پروفیسر خالد شبیر احمد
درسِ جنوں وہ دے جو رشکِ قمر گیا دو دن کی زندگی میں وہ کیا کیا نہ کر گیا
بجلی تھی رعد تھی کہ کرن آفتاب کی ہر موئے تن کو میرے جو روشن سا کرگیا
آیا تو شوق میرا بھی لطف آشنا ہوا وہ کیا گیا کہ دل کو ہی پتھر سا کر گیا
قبضہ ہے اس کا آج بھی میرے شعور پر کیا خوب تھا وہ شخص کہ دل میں اتر گیا
میں معترف ہوں آج بھی اس کی ہی ذات کا جس کا جنون و عشق میں ذکر اوج پر گیا
اس کے خلوص و مہر میں کیا خوب تھی کشش ہر ایک دل میں اپنا بنا کر وہ گھر گیا
یہ بھی ہے اس کی نظرِ کرم کا ہی سلسلہ عزم و جنوں کا ولولہ جو دل میں بھر گیا
ہے اس سے میرا واسطہ اک لازوال سا جس کا پیام لے کے میں ہر اک نگر گیا
قدموں پہ جس کے سرنگوں تھا قادیانی کفر جرأت سے اپنی ان کو وہ مرعوب کرگیا
’’صَر صَر کی چوٹ کھا کے صبا ختم ہوگئی‘‘ جھونکا تھا دلربا سا جو آیا گزر گیا
چشم فرنگ خیرہ ہوئی جس کے نور سے اُس کا جنوں تھا رختِ سفر کام کر گیا
آیا تو ساری قوم تھی ظلمت میں غوطہ زن لے کر وہی تو قوم کو سوئے سحر گیا
ہر لب پہ اس کے نغمے ہیں جو آج بھی سجے پھر کیوں کہیں کہ رائیگاں اس کا سفر گیا؟
وہ شہپر شعور تھا وہ شوکتِ جنوں کس اوج پہ اس شخص کا ذوق نظر گیا
اس جیسا کوئی دیکھا نہ بعد اس کے کوئی اور قطرے کو موج، موج کو قلزم سا کر گیا
آنکھیں ہیں میری اب بھی جدائی میں اشکبار مرقد پہ اُس کے جب گیا با چشمِ ترگیا
عشق و جنوں کے قافلے اس سمت چل پڑے اس صف شکن کا تذکرہ خالدؔ جدھر گیا