پہلی قسط
ڈاکٹر عمر فاروق احرار
پروفیسر طاہر احمد ڈار 1967ء میں فاروق آباد ضلع شیخوپورہ میں پیداہوئے۔آپ مقامی کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ پروفیسر طاہر احمدڈار ایک سو چودہ سال سے قادیانیت پر قائم رہنے والے خاندان کے وہ پہلے فرد ہیں، جنہوں نے قادیانیت کو ترک کیا اور اسلام کی دولت پائی۔ اسلام کی سعادت حاصل کرنے میں پروفیسرصاحب کے پانچ بچے اوران کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں ان کے قبول اسلام کی روداد انھی کے الفاظ میں بیان کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
پروفیسر طاہر احمد ڈار کا کہنا ہے کہ میرے دادا جان بوٹے خان ڈار نے 1905ء میں قادیانیت قبول کی تھی۔ دادا کے تین بھائی جن میں میرے نانا بھی شامل تھے، قادیانی ہو گئے، لیکن دادا کے دیگر دو بھائی اور ان کی اولادیں بدستور اسلام پر قائم رہیں۔ اس کے بعد قادیانیت کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا۔ہم میں سے کوئی بھی قادیانیت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا،کیونکہ قادیانی فیملی میں پیدا ہونے کے باعث روایتی و موروثی سوچ غالب تھی،مگر آہستہ آہستہ اﷲ تعالی نے ہدایت کے راستے کھولے۔ میں نے بیس سال ضلع شیخوپورہ میں جماعت احمدیہ کے ساتھ متحرک کردار ادا کیا۔ میرے پاس جماعت احمدیہ شیخوپورہ کا شعبہ عمومی اور شعبہ تعلیم رہا ہے۔ شعبہ عمومی میں سیکورٹی اور تمام عام ذمہ داریاں شامل ہیں۔ جبکہ دیگر تمام شعبہ جات پر نگرانی بھی شعبہ عمومی ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس لیے تمام معلومات اسی شعبہ کے پاس ہوتی ہیں۔ اس شعبہ کی بدولت ہی جماعت احمدیہ کے بارے میں اندر کی بہت اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ شعبہ عمومی میں کام کرنے کے دوران جماعت احمدیہ کے ذمہ داران کے منافقانہ کردار کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملاکہ ان کی زبان پر کچھ اورہوتاتھا اور عمل کچھ اور تھا۔
زندگی کے اولین دور میں مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں اپنی پڑھائی میں مشغولیت اور موروثی عقائد کی بنا پر عدم دلچسپی کی وجہ سے نہیں پڑھ سکا۔ پھر مرزا کی کتب کو پڑھنے کے لیے بھی ایک سال کا عرصہ چاہیے۔ اس طرح جماعت میں رہتے ہوئے تو مرزا صاحب کی ایک آدھ کتاب ہی پڑھی۔ جماعت احمدیہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ بچوں کے لیے ایک متعینہ سلیبس ہوتا ہے اور اس میں بھی یہ چیز ہی بچوں کے ذہن میں بار بار ڈالی جاتی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اس طرح بچپن ہی سے مرزا قادیانی کے خاندان کی غلامی کا قلادہ گلے میں ڈال دیا جاتا ہے اور سوچ محدود ہو جاتی ہے۔ جماعت احمدیہ کے تمام شعبوں مثلاً انصار الاحمدیہ، لجنہ اور خدام الاحمدیہ وغیرہ میں ان کا اپنا نصاب ہے، جس کے مخصوص پیپرز ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے وہ امتحان لیتے ہیں اور مخصوص سوالات ہی پیش کیے جاتے ہیں۔ جن کا ایک مخصوص دائرہ ہوتا ہے۔جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے اور کنویں کے مینڈک کی طرح ایک مخصوص اور محدود دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔جماعت میں بنیادی طور پر کتب فروشی تو ہوتی ہے مگر پڑھنے کے لحاظ سے ترغیب شامل نہیں ہے۔ تاکہ سوچ کی حدود وسیع نہ ہوسکیں۔
