سید محمد کفیل بخاری
ریاست کا بغبغاتا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ حکمران اور اپوزیشن، دونوں اپنی اپنی ڈیوٹیاں پوری کر رہے ہیں۔ برسرِ اقتدار ٹولے کی نالائقیوں اور غلط پالیسیوں سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ’’ نواز شریف‘‘ اور پیپلز پارٹی ’’آصف زرداری‘‘ کے علاج معالجے اور نیب کیسز سے نجات کے حل ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی خاموشیوں کے پس منظر میں کسی این آر اور کی بھنبھناہٹ سنائی دے رہی ہے۔ مایوسیوں کے اس ماحول میں جمعیت علماءِ اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ایک توانا آواز بلند کی، پندرہ ملین مارچ، آزادی مارچ اور اب تحفظ آئینِ پاکستان تحریک کے ذریعے قومی بیداری کی پُرامن جدو جہد کر رہے ہیں۔ مولانا نے بڑی حکمت اور محنت کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا لیکن مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی روایتی بے وفائی، عہدشکنی اور کہہ مکرنی نے مولانا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ: ’’اپوزیشن کے اس رویے پر افسوس ہے، لیکن ہم تحفظ آئین کی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔
حکمرانوں کی طرف سے کارنامے ہی کچھ ایسے انجام دیے جا رہے ہیں کہ ان کے حق میں زبان و قلم سے کوئی جملہ نہیں نکل رہا۔ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کا دعویٰ لے کر اٹھے لیکن سود کو فروغ دے کر اﷲ و رسول سے کھلی جنگ اور بغاوت کر رہے ہیں۔ چوروں کو پکڑنے اور کرپشن ختم کرنے کا منشور دیا لیکن جن کو چور کہہ کر پکڑا، اُنھیں بھگا کر خود چوری شروع کر دی۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے پاکستان کا سکور مزید کم کردیا ہے۔ حکمران جماعت نے حسب معمول اس کی ذمہ داری اپنے سوا دنیا کی تمام چیزوں پر تھونپنے کی کوشش کی۔ اپنی ہر ناکامی کی ذمے داری اپوزیشن پر ڈال کر خود بری الذمی ہونا اور یوٹرن لینا، اُن کا روز مرہ اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے حکومت کیا کر رہی ہے؟ عوام کو نوکریاں ملیں نہ گھر، ہوش ربا مہنگائی، بیروزگاری اور ظالمانہ ٹیکسز سے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کر کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر یہود و نصاریٰ کی غلامی کا پھندا قوم کے گلے میں فٹ کر دیا ہے۔ کشکول توڑنے اور قرض نہ لینے کے وعدے کر کے ملک کو مزید سودی قرضوں میں ہمیشہ کے لیے جکڑ دیا ہے۔ گندم میں خود کفیل ملک سے آٹا غائب ہونا حکومتی نااہلی کی بدترین مثال ہے۔
ڈالر کی قیمت میں اضافہ، پٹرول، بجلی، گیس، آٹا چینی، ادویات اور دیگر اشیاء خور و نوش عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ غریب عوام خوراک، علاج اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں لیکن وزراء بھاشن دیتے ہیں کہ ’’نومبر دسمبر میں لوگ زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں، روٹی کا وزن کم کریں اور دو کی بجائے ایک کھائیں، آٹا نہ ملنے پر کفایت شعاری کریں اور بھوک برداشت کریں۔‘‘
حج کے کرایوں میں دوسری بار اضافہ عوام کو فریضۂ حج کی ادائیگی سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ فرمان شاہی اس پر مستزاد یہ کہ حج فرض نہیں تو نہ کریں۔ حد یہ ہے کہ صدر مملکت کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں اور وزیر اعظم دو لاکھ تنخواہ میں گزارہ نہیں جبکہ عوام کو کہا جا رہا ہے کہ پندرہ بیس ہزار میں گزارہ کرو۔
بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ، بجلی بل میں 35روپے پی ٹی وی فیس بڑھا کر 100روپے کر دی جبکہ پی ٹی وی کو دیکھتا بھی کوئی نہیں۔ ڈیتھ سرٹیفیکٹ کی فیس میں اضافے اور قبر ٹیکس نے عوام کا جینا مرنا مشکل کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے اقوالِ زریں ہیں کہ:
’’حوصلہ و صبر کریں، کچھ دن تکلیف برداشت کریں، 2020ترقی و خوشحالی کا سال ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا، مجھے اپنی معاشی ٹیم پر فخر ہے اور اصل سکون تو قبر میں ملے گا‘‘۔
اﷲ تعالیٰ مظلوم عوام کو تو قبر میں اس صبر پر ضرور اجر و سکون عطاء فرمائیں گے۔ ان شاء اﷲ۔
لیکن ظالم حکمرانوں کو تو ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔ اور ……
’’ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘
صورت حال یہ ہے کہ عوام نے وزیر اعظم کے علامتی جنازے پڑھنے شروع کر دیے ہیں، لیکن وہ اطمینان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں براجمان ہیں۔
خود حکومت کے اندر ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ بعض وزراء نمبر گیم میں ایک دوسرے کو برا کہہ رہے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرکاری ارکانِ اسمبلی حکومت سے ناراض ہیں۔ خیبر پختونخوا کے تین وزراء ہٹا دیے گئے ہیں۔ اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں، پشاور میں وزیر اعظم کی علامتی میت رکھ کر نماز جنازہ پڑھا دی گی، اس کے باوجود آپ کو اطمینان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھنے کا حکم ہے اور آپ بیٹھے ہیں۔ آخر کب تک؟