مولانا محمد وسیم اسلم
ماضی قریب کی ایسی چند جلیل المرتبت شخصیات جو کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں، ان میں ایک نمایاں شخصیت ایسے مرد مجاہد، عاشق رسول عربی صلی اﷲ علیہ وسلم، بطل حریت اور آزاد منش درویش کی ہے جس کے گھنگریالے بال، نورانی چہرہ، موٹی موٹی آنکھیں، کروڑوں انسانوں کے لیے سامانِ راحت، جوخطابت کے میدان میں آئے تو میدان ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا منظر پیش کرے، کلام مجید کی تلاوت کرے تو لحن داؤی کا رس سامعین کی سماعت میں بھر دے، جن کے قصوں کی تاریخ اٹھائیں تو تاریخ بھی رشک کرے۔براعظم ایشاء کے بے مثل کھدر پوش خطیب جوحضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ جنہیں متحدہ ہندوستان کی گلیوں، بازاروں، چوکوں میں یہ نعرہ مستانہ لگاتے بارہا سناگیا کہ:
’’ختم نبوت کی حفاظت میرا جزو ایمان ہے جو شخص بھی اس ردا کو چوری کرے گا، جی نہیں چوری کا حوصلہ بھی کرے گا، میں اس کے گریبان کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔ میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی کا نہیں۔ اپنا، نہ پرایا۔ میں اُنہی (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا ہوں، وہی میرے ہیں۔ جن کے حسن و جمال کو خود رب کعبہ نے قسمیں کھا کھاکر آراستہ کیا ہو، میں انہی (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے حسن و جمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے ان پر جو ان (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا نام تو لیتے ہیں، لیکن سارقوں کی خیرہ چشمی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ ‘‘
۲۳،فروری۱۹۲۰ء میں مرزا بشیر الدین محمود کی بندے ماترم ہال امرتسرمیں تقریر تھی۔ حضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ نے جلسے میں پہنچ کر اس سے چند ایک سوالات کیے جن کے جوابات اس سے نہ بن پائے اور بغیر جواب دیے وہاں سے بھاگ نکلا۔ بعد ازاں حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ نے ہال سے باہر آکر مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم میں زور دار تقریر فرمائی۔ حضرت شاہ جی ۱۹۱۸ء میں باقاعدہ اس کام کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ ان دنوں تحریک خلافت عروج پر تھی۔ حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ بھی میدان میں آگئے اور اپنی خطابت کی جولانیوں سے تحریک کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں پر پہنچا دیا۔ شاہ جی پہلی مرتبہ۱۹۲۱ء میں تحریک خلافت کے سلسلہ میں گرفتار ہوئے اور تین سال کی قید سخت میانوالی جیل میں رہے۔ پھر دوسری مرتبہ ۱۹۲۷ء میں مشہور دریدہ دہن آریہ سماجی راج پال کے قتل کے سلسلہ میں کافی عرصہ جیل میں رہنے کے بعد عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوگئے۔ تیسری مرتبہ نمک سازی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں ۱۹۳۰ء میں کلکتہ چھے ماہ کی قید ہوئی۔ چوتھی مرتبہ تحریک آزادی کشمیر کے سلسلہ میں دوسال کے لیے پھر جیل جانا پڑا۔ پانچویں مرتبہ قادیان میں نماز جمعہ پڑھا کر دفعہ ۱۴۴؍ کی خلاف ورزی کے الزام میں قید اور جرمانہ کی سزا ہوئی۔ پھر گرفتاریوں اور صعوبتوں کا سلسلہ تادم زیست جاری رہا۔ پنجاب حکومت کے کارندوں نے ان پر بغاوت اور قتل عمد وغیرہ کے سنگین الزام لگا کر گرفتار کیا۔ مقدمہ چلا۔ چونکہ قدرت کو ابھی حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ سے اور کام لینے منظور تھے اس لیے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ نے آپ کو بری کردیا۔ پنجاب کے نواب زادے حیران و ششدر رہ گئے۔ پاکستان بن جانے کے بعد ۱۹۵۳ء میں دولتانہ وزارت کے زمانے میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں جیل گئے۔ زندگی کا طویل عرصہ جیل آپ کا مقدر رہی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’میری آدھی عمر جیل میں گزری اور آدھی عمر ریل میں۔‘‘
چار چیزیں حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی کا اوڑھنا بجھونا تھیں:
۱…… حضور خاتم النّبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے والہانہ عشق و محبت اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت۔
۲…… اسلام پر مکمل ایمان اور اس کی تبلیغ واشاعت ۔
۳…… اﷲ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش۔
۴…… فرنگ دشمنی۔ اسی لئے فرمایا کرتے کہ ’’میں انگریز کا باغی ہوں، میں ہندوستان سے انگریز کو نکال کر ہی رہوں گا۔‘‘
بسا اوقات اپنے خطاب میں فرمایا کرتے کہ: ’’مسلمانو! اگر میں اتنا قرآن پہاڑوں کو سناتا تو وہ بھی پگھل جاتے۔ افسوس کہ میری قوم کا دل موم نہ ہوا۔ اپنوں نے سنی ان سنی کردی۔ مگر غیرملکی حکمران فرنگی نے اس آواز کو سنا بھی اور سمجھا بھی۔‘‘ فرنگی کو اسی پکار میں اپنے خلاف بغاوت کی بو آئی اور اسی جرم میں انہیں بہار و خزاں کے کئی موسم اسارت فرنگی میں گزارنے پڑے۔
تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے ظاہری نتائج سے مایوس ہوکر کئی لوگ ان شہدائے ختم نبوت کے متعلق جوتحفظ ناموس ختم نبوت پر قربان ہوچکے تھے۔ یہ سوال کرتے تھے کہ ان کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟۔
حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ نے فیصل آباد کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں جہاں شہید ہوئے ان کے خون کا جواب دہ میں ہوں۔ وہ عشق رسالت میں مارے گئے۔ اﷲ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ جو لوگ ان کے خون سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ رہ کر اب کنی کترا (کنارہ کشی اختیار کر)رہے ہیں۔ ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار ہوں گا۔ وہ عشق نبوت میں اسلامی سلطنت کے ہلاکو خانوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لیکن ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے بھی سات سو حفاظ قرآن صحابہ رضی اﷲ عنھم اسی عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی خاطر شہید کروائے تھے۔‘‘
حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ نے مزید فرمایا کہ قیامت کے دن حضور خاتم النّبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارہ گاہ میں حاضر ہوکر دست بستہ عرض کروں گا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے خوش نصیبوں کا مقصد صرف اور صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا۔ اسی طرح ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں شہید ہونے والوں کا مقصد بھی صرف اور صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا۔یا رسول میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں شہید ہونے والوں کو بھی یمامہ کے شہدا کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کریں۔ کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔‘‘
پھرحضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا: ’’مجھے امید کامل ہے کہ میرے نانا، میرے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم میری درخواست کو شرف قبولیت ضرور بخشیں گے۔ ‘‘
حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ ایک عظیم مجاہد تھے۔ انہوں نے اعلائے کلمۃ اﷲ سے کبھی گریز نہیں کیا۔ قیدو بند کی صعوبتین برداشت کیں۔ لیکن کبھی استقلال میں لغزش نہ آنے پائی۔ ان کا دل عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی آماجگاہ تھی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق کی گرفتاری نے انہیں تحریک تحفظ ختم نبوت کا جرنیل بنایا۔ اسی کو مقصد حیات اور زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے دنیا کے طوفانوں سے ٹکراتے ہوئے ۲۱؍ اگست ۱۹۶۱ء کو دار فانی سے دار البقاء کی طرف رخصت ہوئے۔
بنت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ، سیدہ اُم کفیل بخاریؒ اپنی کتاب ’’سیدی و ابی‘‘ میں لکھتی ہیں کہ: ’’ابا جی رحمۃ اﷲ علیہ کی چند سانسیں باقی تھیں کہ اماں جی نے متوجہ کیا کہ دیکھ لو زبان ذکر کر رہی ہے۔ اﷲ، اﷲ، اﷲ کا ورد جاری تھا۔ میں نے دیکھا کہ جس اﷲ نے ان کو اقلیم خطابت کا یکتا تاجدار بنایا اور جس کی دی ہوئی قوت کو انہوں نے اس کے حبیب محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے بیان میں ختم کردیا۔ اسی اﷲ کا نام لیتے ہوئے انہوں نے ایک دفعہ آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ میرے پیارے ابا جان رحمۃ اﷲ علیہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون! بڑے لوگ پہلے بھی ہوئے اور اﷲ کو منظور ہے تو پھر بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔ مگر ہم نے ابا جی رحمۃ اﷲ علیہ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے
(سیدی و ابی، ص۱۹۰)
حضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ کی وفات کے بعد مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اﷲ علیہ کو خواب میں اُن کی زیارت ہوئی۔ پوچھا حضرت شاہ جی فرمائیے: قبر کا معاملہ کیسا رہا؟ حضرت شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ بھائی یہ منزل بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن آقائے نامدار خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کی برکت سے معافی مل گئی۔
یہ امت کے وہ محسن حضرات تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس ختم نبوت کا تحفظ کیا اور آنے والی نسلوں کو سبق دیا کہ ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے۔ مگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر کسی قسم کا سمجھوتا قبول نہیں کیا جاسکتا۔ رحمۃ اﷲ رحمۃً واسعۃً!