قادیانیت اور اس کے عقائد تضادات کا مجموعہ ہیں۔ میرا جماعت احمدیہ والوں سے اکثر اختلاف رہتا تھا کہ ویسے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ ہم الٰہی جماعت ہیں اور ایک امام کے ماننے والے ہیں، لیکن آپ کاکوئی قول آپ کے عمل سے مطابقت کیوں نہیں رکھتا۔ پھر ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ بظاہر ہم مرزا غلام احمد کو حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ظل (سایہ) کہتے ہیں، لیکن مرزا صاحب کی تحریروں میں دیکھا جائے تو بات اس سے کہیں آگے چلی جاتی ہے۔ جب اس طرح کی تحریریں سامنے آتی ر ہیں تو بالآخر میں اس بات پر مجبور ہوگیا کہ اس کے متعلق تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیے۔ 2016ء میں عبدالغفار جنبہ قادیانی (مقیم جرمنی) جو خود مصلح موعود ہونے کا دعویدار ہے، کی بعض باتوں نے قادیانیت پر تحقیق کے عزم کو پختہ کردیا۔ لہٰذاپانچ سال پہلے میں نے قادیانیت کی تحقیق اور مرزا غلام احمد کی کتب کا براہ راست مطالعہ شروع کیا اور میرے پاس جو بھی ذرائع تھے، ان سے تحقیقات اور کتب کا مطالعہ کرتا رہا۔ دوران مطالعہ مرزا قادیانی کے متضاد دعووں نے مجھے چکرا کر رکھ دیا اور میں نے یہ متضاد دعوے اور کتب کے حوالہ جات دیگر قادیانی دوستوں کوواٹس ایپ پر شیئر کرنا شروع کر دیے کہ ہماری جماعت والے زبانی طور پر قادیانی عقائد کی کچھ اور تصویر پیش کرتے ہیں،مگر ہماری کتب میں اس کے برعکس لکھا ہوا ہے۔
جب میں نے تحقیق کا یہ کام شروع کیا تو اس کا شدید ردعمل آیا۔ کیونکہ جب قادیانی نظام کو زد پہنچنے لگتی ہے، یا کسی کے دماغ میں سوال اٹھنے لگتے ہیں تو جماعت والوں کو مصیبت پڑ جاتی ہے اور وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ معاملہ کو فوراًکسی طریقہ سے دبا دیا جائے۔ تاکہ باشعور لوگوں کے ذہن اس سے متاثر نہ ہوں۔ اس کے لیے خواہ افراد کو جماعت سے نکالنا پڑے، یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے تو وہ ایسا ہر حربہ استعمال کر گزرتے ہیں۔ میرے خلاف انکوائری شروع ہوگئی۔ جماعت احمدیہ شیخوپورہ کے ضلعی مربی و مبلغ نے میرے اعتراض پر غلط حوالہ جات پیش کیے۔ جب میں یہ معاملہ عام احمدیوں کے سامنے لایا اور مربی کی غلط بیانیوں کو بے نقاب کیا تو مقامی سطح پر میرے سوالات کا ان کے پاس جواب نہیں تھا۔ جس پر انہوں نے مرکز (چناب نگر) سے رابطہ کیا اور مرکز سے جماعت احمدیہ کے دو بڑے مبلغین حافظ مظفر احمد اور مبشر کاہلوں کو شیخوپورہ بھیجا گیا اور مجھے کہا گیا کہ ان کے ساتھ نشست کریں، مجھے ان کا طریقۂ واردات معلوم تھا اور میں قادیانیوں کے تمام معاملات و ہتھکنڈوں سے واقف تھا کہ وہ اصل بات پر مجھے مطمئن نہیں کریں گے۔ آخر کار وہی ہوا اور اس دن صرف اس موضوع پر بات ہوئی کہ مرزا بشیر الدین محمود دوسرا خلیفہ ہے یا نہیں۔ اس پر بھی مبشر کاہلوں نے غلط حوالہ جات پیش کیے،چونکہ اس وقت تحصیل و ضلع کے مربی اور مقامی جماعت کی انتظامیہ یعنی امیر شہر اور امیر ضلع موجود تھے، لیکن ان میں سے کسی نے مرزا قادیانی کی کتب نہیں پڑھی ہوئی تھیں اس لیے قادیانی مبلغ مبشر کاہلوں نے جو کچھ کہا،وہ سب اسے سچ مان کر بیٹھ گئے۔ ہماری یہ نشست ڈیڑھ دو گھنٹے تک جاری رہی، لیکن وہ نتائج کے اعتبار سے نامکمل تھی، کیونکہ ابھی جو حقیقی سوالات میں نے کرنے تھے وہ مجھے کرنے نہیں دیے گئے۔ اس نشست میں یہ طے ہوا کہ سوالات و جوابات کی ایک الگ نشست ہوگی۔ وہ اس پر رضامندی کا اظہار کرکے چلے گئے، لیکن ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے گئے کہ ہم آپ کو آئندہ اجازت نہیں دیں گے کہ آپ دوسروں کو حوالہ جات بھیجتے رہیں۔ میں نے کہا کہ آپ اس کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ یہ ہر انسان کا اپنا ذاتی فعل و عمل ہے کہ جس طرح اس کو حقیقی دین کی سمجھ آتی جائے گی، وہ اسے آگے پھیلاتا رہے گا اور میں بھی آپ کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ آپ میرے ذاتی معاملات میں مداخلت کریں اور مجھ پر پابندیاں لگائیں۔ بہرحال اس دن یہ طے ہوگیا تھا کہ اگلی نشست میں سوالات صرف میں ہی کروں گا، لیکن مجھے علم تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، کیونکہ اپنے تجربہ کی بناء پر مجھے یقین تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے اس کے بعد انہوں نے دوبارہ نہیں آنا اور نہ انہوں نے میرا سامنا کرنا ہے، کیونکہ اگر انہوں نے میرے جواب دینے ہوتے تو وہ آج ہی دے دیتے۔
اس نشست میں جو چار سوالات میں نے کیے تھے، قادیانی مبلغوں نے ان کے جواب نہیں دیے۔ جب بیرونی مبلغین چلے گئے تو ایک ماہ بعدمقامی جماعت نے میرے جماعت سے اخراج کا اعلان کر دیا،مگر مجھے جماعت سے نکالنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ بس یہی کہا گیا کہ طاہر احمد ڈار کو خلافِ نظام ِتعلیم موقف اختیار کرنے پر اخراج ِجماعت کی سزا دی جاتی ہے۔ جب انہوں نے یہ اعلان کیا تو میں نے شعبہ امورِ عامہ چناب نگر میں فون کر کے ان کی خوب کلاس لی کہ آپ پہلے مجھے اس فیصلے کی کوئی معقول وجہ بتائیں اور مجھ پر الزام کا ثبوت فراہم کریں۔ میں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی معاشرتی انصاف کے قانون میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ آپ ایک شخص پر الزام لگائیں اور اس کو چارج شیٹ کی کاپی بھی نہ دیں۔ لہٰذا مجھے وجہ بتائیں کہ آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ہے، جبکہ ہماری بات چیت بھی متعلقہ موضوعات پر ابھی نہیں ہوئی اور نہ بات کسی منطقی انجام پر پہنچی ہے۔ میں نے اس کے بعد ڈیڑھ دو سال تک ان کے جواب کا انتظار کیا کہ شاید ان کو عقل آ جائے اور وہ میرے کسی سوال کا جواب دے کر مجھے مطمئن کر دیں، لیکن انہوں نے کسی قسم کا کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔ بہرحال میں نے مزیدتحقیق کی اور قرآن و حدیث کے حوالہ سے تمام مسائل و معاملات کا قادیانیت سے تقابل کر کے الحمدﷲ اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا کہ قادیانیت کا اﷲ اور رسول کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔یہ اسلام کے الٹ ہے اور ان کا سسٹم کلی طور پر یہودیانہ طرز پر مبنی ہے جو صرف اور صرف اسلام اور پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
میں نے قادیانیت پر تحقیقات کے دوران میں اپنی بیوی اور بچوں کو قادیانیت کے بارے میں مکمل آگاہی دی، کیونکہ قادیانیوں کا یہ طریقۂ واردات ہے کہ جب کوئی ایسا شخص جو اُن پر اعتراضات کے لیے کھڑا ہو جائے تو پھر یہ اسے اس کی فیملی کے ذریعے سے بھی تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ایسے قضیوں میں میاں بیوی اور بچوں میں علیحدگی کرا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ میرے معاملے میں بھی انہوں نے یہ پوری کوشش کی، لیکن الحمدﷲ میری بیوی (جو مسلمان ہونے کے بعد،چندماہ پہلے انتقال کر چکی ہیں) پڑھی لکھی خاتون تھیں اور وہ بھی حقائق کی تلاش میں میرے ساتھ سرگرداں رہی تھیں۔ اس لیے وہ مکمل طور پر میرے موقف کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس لیے قادیانیوں کا یہ وار بھی ناکام ہوا اور وہ مایوس ہوگئے کہ ہمارے درمیان جدائی ناممکن ہے۔ میرے بیوی اور بچے میرے ساتھ مل کر مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کے جھوٹا ہونے پر متفق ہوگئے اور ہم سب نے اجتماعی طور پر قادیانیت چھوڑ نے کا اعلان کر دیا اور اور ہم نے اعلان کیا کہ مرزا قادیانی کے تمام دعوے باطل اور غیر قرانی ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے اس طرح الحمدﷲ ہم نے قادیانیت کا طوق گردن سے اتار پھینکا اور اسلام کے دائرہ رحمت میں پناہ گزیں ہوگئے۔ اگرچہ اﷲ اور رسول اور اس کے رسول کی محبت تو شروع سے ہی دل میں موجود تھی، لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس محبت میں کوئی رکاوٹ سی موجود ہے۔ جب 22فروری 2019ء کو قبول اسلام کا اعلان کیا تو اس کے بعد سے اب تک ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ اور رسول کی محبت کے درمیان اب کوئی پردہ و رکاوٹ حائل نہیں رہی اور ہمارا اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ براہ راست تعلق قائم ہو گیا ہے۔
ہمیں بچپن سے یہی پڑھایا جاتا تھا کہ جو جماعت احمدیہ سے دُور ہٹتا ہے۔ اُس سے اُس کا خدا روٹھ جاتا ہے، اس کا رزق بند ہو جاتا ہے، اس پر معاشرہ میں زندگی تنگ ہو جاتی ہے۔ اور پھر قادیانی اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اگر اس کا سائیکل بھی پنکچر ہو جائے تو ہم اسے قادیانیت کی صداقت کی نشانی بتائیں۔ سب انبیاء نے خدا کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ دنیا میں نبوت کا جھوٹا دعویدار مرزا احمد قادیانی واحد آدمی تھا کہ جن کا ایک ہی کام تھا موت بانٹنا اور خوف بانٹنا۔ اور وہ اس خوف کو بانٹنے کے لیے ڈرامے کرتے رہے۔ مثلا ًایک بار کہا کہ زلزلہ آ رہا ہے۔ وہ میری زندگی میں میری صداقت کے لیے آئے گا اور خیمے لگا کر اپنے باغ میں بیٹھے رہے، لیکن زلزلہ نہ آیا۔ البتہ مرزا صاحب ہی اس دنیا سے چلے گئے۔ یہ خوف کا کاروبار ہے جس پر ان کے گروہ کی بنیاد کھڑی تھی، جو اَب آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ اب قادیانیت تر ک کرنے کا رُجحان تیز ہورہا ہے۔ پہلے جو سوکھی ٹہنیاں تھی، اب وہ سرسبز گلدستہ بن گئی ہیں۔ اب ہمارا سامنا کرنا ان کے بس کے میں نہیں رہا۔ یہ اﷲ کا خصوصی فضل ہے کہ اس نے ہمیں اُن کی کتابوں کو پڑھنے کے بعد ہم پر قادیانیت کا کفر واضح کیا اور صراط مستقیم پانے کی توفیق دی اور قرآن وحدیث سے متصادم جھوٹے قادیانی دعووں سے ہماری جان چھڑائی اور ہمیں ان کے چنگل سے نکالا۔ آگے چل کر تفصیل سے بتاؤں گا کہ قادیانی جماعت کا نظا م کیا ہے اور اُن کا ہدف کیا ہے؟
