مولانا زاہد الراشدی
پیرجی سید عطاء المہیمن شاہ صاحب بخاریؒ کے ساتھ پہلی ملاقات جہاں تک مجھے یاد ہے مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں کچھ عرصہ قیام پذیر رہے۔ میرا مغربی ممالک میں کم وبیش تین عشروں تک آنا جانا رہا اور آتے جاتے چند دن حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیرجی سے غائبانہ تعارف تو تھا بلکہ پورے خاندان کے ساتھ میرا رابطہ ملاقاتیں اور نیازمندی طالب علمی کے دورسے چلی آرہی تھی۔ انہی دنوں مسجد نبوی میں شاہ جیؒ کو دیکھا تو چہرے سے اندازہ ہوگیا تھا۔ ایک دوست سے پوچھا توانہوں نے کہا کہ وہی ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کرسلام کیا تو اُسی دوست نے میرا تعاوف بھی کرادیا۔ گرم جوشی سے ملے اور فرمایا کہ کل صبح ناشتہ میرے ہاں کرنا ہے۔ میں نے کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو فرمایا کہ درویشوں کاناشتہ ہے ناں نہ کریں۔ میں نے حامی بھرلی اوراگلے دن صبح انہوں نے مسجد نبوی سے ہی نماز کے بعدمجھے لے لیا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا طویل سلسلہ ہے جن کی تعداد نہیں گنی جاسکتی اور کیفیات کا تنوع بھی کسی احاطے میں نہیں لایا جاسکتا۔ پیرجی میں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے جلال کی جھلک نمایاں رہتی تھی اور ہم کبھی کبھی اس کاحظ اٹھایا کرتے تھے۔ سوال وجواب بھی ہوتے، گپ شپ کا ماحول بھی بن جاتا اور ختم نبوت کامحاذ تو ہماری رفاقت کا مستقل محاذتھا ہی جس کا سلسلہ بحمد اﷲ تعالیٰ آج بھی قائم ہے۔
مجلس احرار اسلام سرفروشوں کی جماعت ہے جس نے برطانوی استعمار سے آزادی کی طویل جدوجہد میں اپنی قربانیوں سے جداگانہ رنگ بھرا جس میں خطابت، شعر وشاعری اور بے تکلفانہ ماحول کا امتزاج تھا۔ جیلوں کی تنہائیاں، مجلس کی گرم جوشیاں اور پبلک جلسوں کی گہماگہمیاں اس معاملہ میں احراری ذوق کی یکساں امین رہیں اور کسی اجنبی احراری سے ملاقات ہو تو چند منٹ کی گفتگو سے ہی اس کے احرار ی ہونے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
امیرشریعت ؒ کی زیارت کی سعادت تو یاد نہیں ہے مگر ان کے خاندان کے کم وبیش سب بزرگوں اور دوستوں سے رابطہ وتعلق اور نیاز مندی چلی آرہی ہے۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ کی خدمت میں علمی استفادہ کے لیے حاضر ی کا ایک عرصہ معمول رہا۔ ملتان بھی حاضر ہوتا رہا اور گوجرانوالہ اور لاہور کی بہت سے ملاقاتیں بھی ذہن کی سکرین پر جھلملاتی رہتی ہیں۔ حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ کے ساتھ بھی بہت تعلق رہا اور ان کی تیکھی گفتگو اورڈانٹ ڈپٹ کا انداز بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ ایک واقعہ دوستوں کو سنایا کرتا ہوں تحریری ریکارڈ میں آجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ شورکوٹ میں جامعہ عثمانیہ کا جلسہ دستاربندی تھا۔ مولانا بشیر احمد خاکیؒ ہمارے محترم دوست تھے انہوں نے دستار بندی کے لیے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۔ پیرطریقت حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ اور حضرت مولانا مفتی عبدالشکور ترمذی ؒ کو زحمت دے رکھی تھی۔ جبکہ خطاب کے لیے حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ تشریف فرما تھے اور مجھے بھی اسی ڈیوٹی میں شریک ہونا تھا۔ تینوں بزرگ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو مجھے خطاب کے لیے کہا گیا میں نے تھوڑی دیرگفتگو کی میرے بعدشاہ جیؒ نے تفصیلی خطاب کرناتھا اور مجھے اندازہ تھا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس پر شاہ جیؒ اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ ضرور فرمائیں گے اس لیے بزرگوں سے عرض کیا کہ وہ اپنی قیام گاہ پرجاکر آرام فرمائیں۔ اول الذکر دونوں بزرگ تو تشریف لے گئے مگر حضرت مفتی صاحبؒ اسٹیج پربیٹھے رہے اورفرمایا کہ میں نے شاہ جیؒ کی تقریر سننی ہے میں نے کچھ اصرار کیا کہ وہ تشریف لے جائیں مگر وہ نہ مانے۔ شاہ جیؒ نے گفتگو کا آغاز ہی میرے بعض جملوں پر تبصرے سے کیا اورپھر جو کچھ فرمانا تھا فرمایا۔ مجھے تو اس کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ انجوائے کرتا رہا جبکہ حضرت مفتی صاحبؒ کے لیے یہ بات بالکل نئی بلکہ انہونی تھی، انہوں نے بے چینی سے ایک دوبار پہلو بدلا اورپھرچپکے سے اپنی آرام گاہ کی طرف چل دیے۔ وہاں میں انتظار میں ہی کھڑا تھا دیکھتے ہی فرمایا شاہ صاحب کیا کہ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت وہ آپ سے نہیں مجھ سے کہ رہے ہیں اس لیے آپ محسوس نہ کریں اور آرام فرمائیں۔
مولانا سیدعطاء المومن شاہ بخاریؒ کے ساتھ توطالب علمی کے دور سے جماعتی زندگی تک مسلسل رفاقت رہی اور نرم گرم سارے معاملات ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں جو جماعتی اور تحریکی زندگی کے لوازمات میں سے ہیں۔ البتہ پیرجی سید عطاء المہیمن شاہ صاحب کے حوالے سے میں احتیاط کے ماحول میں ہی رہتا تھا۔ مگر وہ شفقت بھی فرماتے اوردعاؤں سے بھی نوازتے۔
میں مطمئن ہوں کہ حضرت امیرشریعتؒ کے خاندان میں پہلی نسل کے ساتھ میرا تعلق تمام تر اتار چڑھاؤ کے باجود محبت واعتماد کا رہا ہے ربط وفاقت کا رہا ہے اور باہمی ادب واحترام رہا ہے۔ اب دوسری نسل سے واسطہ ہے جو محبت واعتماد میں اضافے کا دور ہے اور مولانا سید کفیل شاہ بخاری، مولانا سید محمد معاویہ بخاری، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ ثالث اور مولاناسید عطاء المنان بخاری کے ساتھ ربط وتعاون بھی ہے اور مشاورت ورفاقت کا ماحول بھی پوری طرح قائم ہے۔ البتہ سید ذوالکفل بخاریؒ جب یاد آتے ہیں تودل میں کسک سے اٹھنے لگتی ہے کہ انہیں میں اپنا ہم ذوق کہا کرتا تھا اور ان کے ساتھ ملاقات وگفتگو کے بعد دل کو اطمینان ہوتا تھا کہ ابھی فکر ونظر کی کوکھ بانجھ نہیں ہوئی مگر وہ اتنی عجلت میں تھے کہ ابھی تک ان کی جدائی یقین کا ماحول قائم نہیں کرپائی۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے ان سارے بزرگوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان سب بھائیوں اور عزیزوں کو اپنے بزرگوں کی روایات کا تسلسل قائم رکھنے کی توفیق عطاء فرمائیں آمین یارب العالمین۔