یہ ہے کہ اکابرِ احرار کے توسط سے جماعت کو وقت کے جید علماء و مشائخ کی علمی و روحانی سرپرستی کا بیرونی سہارا بھی حاصل تھا۔ نتیجتاً اندر باہر نیکی کے اس تعلق سے بحمداﷲ جماعت میں خیر ہی خیر کا پہلو بہر طور اور بہر دور غالب رہا، چنانچہ اسی پالیسی نے ایک ایسی پر جوش دینی فضاء قائم کردی تھی کہ پچھلے چالیس سال کے طویل عرصہ میں دہریت، عیسایت، مرزائیت، چکڑالویت، سبائیت، بدعت پرستی نیز انگریز کے ہواخواہوں اور نمک خواروں کی ہر غدارانہ تحریک ، قوم فروشانہ اور وطن دشمن سیاسی گٹھ جوڑ، غرض ہر فتنہ و سازش اور اس کے سرغنوں کو احرار نے ایک لمحہ کے لیے کبھی بھی معاف نہیں کیا۔ بلکہ ہزار انسانی کمزوریوں اور مادی بے سروسامانیوں کے باوجود اپنی استعداد وہمت اور بسا ط و قوت سے سیکڑوں گنا بڑھ چڑھ کر دفاع دین مقدس کا فریضہ ادا کیا۔ اپنے اکابر کی مشہور عالم اور بے نظیر قوت خطابت اور محدود تر اِشاعتی وسائل کے ساتھ ملعون انگریز کا منہ توڑ نے اس کے تمام زلّہ خواروں اور خود کاشتہ پودوں کی پوری سرکوبی اور بیخ کُنی کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی تو پھر محض اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور فضل وکرم کے شامل حال ہونے نیز حضور خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کے ازواج واولاد اور اصحاب کرام رضی اﷲ عنہم کی روحانی تاثیر و توجہ اور فیض وبرکت سے ہردور ومرحلہ اور دین و سیاست کے ہرشعبہ میں خلاف امید وتوقع مناسب کامیابیاں بھی جماعت کو حاصل ہوئیں۔ اور کچھ بھی نہ ہوتا تو یہ ایک چیز کیا کم قابل فخرو موجب شکر ہے؟ کہ اس غریب مگر مخلص جماعت کے وجود سے بفضلہ تعالیٰ حق پرست علماء و مشائخ کی پگڑیاں محفوظ ہوگئیں اور انھیں سیاسیات میں عوامی سطح پر دخل انداز ہونے کے مواقع میسر آئے۔ مدارس و مجالس اور صحیح اہل السنت والجماعت کا وقار بلند ہوا اور ان کا حوصلہ دو چند ہو گیا۔ غلبۂ اسلام کی تحریک کو زبردست قوت حاصل ہوئی، بے زبانوں کو زبان اور طاقت گفتار مل گئی۔ اسلام اور انقلاب کا نام لینے والے گھروں سے نکل کر جہاد آزادی میں صف اوّل کے شریک اور عین محاذ پر مورچہ بند ہوگئے۔ وکٰفی بِہٖ فخراً وشکراً۔
جماعت کے قومی تاثر اور قابل فخر کارناموں میں تقسیم ملک سے پہلے اپنی تنظیم کا اعلان کرتے ہی سب سے پہلے تحریک کشمیر ۳۱۔۱۹۳۲ء کی زبردست آزمائش پیش آئی جس میں اﷲ تعالیٰ نے فتح مبین عطاء فرمائی۔ اس کے بعد بالترتیب تحریک کپورتھلا ۱۹۳۳ء، تحریک مسجد شہید گنج لاہور ۱۹۳۵ء، تحریک مدح صحابہ لکھنؤ ۳۶۔۱۹۳۷ء، تحریک بہاول پور ۱۹۳۸ء، تحریک مسجد منزل گاہ سکھر ۱۹۳۹ء، تحریک قیام حکومت الہٰیہ ۱۹۴۳ء اور پھر تقسیم ملک کو اولاً بہ طور، وفاقی حکومت، اور آخر میں تشکیل پاکستان کی صورت میں قبول کرنے کے لیے۔ تحریک تکمیل آزادی ۱۹۴۶ء کی عظیم جنگ لڑی گئی یہ تمام تحریکات مذکورہ بالا نتائج کے لیے مرحلہ وار اور تدریجاً جو مسلسل اور بے پناہ جدوجہد کی گئی اس کے دعویٰ کے زندہ ثبوت اور سچی گواہی کے انمٹ نشان ہیں۔ تقسیم ملک کے بعد جب لیگ کے اسلامی پاکستان والے جھوٹے نعرہ کے بھَرّے میں آکر لٹ جانے والے مسلمانوں میں فطری طور پر دین سے والہانہ اور باشعور وابستگی کا باقاعدہ اظہار شروع ہوا پوری ملت کے دل میں اسوۂ صحابہ کی روشنی میں کتاب وسنت پر مبنی نظام زندگی برپا کرنے کی پرانی آرزوئیں مچلنے اور امیدیں کروٹیں لینے لگیں۔ فرنگی کے بنائے ہوئے مردم شماری کا دفتر الٹ کر کفر و اسلام کا صحیح قانونی فرق اور شریعت میں کافر ومسلم کے مقرر حقوق کا تعین و امتیاز خصوصاً مرزائیوں کا کفر و ارتداد واضح کرنے کا اٹل عزم و جذبہ بروئے کار آگیا۔ تو پھر تو حید و ختم نبوت اور ناموس ازواج و صحابہ کے تحفظ کے لیے عاشقانہ ایثار و قربانی کے عدیم المثال مظاہرہ کے طور پر تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت ۱۹۵۳ء مینارۂ نور بن کر نمودار ہوئی۔ جس کی شدت، قوت، وسعت اور عظمت کے طفیل سے بے مروت بے وفا ارباب اقتدار کے برسوں پہلے لگائے ہوئے کھوکھلے اور جھوٹے اسلامی نعروں کی قلعی کھل گئی۔ ازلی احرار دشمنوں، انگریزی ٹاؤٹوں، ٹوڈیوں، سرکاری مولویوں نیز ہر فرقہ کے خود غرض اور شیطانی بغض میں مبتلا ناپسندیدہ افراد نے تحریک کو تہ و بالا کرنے اور اس کے متعلقین کو خاک وخون میں تڑپانے کے لیے ظالم حکومت سے جو ناپاک گٹھ جوڑ اور سازش کا جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس کے راز طشت ازبام ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ جماعتِ اسلامی جو اہل السنت والجماعت کے خلاف چل کر خوارج وروافض کی طرح ایک من بھاتے اور بالکل نئے اجتہادی مذہب کو رواج دے کر بھی اصل اسلام کی اجارہ داری سنبھالے بیٹھی ہے اور مسلم لیگ کی ریس میں پچاس سالہ تاریخ آزادی کو مسخ کرکے بہ زعم خویش قوم کی فرضی واحد نمائندگی کی مدعی اور درحقیقت ایک مغرور اور غلط کار قیادت عظمیٰ کی علم بردار بنی ہوئی ہے۔ اسلام اسلام کی رٹ لگانے میں بڑی فن کا ر اور پروپیگنڈے پبلسٹی کی جدیدبرطانوی اور نازی جرمنی والی اُستاکاری اور تکنیک میں ماہرو مشاق ہے۔ اس جماعت نے تحریک کے مدوجزر پر موقع پرستار نگاہ رکھی بہ شرط کامیابی ساتھ ہونے کا دعویٰ رکھنے اور بہ صورت ناکامی اپنی اختلافی برائی کو دلیل فرار بنانے کی دوغلی پالیسی اپنائے رکھی۔ بہ ظاہر حکام اور احرار سمیت تمام دوسری تنظیمات کے مخالف ہو کر اپنی مصنوعی میانہ روی، امن پسندی اور قانون پروری کا عیارانہ پروپیگنڈا جاری رکھا، لیکن اپنی اصل حقیقت اور فطرت کے بالکل مطابق مفت کے کریڈٹ جھوٹے وقار اور آرزوئے اقتدار کی خاطر عین وقت پر وعدہ معاف سلطانی گواہ کاروپ دھار لیا۔ جنوری ۱۹۵۳ء کے دوران میں سابق وزیر جناب الحاج مولیٰ بخش سومرو کی کو ٹھی پر کل پاکستان مجلس عمل کی مرکزی کراچی کنونشن میں ملک کے ہر فرقہ سے متعلقہ پانچ سو نمائندہ علماء سمیت اس کے امیر المومنین جناب مودودی صاحب نے علانیہ شرکت کی اور حضرت امیر شریعت کے گھٹنے سے گھٹنا ملا کر بیٹھے ہوئے تحریک کی راست اقدام والی آخری قرارداد پر واضح دستخط کیے۔ چنانچہ سینکڑوں دستخط والی اس قرارداد کا اصل کاغذ بطور ثبوت تحقیقاتی کورٹ میں پیش ہو کر جھوٹوں کا منہ بند بھی کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود صالحین اور ان کے قائد اعظم نے کچہری میں ان سب باتوں سے دیدہ دلیرانہ انحراف وانکار اور قوم سے غداری کا مکروہ ارتکاب کر ڈالا
حضرتِ ناصح نے مئے پی کر یہ اچھی چال کی؟
محتسب سے جا ملے، رندوں کے مخبر ہو گئے
لیکن سارے جتن کر گزرنے کے بعد بھی فرضی پاک دامنی ثابت کرنے اور چمڑی بچانے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی واقعہ کے مطابق حکومت نے مجرم قراردے کر سزا بھی دے ڈالی حال آنکہ اگر یہی افتاد اعلان حق کے ساتھ قبول کی جاتی تو عین ایثار وجہاد کی نعمت سے سرفراز ہوتے۔ مگر مقدر کی روسیاہی چھا کر رہی چنانچہ اس گروہ کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی مخصوص و معین خفیہ پالیسی کے مطابق ہر حجت تمام ہوجانے کے باوجود دو رانِ تحریک، دورانِ تفتیش بعد از خاتمۂ تحریک آزاد رہ کر اور دورانِ مارشل لا بھی زبان وقلم اور عمل کا ہر حیلہ استعمال کر کے پوری ڈھٹائی سے اپنی تاجرانہ ذہنیت اور دورُخی پالیسی کے درست ہونے پر مجرمانہ اصرار جاری رکھا۔ حتیٰ کہ آج تک بھی پیسے اور پروپیگنڈے کے زور پر اس کی طرف سے اپنے باطل کو حق ثابت کرنے کی مذموم کوشش پوری ہٹ دھرمی سے جاری وساری ہے۔ مجاہدین احرار اور علماء کی اس نئی مدعیٔ تجدید دین، حزب مخالف اور مسلمانوں کی اس جیسی کئی دوسری بوگس اور فراڈ قسم کی خیرخواہ ٹولیوں کا گریزوفرار اور بغض ونفاق بھی اسی تحریک کی برکت سے عالم آشکار ا ہو کر رہا۔ احرار کے زیرِ سایہ آٹھ دوسری مسلمان جماعتوں کی رفاقت میں چلنے والی یہ سرپا امن و قانون عوامیت و جمہوریت کی مکمل تائید سے مسلح تاریخ ساز عظیم الشان تحریک احرار کے دین دنیا کی سب سے بڑی متاع اس کے لیے باعث ہزار عزت وافتخار، سرمایہ اور موجب فلاح و نجات عمل صالح ہے۔ کہ ان تمام بد عہد و غدار قومی اور دینی مجرمین کے انکار اور بھگوڑے پن کے بالکل برعکس ’’قوم‘‘ منیر تحقیقاتی کورٹ اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے جس عظیم و بے مثال تحریک کے اوّل و آخر کی تمام تر ذمہ داری قبول کرنے کا شرف بھی صرف احرار کے امیرکارواں حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کا روشن نصیب ہوا۔ اور قیامت تک کے لیے اس گناہ گار مگر مخلص و ایمان دار جماعت کے اجتماعی محاسن کا طرۂ امتیاز بن گیا۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشا ء واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔
بہر کیف اپنے عجیب وغریب عوامی اور جمہوری اجتماع اور تاریخی پس منظر کے مطابق مجلس احرار اسلام کا بنیادی موقف اور مجموعی کردار یہ رہا ہے کہ مسلم عوام کو انفرادی ضروریات اور قومی حوادث میں رہنمائی دینے کے لیے اس نے اپنی بادلیل فقہی رائے کے باوجود اکثر و بیشتر حجۃ الاسلام حضرت علامہ محمد انور شاہ انصاری کاشمیری رحمتہ اﷲ علیہ، فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد کفایت اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور قطب العصر، حضرت مولانا شاہ عبدلقادر رائے پوری نوراﷲ مرقدہ جیسے اکابر علماء حق کے مسلک پر اعتماد کیا اور خاص ملکی اور سیاسی مشکلات میں امت کے اجماعی فتویٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی مستقل رائے کو اپنے دستوری ضوابط کے ساتھ اپنایا اور پھر تنظیمی لائحۂ عمل کے طور پر پوری قوم کو اس کی روشنی میں بھر پور جدوجہد اور قیادت سے بہر ہ ور کیا۔ طبعی اصول کے مطابق ملکی مسائل میں بہت سے مواقع پر حضرات علماء کرام سے پورے خلوص ودیانت کے ساتھ دلائل وشواہد کی بنیاد پر زبردست اختلافات بھی ہوئے لیکن ایسی جداگانہ سیاسی آراء بھی محض اختلافی بات نہ تھیں بلکہ ان کے اندر بھی بزرگوں ہی کا ایک جم غفیر احرار کا موید وہم نوا رہا، وہ آراء ان سے استصواب اور ان کے مشورہ سے کبھی خالی نہیں رہیں، اس سلسلہ میں حضرت رائے پوری رحمتہ اﷲ علیہ تو خصوصیت کے ساتھ ہر مرحلہ پر اور ہر مہم میں نہ صرف یہ کہ چند اکابر احرار کے شیخ طریقت ہونے کی حیثیت میں ہی فیض رساں تھے بلکہ آخری دم تک پوری جماعت کے پیرومرشد اور روحانی مربی وسرپرست کامنصب بھی سنبھالے رہے۔ اور ایک زمانہ گواہ ہے کہ ایسے بزرگوں کی الہامی تائید کے ساتھ بروئے کار آنے والا احرار کا ہر فیصلہ بحمداﷲ روز روشن کی طرح واضح اور دو اور دو چار کی طرح اٹل حقیقت بن کر قوم سے ہمیشہ خراج تحسین وصول کرتا رہا۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.