جماعت احمدیہ نے بظاہر مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، مگر یہ کوئی مذہبی گروہ نہیں، بلکہ ایک لمیٹڈ فرم ہے۔ جس کے مالی اور سیاسی مقاصد ہیں۔ مرزا غلام احمد کی فیملی کے لوگ پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے کروڑوں کے فارم ہیں۔ بلند و بالا کوٹھیاں ہیں۔ چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کا کوئی روزگار نہیں ہے، لیکن ان کی عیاشی اور لائف سٹائل کا بنیادی ذریعہ چندہ ہے۔ افریقہ کے ملک گھانا میں قادیانیوں کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے۔ مختلف فارمز وہاں بنائے گئے ہیں۔ قادیانیوں کا موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے گھانا ہی میں آٹھ سال تک قیام پذیر رہا ہے۔ ربوہ(چناب نگر) میں ان کا یہ لائف سٹائل اور لگژری لائف نہیں تھی۔ یہ سب سیٹ اپ بیرون ممالک میں بنائے گئے ہیں۔ بیرونی ملکوں میں انہوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ تاکہ اگر پاکستان میں حالات ان کے خلاف ہو جائیں تو وہ وہاں بھاگ جائیں، لیکن یہ یاد رکھیں کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں چلے جائیں گے،لیکن وہ قادیان میں کبھی نہیں جائیں گے، کیونکہ وہاں عیش و راحت کے سامان میسرنہیں ہیں۔ قادیانی جماعتیں ساری دنیا سے چندہ اکٹھا کرتی ہیں اور پھر وہ سارا چندہ لندن میں بھجوایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے جو چندہ بالخصوص پاکستان سے جاتا ہے وہ بہت سے ذرائع سے ہو کر جاتا ہے اور لندن میں جمع ہوتا ہے۔ جہاں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اب اسے کس محفوظ مقام مثلا ًانڈیا یا پانامہ میں منتقل کیا جائے۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ منی لانڈرنگ کا بانی کون ہے تو میرا جواب ہوگا کہ مرزا غلام احمد قادیانی جو نوٹوں کو دو حصوں میں کاٹ کر آدھے نوٹ کوایک لفافہ میں اور دوسرا آدھا نوٹ دو سرے لفافہ میں ڈلوا کر بذریعہ ڈاک منگوایا کرتا تھا۔ یہ اپنے وقت کی منی لانڈرنگ تھی۔ اب موجودہ خلیفہ کا اپنا سٹائل ہے۔ یہ جو سارے منی لانڈرنگ کے موجد ہیں۔ یہ سارے اس مافیا کا حصہ ہیں جو عام قادیانیوں کو بہکا کر ان سے اسلام کے نام پر دولت ہتھیاتے ہیں اور پھر اسے اپنی عیاشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس نام نہاد اسلامی گروہ سے کوئی بندہ پوچھے کہ پندرہ بیس کروڑ کی گاڑیاں خود رکھی ہوئی ہیں اور عام لوگوں کو سادگی کا درس دیتے ہو، کیا اسی کا نام منافقت نہیں ہے؟
قادیانی جماعت میں چندہ کی 50 سے زیادہ اقسام ہیں جو عام احمدیوں پر عائد ہیں۔ پہلا چندہ عام کہلاتا ہے۔جس کی ادائیگی ہر احمدی پر لازم ہے۔ جس کی شرح ہر احمدی کی آمدن پر چھے فی صد بنتی ہے۔ چاہے وہ رکشہ چلاتا ہے یا اس کے پاس پراڈو ہے۔ لوگوں کو بلیک میل کرکے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ جماعت کو دیں۔ چندۂ عام کا سالانہ بجٹ 30جون کو ختم ہوتا ہے۔ پھر’’ تحریک جدید‘‘ کا چندہ ہے۔ (یاد رہے کہ ’’تحریک جدید‘‘ کی تنظیم کو مرزا بشیر الدین نے مجلس احرار اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے 1934ء میں قائم کیا تھا۔) تحریک جدید کے چندہ کا سال اکتوبر میں مکمل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وصیت کا چندہ بھی چلتا ہے جو آمدن اور جائیداد پر دس فیصد ہوتا ہے۔
