مولانا محمدابوبکرحنفی شیخوپوری
حضورسرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہر پہلو،ہرزاویے اورہر گوشے سے انسانیت کی کامل راہنمائی کرتی ہے۔ نبوت کے وجوداقدس سے صادرہونے والا ہرعمل اورلسان گوہرفشاں سے نکلنے والا ہر قول ہزار ہاحکمتوں،بیش بہالطائف اور بے شمار مصالح کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تمام اقوام عالم کوانتہائی معتدل اور متوازن اعتقادی، عملی، اخلاقی ،سیاسی اور سماجی اصول وقوانین کا ایک خوبصورت گلدستہ پیش کرتاہے جن پر عمل کرنابلاشبہ انسانیت کو اعلی اقدار سے آشناکرتاہے اور عروج و کمال کاتمغہ عطا کرتاہے۔ چونکہ تمام کائنات انسانی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس سب سے اکمل ومکمل اور جامعیت میں عدیم النظیراوربے مثال ہے اس لئے خلاق عالم نے ساری انسانیت کی سرداری کاتاج آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سرپرسجایا۔چنانچہ صحیح مسلم اورجامع ترمذی میں حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے اناسید ولدآدم یوم القیامۃ ولافخر’’میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کاسردار ہوں گا اور میں اس پر فخر(تکبر) نہیں کرتا‘‘۔لہذاایسی رہبرکامل ہستی سے بہترقیادت وسیادت کے زریں اصول کوئی اورفراہم نہیں کرسکتا۔
اقوام عالم کی تاریخ مختلف مقاصد کے لئے ابھرنے والی انقلابی تحاریک سے بھری پڑی ہے،کوئی دورسیاسی ،سماجی،مذہبی اوراصلاحی عنوانات سے چلنے والی تحریکوں اور تنظیموں سے خالی نہیں رہااورتاہنوزیہ سلسلہ جاری ہے۔ان تحاریک کے عروج وزوال کے ظاہری اسبا ب وعوامل جوبھی ہوں لیکن درحقیت ان کے عروج کے پس پردہ قائدانہ نبوی اصول وضوابط پرعمل کی قوت کارفرماہے اوران کے زوال کے پیچھے ان زریں اصولوں سے انحراف کا عنصرموجود ہے جس کا اعتراف غیرمسلم عمائدین نے بھی کیا ہے ۔اسی لئے مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے اختلاف اورشدیدنفرت کے باوجودغیرمسلم لیڈرزبڑی تعمق نظری سے پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ، ان سے راہنمائی حاصل کرتے اور اپنی عوام کو ان کی اہمیت وافادیت سمجھاتے رہے ہیں ۔چنانچہ فرانس کے جرنیل نپولین بوناپارٹ نے لکھا ’’محمدصلی اﷲ علیہ وسلم دراصل سالاراعظم تھے،آپ نے اہل عرب کو درس اتحاد دیا،ان کے آپس کے تنازعات اور مناقشات ختم کیے،تھوڑی سی مدت میں آپ کی امت نے نصف دنیا کوفتح کرلیا،پندرہ سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی،مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں،بت خانوں میں رکھی ہوئی مورتیوں کوتوڑدیا گیا،حیرت انگیز کارنامہ تھا رسول معظم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کا کہ یہ سب کچھ پندرہ سال کے عرصے میں ہی ہوگیاجبکہ حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام پندرہ سوسال میں بھی یہ کام نہ کر سکے‘‘۔آخرامارت اورتعمیر انسانیت کے وہ کون سے اصول تھے جنہوں نے مخالفین سے بھی اپنی حقانیت کا لوہا منوایا؟آئیے!سیرت سید البشرصلی اﷲ علیہ وسلم کے بحر بے کنار میں غوطہ زن ہوکرقیادت کوچمکانے اور امارت کوچارچاند لگانے والے کچھ نایاب گوہراور ناپیدلعل نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
عاجزی اختیارکرنا:
کامیاب قائد کی صفات میں سے ایک اہم صفت عاجزی وانکساری ہے۔جو زعماء اپنی سرداری کے زعم میں اونچی ہواؤں میں اڑان بھرتے ہیں اوراپنی قوم کو کمتر اور نوکر سمجھتے ہیں ان کی قیادت ماتحتوں میں اعتماد کے فقدان کی وجہ سے دیرپا نہیں ہوتی بلکہ قائد کے نازیبا رویے کی وجہ سے ایک ایک شاخ گرنا شروع ہوجاتی ہے اور بالآخر تنا ہی کھڑا رہ جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس سید الانس والجان ہونے کے باوجود سراپا عجزو انکسار تھی۔ورفعنالک ذکرک کے خدائی اعزاز کے باوجودصحابہ کرامؓ کے درمیان امتیازی حیثیت سے نہیں بیٹھتے تھے اور اسی وجہ سے نووارد شخص آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہچان نہیں سکتا تھا،صحابہ کرامؓ ؓکے ساتھ اختلاط کے وقت آپ کے وجود اقدس پرقائدانہ تشخص کی بجائے عامیانہ بلکہ دوستانہ رنگ نظرآتا تھا۔ سفر میں میرکارواں ہوتے ہوئے بھی تمام امور میں ان کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔غزوہ خندق کے موقع پرسرد موسم اور بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجودصحابہ کرامؓ کے ساتھ بنفس نفیس خندق کی کھدائی میں شامل ہوئے۔ایک سفر میں پڑاؤکے دوران ایک بکری کوذبح کرناطے پایا،ایک نے بکری ذبح کرنے،دوسرے نے کھال اتارنے اورتیسرے نے اس کو پکانے کی ذمہ داری لے لی۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’میں ایندھن کے لئے لکڑیاں جمع کروں گا‘‘۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ کام بھی ہم خود کرلیں گے ،آپ اس کی زحمت نہ فرمائیں،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا’’مجھے معلوم ہے کہ میری طرف سے تم یہ خدمت سرانجام دے دوگے لیکن میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تمہارے مقابلے میں امتیاز اور بڑائی اختیار کروں،اﷲ اپنے بندوں میں سے ایسے بندے کوپسند نہیں فرماتے جو اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہیں ‘‘۔
