ڈاکٹر مفتی عبدالواحدرحمہ اﷲ
اعتکاف کی اقسام: اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: واجب، مسنون اور نفل۔
اعتکاف واجب: واجب وہ ہے جس کی نذر (مَنّت) کی جائے۔ نذرخواہ غیر مشروط ہو۔ جیسے کوئی شخص بغیر کسی شرط کے اعتکاف کی نذر کرے یا مشروط جیسے کوئی شخص یہ شرط کرے کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے گا تو میں اعتکاف کروں گا۔
مسنون اعتکاف: یہ سنت مؤکدہ ہے۔ رمضان کے اخیر عشرہ میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بالالتزام اعتکاف کرنا احادیث صحیحہ میں منقول ہے۔ مگر یہ سنت مؤکدہ بعض کے کر لینے سے سب کے ذمہ سے اترجائے گی۔
نفل یا مستحب: مستحب یہ ہے کہ ماہ رمضان کے پورے اخیر عشرہ کے سوا اور کسی زمانہ میں خواہ رمضان کا پہلا، دوسرا عشرہ ہو یا اور کوئی مہینہ ہو اعتکاف کیا جائے۔
مطلق اعتکاف کی شرائط:
۱۔ اعتکاف خواہ واجب ہو یا سنت ہو یا نفل ہو اس میں اعتکاف کی نیت شرط ہے۔ اعتکاف کے قصدو ارادہ کے بغیر مسجد میں ٹھہر جانے کو اعتکاف نہیں کہتے۔ لہٰذا اگر نیت کے بغیر اعتکاف کرے گا تو بالاتفاق جائز نہیں۔
چونکہ نیت کے صحیح ہونے کے لیے نیت کرنے والے کا مسلمان ہونا اور عاقل ہونا شرط ہے اس لیے عقل اور اسلام کا شرط ہونا بھی نیت کے ضمن میں آگیا۔
۲۔ جنابت سے اور حیض و نفاس سے پاک ہونا۔
۳۔ مسجد میں ٹھہرنا خواہ اس مسجد میں پنج وقتہ نمازیں جماعت سے ہوتی ہوں یا نہیں۔ البتہ افضل اس مسجد میں ہے جس میں جماعت ہوتی ہو۔
مسئلہ: افضل ترین اعتکاف مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں ہے۔ اس کے بعد مسجد نبوی میں پھر مسجد اقصی میں اس کے بعد کسی بھی جامع مسجد میں یعنی جہاں جمعہ پڑھا یا جاتا ہو۔اس کے بعد محلہ کی اس مسجد میں جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو۔
مسئلہ: اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں پانچوں وقت نماز نہیں ہوتی تو جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے دوسری مسجد میں جاسکتا ہے۔
۴۔ روزہ کی شرط:
مسئلہ: اعتکاف واجب کے لیے روزہ شرط ہے۔ جب کوئی شخص اعتکاف کرے تو اس کو روزہ رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ بلکہ اگر یہ بھی نیت کرے کہ میں روزہ نہیں رکھوں گا تب بھی اس کو روزہ رکھنا لازم ہوگا۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص رات کے اعتکاف کی نیت کرے تو وہ لغو سمجھی جائے گی کیونکہ رات روزے کا وقت نہیں۔ ہاں اگر رات دن دونوں کی نیت کرے یا صرف کئی دنوں کی تو پھر رات ضمناً داخل ہوجائے گی اور رات کو بھی اعتکاف کرنا ضروری ہوگا۔ روزہ کا خاص اعتکاف کے لیے نہ رکھنا بھی کافی ہے۔ مثلاً کوئی شخص رمضان میں اعتکاف کی نذر کرے تو رمضان کا روزہ اس اعتکاف کے لیے بھی کافی ہے۔ ہاں اس روزے کا واجب ہونا ضروری ہے۔ نفل روزہ اس کے لیے کافی نہیں ۔مثلاً کوئی شخص نفل روزہ رکھے اور اس کے بعد اسی دن اعتکاف کی نذر کرے تو صحیح نہیں۔ اگر کوئی شخص پورے رمضان کے اعتکاف کی نذر کرے اور اتفاق سے رمضان میں نہ کر سکے تو کسی اور مہینے میں اس کے بدلے کرلینے سے اس کی نذر پوری ہو جائے گی مگر مسلسل روزے رکھنا اور ان میں اعتکاف کرنا ضروری ہوگا۔
اعتکاف مسنون میں اگرچہ عام حالت میں تو روزہ ہوتا ہی ہے لیکن پھر بھی اس اعتکاف کے صحیح ہونے کے لیے روزہ ہونا شرط ہے۔نفلی اعتکاف میں معتمد علیہ قول یہ ہے کہ اس کے لیے روزہ شرط نہیں۔
مقدار اعتکاف:
