دل کی بات سید محمد کفیل بخاری
۲۰؍جنوری ۲۰۱۶ء کو باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں پروفیسر ز اور طلباء سمیت ۲۱؍افراد شہید اور ۳۰؍زخمی ہوگئے۔ جبکہ چاروں دہشت گرد فوجی آپریشن کے ذریعے ہلاک ہوگئے۔ اس سانحہ نے آرمی پبلک سکول پر حملے کے زخم پھر تازہ کر کے پوری قوم کو غم زدہ کردیا۔ معصوم طلباء پر حملہ یقینا ریاست پر حملہ ہے، حملہ آور اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہوں گے لیکن ان کا یہ اقدام جہالت اور بزدلی پر مبنی ہے۔ ایسے لوگوں کو اسلام، وطن اور قوم کے دشمنوں کے سوا دوسرا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔جو اسلام اپنے ماننے والوں کو وضو میں پانی ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا وہ کسی انسان کا ناحق خون بہانے سے بھی منع کرتا ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یونیورسٹی اور ہسپتال پہنچ کر زخمیو ں کی عیادت کی، شہداء کے لواحقین سے اظہارِ تعزیت کیااور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم کا اظہار کیا۔ ریاست کے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بڑی پیش رفت ہے کہ سانحۂ چارسدہ کے تیسرے روز دہشت گردوں کے پانچ سہولت کار گرفتار کر کے چار کو میڈیا کے سامنے پیش کردیاگیا جبکہ ایک کا نام خفیہ رکھا گیا۔ یہ سہولت کار پاکستانی ہیں اور کسی مدرسے کے طالب علم نہیں۔ آرمی پبلک سکو ل پرحملے کے وقت بھی بتایا گیا تھا کہ حملہ آور افغانستان سے آئے۔ مگر جو لوگ پکڑے گئے وہ پاکستانی تھے اور انھیں سزا بھی دے دی گئی ۔ اب باچاخان یونیورسٹی پر حملہ آور دہشت گردوں کے متعلق بھی یہی بتایا جارہا ہے کہ وہ افغانستان سے آئے مگر جو سہولت کار گرفتار ہوئے وہ پاکستانی ہیں۔ اگرچہ سازشیں بین الاقوامی اور منصوبہ ساز غیر ملکی ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے دشمن، ہمارے ہم وطن ہی ہیں۔ بین الاقوامی سازشوں اور منصوبوں کا مقابلہ اور دیسی سہولت کاروں کا خاتمہ حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ امریکی صدر اوباما کا پارلیمنٹ سے آخری خطاب ہمارے غورو فکر کے لیے کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ:
’’پاکستان کے کچھ حصوں میں آنے والی دہائیوں تک بد امنی جاری رہے گی۔‘‘
اس کے ردِ عمل میں پاکستان کے مشیر خارجہ نے سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’ہم اپنے عزم سے اوباما کی پیش گوئیاں غلط ثابت کریں گے۔ اوباما ہمارے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔ امریکہ اور اتحادی جہاں گئے عدم استحکام آیا‘‘ (نوائے وقت، ۱۹؍جنوری ۲۰۱۶)
ادھر وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ:
’’روس کے خلاف افغان وار میں شرکت اور مشرف دور میں افغانستان کے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت دونوں غلط فیصلے تھے‘‘
حکومت کے دواہم عہدیداروں کے مذکورہ بیانات پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشوں اور اپنے حکمرانوں کے غلط فیصلوں نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مزید غلط فیصلے ملک و قوم کے حق میں اچھے نتائج کیسے دے سکتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے پہلے لبرل پاکستان کا نعرہ لگایا اور اب ترقی پسند اور روشن خیال کا اضافہ کر کے کس ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں ۔ کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک کی نظریاتی شناخت اور اساس کو ختم کرنا بھی ضروری ہے؟ اور یہ کس کا ایجنڈہ ہے؟ کیا میاں نواز شریف صاحب مشرف دور کے غلط فیصلوں کی پھر سے تجدید کر رہے ہیں؟
کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل، ترقی پسند اور روشن خیال پاکستان بنانے کی باتیں آئین سے انحراف اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کو ڈائنا میٹ کرنے کے مترادف نہیں؟
آئین پاکستان کی اسلامی دفعات اور قرار دادِ مقاصد عالمی استعمار کی سازشوں کی زد میں ہیں اور نواز شریف صاحب پھر غلط فیصلے کر کے ملک کے مسائل اور قوم کے امتحان میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پہلے بھی حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا، اب اسی آموختے کو دہرا کر دہشت گرد کیسے ختم کیے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی اسلامی شناخت کی وجہ سے دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں یا حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ہماری خارجہ پالیسی کی وجہ سے۔ کیا ہمارے حکمران اپنے غلط فیصلوں اور پالیسوں سے مسٹر اوباما کی پیش گوئیوں کو سچ ثابت نہیں کر رہے۔ دہشت گرد اور دہشت گردی دونوں ختم ہونے چاہئیں۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہ داری اور گوادر پورٹ کو سیکورٹی کلیئرنس ضرور ملنی چاہیے، پاکستان کو امن اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ لیکن وطنِ عزیز کی نظریاتی اساس کو منہدم کر کے یہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے بلکہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی تکمیل، اسلامی نظام کے مکمل نفاذ سے ہی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