مرزا غلام احمد نے ایک خواب دیکھا تھا۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں کیا ہے، کیونکہ انہیں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ والد فوت ہو جائیں گے اور ساری زندگی میں نے کچھ کیا نہیں، اب ان کے بعد کیا کروں گا۔ ’’حقیقت الوحی‘‘ میں اسی کے متعلق لکھا ہے کہ جب والد کی وفات قریب آئی تو مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ یہ ذریعہ معاش جو ہے یہ تو والد کی زندگی تک ہے۔ پنشن اورجو انعام و اکرام انگریز سے ملتا تھا وہ بھی اسی وقت تک ملے گا جب تک والد زندہ ہے۔ مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ پھر مجھے الہام ہوگیا ’’الیس اﷲ بکاف عبدہ‘‘ پھر پیسے آنے شروع ہو گئے۔ ہفتہ میں تین لاکھ روپے اکٹھے ہوگئے۔ اب میرا یہاں پر سوال ہے اُن احمدی دوستوں سے کہ جن کے ساتھ میں 50 سال رہا ہوں کہ جب مرزا صاحب لکھ رہے ہیں کہ مجھے اپنے ذریعہ معاش اور آرام کی فکر تھی تو یہ چندے جو ہم دیتے ہیں تو کیا یہ مرزا صاحب یا ان کی فیملی کا ذریعہ معاش ہے، یا خدا کا حکم ہے۔ یا تو مرزا صاحب اپنی آمدن کے آنے کی وجہ یہ بتاتے کہ اس کے بعد ان کی کوئی لاٹری نکل آئی، یا کوئی کام لگ گیا تھا۔ حالانکہ جو آمدن ہو رہی تھی وہ تو چندوں کا سلسلہ تھا۔ ایسا ہی مرزا صاحب کا ہندوؤں کے مقابلے میں ’’براہین احمدیہ‘‘ نامی کتاب کی اشاعت کا اعلان تھاجس کے لیے ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے انہیں چندے ارسال کیے ۔کتاب کی اشاعت کا اعلان بھی چندوں کی آمدن کا ذریعہ بنا۔ 1905 میں جب مرزا غلام احمد نے دیکھا کہ میرا وقت قریب ہے اور اب اپنی اولاد اور خاندان کے لیے مستقل ذریعۂ آمدن مہیا کر جاؤں۔ تاکہ ان کا معاش کا سلسلہ چلتا رہے۔ تب انہوں نے چندۂ وصیت کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے لیے انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں خواب میں ایک جگہ (بہشتی مقبرہ) دکھائی گئی ہے۔ جس میں دفن ہونے والا جنتی ہو گا اور پھر مرزا قادیانی نے اس میں دفن ہونے والوں کے لیے کچھ شرائط بیان کیں۔ ان میں سے ایک شرط ساری زندگی مختلف قسم کے چندوں کی ادائیگی اور پھر اپنی کل منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کا دس فیصدحصہ قادیانی جماعت کے نام کر دینا بھی تھی۔ مرزا قادیانی نے ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں دفن ہونے والوں کے لیے اپنے رسالہ ’’ضمیمہ الوصیۃ‘‘ میں جو شرائط لکھی ہیں۔ ان میں سب سے آخری شرط مرزا صاحب لکھ رہے ہیں کہ میرا خاندان ان شرائط سے مستثنیٰ ہوگا اور جو شخص اس استثنا کے بارے میں اعتراض کرے گا، وہ منافق ہوگا۔ یہ ان لوگوں کے لیے اطلاع ہے، جنہوں نے رسالہ ’’الوصیۃ‘‘ کو غور سے نہیں پڑھا، یا سرے سے پڑھا ہی نہیں ہے۔ مرزا غلام احمد نے مزید لکھا ہے کہ جو اس نظامِ وصیت میں شامل نہیں ہوتا، خواہ وہ چندہ دیتا بھی ہے، یعنی جو عام چندہ دیتا ہے۔ وہ منافق لوگ ہیں، خبیث لوگ ہیں، مومن وہی ہیں جو 1/10 کی وصیت کرتے ہیں۔ یہ تھا وصیت کا دھندہ۔
قادیانیوں کے لیے چار چندے دینا تو لازم ہیں: چندۂ عام، تحریک جدید، وقف جدید اور تنظیم (انصارالاحمدیہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ وغیرہ)کا چندہ۔ چھوٹے بچے ’’اطفال الاحمدیہ‘‘ میں چندہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد چندے ہیں جو لازم تو نہیں مگر کئی طریقوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ میرے پاس ایک خاندان کی جو چھ افراد پر مشتمل ہے، ایک لسٹ ہے جو بیک وقت چھبیس چندے دے رہا ہے۔ یہ چندے جذباتی سطح پر لوگوں کو بلیک میلنگ سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ چندے مختلف ناموں سے موسوم ہیں: مثلا ًحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم، خلفاء راشدین اور مرزا قادیانی کے بیٹوں کے نام سے چندہ۔ جب کوئی قادیانی چندہ دینے سے انکار کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کمال ہے کہ آپ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام کا چندہ نہیں دیں گے۔ حیرت ہے کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے نام پر چندہ نہیں دیں گے۔ اس طرح یہ حیلوں بہانوں سے چندے وصول کرتے ہیں۔ جب رمضان المبارک آتا ہے تو لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو لوگ یک مشت سو فیصد پیشگی چندے ادا کر دیں گے تو اُن کے ناموں کی لسٹ حضور یعنی مرزا مسرور احمد کے پاس جائے گی اور آپ کا نام دعائیہ فہرست میں آجائے گا، حضور آپ کے لیے دعا کریں گے۔ یہ پیسے نکلوانے کا ایک جذباتی و استحصالی طریقہ ہے۔ یہ سب وہ چندے ہیں جو باقاعدہ ہیں اور دینے پڑتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لیے ننھے مجاہد کے نام سے چندہ لازم کیا گیا ہے۔ کمانے والا ایک ہے اور وہ چندے دس بندوں کے دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع ہیں، جن پر جماعت احمدیہ چندے بٹورتی ہے۔
ان چندوں کے احتساب کے لیے جماعت احمدیہ میں اندرونی طور پر ایک نام نہاد آڈٹ سسٹم بنایا گیا ہے، لیکن جماعت کے کسی فرد کو اُن پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ خلیفہ ہر قسم کے احتساب سے ماورا ہوتا ہے۔ جماعت قادیانیوں سے چندے وصول توکرتی ہے، مگر مقامی علاقائی مسائل میں وہ حاصل شدہ چندوں میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرتی، بلکہ عبادت گاہوں کی تعمیر، یا فلاحی کاموں کے لیے بھی مقامی جماعت اور کارکنوں ہی کو الگ سے فنڈ جمع کرانے پڑتے ہیں۔ ہیومنٹی کے نام پر عبادت گاہوں کی تعمیر کے علاوہ فلاحی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹنا سراسر جھوٹا پروپیگنڈا ہے اور یہ سب لوگوں سے پیسے حاصل کرنے کے حیلے بہانے ہیں۔
اگر کسی غریب احمدی کو امداد کی ضرورت ہو تو سب سے پہلے وہ درخواست لے کر اپنے حلقے کے صدر کے پاس جاتا ہے۔ پھر امیر شہر، پھر امیر ضلع کے پاس اور ایک سے دوسرے کے پاس جاتے جاتے اس بیچارے کا کباڑا ہو جاتا ہے اوراس کی عزت نفس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔میں نے خود شیخوپورہ کے ایسے غریب قادیانیوں کی فہرست دیکھی ہے جو باقاعدہ مسلمانوں سے زکوٰۃ لیتے ہیں، لیکن مجبوراًجماعت احمدیہ کو چندہ بھی دیتے ہیں۔ جماعت خود کسی غریب کی مدد نہیں کرتی۔ وہ بے چارے تومسلمانوں سے زکوٰۃلے کر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور جماعت کے عتاب سے بچنے کے لیے اسے چندہ بھی دیتے ہیں۔ ان کا ماٹو لو فار آل (Love for all) دراصل لو فار مال ہے۔ میں نے مرزائی مبلغ مبشر کاہلوں سے سوال کیا تھا کہ آپ قادیان میں تقریرکرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ چندے دو، تبلیغ کرو اور چلو جنت میں۔ بھلا یہ کس شریعت کا معاملہ ہے۔ جس کی آپ سب لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں تو وہ بہت شرمندہ ہوئے اور ہنستے ہنستے باہر نکل گئے۔ ان چندوں سے حاصل شدہ آمدن کس کے استعمال میں جاتی ہے اور کون اس بے حساب دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کی تفصیل الگ ہے۔ (جاری ہے)