امام اہلِ سنت حضرت مولانا سیدابو معاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ قسط: ۱
وین اسلام کی عزت و آبرو سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ اپنے ایمان کا قصہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعاقب میں نکلا تو آپ حرم میں پہنچ چکے تھے۔ میں کچھ پیچھے ہٹ کے رک گیا آپ نے نماز کی نیت باندھی او رسورہ الحاقہ کی تلاوت شروع کی میں قرآن کریم سن کر بہت متعجب ہوا اس کے الفاظ، تراکیب ،ترتیب اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاوت کی روانی اور حلاوت میں کھو گیا۔ اور دل میں کہنے لگا کہ واقعی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بہت بڑے نابغہ و شاعر ہیں اس خیال کا آنا تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان پر یہ آیت کریم جاری ہوئی:اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیم وَمَا ھُوَ بِقَولِ شِاعرٍ
ترجمہ: تحقیق وہ نبی ہی کی بات ہے کسی شاعر کا شعر نہیں
میں نے سوچا یہ تو دل میں آنے والے خطرات وخیالات بھی جان لیتے ہیں یقینا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہن ہیں۔ میں اسی اُدھیڑ بن میں تھا کہ آپ نے پڑھا :
قَلِیْلاً مَّاتؤمِنُون وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلاً مَّاتَذَکَّرُونَ تَنْزِیْلٌ مِّن رَّب الْعٰلَمِیْنَ
ترجمہ: تم بہت کم مانتے ہو اور نہ وہ کسی کا ہن کی بات ہے تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو یہ جہانوں کے پالنہار کی اتاری ہوئی ہے‘‘
میرے اس وسوسہ کی بھی تغلیط ہوگئی میں تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا اور اندر سے ہل گیا مجھے دین آباء جھوٹا دکھائی دینے لگا اور محمدؐ و کلام محمدؐ کے حق ہونے کے آثار پیدا ہونے لگے۔ آپ حرم سے باہر نکلے تو میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا آپ نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو پوچھا کون؟ میں نے کہا عمر۔ فرمایا عمر میرا پیچھا نہیں چھوڑو گے۔ آپ کے اس کلام میں کیا تاثیر تھی کہ میں لرز لرز گیا اور بے اختیار میری زبان پراشھد ان لا إلٰہَ الا اﷲُ واشھد أنَّ محمداً عبدہٗ ورسولہٗ جاری ہوگیا۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے الگ ہوئے تو پھر کیفیتیں بدلنے لگیں اور نفس کے قدم ڈگمگانے لگے۔ تلوار لٹکائے ہوئے بوجھل قدموں سے گھر واپس جا رہے تھے کہ قبیلہ بنی زہرہ کا ایک شخص ملا۔ پوچھا: عمر کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا: جس نے ہمیں دین آباء سے منحرف کیا ہے آج اس کا کام تمام کرنے کا ارادہ ہے۔ اس نے کہا تم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ددھیال بنی ہاشم اور ننھیال بنی زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے تو بھی منحرف ہوچکا ہے۔ مسافر نے کہا: میں اس سے زیادہ حیران کن بات تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہاری بہن اور بھائی بھی باپ دادا کا راستہ چھوڑ چکے ہیں۔