مسئلہ: اعتکاف واجب کم سے کم ایک دن ہوسکتا ہے اور زیادہ جس قدر نیت کرے اور اعتکاف مسنون ایک عشرہ کا ۔ اس لیے کہ اعتکاف مسنون رمضان کے اخیر عشرہ میں ہوتا ہے اور اعتکاف مستحب کے لیے کوئی مقدار مقرر نہیں ہے ایک منٹ بلکہ اس سے بھی کم ہوسکتا ہے۔
مسئلہ: اعتکاف میں بلوغت شرط نہیں ہے لہٰذا سمجھدار بچہ بھی اعتکاف کرے تو درست ہے۔
مسجد سے کن ضرورتوں کے لیے نکل سکتا ہے:
تنبیہ(۱): جس ضرورت کے لیے نکلنا جائز ہے اس کے لیے جب نکلے تو اس سے فارغ ہونے کے بعد وہاں نہ ٹھہرے اور جہاں تک ممکن ہو ایسی جگہ اپنی ضرورت رفع کرے جو اس مسجد سے قریب ترین ہو۔ مثلاً اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اس میں قضائے حاجت کرنا چاہیے کہیں اور جانا درست نہیں۔
تنبیہ (۲): چونکہ اعتکاف کے لیے ضروری ہے کہ معتکف مسجد میں ٹھہرے اور بلا ضرورت باہر نہ نکلے تو ضروری ہے کہ مسجد کا مطلب معلوم ہو۔عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے مسجد (یعنی سجدے اور عبادت کی جگہ) صرف وہ حصہ ہوتا ہے جونماز پڑھنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ باقی وضو خانہ، غسل خانے، استنجاء کی جگہ، امام کا کمرہ، سامان رکھنے کا کمرہ وغیرہ یہ مسجد کی ضروریات اور ملحقات ہیں خود مسجد نہیں ہیں۔
بعض مساجد میں ا صل مسجد کے بالکل ساتھ بچوں کو پڑھانے کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔ اس جگہ کو بھی جب تک بانی مسجد نے مسجد قرار نہ دیا ہو۔ وہ شرعی مسجد میں داخل نہیں بلکہ اس کے ملحقات میں ہے۔
معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کے لیے مقرر کیے ہوئے حصہ سے بلا شرعی عذر کے باہر نہ نکلے اور ملحقات میں بھی نہ جائے کہ اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
وہ ضرورتیں جن کے لیے مسجد سے نکلنا معتکف کے لیے جائز ہے دو قسم کی ہیں:
طبعی ضرورتیں: جیسے پیشاب، پاخانہ اور ان دونوں کے متعلقات یعنی استنجاء، وضو اور اگر احتلام ہو جائے تو غسل کرنا۔
شرعی ضرورتیں: جیسے اذان دینے کے لیے نکلنا اور جمعہ کی نماز کے لیے نکلنا۔
قضائے حاجت:
مسئلہ: پیشاب کے لیے مسجد کے قریب ترین جس جگہ پیشاب کرنا ممکن ہو وہاں جانا چاہیے۔
مسئلہ: پاخانے جانے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اسی میں قضائے حاجت کرنا چاہیے کہیں اور جانا درست نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کے لیے اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ قضائے حاجت طبعاً ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو پھر اپنے گھر جا سکتا ہے خواہ وہ کتنی ہی دور ہو۔
اپنے گھر کے مقابلے میں اگر کسی دوست یا عزیز کا گھر مسجد کے قریب تر ہو تو قضائے حاجت کے لیے اس کے گھر جانا ضروری نہیں۔
مسئلہ: اگر کسی شخص کے دو گھر ہوں تو وہ قریب والے گھر میں قضائے حاجت کے لیے جائے۔
مسئلہ: اگر بیت الخلاء مشغول ہوتو خالی ہونے کے انتظار میں ٹھہرنا جائز ہے۔
مسئلہ: جو شخص قضائے حاجت کے لیے اپنے گھر گیا ہو وہ قضائے حاجت کے بعدوضو کرسکتا ہے۔
مسئلہ: قضائے حاجت میں استنجاء بھی داخل ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کو قطرے کا مرض ہو وہ صرف استنجاء کرنے کے لیے مسجد سے باہر جاسکتے ہیں۔
غسل: صرف احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل جنابت کے لیے معتکف مسجد سے باہر جاسکتا ہے۔ اس میں بھی یہ تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے اندر رہتے ہوئے کسی ٹب میں بیٹھ کر اس طرح غسل کرنا ممکن ہو کہ پانی مسجد میں نہ گرے تو مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو باہر نکل سکتا ہے۔
