( من جانب مجلس احرار اسلام بہ جواب جماعت اسلامی ، بہ سلسلہ تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۵۳ء ) (قسط اول)
ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ
(تاریخی تفصیلات کے مطابق جماعت نے اپنے پختہ اور قابلِ رشک دینی مزاج اور غیرت مندانہ سیاسی مؤقف کے زیرِ اثر آغازِ زندگی سے لے کر تقسیمِ ملک تک حصولِ آزادی کے لیے مختلف اوقات میں کوئی درجن بھر تحریکات چلائیں جو مجموعی طور پر کامیاب اور مفید و مؤثر ثابت ہوئیں اور ملک و ملت کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضامن بن گئیں۔ بعد از تقسیم اس کے عظیم و قابلِ فخر اور انتہائی دور رس اثرات کے حامل کارناموں میں ’’تحریکِ مقدسِ تحفظِ ختمِ نبوت‘‘ کو بلند اور اہم ترین مقام حاصل ہے۔ جیسے فوج جسم و جان اور سامانِ حرب و ضرت کے ساتھی مادّی طور پر ملک کا تحفظ کرتی ہے۔ اہلِ حق اور قوتِ ایمان کے مظاہرات کے ذریعہ ملک و ملت کے اعتقادی تصلُّب، فکری استحکام اور اجتماعی جوشِ عمل…… گویا پورے دین و سیاست کے روحانی اور ظاہری تحفظ و بقاء کا سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ عظیم اور پاکیزہ تحریک اپنے آغاز سے قریباً بیس پچیس سال پہلے کی مسلسل جدوجہد کے قدرتی نتیجہ میں مشعلِ ہدایت اور مینارۂ نور بن کر نمودار ہوئی۔ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ تشکیلِ پاکستان کے وقت ملت اسلامیہ جن ناقابلِ ترمیم و اضافہ دینی اصول و عقائد پر اپنی آئندہ زندگی کی دستوری تعمیر کے لیے بے چین اور دیوانہ ہو رہی تھی، ان کی اس بے قراری کو زبانِ عمل سے ظاہر کرنے کی صورت پیدا ہو، یعنی کارپردازانِ تحریکِ پاکستان کے جذبات انگیز اسلامی نعروں کو عمل کی میزان میں تولنے کے لیے دعوتِ مبارزت دیتے ہوئے فرنگی کا بنایا ہوا مردم شماری کا رجسٹر اور دفتر الٹ دیا جائے۔ مسلمانوں کی پارلیمنٹ کلمۂ اسلام کے پونے چودہ سو سوالہ موروثی اور اجماعی مفہوم کے مطابق کفر و اسلام کی تعریف اور تفریق و امتیاز کے ذریعے مدعیٔ نبوتِ کاذبہ کے پیروکار قادیانی اور لاہوری مرزائیوں کو ان کے اپنے ہی مختلف اور اب تک مسلسل دعاوی کے تحت مسلمانوں سے الگ کرتے ہوئے ایک خلافِ قانون فرقہ اور جماعت قرار دے کر مسلمانوں کے پرانے زخموں کا مداوا کر دے۔
تحریک چلی اور برصغیر ہند و پاک کی دھرتی پر ۱۸۵۷ء کی تحریکِ بغاوت کے بعد سب سے پہلی، سب سے عظیم اور بے مثال خالص دینی تحریک کے طور پر قومی تاریخ کا سنگِ میل قرار پا گئی۔ اسی تحریک کی شدت و قوت اور وسعت و عظمت کے طفیل سے، بے مروّت و بے وفا، وعدہ خلاف اور خائن قائدینِ تحریک پاکستان اور اربابِ اقتدار کے برسوں پرانے تمام جھوٹے اسلامی نعروں کی قلعی کھل گئی۔ تمام اعدائے اسلام اور دشمنانِ احرار انگریز پرستوں اور مذہبی ملمع کار سرکاری ٹاؤٹوں نے تحریک کو تہ و بالا کرنے اور تحریک میں شامل تمام مسلم فرقوں کے نمائندہ زعماء اور ان کی قیادت میں ہر قسم کی قربانی کر گزرنے والے مخلص و پرجوش اور سچے مسلمانوں کو خاک و خون میں تڑپانے کے لیے وقت کی ظالم وبدعہد اور ننگِ اسلام و مسلمین حکومت سے ناپاک گٹھ جوڑ اور سیاسی سازش کا گھناؤنا کردار ادا کیا۔ جس کے راز اسی مبارک تحریک نے طشت از بام کیے۔ اس دور کے بہروپیا کرم فرماؤں میں محترمہ و مقدسہ ’’جماعت اسلامی‘‘ سرفہرست شمار ہوتی ہے۔ پروپیگنڈے کے یورپین ہتھکنڈوں کی ماہر ومشاق اور اسلام کی خود ساختہ ٹھیکیدار اس جماعت نے پوری موقع پرستی، خالص تاجرانہ ذہنیت اور پکی دنیا دارانہ اور دوغلی سیاست کا بھرپور مظاہر کیا۔ اس کے قائد اور مندوب تحریک کے عروج میں کسی سنہرے مستقبل کی جھلک محسوس کرتے ہوئے قریباً پونے دو سال تک نہ صرف اس کے شریکِ کار بنے رہے، بلکہ عادت اور زبردست خواہش کے مطابق انھوں نے اپنے آپ کو تحریک کا بہت نمایاں عنصر ثابت کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی اور جب تحریک ظلم و تشدد کا شکار ہونے لگی تو مصنوعی اعتدال و میانہ روی اور فرضی امن پسندی و قانون پروری چھوڑ چھاڑ کر فیصلہ کن گھڑی میں وعدہ معاف، سلطانی گواہوں کا روپ دھار لیا۔ تحریک کے ظاہری خاتمہ پر حکومت کے قائم کردہ ’’منیر انکوائری کورٹ‘‘‘ کے روبرو تحریک میں اپنی باقاعدہ شمولیت، مجلسِ عمل کے مشوروں میں شرکت بلکہ منصوبہ بندی اور اس کے راست اقدام تک تمام کارروائیوں سے وابستگی کے متعلق انتہائی خیرہ چشمی کے ساتھ دیدہ دلیرانہ تاویل بازی اور انحراف کا مظاہرہ کر دیا۔ جماعت کے قائد اعظم علامہ مودودی صاحب کے بیان صفائی سے لے کر تحریک کے متعلق اس جماعت کے تمام مثبت و منفی لٹریچر میں، اپنی جھوٹی صفائیوں کے انبار لگا دیے گئے اور حد یہ ہے کہ قائدین و فدائیانِ تحریک کی زندگی میں ہی جھوٹ کی اس پوٹ اور تاویل و حیلہ کاری کے اس پلندے کو نشان بے گناہی ثابت کرنا شروع کر دیا۔ بلکہ اس خالص دینی اور قومی تحریک سے علانیہ بے وفائی و غداری کو الٹا اپنا فخریہ کارنامہ بنا کر پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کاروبار جاری رکھا۔
پانی سر سے گزرتا دیکھ کر مجلس احرار اسلام کے سیاسی مبصر، محترم ماسٹر تاج الدین لدھیانوی نے، جو پوری تحریک کے نہ صرف رہنماؤں میں شامل تھے بلکہ اوّل سے آخر تک تمام شرکائے تحریک کے مالہٗ و ماعلیہ کے شاہدِ عدل بھی رہے ہیں۔ بنامِ خدا قلم سنبھالا اور جوابِ ترکی بہ ترکی کے مطابق زیرِ نظر رسالہ مرتب کر کے دینِ مظلوم کے بے درد دعوے داروں کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس کے بعد حرکت مذبوجی کے طور پر ہاتھ پاؤں تو بہت مارے گئے، لیکن آج سولہ برس گزر جانے پر بھی پیسے اور پروپیگنڈے کے تمام علانیہ اور خفیہ وسائل موجود ہونے کے باوجود اس جماعت کے بزرجمہروں کو مبنی برحق و صداقت اصولی جواب کی ایک سطر تک لکھنے کی جرأت نہیں ہو سکی۔ چونکہ عوام ہنگامہ اور وقتی جوش و ہیجان کے بعد ہر تحریک کی تفصیلات عموماً فراموش کر دیتے ہیں۔ اس لیے ہر سیاسی موڑ پر انھیں گزشتہ واقعات کی مصدقہ تفصیلات سے مکمل طور پر باخبر رکھنا از بس ضروری ہے۔ آج جبکہ ہر معاملہ میں دوسروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے مفت کا انعام اور کریڈٹ حاصل کرنے کی خوگر اور آروزئے اقتدار میں اپنی تقیہ نما حکمت عملی کے بل بوتے پر ہر ناجائز کو جائز بنانے والی یہ ’’برگزیدہ اور مقدس جماعت‘‘ پھر اپنی واحد نمائندگی اور اسلامی اجارہ داری کا چکر چلانے میں اندھا دھند مصروف ہے اور اربابِ اقتدار سے لادین جمہوریت کے نام پر اسلام کی بھیک مانگ کر اور سوشلزم کے خلاف بہ زعمِ خویش قیادتِ عظمی کی علمبردار بن کر دراصل تحریک تحفظ ختمِ نبوت کی عظمت و اہمیت کو ختم کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے، تاکہ عوام اور دینی جماعتیں اس کی سابقہ فریب آمیز کارروائیوں کا حساب نہ لے سکیں اور ختمِ نبوّت کے واحد بنیادی مسئلہ کی روشنی میں خالص اسلامی دستور بنانے کی مہم اس کی سیاست کا روڑا نہ بن جائے۔
محترم ماسٹر صاحب کا یہ انتہائی اہم جماعتی بیان اور قابلِ قدر تاریخی و دستاویزی وثیقہ دوبارہ شائع کیا جا رہے تاکہ دین کے فدائی عوام، اسلام کے سب سے بلند اور سب سے اہم مسئلہ کے متعلق اس جماعت کی بے وفائی، خیانت اور اپنے نئے اجتہادی مذہب و مسلک کے مطابق اسلام کے نام پر خالص دنیا دارانہ سیاست بازی سے آگاہ رہتے ہوئے ’’اسلامی آئین بہ تشریح مسئلہ ختمِ نبوت‘‘ کی اپنی اصل منزلِ مقصود کی طرف تیزی سے گامزن رہیں۔ اس جماعت نے دنیا کی ہر اسلامی تحریک میں کیڑے نکال کر مقابلہ میں اپنی فوقیت جتلانے کا مکروہ مشغلہ تحریکِ ختمِ نبوت کے متعلق بھی بدستور جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن اصل حقیقت کیا تھی؟ انکوائری کورٹ میں احرار کو بیانِ صفائی تک کی اجازت نہ دینے اور جماعت کو خلافِ قانون قرار دیے جانے کی سراسر یک طرفہ و ظالمانہ اور تباہ کن پابندیوں اور مجبوریوں سے مکمل ناجائز فائدہ اٹھا کر اس جماعت نے رائی سے کتنے پہاڑ بنائے اور سفید جھوٹوں کے انبار کو اپنی سچائیوں، پاکبازیوں اور فرضی کامیابیوں کا لبادہ کسی طرح پہنایا اور خیالات و نظریات کی تردید کے بجائے واقعات و حقائق کے مسخ و انکار کی شرمناک جرأت کیسے کی؟ اس کے پوست کندہ حالات زیرِ نظر کتابچہ ’’بیانِ صادق‘‘ میں ملاحظہ کیجیے، تاکہ ملکی و قومی تاریخ کا یہ باب تاویل و تحریک کی گندگی سے آلودہ ہو کر نئی نسل کی مسئلہ ختمِ نبوّت سے بے خبری اور جہالت و برگشتگی کا ذریعہ نہ بن جائے۔ واﷲ الموفق وہو المستعان ۔ تعارف از: قائد احرار حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری ، سنہ ۱۹۶۹ء/۱۳۸۹ھ)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی رسولہ الکریم، ہٰذا بیان للناس!
