امام اہل سنت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاریؒ (آخری قسط)
اصلی تصویر
آئیے اب آپ کو وہ اصلی تصویر بھی دکھا دیں جو کتاب وسنت سے ثابت، واقعات تاریخ کے مطابق اور ان مبارک و مقدس حضرات کے شایان شان ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری وقت ہوا تو حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوفرمایا کہ آؤ حضور کے پاس چلیں اور آپ کے بعد خلافت کے متعلق پوچھ لیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا:
وَاللّٰہِ اِنِّیْ لآأَسْئَلُہٗ أَبَداً : بخدا میں حضور سے اس کا سوال کبھی نہیں کروں گا۔
پھر حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد جب حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے بیعت کرنے پر اصرار کیا۔ تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے بیعت لینے سے انکار کردیا (۱)
دار قطنی میں ہے کہ جب سب صحابہ کرام نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی بیعت کرلی تو حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو علیحدگی میں فرمایا کہ ’’یہ کیا ہوگیا کہ قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے بنو تیم کا آدمی (یعنی حضرت صدیق اکبر) تم سے بڑھ گیا۔ اگر تم اب بھی چاہو تو کچھ نہیں بگڑا، میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں‘‘۔ اس کا جو جواب حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے دیا وہ سُننے کے قابل ہے۔ اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ہی شایانِ شان ہے۔ فرمایا:’’ اے ابو سفیان ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی ہی کرتے رہے ہو، مگر تمہاری دشمنی اسلام کا کیا بگاڑ سکی؟ جاؤ! اِنَّا لَنَریٰ أَنَّ أَبَابَکْرٍ أَحَقُّ ۔ ہم جانتے ہیں کہ ابوبکر ہی اس امرِ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔ (۲)
جب یمن سے حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اﷲ عنہ مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ خلیفہ منتخب ہوچکے تھے۔ حضرت خالد بن سعیدرضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے تنہائی میں کہا کہ آپ بنو عبد مناف خلافت کے معاملہ میں ہار کیوں گئے؟ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ تم اسے ہار سمجھتے ہو یا خلافت؟ تو حضرت خالد نے فرمایا کہ بے شک یہ خلافت ہے ورنہ اس معاملہ میں کوئی شخص زبردستی تم پر غالب نہیں ہوسکتا تھا! (۳)
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی مدینہ منورہ میں بیعت ہوئی تو حضرت صدیق اکبر کے والد حضرت ابوقحافہ رضی اﷲ عنہ مکہ مکرمہ میں تھے۔ انہوں نے جب سُنا تو پوچھا کہ کیا بنو ہاشم اور بنو محزوم (خالد بن ولید کے قبیلہ) نے بیعت کرلی ہے؟ بتایا گیا کہ ہاں؟ تو حضرت ابوقحافہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَن یشَاء (۴)
طبری پوری سند سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ بیعت لینے بیٹھے تو حضرت علیرضی اﷲ عنہ گھر میں صرف کرتا پہنے بیٹھے تھے۔ معلوم ہوتے ہی صرف کرتے میں ہی دوڑے دوڑے مسجد میں آگئے کہ بیعت میں زیادہ تاخیرنہ ہو جائے۔ بیعت کرنے کے بعد گھر سے کپڑے منگوا کر پہنے۔
ان سب سے واضح روایت وہ ہے جسے مشہور محتاط نقاد اور محدث مؤرخ حافظ ذہبی اور حافظ ابن عساکر و دارقطنی نے لکھا ہے کہ جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنے زمانۂ خلافت میں کوفہ میں مقیم تھے تو ان سے کسی شخص نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اس خلافت کا کوئی عہد نامہ ہے۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو۔ اگر میرے پاس کوئی عہد نامہ ہو تا تو میں ابوبکر صدیقرضی اﷲ عنہ اور عمر فارو ق رضی اﷲ عنہ کو منبرنبوی کی پہلی سیڑھی پر بھی قدم رکھنے دیتا؟ (۵)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نہ اچانک وفات پاگئے نہ ہی اچانک قتل کیے گئے۔ بہت سے دن اور راتیں آپ بیمار رہے۔ میرے سامنے مؤذن آکر نماز کا پوچھتا تو فرماتے کہ ابوبکررضی اﷲ عنہ کو کہو وہ نماز پڑھائے۔ پھر آکر پوچھتا پھر فرماتے کہ ابوبکررضی اﷲ عنہ کو کہو وہ نماز پڑھائے حالانکہ میں موجود ہوتا تھا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے بھی جانتے تھے۔ بلکہ ازواج مطہرات میں سے ایک نے عرض بھی کیا کہ ابوبکر نمازنہ پڑھائیں تو حضور علیہ السلام ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ابوبکر کو ہی کہو وہ ہی نماز پڑھائیں۔ پھر جب حضور علیہ السلام کا وصال ہوگیا تو ہم نے نظر دوڑائی تو بالآخر جن کو حضور نے ہمارے دین کے لیے پسند کیا تھا، ان کو ہم نے اپنی دنیا کے لیے پسند کرلیا۔ کیونکہ نماز دین کا ستون اور ریڑھ کی ہڈی ہے۔ پس ہم نے ابوبکر کو اس کا اہل سمجھ کر بالا تفاق ان کی بیعت کرلی۔ اور کوئی دو شخص بھی تو ہم میں سے مخالف نہ نکلے۔ پھر میں نے ابوبکر کا مقام پہچانا، ان کے حکم سے جہاد کیا، ان کے عطیے قبول کیے، ان کے حکم سے لوگوں کو حدود شرعیہ کی سزائیں دیں۔ پھر جب حضرت صدیق اکبر کا انتقال ہوگیا اور وہ خلافت حضرت عمر کے سپرد کرگئے تو ہم سب نے بالا تفاق ان کی بیعت کرلی اور کوئی دو شخص بھی تو ہم میں سے مختلف نہ ہوئے۔ پھر میں نے عمر کا بھی مقام پہچانا، ان کے حکم سے جہاد کیا ان کے عطیّے قبول کیے، ان کے حکم سے اپنے دُرّے سے لوگوں کو حدود شرعیہ کی سزائیں دیں۔ پھر جب وہ شہید کردیئے گئے تو انہوں نے اپنا جانشین نامزد کرنے سے احتراز کیا اور اپنے خاندان (۶)کے بھی کسی آدمی کو اس شوریٰ کا ممبرنہ بنایا اور خلیفہ مقرر کرنے کی ذمہ داری چھے اشخاص کے سپرد کردی۔ پھر بات عبدالرحمن بن عوف پر آٹھہری۔ انہوں نے حضرت عثمان کی بیعت کرلی ہم نے بھی کرلی، پھر میں نے ان کی بھی اطاعت کی، ان کے حکم سے جہاد کیا، ان کے عطیّے قبول کیے۔ ان کے حکم سے لوگوں کو حدود شرعیہ کی سزائیں دیں۔ پھر جب وہ شہید کردیئے گئے تو اہل حرمین وبصرہ وکوفہ نے میری بیعت کرلی(۷)
ملاحظہ فرمایا آپ نے ! حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خلافت کا کتنا ’’شوق ‘‘تھا۔ اور وہ کتنے ’’بے بس‘‘اور ’’کمزور‘‘ تھے۔ اگر حصولِ خلافت طاقت پر ہوتا تو صرف بنو ہاشم ہی بنو تیم کے لیے کافی تھے۔ چہ جائیکہ بنو ہاشم کے ساتھ بنو أمیہ اور بنو مخزدم بھی شامل ہو جاتے؟ اور پھر جبکہ حضرت عباس، حضرت ابوسفیان اور حضرت خالد بن سعید بن عاص نے خود پیش قدمی کر کے اپنے عندیے کو ظاہر کر دیا اور حضرت زبیر اور دوسرے بنو طالب ومطلب بھی ہمنوا تھے۔ پھر حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کی وجہ سے اور خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ہمزلف ہونے کی وجہ سے حضرت عثمان بھی الگ نہ ہوسکتے تھے۔ اس طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ گویا قریش کا ’’سوادِ اعظم‘‘ اکٹھا کرسکتے تھے لیکن حضرت علی جانتے تھے جیسے کہ انہوں نے حضرت ابوسفیان کی پیش کش کے جواب میں اعلان فرمایا۔ کہ
’’اِنَّا لَنَریٰ اَنَّ اَبَا بَکْرٍ اَحَقْ‘‘ ترجمہ: ہم یقینا جانتے ہیں کہ اس خلافت کے زیادہ مستحق حضرت ابوبکر ہی ہیں!
حافظ ابن حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:
’’حضرت علی کا قریش کے مضبوط ترین قبیلے بنو اُمیہ کے مضبوط ترین حاکم حضرت امیر معاویہ سے جنگ کرنا اور قریش کے کمزورترین قبیلہ بنو تیم کے حضرت ابوبکر صدیق سے نہ الجھنا بڑی مضبوط دلیل ہے کہ حضرت علی تقیہ کر کے ان حضرات کے ساتھ نہ تھے بلکہ ان کو حق پر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ تھے۔ اور اگر ان کے پاس رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا کوئی عہد نامہ ہوتا تو ان سے ضرور جنگ کرتے۔ پس معلوم ہوگیا کہ تقیہ والی بات نِرا جھوٹ اور خالص افترا ہے (۸)
ہم نے دونوں تصویریں ناظرین کے سامنے رکھ دی ہیں۔ ان میں سے جو تصویر آپ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت مطہرہ آپ کے آلِ بیت اطہار اور حضرات صحابۂ کبار رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی شان عالی کے مطابق نظر آتی ہو اسے قبول کرلیں۔ یہ دوسری تصویر اصلی او رحقیقی تصویر ہے جو ان حضرات کے شایان شان بھی اور مسلمانوں کی عظیم اکثریت یعنی اہل السنۃو الجماعۃ کے متفقہ مسلک اور عقیدہ کے بھی عین مطابق ہے اور بالکل مستند اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔ پھر اسی تصویر سے حضرات خلفاء راشدین اہل بیت عظام اور حضرات صحابہ کرام کی عزت قائم رہ سکتی ہے اور قرآن پاک اور دین اسلام باقی رہ سکتا ہے۔
اوراگر کسی کا دل دوسرے خرافاتی افسانے پر ریجھتا ہو تو صحیح روایات کے سرا سر منانی خالص جھوٹ اور نرا افترا ہے اور پوری اسلام دشمنی ہے۔ اور تاریخ کی مستند کتابوں سے ثابت ہے کہ سب سے پہلے یہ شوشہ اسلام کے حقیقی خونخوا ردشمن اور اصلی یہودی ’’ابن سبا ‘‘ او راس کے پیرووں نے چھوڑا ہے۔ (خدا اس کو جہنم رسید کرے اور اس کی پارٹی اور اس کی محبت و پیروی میں صحابہ و ازواج کو گالیاں بکنے والوں کو تباہ و برباد کرے) تو وہ اسے مانتا رہے ہم کسی کو روک تھوڑا ہی سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ اس صورت میں نہ نبوّت باقی رہتی ہے، نہ صحابیت ، نہ خلافت نہ اسلام، نہ قرآن۔ اس قسم کی ذلیل رساکشیوں کو تو آج کل کے شریف دنیا دار بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ چہ جائیکہ وہ پاک ہستیاں؟ پھر اس کے ساتھ ہی جملہ بنو ہاشم کے جُبن وبزولی کی تشہیر کے ساتھ اسدُ اﷲ الغالب، امیر المؤمنین علی ابی طالب رضی اﷲ عنہ کو ایک نہ دو پورے چوبیس برس روباہی بھی کرانی پڑتی ہے ۔ حالانکہ
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
باخبروں کی بے خبری
ان عقل مندوں کو اتنا پتا بھی نہیں کہ بنو عبدالمطلب کو بزدلی اور وجبن سے کیا نسبت؟ بنو عبدالمطلب کی شجاعت تو منصوص ہے۔ ایمان تازہ کرنے کے لیے دو چار مثالیں ملاحظہ ہوں۔
(۱) غزؤہ حنین میں جب گھمسان کا رَن پڑا اور مجاہد صحابہ عام انتشار اور افراتفری میں بچھڑ گئے اور کفار کاسارا زور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف تھا۔ اس غزوہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سفید رنگ کے خچر پر سوار تھے۔ جس کی لگام حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ تھامے ہوئے تھے۔ اس خوفناک اور خطرناک حالت میں بھی حضور علیہ السلام رکا بوں کے بل خچر پر کھڑے ہوگئے اور زور سے پکارا ۔
اَناَ النَّبِیْ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
اس دوسرے جملے انا ابن عبدالمطلب کا مطلب یہی ہے کہ عبدالمطلب کی اولاد بزدل ڈر پوک ہوسکتی ہی نہیں مزید شواہد ملاحظہ ہوں:
(۲) غزؤہ خندق میں حضور علیہ السلام کی پھوپھی اور مشہور بہادر اور حضور علیہ السلام کے حواری اور پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر کی والدہ حضرت صفیہ بن عبدالمطلب ایک قلعہ میں تھیں۔ اس قلعہ کی نگرانی حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ کے سپرد تھی اور ایک مسلح یہودی اس قلعہ کے ارد گرد چکر لگا تا ہوا نظر آیا۔ مگر حضرت صفیہ نے حضرت حسان کو کہا کہ اس یہودی کو جا کر قتل کردو۔ مگر حضرت حسان نے کچھ لیت ولعل کی تو خود حضرت صفیہ خیمہ کی ایک چوب لے کر باہر نکل آئیں اور جاتے ہی اس کا فر یہودی کو جہنم رسید کردیا۔
(۳) اور ہم ناظرین کی خدمت میں حضرت شیر کر بلا ،جگر گوشۂ مرتضےٰ، حضرت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہما کا سنہری کردار باوقار پیش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ کہ آپ وطن سے صدہا کوس دور اس لق ورق بے آب وگیاہ میدان کر بلا میں بے یارو مدد گار یکہ وتنہا ہیں ،کوئی قوم کوئی برادری معاون و امدادی نہیں۔ ہر طرف سے دشمنوں کے محاصرہ ونرغہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ موت سامنے ہے اور اہل وعیال کی تباہی و بربادی واضح ۔مگر اس جگر پاش ہو شربا صورت حال میں بھی اسد اﷲ الغالب کا شیر فرزند کس انتہائی شجاعت وبسالت اور شہامت و استقامت کے ساتھ مردِ میدان بن کر انا الحسین ابنُ علی (میں ہوں علی کا بیٹا حسین) کی للکار لگا کر جان جان آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔ اپنے اعوان و خاندان کو آنکھوں کے سامنے کٹوا دیتا ہے مگر شمرو ابن زیاد کی بیعت قبول نہیں کرتا ۔
کرتی ہے پیش اب بھی شہادت حسینؓ کی
=آزادی حیات کا یہ سرمدی اُصول
Mچڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
Gلیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
(۴) تاریخ اسلام کے اس المناک ترین حادثہ کر بلا کے بعد جب حسینی قافلہ کے بچے کھچےُ تباہ حال افراد دربار ابن زیاد میں پہنچتے ہیں تو دشمنوں کے گھر میں ان کے منہ پر حضرت زینب بنت فاطمۃ الزہراء نے جس محیر العقول جرأت اور دلیری سے ابن زیادہ اور یزید کوتر کی بترکی جواب دیئے وہ تاریخ کے اوراق میں قیامت تک شجاعت کا ایک سنہری باب ہیں۔
(۶) اسی حادثہ میں سید نا حضرت علی اصغر زین العابدین جو کم عمر نو خیز نوجوان تھے اور کر بلا کی قیامت آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ اسکے باوجود انہوں نے جس جرأت ،تحمل ،حوصلہ اور دلیری سے ابن زیاد اور یزید کے ساتھ مکالمہ کیا اور فی البدیہہ آیات قرآنی سے برجسۃ استشہاد کیا وہ اس کم عمری میں یقینا قابل دادہے اور رہتی دنیا تک یاد گار رہے گا۔
(۷) یہ جو حضرات مذکور ہوئے ہیں یہ تو پھر بھی کچھ نہ کچھ عمر اور سمجھ بُوجھ رکھتے تھے مگر حضرت عمر بن حسین بہت ہی کمسن بچے تھے۔ حادثہ کر بلا کے بعددمشق میں یزید کے گھر قیام کے زمانہ میں ان کو اور حضرت زین العابدین رضی اﷲ عنہما کو یزید اپنے ساتھ کھانا کھلاتا تھا۔ یزید کا بھی ایک چھوٹا بچہ خالد نامی تھا۔ ایک دن یزید نے خوش طبعی کے طور پر عمر بن حسین کو کہا کہ تم خالد کے ساتھ کشتی لڑ سکتے ہو؟ عمر بن حسین نے کہا کہ یوں نہیں آپ ایک چھری خالد کو دے دیں اور ایک مجھے دیدیں پھر ہماری لڑائی کا تماشا دیکھیں یہ سُن کر یزید حیران رہ گیا۔ عمر بن حسین کو گود میں اٹھا لیا اور کہا کہ شیر کا بچہ شیر ہی ہوتا ہے۔
ناظرین با تمکین انصاف ،انصاف اور خدارا انصاف!
کہ ایسے شیروں کے شیر باپ اسد اﷲ الغالب ،امیر المؤمنین ، امام الا شجعین، علی ابن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کہ جن کی قیامت تک نہ مِٹ سکنے والی شہرہ آفاق شجاعت اور شہامت سورج سے زیادہ روشن اور واضح ہے اور شجاعت کے باب میں جن کا نام نامی ہی ضرب المثل ہے، اور جن کو قتل وقتال سے اتنی محبت تھی کہ غزوہ تبوک میں حضور علیہ السلام نے ان کو مدینہ منورہ میں ٹھہر نے کا حکم دیا تو روتے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی کہ یار سول اﷲ تُخَلِّفُنِی مَعَ الْخَوَالِفْ کہ پیچھے رہنے والی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مجھے چھوڑ تے ہیں تو حضور نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔
اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمُنْزِ لَۃِ ہَارُوْنَ مِن مُوسٰی اِلَّا انَہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (ابن کثیر ج ۷، ۳۴۰)
کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ تم میرے ایسے ہی قائم مقام ہو جیسے ہارون موسیٰ کے تھے مگر یہ کہ میرے بعد نبی کوئی نہیں؟
آہ وصد آہ! کہ آج ان کے متعلق بلکہ جملہ بنو ہاشم کے متعلق یہ باور کرانے کی مذ موم کوشش کی جاتی ہے کہ ان شیرانِ کر بلا کے شیر والد ماجد اور دوسرے سب بنو ہاشم اتنے کمزور (اور) بزدل تھے۔ کہ خاص مدینہ طیبہ کے اندر بنو امیہ و بنو مخزوم کے زبردست قبائل کے ہمراہ وہمنوا ہوتے ہوئے بھی محض کمزوری وجُبن کی وجہ سے چوبیس برس تقیہ کرکے ٹائم پاس کرتے رہے سچ ہے
تمہاری طرح کے ملیں جس کو دوست
7اسے دشمنوں کی ضرورت ہے کیا
…یہ عقلمند لوگ بھی عجیب ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا کی بہادری بیان کرنے لگتے ہیں تو ساری دنیا کے مقابلہ کے لیے اکیلا حضرت حیدر کرارہی کو کافی سمجھتے ہیں چنانچہ ان کی ایک پنجابی منقبت کے یہ دو شعر
کِسے پچھیا (۹) نبیؐ تھیں دَسّو پاک پیغمبر
Mکارن لڑن کفر دے کتنا تساں دا ہے لشکر؟
Gہس کے بولے نبیؐ کافی حیدر دا دم اے
Oمُنکر مولا علی دا چاہے مَنےّ نہ مَنےّ!
اور جب حضرت شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی مظلومیت اور کمزوری بیان کرتے ہیں تو اس طرح ان کی اور جملہ بنو ہاشم کی تو ہین کرتے ہیں کہ اس کے بیان سے زبان لرزاں ہے۔ ایک نمونہ یہی دیکھ لیں کہ اس فاتح خیبر اور قاتل مرحب وعنتر سے تقیہ کرا کر بزدل بنا کر پورے چوبیس برس رو باہی بھی کر واتے ہیں قَا تَّلَھُمْ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤَفَکُون سچ ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
حواشی
(۱)الصواعق المحرقہ ص ۱۱ (۲) الصواعق المحرقہ ۵۴ (۳) ابن کثیر ج ۷ ص ۳ (۴) ابن کثیر ج ۷ ص ۵۰
(۵)الصواعق المحرقہ ص ۵۴ (۶) بلکہ حضرت سعید بن زید کو جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے مگر ان کی بہن عاتکہ حضرت عمر کے گھر تھیں۔ اورحضرت عمر کی بہن حضرت سعید کے گھر تھیں اور یہ آپس میں چچا زاد بھائی بھی تھے اس لیے ان کو بھی حضرت عمر نے احتیاطاً شوریٰ کا ممبر نہ بنایا۔ ابن کثیر ج ۷ص ۱۲۸ (۷) ابن کثیر ج ۷ ص۱۴۶ ،صواعق المحرقہ ص ۴۰ (۸) صواعق المحرقہ ص ۱۱ ، ۵۴
ترجمہ: کسی نے نبی (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے پوچھاکہ اے پاک پیغمبر یہ تو فرمائیے کہ کفار سے جہاد کرنے کے لیے آپ کے لشکر کتنے ہیں تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا کہ: کفار سے لڑنے کے لیے ایک حضرت حیدر کادم ہی کافی ہے۔ لشکروں کی کیا ضرورت ہے مولا علی کا مُنکر چاہے مانے یا نہ مانے۔