پروفیسر محمد حمزہ نعیم
الحذراے دوستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
مرزا قتیل دہلوی مشہور شاعر گزار ہے۔ خلافِ سنتِ نبوی ایک عمل پر کسی نے اس سے کہا: ’’بلے دل رسول اﷲ می خراشی‘‘
ارے تو رسول اﷲ کے دل کو دیکھ پہنچا رہا ہے۔ مرزا قتیل کو انتباہ ہوا فوراً تائب ہوا اور اﷲ کی رحمتوں سے مرحوم و مغفور ہوا۔ سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبین سید الرسل ہیں اب قیامت تک ان کا دین، اور انھی کا حکم چلے گا۔ ان کی فرمانبردار پر اﷲ کی رحمتیں برکتیں ہر طرف اڑتی نظر آئیں گی اور ان کی نافرمانی پر ہمہ وقت اﷲ کی ناراضی اور غصہ کا زبردست خطرہ ہوگا۔ پوری دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں صرف پاکستان ایسا ہے جس کی پیدائش سے پہلے ہم نے اﷲ سے وعدے وعید کیے، نعرے لگائے کہ یہاں نظامِ اسلام نافذ کریں گے‘‘ لَا الٰہ الا اللّٰہ کا عقیدہ اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا عمل اور قانون ہوگا۔ زائد از ارسٹھ سال ہوچکے ہیں۔ عوام اور حکمران دونوں اپنے عہد سے گریزپا ہیں۔ حکمران براہِ راست اور عوام انھیں ووٹ دے اپنے حکمران بنانے کی وجہ سے اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مجرج ہیں۔اہل کفر ہر طرح کی عیاشی، مال و دولت اور قوت و طاقت میں زیادہ ہوں اور انھیں کوئی سزانہ ملے، اﷲ تعالیٰ نے انھیں یہاں نہیں پوچھنا، انھوں نے کلمہ لَا الٰہ الا اللّٰہ مُحَمْد رُسُول اللّٰہ نہیں پڑھا، اب ان سے حساب مرنے کے بعد حشر کے دن ہوگا۔ مگر اہل پاکستان نے کلمہ پڑھا ہے، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا ہر طرح کا رہبر و رہنما مانا ہے اور یہ کہا ہے کہ ’’اسلام‘‘ کامل واکمل دین ہے۔ تو پھرعملاً اس کے خلاف کرنے پر دنیا میں بھی ان سے حساب ہوگا، جواب طلبی ہوگی، سزا ملے گی اور پوری سزا تو مرنے کے بعد ملے گی۔ جولوگ پاکستانی نہیں ہیں وہ پاکستانی قانون و آئین کو نہ مانیں، زبانی و عملی اس کے خلاف کریں ان سے جواب طلبی کا کسی کو حق نہیں، نہ ان کو سزا دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ پاکستانی نہیں۔ انھوں نے پاکستانی آئین و قانون پر عمل کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ مگر وہ لوگ جو پاکستانی ہیں، وہ پاکستانی آئین اور قانون کا سرعام انکار کریں، مذاق اڑائیں ، اس کے خلاف عمل کریں، ان سے جواب طلبی ہوگی، ان کو سزا ہوگی، انھیں باغی اور غدار کہہ کر ہر بڑی سزا کا مستحق قراردیا جائے گا۔ ہم اہل پاکستان کو اﷲ بار بار توبہ اور رجوع کے مواقع دے رہا ہے۔ تو بہ نہ کی تو اﷲ ہمارے ساتھ کیاکریں گے؟ اب ایک خبر پڑھیے:
اسلام آباد:پور املک زلزلے کی فالٹ لائن پر آگیا، مارگلہ اسلام آباد میں آرمی ہیڈ کوارٹرز اور کراچی کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ (نجی TVبحوالہ قومی نیوز مورخہ 17 فروری 2016ء بوقت 12:41 بعد دوپہر) آپ نے خبر پڑھ لی ہم تمام عوام اور اہل قتدار پر توبہ لازم، از حد لازم ہے۔ ایک دوسرے پر ظلم اور ایک دوسرے کی گردنیں مارنا بند کریں۔ خالص اسلامی نظامِ اس کے جملہ سلامتی وامن والے قوانین نافذ کریں اور بانیانِ پاکستان اور اپنے اسلام کے عہد کو پورا کریں۔ اب ہم ارباب بست و کشاد اور تمام اہل سیاست و حکومت کی خدمت میں اس غرض سے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائیں اور اس کی فکر کریں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح مرحوم کا ایک قول نقل کرنا چاہیں گے کہ ان کے فرمودات کی روشنی میں نشانِ منزل واضح ہو کر سامنے آجائے جس سے مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔بانیٔ پاکستان نے پاکستان میں کیا چاہا تھا؟ اگر وہ زندہ رہتے تو کیا کرتے؟
’’میں لندن میں امیرانہ زندگی بسر کررہا تھا۔ اب میں اسے چھوڑ کر انڈیا اس لیے آیا ہوں کہ یہاں ’’لَاالٰہ الّا اللّٰہ کی مملکت کے قیام کے لیے کوشش کروں، مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی سلطنت وجود میں آئے اور اس میں اسلامی قوانین کا بول بالا ہو کیونکہ انسانیت کی نجات اسلامی نظام ہی میں ہے۔ صرف اسلام کے علمی ، عملی اور قانونی دائروں میں آپ کو عدل، مساوات، اخوت، محبت، سکون اور امن دستیاب ہو سکتا ہے۔ برطانیہ ، امریکہ اور یورپ کے سارے بڑے بڑے سیاستدان مساوات کا راگ الاپتے ہیں، روس کا نعرہ بھی مساوات اور ہر مزدور اور کاشتکار کے لیے روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرنا ہے مگر یورپ کے بڑے بڑے سیاستدان عیش و عشرت کی جو زندگی بسر کرتے ہیں وہ وہاں کے غریبوں کو نصیب نہیں محمد علی جناح کا لباس اتنا قیمتی نہیں جتنا لباس یورپ کے بڑے بڑے لوگ اور روس کے لیڈر زیب تن کرتے ہیں، نہ محمد علی جناح کی خواک اتنی اعلیٰ ہے جتنی سوشلسٹ اور کمیونسٹ لیڈروں اور یورپ کے سرمایہ داروں کی ہے۔ ہمارے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم نے سارا اختیار ہوتے ہوئے غریبانہ زندگی بسر کی لیکن رعایا کو خوش اور خوشحالی رکھا۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ انڈین کانگریس حکومت بنانے کی صورت میں برطانوی ٹھگوں کو تویہاں سے نکال دے گی پھر خود ٹھگ بن جائے گی۔یہ لوگ صرف مسلمانوں کی آزادی ختم نہیں کریں گے بلکہ اپنے لوگوں (اچھوتوں) کی آزادی بھی ختم کردیں گے۔ اس لیے ہم سب کو پاکستان کے قیام کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ ذرا خیال فرمائیے کہ اگر لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ پر مبنی حکومت قائم ہوجائے تو افغانستان ، ایران، ترکی، اردن، بحرین، کویت، حجاز، عراق، فلسطین، شام، تیونس، مرراکش، الجزائر اور مصر کے ساتھ مل کر یہ کتنا عظیم الشان اسلامی بلاک بن سکتا ہے۔ اقبال کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ کوئی سوشلسٹ یا کمیونسٹ مسلمان نہیں ہوسکتا خواہ وہ پیر مولانا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ سوشلزم او رکمیونزم کے سارے بانی یہودی تھے۔ آپ کو سمجھ لینا ہے کہ سوشلزم او رکمیونزم مسلمانوں کے لیے ایسا زہر ہے جس کا تریاق نہیں۔ آپ کبھی نہ بھولیں کہ یہودی ، انگریز، سوشلسٹ، کمیونسٹ اور ہندو سب مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد یہ پاکستان کو مٹانے کی کوشش کریں گے۔ آپ کو اس وقت بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔
[ روزنامہ ’’ندائے ملت‘‘ لاہور، 15 اپریل 1970ء ]
آخر میں ہم تمام اہل حکومت سیاست اور ارباب بست وکشاد سے دست بستہ عرض کریں گے کہ پاکستان کو سیکولر یا لبرل وغیرہ بنانے کی کوشش مت فرمائیں ۔ جس مقصد کے لیے یہ خطہ حاصل کیا گیا تھا اس مقصد کو بروئے کار لائیں اور یاد رکھیں یہ وطن، یہ ملک میرے اﷲ اور میرے نبی کی امانت ہے۔ امانت میں خیانت نہ کروگے تو آسمانی برکتیں نصیب ہوں گی اور بصورت دیگر یہ وطن عزیز امریکہ اسرئیل اور انڈیا کے نرغے میں ہے۔ صرف اﷲ کی طرف رجوع کا وقت ہے۔ وہی سب سپریم طاقتوں سے سپریم تر طاقت ہے۔ وہ راضی ہوگیا تو پھر پوری دنیا کی تمام کفر یہ طاقتیں وطن عزیز کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی۔