ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
ستمبر 2014میں شعبہ اردو، استنبول یونیورسٹی(جس کے صدر شعبہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں)کی طرف سے منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے ترکی کے خوبصورت شہر استنبول پہنچے، میرے ساتھ میرے شعبہ(اسلامی تاریخ، کراچی یونیورسٹی)سے ڈاکٹر سہیل شفیق اور ڈاکٹر زیبا بھی تھیں۔چار روزہ کانفرنس سے فراغت کے بعد ہم دو ہفتے مزید استنبول میں ٹھہرے اور بے تحاشا گھومے۔تین دن تو ایسا ہوا کہ ہمارے مہمان سعید صاحب جو ترکی ہی کے ہیں، اپنی شاندار لینڈ کروزر میں صبح 9 بجے ہوٹل سے ہمیں لیتے اور رات نو بجے واپس چھوڑتے۔ان بارہ گھنٹوں میں بس ہم گھومتے ہی رہتے۔(مولانا رومی کے ملک میں جو تھے )۔پہلے ہی دن ہم ایا صوفیا اور نیلی مسجد(ینی جامع) دیکھنے گئے۔
ایا صوفیا ماضی قریب میں استنبول کی سب سے بڑی جامع مسجداور ماضی بعید میں مشرقی دنیائے نصرانیت کا سب سے ممتاز صدر کلیسا metropolitan Church تھا۔یہ قسطنطین کے بیٹے قسطنطیوس نے 360ء میں بنوایا تھا۔یہ ”کنیسہ عظمی ” متعدد اور مختلف تغیرات سے دوچار ہوتا رہا۔کئی بار آگ اور زلزلوں سے تباہ ہوا اور کئی بار مختلف عیسائی مسلکوں کی لڑائیوں میں۔بالآخر جسٹینین Justinian نے اس کی تعمیر نو کی، ملک کے دو ماہر تعمیرات کو اس کی ذمہ داری دی گئی اور رومی بادشاہ نے انہیں تاکید کی کہ تعمیر اتنی پائیدار ہونی چاہیے کہ نہ زلزلہ اثر کرے نہ آتش زدگی۔ تعمیر کئی سال میں مکمل ہوئی، بہت ہی شان وشوکت سے 27۔دسمبر 537ء کو اس کا جشن افتتاح منایا گیا۔جسٹینین نے بڑے فخر سے اس موقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا:”اے سلیمان! میں آپ سے بازی لے گیا ”۔ یاد رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ھیکل بیت المقدس تعمیر کیا تھا۔7۔مئی 558ء کو پھر زلزلہ آیا اور ایا صوفیا کا مشرقی حصہ گر گیا۔(پتا نہیں پیارے جسٹینین نے اس وقت کیا کہا ہو گا ) دوبارہ تعمیر زیادہ مضبوط بنیادوں پر کی گئی، دوبارہ اس کا افتتاح 24 دسمبر 562ء کو ہوا۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ جس مقام پر یہ دیو ہیکل کلیسا تعمیر کیا گیا تھا وہ fault line یعنی زلزلے کی پٹی پر تھا، بلکہ ہے۔
رومی بادشاہوں نے اس کی تزئین و آرائش میں اس قدر غلو کیا تھا کہ قرون وسطی کا زائر اسے دیکھ کر مبہوت رہ جاتا تھا۔ہر جگہ سنگ مرمر کا بکثرت استعمال، حضرت عیسی، حضرت مریم،دیگر انبیاء……حواریوں اور اولیاء کی تصاویر، اس پر مستزاد فرشتوں کے طبقہ اشراف (seraphim) کی تماثیل سے معلوم ہوتا تھا کہ دیواروں پر رنگوں کا ایک سمندر موجزن ہے،طلائی پچی کاری سے گنبد اور دیواروں کو مزین کیا گیا تھا۔1204ء میں جب قسطنطنیہ کو لاطینی صلیبی جنگجوؤں نے تاراج کیا تو اس گرجا کو بھی شدید نقصان پہنچا اور اسے سنگدلی سے لوٹا گیا۔
