پروفیسر خالد شبیر احمد
’’جب احساس میں بلا کی شدت ہو تو نثر اُس کے اظہار میں ساتھ دینے سے قاصر رہتی ہے۔ پھر مجبوراً شاعری کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے کہ شاعری شدید احساسات کے اظہار کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ جناب سید عطاء المؤمن شاہ صاحب بخاری مرحوم و مغفور سے میرا دوستانہ اس قدر وسیع اور عمیق ہے کہ ان کی موت پر دکھ و غم کا اظہار نثر میں ممکن ہی نہیں تھا۔ اس لیے شاعری کا سہارا لینا پڑا۔ اگر کچھ عرصہ بعد اس غم میں ٹھہراؤ آیا تو ان شاء اﷲ مضمون بھی لکھوں گا۔ فی الحال تو یہ نظم نذرِ قارئین ہے کہ اس کا ہر شعر اُن پر ایک مکمل مضمون کی نشاندہی کرتا ہے‘‘۔ (احقر خالد شبیر)
افسوس ہم سے کھو گیا سرمایۂ احرار ملکِ عدم کا ہو گیا اُمّت کا افتخار
وہ شہپرِ شعور تھا وہ شوکتِ جنوں طاری ہے جس کے خُلق کا ہر ایک پر فسوں
وہ تو کتابِ عشق کا اک زرّیں باب تھا فہم و شعور و شوق کا گویا نصاب تھا
تحریر میں تقریر میں شورشؒ کا خوشہ چیں الفاظ جس کے موتی تھے حروف سب نگیں
تھا رقص کناں دل میں اس کے جذبۂ احرار دیں دشمنوں کے واسطے یلغار تھا للکار
صدق و صفا کی راہ پہ چلتا رہا مدام خطبے تھے جس کے رجز ، تھا وہ قادر الکلام
عشق و جنوں بھی نازاں رہا اس کے ذوق پر لفظوں کو چہرہ دیتا تھا وہ لوحِ شوق پر
حرفوں میں آگ بھرتا تھا ، ایسا خطیب تھا وہ داستانِ شوق کا بھی عندلیب تھا
مستی میں اپنے فقر کی وہ مست تھا الست حق گو تھا حق شناس تھا اور تھا حق پرست
وہ دین حق کی دہر میں ہیبت بٹھا گیا اور قصرِ قادیان کی دیوار ڈھا گیا
جتنے جری دلیر تھے چناب کے نگر اس کی گرج کے سامنے منقار زیر پر
اس جلو میں حریتِ صبح و شام تھی لا ریب اُس پہ رحمتِ خیر الانام تھی
لہجہ تھا آبشار سا ، حرف اس کے باوضو اسلافِ باصفا کی تھا تصویر ہو بہو
راہِ جنوں میں بھائیوں کے رہا وہ ہمرکاب اور آسمانِ شوق کا بھی تھا وہ آفتاب
کشکول میری آنکھوں کا اشکوں سے بھر گیا آیا تھا کس نگر سے وہ جانے کدھر گا
یکتا بھی تھا وہ منفرد اور طرحدار بھی تھا وہ دوستوں کا دوست اور غم گسار بھی
وہ انتہائے شوق میں جاں سے گزر گیا ڈھونڈھے ہے اس کو جی مرا جانے کدھر گیا
وہ تو نقیبِ عظمتِ انساں تھا دوستو ہر حال میں وہ عشق کا عنواں تھا دوستو
شعر و ادب میں یکتا تھا ، بے مثل باکمال وہ افتخارِ قوم تھا عظمت سے مالامال
محفل میں جب بھی ہوتا تھا وہ محوِ گفتگو اک نور سا جھلکتا تھا ہر سمت چار سو
اُس کے ضمیر و ظرف میں چندا کی چاندنی اور سازِ دل پہ جس کے تھی جنوں کی راگنی
تھا بالیقیں اثاثہ وہ تو سارے شہر کا تریاق تھا وہ حرص و ہوس کے بھی زہر کا
حق گو تھا ، حق پرست ، سراپا نیاز تھا وہ مردِ باخبر تھا ، فراست نواز تھا
اس شہرِ ناسپاس میں اک دیدہ ور تھا وہ شعر و سخن کی دنیا میں کامل نظر تھا وہ
تاریکیوں میں تھا وہ کرن آفتاب کی رختِ بدن سے آتی تھی خوشبو گلاب کی
اُس کا قدم قدم تھا اک عہد آفریں لاؤ کہیں سے ڈھونڈھ کے ملتا ہے گر کہیں
موت اُس کی گویا ہم پہ قیامت ہی ڈھا گئی ہر اہلِ دل پہ جیسے گھٹا غم کی چھا گئی
میرِ شریعتؒ کا تھا وہ فرزندِ ارجمند شیریں سخن تھا وہ اور نگاہ بھی بلند
بے حال سب کو کر دیا بے جان کر گیا ’اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا‘‘
وہ کیا گیا جہاں سے وفا ختم ہو گئی ’صَرصَر کی چوٹ کھا کے صبا ختم ہو گئی‘‘
وہ سو گیا ہے موت کی چادر کو تان کر ڈھونڈھا تھا آسماں نے جسے خاک چھان کر‘‘
ممکن نہیں بیاں ہو کہ وہ کیسا فرد تھا ’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘
خالدؔ وہ ایک شخ تھا عالم میں انتخا ہر وصف بے مثال تھا ، ہر بات لا جواب
تربت سے جس کی آتی ہے ہر دم یہی صدا ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما‘‘