غسل جنابت کے علاوہ کسی اور غسل کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں خواہ وہ جمعہ کا غسل ہو یا گرمی سے ٹھنڈک کا غسل ہو۔ اگر ہوسکے تو اس کے لیے مسجد کے اندر ہی بڑا ٹب رکھ کر اس طرح نہائے کہ پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے۔
وضو: اگر مسجد میں وضو کرنے کی ایسی جگہ موجود ہے کہ معتکف خود تو مسجد میں رہے لیکن وضو کا پانی مسجد سے باہر گرے تو وضو کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔لیکن اگر کسی مسجد میں ایسی کوئی جگہ اور انتظام نہ ہو تو مسجد سے باہر نکل سکتا ہے خواہ وضو فرض نماز کے لیے ہو یا نفل نماز کے لیے۔ البتہ وضو ہوتے ہوئے دوبارہ وضو کرنے کے لیے نکلنا جائز نہیں۔
کھانے کی ضرورت: اگر کسی شخص کو کوئی ایسا آدمی میسر ہے جواس کے لیے مسجدمیں کھانا لاسکے تو وہ لا کردے لیکن اگر کوئی دوسرا لا کردینے والا نہ ہو تو معتکف کھانا لانے کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے لیکن کھانا مسجد میں ہی لا کر کھائے۔نیز یہ شخص ایسے وقت مسجد سے نکلے جب اسے کھانا تیار مل جائے لیکن اگر کبھی کچھ دیر کھانے کے انتظار میں ٹھہرنا پڑے تو جائز ہے۔
اذان:
مسئلہ: اگر کوئی موذن اعتکاف کرے اور اسے اذان دینے کے لیے (لاؤڈ سپیکر نہ ہونے کی صورت میں) مسجد سے باہرجانا پڑے تو نکلنا جائز ہے مگر اذان کے بعد نہ ٹھہرے۔اگرکوئی معتکف باقاعدہ موذن تو نہیں لیکن کسی وقت کی اذان دینا چاہتا ہے تو اس کو بھی نکلنا جائز ہے۔
مسئلہ: مسجد کے مینار کا دروازہ اگر مسجد کے اندر ہو تو کسی بھی معتکف کے لیے مینار پر چڑھنا مطلقاً جائز ہے کیونکہ وہ مسجد ہی کا حصہ ہے۔ البتہ اگر دروازہ باہر ہو تو اذان کی ضرورت کے علاوہ اس پر چڑھنا جائز نہیں۔
نماز جمعہ:
مسئلہ: جمعہ کی نماز کے لیے ایسے وقت جائے کہ تحیۃ المسجد اور سنت جمعہ وہاں پڑھ سکے اور نماز کے بعد بھی سنت پڑھنے کے لیے ٹھہرناجائز ہے۔ اس مقدار وقت کا اندازہ اس شخص کی رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے اگر اندازہ غلط ہوجائے یعنی کچھ پہلے پہنچ جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
مسئلہ: جمعہ کی نماز کے لیے کسی مسجد میں جائے اور نماز کے بعد وہیں ٹھہر جائے اور وہیں اعتکاف کو پورا کرے تب بھی جائز ہے مگر مکروہ تنز یہی ہے۔
مسجد سے منتقل ہونا: معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اس نے جس مسجد میں اعتکاف شروع کیا ہے اسی میں پورا کرے۔ اگر کوئی ایسی شدید مجبوری پیش آجائے کہ وہاں اعتکاف پورا کرنا ممکن نہ رہے مثلاً وہ مسجد منہدم ہوجائے یا کوئی شخص زبردستی اس کو وہاں سے نکال دے یا وہاں رہنے میں جان ومال کا کوئی قوی خطرہ ہو تو دوسری مسجد میں منتقل ہو کر اعتکاف پورا کرناجائز ہے اور اس غرض کے لیے باہر نکلنے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا بشرطیکہ وہاں سے نکلنے کے بعد راستے میں کہیں نہ ٹھہرے بلکہ سیدھا دوسری مسجد میں چلا جائے۔
کن چیزوں سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے:
مسئلہ: حالت اعتکاف میں دو قسم کے افعال حرام ہیں یعنی ان کے ارتکاب سے اگر اعتکاف واجب یا مسنون ہے تو فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضا کرنا پڑے گی اور اگر اعتکاف مستحب ہے تو ختم ہوجائے گا۔
