ابن امیرشریعت مولانا سیدعطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
حکمراں، اے فاسقاں..!
ظاہروباہرہے سب
مجھ پرترا سرّوعیاں
(اور….عیاں را چہ بیاں؟)
توکہ سرتاپا زیاں
تیری ہستی،اک گماں
بچہ بچہ تجھ سے ہے
بیزاروبدظن،بدگماں
تیری روش،شیطان وَش
تیری ادائیں کافری
کفارکے جاروب کش!
میرے لیے اس میں نہیں….
کوئی پھبن….
تیراچلن
دل کی چبھن
توناگ پھن
دشمن کہن
تجھ سے میں غافل نہیں
)میں بھول سکتاہی نہیں
تیری رہ میں جب بھی میں
حائل ہوا،گھائل ہوا
اے ’’ظالماں‘‘ اے ’’فاجراں‘‘
اے حکمراں
اے دشمن دنیاودیں
اے دشمن کون ومکاں
تجھ سے نالاں ہرگھڑی
ہرانس وجاں
او بے اساس وبدزباں
یہ کرّوفر، یہ این وآں
قائم سدارہتانہیں،ہرگزنہیں
جوگوشِ حق نیوش ہیں
بجاحواس وہوش ہیں
غریب کی بھی آہ سن
شام سن، پگاہ سن
شورِ دل فگارسن
فغانِ بیوگان سن
وہ چیخ سن، وہ سسکیاں
وہ ’’گن‘‘ کے زور پرجنہیں
کسی نے چپ کرادیا
ظلم سے دبادیا
یہ تیرے لاڈلے توہیں
انہیں تو، تُو سنبھال لے
تجھے حیا نہیں ذرا ؟
ترا اِلٰہ ہے کوئی؟
تراگواہ ہے کوئی؟
ترابھی شاہ ہے کوئی؟
ڈر تُو گیرو دار سے
تیرا بھی ہونا ہے حساب
تجھ کو بھی دینا ہے جواب
تیرے گلے کے گرد بھی
گرفت میرے ہاتھ کی
تنگ ہو تو سکتی ہے
میں …… کہ اک ’’عوام‘‘ ہوں
(تیرا غلام تو نہیں)
میں بھی آدمی تو ہوں
اور آدمی کا حق ہے یہ
مکاں ملے، مکیں ملے
کوئی ’’دل نشیں‘‘ ملے
زمیں ملے کہ رہ سکے
’’عجیں٭‘‘ ملے کہ پیٹ بھرکے کھاسکے
جوزندگی کاحق ملے توزندگی بھی کرسکے
جوہوسکے توکان دھر
مرے لکھے پہ کرنظر
مرے کہے سے دل لگا
تُوخدا سے لو لگا
عاقبت پہ کرنظر!
تُو مقتدر، دائم نہیں
تُودِہ خدا دائم نہیں
میں بے نوا دائم نہیں
روزِ مکافاتِ عمل
میں چھوڑوں گا، تجھے کیا؟
اوحکمراں، جاگیردار
تیرا بھی ہونا ہے حساب
تجھ کوبھی دینا ہے جواب
تیرے گلے کے گرد بھی
گرفت میرے ہاتھ کی
تنگ ہو تو سکتی ہے!
(٭ عجیں…آٹا)