جمشید حامد ملتانی
یہ بات لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور دل رو رہا ہے کہ امت مسلمہ اپنی تعداد اور مادی و معنوی طاقتوں کے باوجود کفر کے علم برداروں کو گستاخیٔ رسول سے روک نہیں سکی۔ فرانس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی گئی اور عالمِ اسلام کے حکمران خاموش تماشائی بنے رہے، یا ایک آدھ مذمتی بیان پر اکتفا کر لیا۔ شکوہ عالمِ کفر سے نہیں ہے، کیونکہ ان کا ایجنڈا تو واضح ہے، افسوس ان اسلامی ممالک پر ہے جو پٹرول کے سمندروں اور معدنی ذخائر کے خزانوں پر قابض ہیں، جن کے پاس ہتھیاروں، افواج اور افراد کی کوئی کمی نہیں مگر انھیں اپنی ہی قوموں کو بار بار فتح کرنے سے فرصت نہیں مل رہی۔
پوری امت کے جذبات اور احساسات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔مسلمانانِ عالم کا خون گرم ہو کر لاوابن چکا ہے اور ایک دن یہ لاوا عالمِ کفر کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ فرانس آزادی خیال کی آڑ میں ایک عظیم جنگ کی ابتداء کررہا ہے اور پوری دنیا کا امن و سکون برباد کر دینا چاہتا ہے۔فرانس کو شانِ رسالت میں گستاخی کر نے کی جرأت اس بات سے ملی ہے ( اور یہ کہتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی ہو رہی ہے )کہ پاکستانی اور دیگر نام نہاد اسلامی ممالک کی حکومتیں پہلے کئی بارگستاخانِ رسالت مآب کو مغربی دباؤ میں آ کر رہا کر چکی ہیں۔اگران نا اہل و غدار حکومتوں نے ان بد ترین دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا ہوتا تو دنیا کو معلوم ہوجاتا ہے اہلِ اسلام اس حرکت کو برداشت نہیں کر سکتے۔
لیکن میں عالمِ کفر کو اور اس کے نفسِ خبیثہ فرانس کو کھلے لفظوں میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا جو ہم پر دنیا بھر میں ہمارے بد ترین لوگ بطور حکمران مسلط ہیں، امت اپنی ایمانی کیفیات کے ساتھ ابھی تک زندہ ہے۔ اسی زندگی کا ثبوت مسلمانوں نے فرانسیسی مصنوعات کا شاندار بائیکاٹ کر کے دیا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک فرانس کی تاریخ میں معیشت کی بدحالی کا سب سے بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
ایک بات میں اہلِ اسلام سے کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اہلِ کفر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی حرکتوں اور خباثتوں سے باز نہیں آئیں گے اور ہم آپ آہستہ آہستہ احتجاج کا راستہ چھوڑ کر ان کی ذلالت کو بھول کر اس کے عادی ہو جائیں گے۔ ہمیں اپنے عمل سے اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہیے اور اس بائیکاٹ کی تحریک کو مستقل جاری رکھنا چاہیے۔
اور آخری بات ان بد نہادوں سے جو امت مسلمہ پر حکمران بن کر مسلط ہیں۔ اے گروہِ بد کاراں! اگر تم نصرتِ دینِ خداوندی نہیں کر سکتے تو یاد رکھو، دین تمھارا محتاج نہیں، مگر کم از کم کفر کی نصرت سے تو اپنے ہاتھ روک سکتے ہو؟ کیا تم بھول گئے کہ تمھارے اور ہمارے رب نے تمھارے پیش رو منافقین کو کیسے ذلیل و رسوا کیا؟