جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاریؒ
آخری قسط
خصائل: ابن سعد نے احنف بن قیس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایک روز ہم حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دروازے پربیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک جاریہ (لونڈی) گذری لوگوں نے کہا کہ یہ امیر المومنین کی باندی ہے۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا یہ امیر المومنین کی باندی نہیں ہے اور کیسی باندی جبکہ امیر المومنین کے لیے خدا وند تعالیٰ کے مال میں سے باندی رکھنی حلال بھی نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا تو پھر کیا حلال ہے؟ آپ نے فرمایا کہ عمر کے لیے سوائے ان چیزوں کے اﷲ تعالیٰ کے مال سے کچھ حلال نہیں ہے؛ دو کپڑے جاڑوں کے دو گرمیوں کے، حج اور عمرے کا خرچ، اپنا اور اپنے اہل وعیال کا کھانا اور یہ بھی مثل ایک مرد قریش، معمولی درجہ کے موافق کہ نہ امیر ہو نہ فقیر…… اس کے بعد میری بھی وہی حیثیت ہے جو ایک معمولی مسلمان کی۔
خزیمہ بن ثابت کہتے ہیں کہ جب آپ کسی کو حاکم بنا کر کہیں بھیجتے تھے تو یہ شرط کر دیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو اچھا عمدہ کھانا نہ کھائے باریک کپڑا نہ پہنے ضرورت مندوں کے لیے اپنے دروازہ کو بند نہ رکھے اور اگر ایسا کیا تو سزا کا مستو جب ہوگا۔
عکرمہ بن خالد کہتے ہیں کہ حفصہ اور عبداﷲ وغیرہ لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آنجناب اچھا کھانا کھایا کریں تو حق تعالیٰ کے کام پر اور زیادہ قوی ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا سب کی یہی رائے ہے لوگوں نے عرض کیا کہ سب کی یہی رائے ہے آپ نے فرمایا تمہاری خیر خواہی کا مشکور ہوں لیکن میں نے اپنے دوستوں کو اسی شاہراہ پر چھوڑا ہے۔ اگر خدا انخواستہ میں ان کی شاہراہ کو چھوڑ دوں تو ان دونوں کا مرتبہ میں نہیں پاسکتا کہتے ہیں کہ ایک سال ذرا خشک سالی ہوئی تو آپ نے اُس سال گھی اور روغن دار کھانا چھوڑ دیا۔
ابی ابن ملکیہ کہتے ہیں کہ عقبہ بن فرقد نے آپ سے اچھی غذا کھانے کے لیے عرض کیا تو آپ نے فرمایا افسوس ہے کہ میں چند اپنی نیکیوں کا بدلہ کھالوں۔
حسن کہتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے عاصم کے پاس آئے اور انہیں گوشت کھاتے دیکھ کر فرمایا یہ کیا کھا رہے ہو انہوں نے عرض کیا کہ میرا دل گوشت کو بہت چاہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا جس چیز کو تمہارا دل چاہے گا وہی کھانے لگو گے؟ جو شخص ہمیشہ اپنی طبیعت کے موافق کھائے وہ آخرت میں چور سمجھا جائیگا ۔
اسلم کہتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا دل تازہ مچھلی کو چاہتا ہے آپ کا غلام یرفانامی اونٹ پر سوار ہوکر چار میل مچھلی لینے گیا اور ایک جھولا بھر کر مچھلی خریدی راستے میں لوٹتی دفعہ اپنے اونٹ کو نہلاتا لایا۔ آپ نے فرمایا کہ مچھلی ابھی رکھو میں اپنے اونٹ کو دیکھ لوں۔ چنانچہ آپ اونٹ کے پاس تشریف لے گئے اور آپ نے اونٹ کے کان کے نیچے جو پسینہ لگا ہوا تھا اسے دیکھ کرفرمایا تو اسے دھونا بھول گیا اور میری خواہش کی وجہ سے تو نے اس جانور کو بے قائدہ تکلیف دی۔ واﷲ میں اس مچھلی کو چکھ بھی نہیں سکتا۔
