اور یامقبول جان
اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے
یہ ایک درد ناک کہانی ہے جس کے خوفناک انجام کی طرف یہ قوم انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا خوفناک کہ جس کے تصور سے ہی اہلِ نظر کانپ رہے ہیں۔ آئینِ پاکستان ، جس کے تحفظ کی قسم صدرِ پاکستان ،وزیراعظم ، گورنر، وزرائے اعلیٰ، اراکینِ اسمبلی، مسلح افواج کے اراکین ، اعلیٰ عدلیہ کے جج او رہر آئینی عہدہ رکھنے والا شخص اللہ کو حاضر وناظر جان کر اٹھاتا ہے، اسی آئینِ پاکستان کی شق نمبر ۳۸(ایف) کہتی ہے۔ ’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے رِبا(سود) ختم کرے گی۔‘‘ گزشتہ روز رِبا (سود) کے بارے میں آئینی درخواست مسترد کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مؤمن ہوتو سود کا وہ حصہ جو باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑدو، اگر تم ایسا نہ کروگے تو اللہ او راس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔‘‘ (البقرہ: ۷۹۔۲۷۸) یہ اعلانِ جنگ امریکہ ، حکومتِ پاکستان یا مسلح افواج نہیں کررہیں، وہ قادرِ مطلق کررہا ہے جو اعلان کرتا ہے کہ اس کی پکڑ بہت شدید ہے۔ یہ اللہ کا دستو رہے کہ وہ ہرفرد کو اس کے اختیار کے مطابق پکڑتا ہے اور اس کی استطاعت کے مطابق سزادیتا ہے۔سود کے معاملے میں ہماری کہانی درد ناک ہے اور ہم خوفناک انجام کی طرف کی بڑھ رہے ہیں۔ بان�ئپاکستان قائد اعظم نے یکم جولائی۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بینک کا افتتاح کیا اور تقریر کی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری تقریر تھی۔ انھوں نے فرمایا:
’’میں بینک کے تحقیقی شعبے کے کام کو ذاتی طور پر باریک بینی سے دیکھوں گا کہ وہ ایک ایسا بینکنگ نظام وضع کریں جو اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظامِ زندگی کے ہم آہنگ ہو۔ مغرب کے معاشی نظامِِ زندگی نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پید اکیے ہیں۔‘‘
اس تقریر کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد قائد اعظم انتقال کر گئے۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سترہ سال طویل خاموشی کا زمانہ ہے۔ یوں تو ہر آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل موجود رہی لیکن کسی کوسود کے بارے میں کبھی کوئی خیال نہ آیا۔ ایوب آمریت کے دوران ۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۶ء تک اسلامی نظریاتی کونسل نے بینکنگ نظام کا جائزہ لیا اور اسے خلافِ اسلام قراردیا۔ ۳؍دسمبر۱۹۶۹ء میں کونسل نے اپنی رپورٹوں کا اعادہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت میں آئین میں ۳۸ (ایف) تحریر ہوئی جس میں حکومت کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ سود کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ ’’حضرت ضیاء الحق کا زمانہ آیا تو ۱۹۷۷ء میں سود کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے دوبارہ رجوع کیا گیا۔ کونسل نے ۲۶؍جون ۱۹۸۰ء کو سود کے خاتمے کے لیے ایک متبادل نظام تجویز کردیا۔ اب ٹال مٹول شروع ہوگئی ایک عالمی سیمینار بلایا گیاجس میں کونسل کی تجاویز زیرِ بحث آئیں ۔ سپریم کورٹ نے ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ اس نے وفاقی شرعی عدالت قائم کی اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیل بینچ بنایا۔ لیکن سود سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ۱۹۸۰ء میں بننے والی وفاقی شرعی عدالت پر یہ پابندی لگادی کہ دس سال تک مالی معاملات میں شریعت کے حوالے سے کوئی کیس نہیں سنے گی۔اس وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار کا یہ عالم تھا کہ اس کے فیصلے کے خلاف اگر ایک عام آدمی بھی سپریم کورٹ میں اپیل لے کر جائے گا تو بغیر پیشی یہ اپیل منظور ہوجائے گی اور حکم امتناعی بھی جاری ہوجائے گا۔ جیسے ہی دس سال کی پابندی ختم ہوئی تو سود کے مخالف ایک دم ۱۹۹۰ء میں درخواستیں لے کر جاپہنچے۔ روزانہ سماعت ہوئی اور اکتوبر ۱۹۹۱ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ۱۵۷،صفحات کا فیصلہ تحریر کیا جس کے تحت ۳۰؍جون ۱۹۹۲ء سے بینک کے سودی کا روبار کو حرام قراردے دیا۔ اس وقت سودی نظام کے ایک اور پروانے نواز شریف وزیراعظم تھے۔ وہ اس فیصلے کے خلاف فوراً سپریم کورٹ جاپہنچے۔ حکمِ امتناعی جاری ہوا اور ٹال مٹول شروع ہوئی۔ نواز شریف اور بے نظیر کے زمانے میں کبھی بھی شریعت بینچ پورا نہیں ہونے دیا گیا۔ مشرف، نواز شریف کا تختہ الٹ کر دیگر کاموں میں مصروف تھا اور اسے اندازہ تک نہ ہوسکا کہ شریعت بینچ مکمل ہے۔ یہ بنچ وجیہہ الدین احمد، خلیل الرحمن، منیر اے شیخ، مولانا تقی عثمانی اور محمود احمد غازی پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ خاموشی سے اپنی کاروائی میں مصروف رہے اور دنیا بھر سے ماہرین کو بلوا کر فیصلے کے قریب پہنچ گئے ۔ فیصلے پر دستخط کا وقت آیا تو سازشیں شروع ہوگئیں ۔ بینچ نامکمل کرنے کے لیے محمود احمد غازی کو سیکیورٹی کونسل کا حلف اٹھوادیا گیا۔ وہ معصومانہ طور پر اس چال کا شکار ہوگئے لیکن ایسا کرنے سے وہ جج نہ رہے۔ لیکن آئین کے مطابق تو ایک عالمِ دین سے بھی کام چل سکتا تھا اور بینچ مکمل رہااور اگلے ہی دن انھوں نے فیصلہ دے دیا۔ ۲۳؍دسمبر۱۹۹۹ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا اور یہ اعزاز حاصل کیا کہ تمام اسلامی ممالک میں واحد پاکستان ہے جس کی سپریم کورٹ نے سود حرام قراردیا۔یہ بہت طویل فیصلہ ہے جو ایک ہزار صفحات سے زیادہ ہے۔ پھر چال چلی گئی۔ مشرف نے ایک پرائیویٹ بنک سے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست داخل کروائی۔ اس دوران پی سی او آگیا۔ وجیہہ الدین اور خلیل الرحمن نے حلف نہ اٹھایا۔ قانون کے مطابق نظرِ ثانی صرف وہی جج کرسکتے ہیں لیکن یہاں یہ اصول بھی توڑدیا گیا۔ چیف جسٹس شیخ ریاض کی سربراہی میں بینچ بنایا گیا جس نے چند صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ تحریر کیا کہ سپریم کورٹ کا سود حرام قرار دینے کا فیصلہ کالعدم ہے۔ یہاں ایک چال چلی گئی کہ فیصلہ کالعدم ہے تو اس کے مقابل میں سپریم کورٹ کو نیا فیصلہ تحریر کرنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میںیہ پہلا مقدمہ ہے جسے ماتحت عدالت کو واپس بجھوایاگیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ لوگوں کو واپس وہاں لے جایا جائے جہاں سے جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت میںیہ کیس ۱۵سال سے سرد خانے میں ہے اور اگر کوئی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو اپیل مسترد کردی جاتی ہے۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ہم دیواروں سے سرٹکراتے رہیں۔ ہمیں ایسا کرنے میں کوئی عارنہیں ۔ ہم تو اس صف میں کھڑے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے سود کے خلاف اعلانِ جنگ کے بعد ترتیب دی جاچکی ہے۔ یہ تو ہر کسی کی مرضی اور منشاء ہے کہ وہ جس طرف چاہے کھڑا ہوجائے۔ مدرسہ کھلے نہ کھلے ، فیصلہ آئے نہ آئے لیکن جس کو اللہ کے قادر ہونے پر یقین ہے، اسے اس بات پر بھی مکمل یقین ہے کہ یہ جنگ اللہ نے جیتنی ہے اور کوئی اس روئے زمین پر اتنا طاقتور نہیں جو یہ جنگ جیت سکے۔ البتہ روز ہم اس غضب او رغیظ کو دعوت دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے کبھی اہلِ نظر سے ملتا تو وہ اپنے خواب سناتے ، کہتے زلزلے ہیں، سونامی کی لہریں ہیں۔ اسلام آباد میں تو کچھ علاقے نظر ہی نہیں آرہے۔ پھر استغفار کرنے لگے ، سوچتا تھا ایسا کیوں ہوگا کالم تحریر کررہا ہوں تو دس سال پہلے کا آٹھ اکتوبر کا زلزلہ یاد آرہا ہے۔ خوف کا ایک عالم ہے۔ بس یہی دعادل سے نکل رہی ہے۔ الٰہی! ہم پر رحم فرما، ان لوگوں کی سزا ہم سب کو نہ دے جو تجھے للکارتے ہیں۔ جو تیرے مقابل آکر کھڑے ہوتے ہیں۔ جو تیرے اعلانِ جنگ کے باوجود بھی خوف سے نہیں کانپتے۔ ہم پر رحم فرما۔ اگر تو نے ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم بہت بڑے خسارے میں جانے والے ہیں۔