جب ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا(29۔مئی 1453) تو بہت سے لوگوں نے اس کلیسا میں پناہ لی، ان کا عقیدہ تھا کہ فاتحین جب قسطنطین اعظم کے مینار تک پہنچ جائیں گے تو فرشتے انہیں آگے بڑھنے سے روکیں گے اور انہیں ان کے علاقوں کی طرف دھکیل دیں گے۔لیکن ترک فوجی ایا صوفیا میں داخل ہوئے اور پناہ گزینوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا، عینی گواہوں سے ایاصوفیا میں کسی خون خرابے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔
سلطان محمد فاتح نے ایاصوفیا کو جب مسجد بنانے کا حکم دیا ہو گا تو اس میں بڑی تبدیلیاں کرنی پڑی ہوں گی……یہ تبدیلیاں بتدریج ہوتی رہیں سب سے پہلے تو اندرونی دیواروں پر منقش انسانوں اور فرشتوں کی تصاویر کو اس ہنر مندی سے چھپانے کا مسئلہ تھا کہ وہاں نماز کی ادائیگی کی جا سکے۔اس کے لئے ایک مخصوص قلعی تیار کی گئی جو دیواروں پر کی گئی،یعنی ان تصاویر کو کھرچ کر معدوم کرنے کے بجائے چھپا دیا گیا۔بعد میں بیرونی اطراف میں چار مینار تعمیر کئے گئے، جو آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔کلیسا کے انتہائی بلندی پر نصب ’’کراس‘‘ کو ’’ہلال‘‘ سے بدل دیا گیا۔
ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ استنبول کی کسی بھی مسجد یا گرجا میں آپ نماز پڑھیں تو آپ کا رخ بیک وقت بیت المقدس(قبلہ اول) اور خانہ کعبہ کی طرف ہو گا،لہذا یہاں ترک قبلے میں فرق کی وجہ سے تھوڑا سا جنوب کی طرف ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔
بیشتر عثمانی سلاطین نے ایاصوفیا کی مضبوطی اور تزئین و آرائش میں حصہ لیا۔سلطان مراد ثالث کے زمانے میں پوری مسجد کی مرمت ہوئی اور دو بڑے چبوترے اپنے ذاتی خرچ سے بنوائے۔اس نے ایاصوفیا کے گنبد کی چوٹی پر لگے ”ہلال” پر سونے کا پترا چڑھایا۔
سلطان مراد رابع کے زمانے میں (1623-1640) خالی اندرونی دیواروں کو قرانی آیات کی خطاطی سے مزین کیا گیا۔عثمانیوں کے مشہور خطاط بچاق جی زادہ مصطفے چلبی سے بڑے بڑے سنہری حروف میں قرآنی آیات لکھوائی گئیں۔چونکہ ایاصوفیا کی دیواریں بہت ہی بلند ہیں تو خطاطی یا کسی بھی قسم کی نقش گری انتہائی دشوار ہے۔مثلا حرف ’’ا‘‘ الف کی لمبائی 37 فٹ ہے، اس سے آپ مزید اندازہ لگا لیں۔ایاصوفیا میں ایک مقصورے کا اضافہ سلطان احمد ثالث کے زمانے میں ہوا تھا۔سلطان محمود اول نے مسجد میں ایک شاندار فوارہ،اوپری منزل تک جانے کے لئے سلطانی گزر گاہ، ایک مدرسہ اور ایک کتب خانہ بنوایا۔1847میں سلطان عبدالمجید نے اطالوی ماہرین سے مسجد کی renovation کرائی۔عثمانیوں کے دور میں رمضان المبارک کے مہینے میں ایاصوفیا کی سج دھج،چکاچوند، اور رونقیں عروج پر ہوتی تھیں۔
ہم ایاصوفیا کی سیر کرتے ہوئے جب اوپر جانے لگے تو پتا چلا کہ پتھروں کی بنی ہوئی ڈھلوان کے ذریعے اوپر جانا ہو گا۔ ایا صوفیاء کی بالائی منزل ایسی نہیں ہے جیسے ہمارے گھروں کی بالائی منزل ہوتی ہے، پندرہ بیس سیڑھیوں کے بعد بالائی منزل آ جاتی ہے، یہاں بالائی منزل کا مطلب تھا کہ کئی منازل کی بلندی …… ویسے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن ایک دن قبل ہی گرنے کی وجہ سے میرے بائیں پاوں میں شدید موچ آئی ہوئی تھی جس پر ڈاکٹر نے پریشر بینڈج کر کے تین چار دن آرام کا مشورہ دیا تھا ۔ لیکن شوق کا کیا مول۔ میں یہ ریمپ چڑھ گئی، بالائی منزل پر وسیع گیلریاں تھیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیٹھ سکتے تھے، یہ رومیوں کے زمانے میں سیاسی اور مذہبی اجتماعات کے لئے استعمال ہوتی ہوں گی۔