عمر سنتے ہی بہنوئی کے گھر کی طرف چل دئیے عمر کے قدموں کی آہٹ پاکر حضرت خَبَّاب جو عمر کی بہن اور بہنوئی کو قرآن کریم کی سورہ طہٰ پڑھا رہے تھے چھپ گئے۔ عمر نے پوچھا تم کیا پڑھ رہے ہو؟ میں پوچھتاہوں تم کیا بڑ بڑا رہے ہو؟، خاموش کیوں ہو بولو، تمہاری ماں تمہیں روئے بولتے کیوں نہیں ہو؟ معلوم ہوتا ہے تم دین آباء سے بیزار ہوچکے ہو۔
بہن اور بہنوئی نے بیک زبان کہا کہ ہاں ہم نے شرک سے توبہ کرلی ہے اور دعوت محمدی پر لبیک کہتے ہوئے ہم ایک الٰہ پر ایمان لے آئے ہیں بس پھر کیا تھا ایک طوفان تھا جو جوان بیچاروں پر ٹوٹ پڑا۔ مکے گھونسے لاتیں، ٹھڈے، پٹخنیاں…… اف خدایا قہر سامانی کی انتہا ہوگئی۔ شرک نے آخر شکست سے دو چار ہونا ہے۔ تھک ہار کر عمر نے کہا لاؤ میرے سامنے جو تم پڑھ رہے تھے میں بھی پڑھوں، دیکھوں وہ کیا ہے۔ بہن بولیں:
عمر! اب جو ہونا تھا ہوچکا مگر یاد رکھ تو ناپاک ہے اور وہ مقدس کلام الٰہی، تم اسے چھو بھی نہیں سکتے۔ اول تو غسل کرو نہیں تو وضو کرو پھر اس کتاب کو ہاتھ لگاؤ۔ عمر نے وضوکیا زخموں سے چُور موحدہ بہن نے کلام پاک کے اور اق عمر کو دیئے یہ سورۂ طہٰ کی ابتدائی آیات تھیں جب عمر نے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتے پڑھتے آیت :
اِنّنِیْ اَنا اﷲُ لا اِلٰہ اِلَّا اَناَ فَاعْبُدْنِی وَاَقِمِ الصَّلوٰۃ لِذِکْرِی ․(بیشک میں ہی اﷲ ہوں میرے سوا کوئی اﷲ نہیں پس تو میری عبادت کر اورنماز قائم کر )پر پہنچے تو کانپ اٹھے اور ہیبت الٰہی نے زیر کرلیا۔ اور اق ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ دوبارہ اٹھائے اور پھر الٹ پلٹ کر دیکھے تو سورہ تغابن سامنے آئی۔ اس کو پڑھنا شروع کیا تو جب فَاٰمِنُوا باللّہِ وَرَسُولِہِ وَالنُّورِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا پر پہنچے تو بے اختیار زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوگیا۔ اہل خانہ نے خوشی سے اﷲ اکبر کہا۔ عمر بہت بے اختیار ہوگئے اور کہا کہ میں محمد ابن عبداﷲ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ یہ سنتے ہی خباب نے کہا کہ عمر تمہیں مبارک ہو کہ جمعرات کے دن تمہارے لیے ہمارے رسول نے دعا فرمائی تھی: اللّٰھم اَعِزِّ الإسْلامَ بِعُمَر بن الخطَّاب (اے اﷲ! اسلام کو عزت دے عمر بن خطاب سے) میرا یقین ہے کہ تمہاری یہ کیفیت محمد رسول اﷲ کی اسی دعاء کا اثر ہے۔ آؤ میرے ہمراہ میں تمہیں ہادیٔ بر حق کے پاس لے چلتا ہوں۔
حضرت خباب جب عمر کو بارگارہ نبوی میں لیے حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی رہائش گاہ کے دروازہ پر سیدنا حمزہ، سیدنا طلحہ اور دیگر صحابہ رضی اﷲ عنہم کھڑے تھے۔ عمر کو دیکھتے ہی فرمایا اگر سیدھی نیت سے آیا ہے تو ہمارا بھائی ہے اور اگر بدنیت ہے تو اس کو ٹھکانے لگانا بہت آسان ہے۔ سید الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوچکی تھی اور تمام احوال منکشف ہوچکے تھے آپ بنفس نفیس گھر سے باہر تشریف لے آئے۔
اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
اورفرمایا : مَنْتَہِ یا عمر؟۔ عمر باز نہیں آؤ گے ؟