یایہا الذین آمنو اعلیاتقوا اﷲ و کونو مع الصادقین
خدا کا فضل شامل حال رہا کہ تیس پینتیس سال کی سیاسی زندگی میں مجھے بیان بازی کا مرض لاحق نہیں ہوا۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوا کہ کسی نے بلاوجہ الجھنے کی مسلسل کوشش کی تو تنگ آ کر ایک بار جو صحیح بات تھی اس کا اظہار کر دیا اور بس، جواب الجواب کی الجھنوں میں نہ کبھی الجھا ہوں، نہ کبھی الجھنے کا ارادہ ہے۔ جماعتِ اسلامی کی جانب سے جب ’’نوازشات‘‘ کی بھرمار نے زحمت کی صورت اختیار کر لی اور پانی سر سے اونچا جانے لگا تو بحالتِ مجبوری مجھے ان گزارشات کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بات یہ ہوئی کہ جماعتِ اسلامی کی مسلسل نیش زنی سے تنگ آ کر امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے طویل صبر آزما خاموشی کے بعد لائل پور تبلیغ کانفرنس میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو ان کی غلط بیانی پر شرعی انداز میں ٹوکا۔ ان کی تقریر کا آغاز تقریباً ان الفاظ سے ہے:
’’ یا اﷲ! تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت میں شمولیت سے اگر میرے دل میں خلوصِ نیت کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی ایسا خیال تھا کہ تحریکِ ختمِ نبوّت کے ذریعہ سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے تو مجھ پر اور میرے اہل و عیال پر تیرا غضب نازل ہو‘‘۔
اس کے بعد فرمایا کہ:
’’مودودی صاحب کراچی کنونشن میں میرے گھٹنے کے ساتھ گھٹنا ملا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں راست اقدام کا ریزولیوشن پاس ہوا، جس پر دوسرے سینکڑوں علماء سمیت انھوں نے دستخط کیے اور وہ کاغذ منیر انکوائری کورٹ میں پیش بھی ہو چکا ہے۔ وہ آخر دم تک تحریک میں شامل رہے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ تحریک میں شامل نہیں تھے تو میں انھیں دعوتِ مباہلہ دیتا ہوں‘‘۔ وغیر ذلک
حضرت شاہ صاحب کے اس چیلنج سے امیر جماعتِ اسلامی بوکھلا گئے۔ اسی بوکھلاہٹ میں ’’بیانِ حقیقت‘‘ کے عنوان سے ایک بیان شائع فرمایا، جس میں شاہ صاحب کو مخاطب کرنے کی بجائے درو از کار غلط سلط باتیں فرما کر سبھی کو لپیٹ لیا۔ اس بیان میں مولانا موصوف نے اپنے دامن کا داغ دوسروں کے دامن پر لگانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے چیلنج کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اس بیان کے ذریعے دراصل طرح دے گئے ہیں۔
اب میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تحریکِ ختمِ نبوت کے تمام صحیح واقعات عرض کر دوں تاکہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جو غلط بیانیاں فرمائیں ہیں، وہ منظر عام پر آ جائیں۔ اس ناخوش گوار فرض کو میں دکھے دل سے ادا کر رہا ہوں۔
کراچی کنونشن:
حضرت مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد صاحب قادری مدظلہٗ کی زیرِ صدارت آل پارٹیز مسلم کنونشن کا تاریخی اجلاس بدیں غرض کہ تحریک تحفظ ختمِ نبوت کے بارے میں آخری فیصلہ کیا جائے۔ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۵۳ء کو کراچی میں منعقد ہوا۔ بنگال سے لے کر صوبہ سرحد تک کے نمائندوں نے اس اجلاس میں شرکت کی اور کارروائی میں باقاعدہ حصہ لیا۔ تقریریں شروع ہوئیں تو صاحبِ صدر نے مسئلہ کی اہمیت اور وقت کی نزاکت کے پیش نظر شرکاء مجلس سے تقریریں مختصر اور مطلب کی بات کہنے کی اپیل کی۔ دوسرے حضرات کے علاوہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے بھی یہی مشورہ دیا کہ چند آدمی الگ بیٹھ کر باہمی مشورہ سے ہاؤس کے سامنے کوئی مناسب اور قابلِ عمل تجویز پیش کریں تاکہ بے ضرورت باتوں میں قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔ یہ معقول تجویز مان لی گئی تو تیرہ آدمیوں کو منتخب کر کے یہ کام ان کے سپرد کر دیا گیا اور اجلاس ۱۸؍ جنوری کے لیے ملتوی ہو گیا۔ ۱۷؍ کی رات کو تیرہ میں سے صرف نو یا دس حضرات جمع ہوئے اور باہمی مشورہ اور مبادلہ خیال کیا گیا۔
سب کمیٹی کی میٹنگ:
مجھے اس وقت مندرجہ ذیل حضرات کے نام یاد ہیں جو سب کمیٹی میں شریک ہوئے۔ حضرت مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی، حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی، علامہ حافظ محمد کفایت حسین صاحب، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا عزیز الرحمن صاحب (بنگالی)، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا محمد علی صاحب، مولانا محمد یوسف کلکتوی، سید مظفر علی شاہ صاحب شمسی، تاج الدین انصاری۔
سب کمیٹی کی کارروائی شروع ہوئی اور تحفظ ختمِ نبوت کی تحریک کے سلسلہ میں مبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ابتدائی گفتگو کے وقت خاموش بیٹھے تھے، مگر جب وہ گویا ہوئے تو فرمانے لگے کہ آپ کے اس مطالبہ کو ہم نے اپنے آٹھ مطالبات کی فہرست میں نواں مطالبہ بنا کر پیش کر دیا ہے۔ اب اس تحریک کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ دستور ہی میں آپ کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے گا۔ آئندہ تمام جدوجہد دستور ہی کے نام سے ہونی چاہیے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے ارشاد کے جواب میں مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی نے فرمایا کہ مولانا صاحب آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے، آپ شاید سمجھتے ہیں کہ آل مسلم پارٹیز کنونشن پنجاب سے بن کر آئی ہے اور جو مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں، یہ بھی پنجاب والوں کے مطالبات ہیں۔ میں آپ کی آگاہی کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ ۲؍ جون ۵۲ء کو زیر صدارت مولانا سید محمد سلیمان صاحب ندوی، تھیو سافیکل ہال کراچی میں کراچی کی تمام اسلامی پارٹیوں کی جانب سے ایک کنونشن بلائی گئی تھی۔ جس میں جماعتِ اسلامی کا نمائندہ بھی موجود تھا۔ اس کنونشن میں یہ تجویز منظور ہوئی تھی کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دلوانے کے لیے بڑے پیمانے پر آل مسلم پارٹیز کنونشن بلائی جائے، جس کے ذریعے مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی جدوجہد کی جائے۔ موجودہ کنونشن دراصل ہماری اس کنونشن کا نتیجہ ہے، جو ۲؍ جون کو منعقد ہوئی تھی۔ جس کی غرض و غایت واضح اور محدود تھی۔ آج مجھے یا آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم اصل مطالبات سے ادھر ادھر جا سکیں۔ اگر ہم ان مطالبات کو دستوری جدوجہد سے وابستہ کر دیں تو بات ضابطہ کے بالکل خلاف ہو گی۔ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کے ارشادات کی تائید میں، میں نے اصولی اختلافات پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ جس کام کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اور جس غرض کے لیے یہ کنونشن بلائی گئی ہے، اس کی بالکل جداگانہ حیثیت ہے۔ دستور اپنی جگہ ہے۔ ۳۳ جید علماء دستور کے کام میں مصروف ہیں۔ ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ ہم اپنے احاطۂ اختیار سے باہر جائیں۔ ہمیں کنونشن نے جو کام سپرد کیا ہے۔ وہ صرف اسی قدر ہے کہ ہم طریقِ کار کی تجویز مرتب کر کے ہاؤس کے سامنے پیش کر دیں۔ اس کے علاوہ اگر کچھ کیا گیا تو وہ خلافِ ضابطہ ہو گا۔ ہماری گزارشات کے بعد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے ایک طویل تقریر فرمائی اور بار بار یہی فرماتے رہے کہ جو کچھ کرنا ہے دستور کے نام پر کیجیے۔ ہم نے ہر چند سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر ہم سب مل کر صاحبِ دستور حضور رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو دستور کا کام بالکل آسان ہو جائے گا۔ دستور کی راہ میں مرزائیت اور مرزائیت نواز پہاڑ بن کر کھڑے ہیں۔ یہ مرحلہ طے ہو جائے تو دستور کی کامیابی قریب تر ہو جاتی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو معقول بات اپیل تو کر رہی تھی، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل میں پوشیدہ خواہشات اور اقتدار حاصل کرنے کے سنہرے خواب انھیں اس بات کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہونے دیتے تھے۔ بحث جاری رہی۔ حضرت مولانا سید محمد صاحب غزنوی ناسازیٔ طبع کی وجہ سے معذرت کرتے ہوئے دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ گئے۔ اسی تکلیف کی حالت میں ہم انھیں دو مرتبہ اٹھا کر میٹنگ میں لائے، مگر انھیں اس درجہ تکلیف تھی کہ زیادہ دیر تک نہ بیٹھ سکے۔
مولانا محمد علی جالندھری نے کیا کہا؟
مولانا محمد علی جالندھری نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو مخاطب فرما کر کہا کہ مولانا؟ ’’تحفظ ختمِ نبوت‘‘ کے مطالبات ایسے مطالبات ہیں، جن کی پشت پر بلا کسی اختلاف کے ہر مکتب خیال کے مسلمانوں کی ہمدردیاں اور پشت پناہی موجود ہے۔ جہاں تک دستور کا تعلق ہے، نیک نیتی سے بیسیوں قسم کے اختلافات اب بھی علماء میں موجود ہیں۔ دستور میں ترمیمیں اور تنسیخیں ہو رہی ہیں، یہ سلسلہ ابھی کافی وقت لے گا۔
دوسری بات جس پر آپ کو ٹھنڈے دل سے غور فرمانا چاہیے، یہ ہے کہ جب دستور کا کام آتا ہے تو غلط یا صحیح، میں اس بحث میں نہیں پڑتا اور صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ لوگوں کا ذہن آپ کے بے پناہ پراپیگنڈے کی وجہ سے جماعت اسلامی کی طرف سے منعطف ہو جاتا ہے۔ جماعتِ اسلامی سے لوگوں کو وہ ہمدردیاں نہیں ہیں جو ہمدردی اور لگاؤ مسئلہ تحفظ ختمِ نبوت سے ہے یا جو جذبہ مرزائیت کے خلاف ہر مکتبِ خیال کے مسلمانوں میں موجود ہے۔ اسی طرح آج سے چھے ماہ پیشتر یہی حال مجلس احرار کا تھا۔ جہاں ردِّ مرزائیت کا نام آتا تو لوگوں کا ذہن مجلسِ احرار کی طرف منتقل ہو جاتا تھا۔ اسی خیال سے ہم نے مسئلہ کی اہمیت کے پیشِ نظر برکت علی محمڈن ہال میں ہی ہتھیار ڈال دیے تھے اور دین کا یہ کام دوسری تمام دینی جماعتوں کے سپرد کر کے خود کو رضاکارانہ پیش کر دیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اگر تحفظ ختمِ نبوت کا نام آتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں آل مسلم پارٹیز کی مجلس عمل کا تصوّر لازمی اور لابدی آجاتا ہے۔ اصولی اعتراض کے علاوہ اس مشکل کی طرف بھی آپ توجہ فرمائیں اور اس اہم مطالبہ کو نواں نقطہ بنانے کا خیال ترک فرمائیں۔
سب کچھ سننے کے بعد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اپنی بات پر اڑے رہے۔ بحث نے مایوس کن صورت پیدا کر دی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مولانا موصوف کو صاحبِ دستور حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی آبرو اور عظمت کی نسبت ’’دستور‘‘ کا زیادہ خیال تھا۔ ان کے محاکمہ نویس نمائندے نے لکھا ہے:
’’اس مرحلہ پر مولانا محمد علی صاحب نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی اور ان سے عرض کیا کہ مولانا صاحب! اگر آپ کی طرح احرار کا اندازِ فکر بھی یہی ہوتا اور وہ بھی یہی سوچتے کہ مجلسِ عمل کہاں سے آ گئی، یہ ردِّ مرزائیت تو ہمارے نام الا ٹ ہو چکی ہے۔ یہ کام ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم کہاں جائیں گے۔ اگر خدا نخواستہ ایسی خود غرضانہ ضد ہم بھی کرتے تو پھر کیا موجودہ صورت پیدا ہو سکتی تھی؟ ‘‘
آج ہر مکتبِ خیال کے علماء اور سجادہ نشین حضرات اس بنیادی مسئلہ کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے نام کا خیال ترک نہ کرتے تو کیا مسلمانوں میں بے پناہ جوش اور عقیدت کا یہ والہانہ جذبہ پیدا ہو سکتا تھا؟
یہ تھی وہ گفتگو جو مولامحمد علی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی میں ہوئی، جسے توڑ مروڑ کر جس انداز میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے فرمایا ہے، یہ انھی کا حصہ ہے۔