حضرت قتا وہ کہتے ہیں کہ اکثر حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ حالانکہ آپ خلیفہ تھے اُن کاپھٹا ہوا کپڑا جس میں چمڑے کا پیوند لگا ہوتا تھا۔ پہن لیتے تھے اور اسی طرح درہ لیے ہوئے بازار چلے جاتے تھے اور اہل بازار کو ادب اور تنبیہ کرتے تھے۔ اگر آپ کے سامنے ترکش کی پرانی رسی یا چھوارے کی گٹھلی آجاتی تھی تو اس کو اٹھا لیتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں پھینک دیا کرتے تھے تاکہ لوگ پھر اس سے نفع اٹھائیں۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے کرتے میں پیچھے مونڈھے کے پاس چار پیوند لگے ہوئے دیکھے۔
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے پانجامہ میں چمڑے کا پیوند لگادیکھا۔
عبداﷲ بن عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ حج کیا اثنائے سفر میں آپ منزل پرپہنچ کر کوئی خیمہ یا تنبو نہ کھڑا کرتے تھے بلکہ یوں ہی کسی درخت پرکوئی کملی یا کپڑے وغیرہ کا سائبان ڈال لیا کرتے تھے اور اس کے سایہ میں بیٹھ جاتے تھے۔ عبداﷲ بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر روتے روتے دو سیاہ لکیریں پڑگئی تھیں اور بعض دفعہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اپنی وظیفے کی آیت پڑھتے پڑھتے ایسے گرتے تھے کہ کئی دن تک لوگ بیمار پر سی کرنے آتے تھے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک باغ میں گیا ابھی میں دیوار کے اس طرف تھا اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہ دوسری طرف کہ میں نے سُنا کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرما رہے ہیں کہ اے عمر کہاں تو اور کہاں امیر المومنین کا رُتبہ۔ ذرا خدا سے ڈر ورنہ اﷲ تعالیٰ تجھ کو سخت عذاب دیں گے۔
عبداﷲ بن عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کاش میں بھی تنکا ہوتا اور مجھے میری ماں نہ جنتی اور میں کچھ نہ ہوتا۔
عبداﷲ بن عمر بن حفص کہتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مشک کاندھے پر اٹھا کر لے چلے لوگوں نے کہا کہ یہ کیا؟ آپ نے فرمایا میری طبیعت میں تکبروغرور پیدا ہوگیا تھا اس کو میں نے ذلیل کیا ہے۔
محمد بن سیر ین کہتے ہیں کہ آپ کے خُسر آپ کے پاس آئے اور انہوں نے چاہا کہ مجھے کچھ بیت المال میں سے دے دیں۔ آپ نے جھڑک دیا اور کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا وند تعالیٰ کے نزدیک میں خیانت کنندہ بادشاہوں میں شمار ہوں۔ پھر آپ نے ان کو اپنے مال سے دس ہزار درہم عطا کئے۔
خفی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ زمانہ خلافت میں تجارت بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں عام الرمادہ (قحط کا سال) میں آپ نے گھی کھانا چھوڑ دیا۔ روغن زیتون کھانے سے ایک روز آپ کے شکم مبارک میں قراقر ہوا تو آپ نے انگلی مار کر فرمایا ہمارے پاس اس کے سوا اس وقت تک کچھ نہیں ہے جب تک قحط سالی موجود ہے۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بن خطاب فرمایا کرتے تھے مجھے سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو میرے عیب مجھ پر ظاہر کرتا ہے۔ اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب کو دیکھا کہ اپنے ہاتھوں سے گھوڑے کے کان پکڑ کر اس کی پشت پر کود کر بیٹھ جاتے تھے۔
ابن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کو غصہ آیا ہو اور کسی نے اﷲ کا ذکر کیا یاخوف خدادلایا ہو یا قرآن شریف کی کوئی آیت تلاوت کی ہو اور آپ کا غصہ نہ اتر گیا ہو۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے حضرت اسلم سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے متعلق دریافت کیا کہ تم نے حضرت عمر کو کیسا پایا انہوں نے کہا کہ وہ سب سے اچھے آدمی ہیں مگر جب وہ غصہ کرتے ہیں تو پھر سنبھالنا مشکل ہے ۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت وہ غصہ میں ہوتے ہیں تو تم کوئی آیت کیوں نہیں پڑھ دیا کرتے کہ ان کا سب غصہ اُتر جائے۔
احوص بن حکیم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے گوشت پیش کیا گیا جس میں گھی پڑا ہوا تھا آپ نے اس کے کھانے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ہر ایک ان دونوں میں سے علیحدہ علیحدہ سالن ہے پھر دونوں کے ملادینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تمام واقعات ابن سعد نے لکھے ہیں۔
ابن سعد نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے لوگوں کی اصلاح کا طریقہ آسان معلوم ہو تا ہے کہ میں ایک امیر کودوسرے امیر کی جگہ تبدیل کردوں۔
فتوحات: ۱۴ھ میں دمشق، حمص، بعلبک، بصریٰ ایلہ۔ ۱۵ھ ؍میں اُردن، طبریہ، یرموک، قادسیہ۔ ۱۶ھ؍ اہواز، مدائن، جلولا،تکریت، بیت المقدس، جابیہ، قنسرین، قلب، انطاکیہ، منبج، سروج، قرقیاء۔ ۱۷ھ؍ اہواز کے بعض علاقے۔ ۱۸ھ؍ نیشاپور، حلوان، رے، سماط، حران، نصیبین، جزائر، مُوصل اور اس کے اطراف۔ ۱۹ھ؍ قیساریہ، ۲۰ھ؍ میں مصر، اسکندریہ، تستر۔۲۱ھ؍ دوبارہ اسکندر یہ، نہاوند اور ساراعجم زیر نگین ہوا۔ پھر مشرکین عجم کی سرکشی تہ خاک دبا دی گئی۔ ۲۲ھ میں آذر بائیجان، دنیور، ماسیداں، حمدان، طرابلس، الغرب، ری، عشکر، قوس۔ ۲۳ھ؍ عمان، سبحستان، مکران کے پہاڑی علاقے، اصبہان اور اس کے اطراف فتح ہو گئے۔
دعا: اسی سال حج کیا اور منیٰ سے واپسی پروادی ابطح میں اونٹ بٹھایا۔ اونٹ سے اترے اور زمین پر چت لیٹ گئے اور فرمایا اے اﷲ میں بڈھا ہوگیا ہوں، قوتیں ضعیف ہوگئی ہیں، رغبتیں بکھر رہی ہیں، افکار منتشر ہو رہے ہیں، اس سے قبل کہ میں ناکارہ ہوجاؤں، عقل میں فتور آجائے۔ مجھے اپنے پاس بلالو، مجھے اپنے پاس بلالو۔مجھے اپنے پاس بلالو۔ آمین
فتوحات کا کل رقبہ: ۲۳ لاکھ مربع میل، پانچ ہزار قلعے، وشہر چھوٹے بڑے ملا کر ۱۲ ہزار، ان میں سے ۷۰ فیصد صلح سے او ر باقی جہاد وغزوہ سے۔ ان میں سب سے معرکہ آرا فتح ایران کی تھی۔ جس کے مشرک باسی مسلمانوں کی اہانت کرتے اور انہیں ٹھٹھول کرتے تھے پھر ایرانی مشرکوں کو ایسی عبرتناک شکست ہوئی کہ سرنہ اُٹھا سکے۔ اب خمینی کے اقتدار نے ان مشرکوں کو بہت شہ دی ہے۔ اور مشرکینِ ایران اسلام کے ماضی وحال کو کفر گردانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی فتوحات پر ایک شاعر نے کہا ہے :
بشکست عمر پشت ہزبران عجم را
عمر بن خطاب نے ایران کے ببر شیروں کی کمر توڑ کے رکھ دی
برباد فنا داد رگ و ریشہ جم را
جمشید وکیقباد وکیخسرو کا کرو فرخاک میں ملا دیا
این عربدہ از غصب خلافت ز علی نیست
عجمیوں کی عرب سے جنگ خلافت علی رضی اﷲ عنہ چھن جانیکی وجہ سے نہیں
با آل عمر کینہ قدیم است عجم را
آل عمر (اہل سنت) سے عجمیوں کا کینہ پرانا ہے۔
اﷲ تعالیٰ آل عمر اہل سنت والجماعت کو ہمت وغیرت دے کہ وہ ایرانی کفر وشرک کا پھر سے خاتمہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں (آمین)