یوسف طاہر قریشی
جونہی مرے قلم سے ثنا نے لیا جنم لطف و عطائے رب کی ادا نے لیا جنم
جس لمحہ میرے ہونٹوں نے چوما نبی کا نام صلّ علیٰ کی نوری صدا نے لیا جنم
روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگے گناہ نعتوں کے شہر سے جو ہوا نے لیا جنم
جس جس طرف پڑی ہے نگاہِ مہِ عرب اس اس طرف فروغِ ہدیٰ نے لیا جنم
جب بھی لگایا سنتِ نوریں کا کوئی نخل ہر شاخ سے گلہائے رضا نے لیا جنم
بویا ہے جب درود کا طاہرؔ فضا میں بیج نورِ سرورِ روح فزا نے لیا جنم
محمد مصطفی بن کے شفیع المذنبیں آئے لیے ختمِ نبوت کا وہ اک تاجِ حسیں آئے
شگفتہ ان کی الفت سے ہے گلشن اپنے ایماں کا سرورِ روح و تسکینِ قلوبِ مومنیں آئے
ہوئی اک روشنی ٹھنڈی سہانی دین و ایماں کی وہ جب تھامے ہوئے فانوسِ قرآنِ مبیں آئے
کھلے وحدت کے گلشن ، چھٹ گئے بادل ضلالت کے پلانے کو ہُدیٰ و معرفت کا انگبیں آئے
حضورِ پاک نے توڑے صنم اوہام کے سارے خدا کا خوف ہر دل میں وہ کرنے جاگزیں آئے
مبارک سینہ سے ان کے عجب اک ہوک تھی اٹھتی یہی تھی فکر ، اُمّت میں خدا کا کیسے دیں آئے
جو جھکتی تھی جبیں مخلوق کی مخلوق کے آگے خدا کے سامنے آقا جھکانے وہ جبیں آئے
گھٹا لائے محبت کی ، کرم کی ، مہربانی کی بچھانے ہر طرف رحمت کا فرشِ مخملیں آئے
بنا وہ آپ کا سادہ سا گھر ، جبریلؑ کا مہبط جہاں تھا بوریے کا در ، وہاں روح الامیں آئے
لہو سے آبیاری کی ہدایت کے گلستاں کی مرے آقا اے طاہرؔ کرنے کو تکمیلِ دیں آئے