پہلی قسم کے افعال: اعتکاف کی جگہ یعنی مسجد سے مذکورہ ضرورتوں کے بغیر باہر نکلنا خواہ قصداً ہو یا بھولے سے ہو اور خواہ ایک لمحہ کے لیے ہو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ: کوئی معتکف کسی طبعی یا شرعی ضرورت سے باہر نکلے اور ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی باہر ٹھہر جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ: کسی مریض کی عیادت کے لیے یا کسی ڈوبتے ہوئے کو بچانے کے لیے یا آگ بجھانے کے لیے مسجد سے نکلا تو اعتکاف ٹوٹ گیا گو ان صورتوں میں اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوتا بلکہ جان بچانے کی غرض سے ضروری ہے مگر اعتکاف باقی نہ رہے گا۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص زبردستی مسجد سے باہر نکال دیا جائے او رباہر ہی روک لیا جائے تب بھی اس کا اعتکاف نہ رہے گا۔ مثلاًکسی جرم میں حاکم وقت کی طرف سے وارنٹ جاری ہوا اور سپاہی اس کو گرفتار کر کے لے جائیں یا کسی کا قرض اس کے ذمہ ہو اور وہ اس کو باہر نکالے۔
مسئلہ: اسی طرح اگر کسی شرعی یا طبعی ضرورت سے نکلے اور راستہ میں کوئی قرض خواہ روک لے یا بیمار ہوجائے اور پھر مسجد تک پہنچنے میں کچھ دیر ہوجائے تب بھی اعتکاف قائم نہ رہے گا۔
مسئلہ: اگر مثلاً طبعی حاجت پیشاب پاخانہ کے لیے مسجد سے نکلا پھر اسی ضمن میں مریض کی عیادت کی یا نماز جنازہ کے لیے چلا گیا تو جائز ہے جب کہ مسجد سے نکلناخاص اس غرض سے نہ ہو اور راستہ سے نہ پھرے او رنماز جنازہ کی مقدار سے زیادہ نہ ٹھہرے اور مریض کی عیادت چلتے چلتے کرے وہاں ٹھہرے نہیں۔
دوسری قسم کے افعال: واجب اور مسنون اعتکاف کے لیے چونکہ روزہ شرط ہے اس لیے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یابلاعذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا۔
غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہوگیا جو روزے کے منافی تھا مثلاً کلی کرتے ہوئے غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا یا غروب آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر روزہ افطار کرلیا کہ افطار کا وقت ہوچکا ہے۔ لیکن اگر روزہ ہی یادنہیں رہا اور بھول کر کچھ کھا پی لیا تو اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹا اور اعتکاف بھی نہیں ٹوٹا۔
جماع کرنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے خواہ جماع جان بوجھ کر کرے یا سہواً،دن میں کرے یا رات میں، مسجد میں کرے یا مسجد سے باہر اور اس سے انزال ہو یا نہ ہو۔وہ افعال جو جماع کے تابع ہیں جیسے بوسہ لینا یا معانقہ کرنا وہ بھی حالت اعتکاف میں ناجائز ہیں مگر ان سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا خواہ عمداًکیے ہوں یا بھول سے کیے ہوں جب تک منی خارج نہ ہو۔ البتہ اگر صرف خیال اور فکر سے منی خارج ہو تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔
کن صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے:
۱۔ اعتکاف کے دوران میں کوئی ایسی بیماری پید اہوگئی جس کا علاج مسجد سے باہر نکلے بغیر ممکن نہیں تو اعتکاف توڑنا جائز ہے۔
۲۔ کسی ڈوبتے جلتے ہوئے آدمی کو بچانے یا آگ بجھانے کے لیے۔
۳۔ ماں با پ یا بیوی بچوں میں سے کسی کو سخت بیماری ہوجائے اور اس کی تیمار داری کی ضرورت ہو۔ کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو۔
۴۔ کوئی جنازہ آجائے اور نماز پڑھنے والا کوئی اور نہ ہو۔
مسنون اعتکاف ٹوٹنے کا حکم: اعتکاف غلطی سے ٹوٹ گیا ہو یا مجبوری سے توڑا ہو اس کا حکم یہ ہے کہ جس دن میں اعتکاف ٹوٹا ہے صرف اس دن کی قضا واجب ہوگی پورے دس دن کی قضا واجب نہیں۔
اگر اعتکاف دن میں ٹوