رفیع الدین رفیع چشتی نظامی
پیرنصیرالدین نصیرگولڑوی رحمہ اﷲ کاایک بیان یوٹیوب اورفیس بک پہ چل رہاہے جس میں امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے متعلق حضرت پیرسیدمہرعلی شاہ گولڑوی رحمہ اﷲ کے دعائیہ کلمات اورپھرشاہ جی کی آخری زندگی کے ایک من گھڑت واقعہ کوعجیب رنگسازی کیساتھ پیش کیاگیا ہے۔
اس واقعہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ پیرنصیرالدین نصیر ماشاء اﷲ علمی آدمی تھے مگرنامعلوم کس تعصب کا شکار ہوگئے۔ اگر وہ زند ہوتے توہم ضروران کی خدمت میں پیش ہو کروضاحت کرتے۔
پیر نصیر الدین نصیر رحمہ اﷲ نے طلاقت لسانی، غلط بیانی اور مسلکی تعصب کااظہار فرمایا ہے۔ انہوں نے اپنی ذاتی رائے کو شورش کاشمیری مرحوم سے منسوب کر کے اپنے مقام و منصب اور عالی نسبت کا خیال نہیں کیا جو انہیں زیبا نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا شورش کاشمیری مرحوم نے یہ بات صرف پیر نصیر الدین نصیر مرحوم سے ہی کہی تھی۔ انہوں نے ساری زندگی اسی سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے ساتھ گزاری جو بقول پیر نصیر الدین مرحوم کے ایمان سے محروم تھے؟
سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، حضرت پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت ہوئے، پیر صاحب کی ذات سے یہ بات منسوب کرنا کہ انہوں نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو خطابت دے دی لیکن ایمان نہ دیا خود حضرت پیر صاحب کی شان کے منافی ہے ۔سوال یہ ہے کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی خطابت بغیر ایمان کے ہی عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے وقف ہو کر رہ گئی تھی؟ شورش کاشمیری مرحوم نے یہ بات تو خوب لکھی اور بیان کی کہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ رحمہ اﷲ نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ سے فرمایا:
’’ شاہ جی! قدرت نے آپ کو لسان پیدا کیا ہے ۔ اس میدان میں آپ کبھی ہیٹے نہیں رہیں گے ‘‘وہ یہ بات بھی لکھ دیتے کہ: ’’ عطاء اﷲ شاہ بخاری نے پیر صاحب سے زبان و خطابت مانگی، وہ مل گئی۔ایمان نہیں مانگا، وہ نہ ملا ‘‘ اس کی بجائے شورش نے پیر نصیر الدین صاحب کے کان میں چپکے سے یہ بات کہ دی ۔ اس سے خود شورش کی کیا حیثیت رہ گئی؟
سوائے افسوس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے ۔ اب پیر نصیر الدین حیات ہیں نہ شورش۔ اے کاش! وہ یہ بات شورش کی زندگی میں کہتے تو ان سے جواب بھی سن لیتے ۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، حضرت پیر صاحب کی خدمت میں اصلاح کے لیے حاضر ہوئے اور خوب فیض پایا، ایمان تو اﷲ تعالی نے عطاء فرمایا تھا، مزید دعائیں لینے گئے تھے وہ بھی مل گئیں – الحمد ﷲ