انصاف فرمائیے:
آٹھ دس معزز نمائندے مجلس میں موجود ہیں۔ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا محمد علی یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ تحریک اسلامی دستور کے نام سے چلائی جائے تو احرار کہاں جائیں گے؟ مولانا محمد علی صاحب اگر ایسی گفتگو کرتے تو دوسرے معزز نمائندے جو اس میٹنگ میں موجود تھے، مولانا محمد علی کی کیا گت بناتے؟ کیا ان سب حضرات کو یہ حق ن پہنچتا تھا کہ وہ مولانا محمد علی کی اس قسم کی نامناسب اور خود غرضانہ گفتگو سنتے تو انھیں برملا کہہ دیتے کہ احرار جائیں بھاڑ میں، یہ مطالبہ تو مجلس عمل کا مطالبہ ہے۔ احرار تنہا کون ہوتے ہیں؟ وہ تو نو جماعتوں میں سے صرف ایک ہیں۔
مولانا بدایونی، مولانا تھانوی، مولانا غزنوی، علامہ حافظ کفایت حسین، مولانا عزیز الرحمن (بنگالی) اور مظفر علی شمسی ایسے نڈر اور مخلص حضرات اور دیگر اکابرین موجود ہیں۔ کیا یہ سب کے سب منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے اور کسی نے زبان تک نہ ہلائی۔ کیا یہ بات قرین قیاس بھی ہے؟
میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ہی سے یہ دریافت کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ مولانا محمد علی نے یہی کہا تھا، جو آپ فرماتے ہیں تو ایسی لغو حرکت پر تو آپ اسی دن احرار کے خلاف بیان دے کر انھیں موت کے گھاٹ اتار سکتے تھے۔ آپ نے ایسی مجرمانہ درگزر سے کیوں کام لیا؟ میں آپ کو بزدلی اور منافقت کا طعنہ نہیں دیتا، البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے مولانا محمد علی کے خلاف تہمت لگانا ہی تھی تو کچھ سوچ سمجھ کر افسانہ گھڑا ہوتا۔ کس سادگی سے آپ نے یہ بات مولانا محمد علی سے منسوب کی کہ ’’اگر دستور کے نام پر کام ہوا تو احرار کہاں جائیں گے؟‘‘
انتخابات کا سوال:
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے جب آل مسلم پارٹیز کو جماعتِ اسلامی کا دُم چھلّا بنانے کی کوشش میں رات کے بارہ بجادیے تو مولانا احتشام الحق صاحب نے سب کمیٹی کے اراکین کے سامنے ایک خدشہ کا اظہار فرمایا۔ وہ غالباً اس طویل اور غلط بحث سے اکتا گئے تھے۔ وہ فرمانے لگے آپ حضرات میری اس خلش کو دور فرما کر ممنون فرمائیں۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ آپ حضرات جو مختلف جماعتوں کے نمائندوں کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں، مجھے یہ بتائیں کہ اگر تحریک ختمِ نبوت طول پکڑ جائے اور اس عرصہ میں الیکشن آ جائیں۔ کیا آپ الیکشنوں میں الجھ تو نہ جائیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو یہ تحریک تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اور دانستہ یا نادانستہ اس مقدس تحریک کے ساتھ غداری ہو گی۔ مولانا احتشام الحق صاحب کے اس سوال نے سب کو چونکا دیا اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی تو لبوں پر زبان پھیر کر پینترے بدلنے لگے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے سوا باقی سب نے کہا کہ سوال بہت اہم ہے اور قابلِ توجہ ہے۔ ہم کو یہاں اقرار کرنا چاہیے۔ اس تحریک کے انتخابات کے جھمیلوں سے بالکل الگ رکھا جائے گا۔ فرداً فرداً تقریباً سب نے اقرار کرنا شروع کیا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کچھ دیر تو خاموش رہے۔ پھر فرمانے لگے ’’مجھے اس اقرار میں تامل ہے‘‘۔ میں یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ جماعتِ اسلامی انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ مولانا احتشام الحق صاحب نے اپنے خدشہ کی مزید وضاحت فرمائی اور معاملہ کی اہمیت پر زور دیا۔ مگر جب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نہ مانے تو مولانا احتشام الحق صاحب دل برداشتہ ہو گئے۔ اس کے بعد وہ بیٹھے تو رہے مگر خاص دلچسپی کا اظہار نہ فرمایا۔ (جاری ہے)