مامورین سے مشورہ کرنا:
امیر کا اپنے مامور ین سے مشورہ کرنا کارکنان میں خود اعتمادی اورامارت کی مضبوطی میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا وشاورھم فی الامر’’اور آپ ان (صحابہ)ؓ سے مشورہ کیا کریں، چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرامؓ سے مختلف امور میں مشاورت فرماتے تھے اور ان کی رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔غزوات کے موقع پر لشکر کی صف بندی،مخصوص اور حساس مقامات پر افرادکی تعیناتی،آلات حرب کی دستیابی،سرایا میں امیر کے انتخاب اوردیگر امور حربیہ میں صحابہ کرام ؓ سے رائے طلب کرنے کے بعد کوئی فیصلہ فرماتے تھے۔غزوہ احد میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رائے مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے کی تھی لیکن جنگ بدر سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کرام ؓ کی خواہش مدینہ سے باہرجاکر لڑنے کی تھی ،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی رائے پر عمل فرمایا۔ گھریلو معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے تھے،چنانچہ واقعہ افک جو خالصۃ آپ کا ذاتی اورخاندانی مسئلہ تھا اس میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشاورت فرمائی۔
مامورین کے احوال کی خبرگیری کرنا:
امیر اور مامور کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے کی ایک اہم کڑی مامورین کے احوال کی خبر رکھنا اوران کے ساتھ انسیت کا گہرارشتہ قائم کرنا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مریض صحابہ کرام ؓ کے گھر جاکر ان کی عیادت فرماتے،فوت شدگان کا جنازہ پڑھاتے، ان کے لواحقین سے تعزیت فرماتے ،کسی کوپریشان حال دیکھتے تو تسلی دیتے ،کوئی دعا کی درخواست کرتا تو فورا دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیتے، کسی سے مزاج کے خلاف کام ہو جاتا تو درگزر فرماتے، اپنی ذات کے لئے کبھی انتقام نہ لیتے ،دعوت قبول فرماتے اورکوئی سوال کرتا تواس کو عطاء فرماتے۔یہی وجہ تھی کہ محبتیں بانٹنے والے اس مشفق اور مہربان نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر ان کے دیوانے پروانے سو جان سے فدا ہوتے اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دید کے بغیر زندہ رہنے کا تحمل نہیں کرسکتے تھے۔موسم گرم ہوتا یا سرد،فصلیں اور باغات تیار ہوتے یاتیاری کے مراحل میں،ہر چیز سے بے نیاز ہوکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اشارہ ابرو پرآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جنگلوں اور بیابانوں کے خطرناک اسفار کے لئے پابہ رکاب ہوجاتے تھے۔
مامورین سے خوش طبعی کرنا:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالی نے فطری رعب عطافرمایا تھا جس کے متعلق صحیح مسلم میں حضرت جابربن عبداﷲ ؓ کی روایت سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے نصرت بالرعب مسیرۃ شھر’’ایک مہینے کی مسافت تک رعب عطا کرکے (اﷲ کی طرف سے) میری مددکی گئی ہے‘‘۔رعب کی وجہ سے صحابہ کرام ؓحضورصلی اﷲ علیہ وسلم سے بے تکلف ہو کرگفتگوتو کیا،نظربھرکر دیکھ بھی نہیں سکتے تھے،اس لئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کے حجاب کودورکرنے اوربے تکلفانہ ماحول پیدا کرنے کے لئے جھوٹ کی آمیزش کے بغیر ظرافت اور خوش طبعی کی باتیں کیا کرتے تھے۔شمائل ترمذی میں دیہات کے رہنے والے ایک صحابی حضرت زاہر ؓکاواقعہ مذکور ہے جو اپنی سبزی بیچنے کے لئے مدینہ آیا کرتے اورواپسی پر حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرہدیۃ سبزی پیش کیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حسب معمول حاضر خدمت ہوئے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم موجود نہیں تھے،حضرت زاہرؓ انتظار میں بیٹھ گئے،کچھ دیر کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت زاہر ؓ کوآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کا علم نہ ہوا۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیچھے سے آکر ان کی دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے،حضرت زاہر ؓ نے زبردستی ہاتھ چھڑائے اور پیچھے مڑ کردیکھاتو نبوت کے مبارک ہونٹوں پرتبسم جاری تھا،پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ان زاہرا بادیتنا ونحن ظاھروہ’’زاہر ہمارا دیہاتی (دوست ) ہے اور ہم اس کے شہری (دوست) ہیں ‘‘۔