2014 میں جبکہ ہم یہاں گئے، ایا صوفیا میوزیم تھا، تاہم اردگان حکومت نے ایک چھوٹی سی عقبی جگہ نماز کے لئے کھلوا دی تھی۔ایا صوفیا میں جب سے اسے میوزیم بنایا گیا تھا یہاں نماز اور اذان پر پابندی تھی۔ ہم نے اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو رکعت نماز ادا کی اور ایاصوفیا کی خوبصورت یادیں لے کر اگلی منزل کو روانہ ہو گئے۔
ایا صوفیا کو مسجد بنانے کا حالیہ فیصلہ، پس منظر کیا ہے؟
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حدیث صحابہ کرام میں گردش کر رہی تھی:”تم قسطنطنیہ کو ضرور فتح کر لو گے،رحمت ہو اس بادشاہ اور اس لشکر پر جس کے ہاتھوں یہ فتح نصیب ہو ”۔ لہذا قسطنطنیہ پر قبضے کی کوششیں حضرت امیر معاویہ کے زمانے ہی سے شروع ہو گئی تھیں، قسطنطنیہ پر سب سے زیادہ حملے اموی دور میں ہوئے،دو بار قسطنطنیہ کا محاصرہ عباسی دور میں کیا گیا،تین بار یہ محاصرہ اور حملہ عثمانی دور میں، محمد فاتح سے پہلے ہوئے۔یہاں تک کے ساتویں عثمانی سلطان محمد فاتح نے 29۔مئی 1453ء کو قسطنطنیہ ایک طویل محاصرے اور شدید جنگ کے بعد فتح کر لیا اس وقت نوجوان فاتح کی عمر صرف 22 سال تھی۔یہ پندرھویں صدی عیسوی کے وسط کا واقعہ ہے، اس وقت کے اصول صلح و جنگ میں یہ طے تھا (بلکہ اسلامی فقہ کے مطابق بھی تھا)کہ کسی بھی علاقے پر قبضے کی دو صورتیں تھیں۔
1: وہ علاقہ/شہر/ملک صلح سے فتح ہو۔ ایسا اس وقت ہوتا جب کوئی حملہ آور فوج کسی شہر یا قلعے کے پاس پہنچتی تو اہل شہر مدافعت کی طاقت نہ پاتے ہوئے حملہ آور فوج سے مذاکرات کرتے کہ تم ہمارا شہر کچھ شرائط کی بنیاد پر لے لو، ہم جنگ نہیں چاہتے۔ فریقین میں کچھ شرائط پر معاہدہ طے پا جاتا۔جس کی پاسداری فریقین کو کرنی پڑتی۔عام طور پر یہ شرائط طے ہوتے کہ فاتح قوم پوری آبادی کو امان دے گی……ان کے معابد سے تعرض نہیں کرے گی وغیرہ وغیرہ۔
جیسا کہ بیت المقدس کی فتح میں ہوا تھا۔اسلامی فوج شام کے مختلف علاقے فتح کرتی ہوئی جب فلسطین پہنچی تو اہل فلسطین نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم شہر حوالے کرنے پر تیار ہیں، بشرطیکہ صلح نامہ لکھنے کے لئے تمھارے خلیفہ ہمارے پاس آئیں۔حضرت عمر مدینہ سے فلسطین پہنچے……معاہدہ طے پا گیا کہ اہل شہر کی جان و مال سے تعرض نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں مکمل امان حاصل ہو گی……وہ اپنی پیداوار پر اتنا ٹیکس حکومت کو دیں گے……اور ان کے معبد سے تعرض نہیں کیا جائے گا البتہ انہیں نئے کنیسہ بنانے کی اجازت نہیں ہو گی وغیرہ ۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت تبدیل نہیں کی گئی، حضرت عمر نے وہاں نماز بھی نہیں پڑھی کی صلح نامے کی پاسداری مطلوب تھی۔
2: دوسرا جنگی قاعدہ یہ تھا کہ فریقین جنگ ہی کریں۔ایسی صورت میں جو ہار گیا اب اس کے پاس کسی بات کا کوئی اختیار نہیں رہ گیا۔جو فاتح رہا، اب یہ اس کی صوابدید ہے کہ اسیروں کو غلام بنا کر بیچ دیں یا رہا کر دیں۔انہیں امان دیں یا نہ دیں……ان کے معابد قائم رہنے دیں یا نہ رہنے دیں۔