یہ فرمایا اور عمر کے قمیص کے دامن کو جھٹکا دیا۔ عمر کہتے ہیں میں گھٹنوں کے بل گر پڑا اورمیرا جسم چُور چُور ہوگیا اور میں نے کلمہ شہادت پڑھ کے توحید ورسالت کی گواہی مکمل کردی۔
حضرت امیر شریعت مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری نور اﷲ مرقدہ فرمایا کرتے تھے: کچھ سمجھا کہ عمر کا جسم چُورچُور کیوں ہو رہا تھا؟ یہ نبی کے ہاتھ اور نگاہِ رسول کی تو جہات تھیں جنہوں نے عمر کے باطن میں گھات لگائے بیٹھے شرک کے بُت کو مسمار کردیا تھا۔ جس نے عمر کے نفس کو بار بار بہلایا پھسلایا تھاآج وہ چُور چُور ہوکر بھاگ رہا تھا۔
آپ ۵۷ ویں مسلمان تھے۔ آپ اسلام لائے تو مکہ میں اسلام کااعلان عام ہوا۔
آپ عشرہ مبشرہ میں داخل تھے ۔
آپ دوسرے خلیفہ عادل وراشد تھے۔
آپ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خسر تھے۔
آپ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے داماد تھے۔
آپ ۵۳۹ احادیث مبارکہ کے مقدس راوی تھے۔
آپ سے روایت کرنے والے صحابہ:
حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمن ابن عوف، حضرت عبداﷲ ابن مسعود ، حضرت ابوذر، حضرت عمروبن عبسہ، حضرت عبداﷲ ابن عمر،عبداﷲ ابن عباس عبداﷲ بن زبیر انس بن مالک حضرت ابوہریر ہ، حضرت عمروبن عاص، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت براء بن عاذب، حضرت ابوسعید خدری اور دیگر صحابہ رضی اﷲ عنہم ورضوان نے آپ سے احادیث مبارکہ روایت کی ہیں۔
آپ پر دہ کے معاملہ میں انتہائی مضبوط آدمی تھے آپ کی محنت سے عورتیں مسجد وں میں آنے سے روک دی گئیں، آپ دوسرے نام زد خلیفہ اور پہلے امیر المؤمنین ہوئے ۔
آپ نے ہی تراویح کی نماز باجماعت قائم کی۔ سیدنا علی رضی اﷲ نے تراویح کی جماعت سے مسجدیں آباد وروشن دیکھیں تو فرمایا اﷲ عمر کی قبر منور کرے انھوں نے ہماری مساجد کو آباد اور روشن کردیا۔
آپ نے سنِ ہجری کا اجراء کیا ۔
آپ نے بیت المال قائم کیا ۔
آپ نے ہجو کرنے والے شعراکو سزادی ۔
آپ نے شرابیوں کو ۸۰درے مارے ۔
آپ نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں پرامت کو جمع کیا ۔
آپ نے ملک بھر میں دفتری نظام قائم کیا ۔
آپ نے بحری راستوں سے غلَّہ کی نقل وحمل کا بندوبست کیا۔
آپ نے میدانوں کی پیمائش کروائی ۔
آپ نے ہی دُرَّہ تمہاری ہاتھ میں رکھا اور مثل مشہور ہوگئی۔ ’’عمر کا دُرَّہ تمہاری تلواروں سے بہتر ہے‘‘
آپ نے ہی شہروں میں قاضی مقرر کیے۔
ایک گودام بنایا جس میں آٹا، ستو، کھجور،منقہ انجیر کا سٹاک کیاتاکہ مسافر آسانی سے تمام زادِ راہ وہاں سے لے سکیں۔
مکہ ومدینہ کے درمیان تمام سہولتیں مہیا کرنے کے لیے چوکیاں بنائیں۔
آپ نے محکمہ ڈاک ایجاد کیا ۔
آپ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا ۔
آپ نے فوجیوں کا اور ان کے بچوں کا وظیفہ مقرر کیا۔ آپ نے فوج کی باقاعدہ تنظیم کی ان کے رجسٹر بنائے ۔
آپ نے مثالی معاشی عدل قائم کیا اور ملک بھر کے ناداروں کے وظائف مقرر کیے۔
آپ نے نظام زراعت میں پہلی تبدیلی کی، عراق کی زمین بیت المال کی ملکیت قرار دیں۔
آپ نے برسرا قتدار آنے کے بعد گیہوں کی روٹی ترک کردی۔
آپ نے ہی رات بھر مدینہ کی گلیوں میں گھوم پھر کر دار الخلافہ کی حفاظت اور اہل مدینہ کے حالات جانچنے کی طرح ڈالی
تجھ سے پہلے عام کہاں تھی خدمت کی یہ ریت
تونے پالی پریت نبی سے تیری انوکھی پریت
آپ نے پہلی مرفہ الحال اسلامی ریاست قائم کی۔ جس میں حریت ، مساوات او رسوشل سکیورٹی کی مکمل ضمانت تھی اور جس کی نظیر پوری دنیا میں کوئی نہ لاسکا ۔
آپ نے اکیس مسائل میں جو رائے بارگاہ رسالت میں پیش کی اﷲ سبحانہ وتعالی نے ان مسائل کے بارے میں آیات نازل فرمائیں تو حضرت عمر کی رائے بالکل ان کے مطابق تھی۔
آپ نے گورنروں کو ہدایا جاری کیں، ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو، عمدہ کھانا مت کھاؤ ،باریک کپڑا نہ پہنو، ضرورت مندوں کو براہ راست ملو، دروازے پر حاجب مت بٹھاؤ۔
آپ نے ہی ایک عام آدمی کو یہ حوصلہ بخشا کہ وہ حاکموں کی غلطیوں کی شکایت امیر المومنین تک کرے اور گور نر سے عام آدمی کو بدلہ لینے کی جرأت بخشی۔
آپ نے تمام یہودیوں کو حجاز سے نکال کر شام کی طرف بھیج دیا اور نجران کے یہودیوں کو کوفہ میں منتقل کردیا اور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم أخرجو الیھود من جزا ئرالعرب(یہودیوں کو عرب کے جزائر سے نکال باہر کرو )نافذ کردیا۔ آپ نے ہی نبی کا فیصلہ نہ ماننے والے کی سزاقتل نافذ کی۔
تیسرا چاند :
ام المؤمنین سیدۂ طاہرات وطیبات عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حسب معمول اپنے حجرہ میں سوئی ہوئی تھی کہ میں نے خواب میں اپنے حُجرہ میں تین چاند اترتے دیکھے۔ صبح ہوئی تو مسرور بھی تھی اور متشوش بھی۔ میرے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ چونکہ خوابوں کی تعبیر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور رات کا سارا خواب سنایا۔ ابا جان نے فرمایا: بیٹی عائشہ تمہارے حجرے میں اس عہد کے تین عظیم انسان دفن ہوں گے۔
اﷲ کی شان دیکھئے کہ ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ھ کو سید الرسل مولائے کل صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور آپ حجرۂ عائشہ میں آرام فرمائے مہدِ خاک ہوئے۔ ۲۲جمادی الآخر ۱۳ھ میں سیدنا عبداﷲ ابوبکر صدیق خلیفۂ بلافصل بھی عقبیٰ کے سفر پر چلے گئے تو آپ کے منزل قبر گرامی بھی اسی حجرۂ عائشہ میں بنی۔ اور جب فاروق اعظم عمر بن خطاب ۲۶ذی الحجہ کو زخمی ہوئے تو ۲۳ھ تھا۔ اور ۲۴ھ کی چاندرات یکم محرم کو آپ کی روح پر فتوح جسم سے ظاہری تعلق ختم کرکے روح عصر میں جاملی تو یہ تیسرا چاند بھی سیدۂ کائنات کے حجرۂ مقدس کے دروازے پر اپنا جسم رکھواتا ہے اور عبداﷲ ابن عمر سیدۂ کائنات کی خدمت ا قدس میں عرض کرتے ہیں: اے ہماری مقدس ماں آپ کا بیٹا عمر حجرہ کی مٹی میں سونے کے لیے حاضر ہوا ہے اور اجازت مانگتا ہے۔ چنانچہ اسلام کا یہ تیسرا چاند بھی حجرۂ عائشہ کی بدلیوں میں چھُپ گیا۔ یہ تیسرا چاند بنو عدی کا وہ ماہتاب ہے جسے عمروبن ہشام (ابوجہل) کی بہن حَنتَم نے جنا تھا جن کے والد خطاب بن نفیل قریش میں ممتاز سردار مانے جاتے تھے۔ اور قریش کی سفارت کے فرائض اکثر وبیشتر خطاب ہی اداء کیا کرتے تھے۔
(جاری ہے)