اس بات کو ذہن میں رکھئے کہ یہ پندرھویں صدی عیسوی کا وسط ہے، اس سے قبل تیرھویں صدی عیسوی میں مسلمانان اندلس کے ایک ایک شہر پر رفتہ رفتہ عیسائی فوجیں قبضہ کر چکی تھیں، سب سے پہلے انہوں نے طلیطلہ فتح کیا…… وہاں کی عظیم الشان جامع مسجد کو گرجا میں بدل دیا گیا۔اس کے بعد قرطبہ 1236ء میں فتح ہو گیا اور وہاں کی شاندار مسجد قرطبہ کو کنیسہ کا درجہ دے دیا گیا۔یہ وہی مسجد ہے جس کے لئے اقبال نے کہا تھا
سلسلہ روز وشب نقش گر حادثات
سلسلہ روز وشب،اصل حیات و ممات
سلسلہ روز وشب، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات،اپنی قبائے صفات
یہی اندلس کی دوسری مسلم ریاستوں کے ساتھ ہوا، یہاں تک کہ 1492میں غرناطہ فتح اور وہاں کی شاندار مساجد(ایک نہیں تمام مساجد)کو یا بند کر دیا گیا یا کنیسہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ایسا نہیں ہے کہ ان کے انتقام میں محمد فاتح نے ایا صوفیا کو مسجد بنا دیا، کہ عیسائیوں نے ایسا کیا تو اب ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔بلکہ اسپین کی مثال سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قرن وسطی میں اصول جنگ یہی تھے۔قسطنطنیہ کی فتح کے تین دن بعد جب جمعہ کے دن محمد فاتح قسطنطنیہ میں داخل ہوا تو جمعہ کے انعقاد کے لئے ایا صوفیا گیا، وہیں جمعہ منعقد ہوا اور ایا صوفیا کو مسجد کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ چند روز قسطنطنیہ میں ٹھہر کر اور وہاں ایک انتظامیہ بنا کر محمد فاتح واپس برصہ چلا گیا، جو اس کا دارلحکومت تھا۔
فیس بک پر کچھ کاغذات دکھائے جا رہے ہیں کہ ایاصوفیا کو محمد فاتح نے عیسائی پادریوں سے خرید لیا تھا، یہ بات logical نہیں۔ایک ایاصوفیا کیا جب پورا قسطنطنیہ ہی قبضے میں آ گیا تھا،اور ہر چیز سے عیسائیوں کی حق ملکیت کا خاتمہ ہو چکا تھا تو وہ کسی چیز کی خرید و فروخت کی پوزیشن ہی میں نہیں تھے۔
1453ء سے1934 تک ایا صوفیا مسجد رہی۔1934 میں مصطفے کمال پاشا کی کابینہ نے اسے میوزیم کی شکل دے دی۔2020میں رجب طیب اردگان نے اس میوزیم سے دوبارا مسجد بنا دیا، یہ فیصلہ ترکی کی اعلی عدالت نے کیا ہے۔ عالمی طاقتوں یعنی روس، امریکہ،اور مسیحی دنیا کا اردگان پر بڑا دباو تھا کہ وہ ایسا نہ کرے۔ اردگان نے وہی کیا جو اسے کرنا چائیے تھا۔ترکی اپنے اندرونی معاملات میں آزاد ہے۔کیا آزاد ملکوں کو اپنی داخلہ بلکہ خارجہ پالیسی بھی ان استعمار پسند ممالک سے پوچھ کر طے کرنی پڑے گی؟ جبکہ اردگان نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ ایاصوفیا مسجد سب کیلئے کھلی ہوئی ہے۔یہاں عیسائی اور دیگر غیر مسلم سب آ سکتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کے خریدنے کے پیمانے اور……بیچنے کے اور ہیں۔وہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں اور ایاصوفیا کے معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔
مسجد بنانے کا فیصلہ، چند پہلو:
ایا صوفیا کے حوالے سے اردگان حکومت کے حالیہ فیصلے پر مسلمانوں کی اکثریت نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے۔و ہ جولائی کی اس تاریخ کا انتظار کررہے ہیں جب وہاں (یعنی استنبول کی سب سے بڑی جامع مسجدمیں) نماز کی ادائیگی ہوسکے گی لیکن پاکستان میں ایک طبقہ اس پر مسلسل تنقید کررہا ہے۔ یہ تنقید برائے تنقید ہے کیونکہ آپ اس فیصلے کے جس پہلو کا جائزہ لیں آپ کو یہ فیصلہ مبنی بر حق ہی نظر آئے گا۔
1۔سیاسی پہلو:
یہ ہے کہ ترکی ایک آزاد ملک ہے۔اُسے اپنے فیصلوں میں سو فیصد آزاد ہونا چاہیے اورعالمی برادری کو اُس کی اس خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔یہ ترکی کی داخلی آزادی کا احترام ہی تھا کہ جب 1934ء میں اس وقت کی پارلیمنٹ نے مسجد ایا صوفیا کو میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا تواُس فیصلے پر باوجود اس کے لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمانوں کو اس فیصلے سے تکلیف ہوئی،ا نہوں نے اس تکلیف کا اظہار بھی کیا لیکن ترکی کی سیاسی آزادی و خودمختاری کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کوبرداشت کیا گیا،اسی اسپرٹ کا مظاہرہ اب ہونا چاہیے کہ یہ ترکی کا داخلی سیاسی معاملہ ہے۔
2۔قانونی پہلو:
قانون صحیح بھی ہوسکتا ہے،غلط بھی ہوسکتا ہے کیونکہ قوانین انسانی کاوشیں ہیں اور انسانی عقل غلطی کرسکتی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تونبوت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ 1934ء کا فیصلہ بہتوں کے نزدیک درست اور بہتوں کے نزدیک غلط تھا۔تاہم یہ ایک غیر متنازعہ اصول ہے کہ’’عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے گا‘‘لہذا ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت کے اس فیصلے کا بھی غیر مشروط احترام ہونا چاہیے۔
3۔اخلاقی پہلو:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اخلاق‘‘ہی فاتح عالم ہے۔بعثتِ محمدی کے وقت عرب کے عربوں کے پاس آخر کیا تھا؟کیاان کے پاس اس دور کی ٹیکنالوجی تھی؟کیا ان کے پاس ایران جیسے مستحکم سیاسی ادارے تھے؟کیاان کے پاس بازنطینیوں جیسے فوجی،جنگی آلات حرب وضرب تھے؟لے دے کے ان کے پاس وہ اخلاقی اصول ہی تھے جس کے بل بوتے پر فقط ساٹھ،پینسٹھ سال کے عرصے میں وہ متمدن عصر ی اقوام پر غالب آگئے۔ساسانیوں(ایران)جیسی طاقت کو انہوں نے فتح کرلیا،عراق فتح کیا،پوراشام فتح کیا جو بازنطینیوں کا علاقہ تھا،مصر فتح کیا یہ بھی بازنطینیوں کا علاقہ تھا اوریہ سب کچھ اُس اخلاقی برتری کا نتیجہ تھا جو اُس وقت کے مسلمانوں کو دیگر عصری اقوام پر حاصل تھی۔
ایاصوفیا کے بارے میں حالیہ فیصلے کو ایک گروہ اخلاقی بنیادوں پر رد کررہا ہے۔اُن کی دلیل یہ ہے کہ اس فیصلے سے عیسائی دنیا کو تکلیف پہنچے گی۔یہ کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ اخلاقی اصولوں کیخلاف ہے…انسانیت کواس سے غلط پیغام جائے گا۔ اس کا سیدھا ساجواب تو یہ ہے کہ یہ کسی کنیسہ کو مسجد بنانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ میوزیم کو مسجد بنایاجارہاہے۔نصرانی دنیا کا اس سے کیا لینا دینا؟لہٰذا اخلاقی پہلو تو سب سے بودا پہلو ہے جس پر مذکورہ گروہ اپنے دلائل و براہین کی عمارت کھڑی کررہاہے۔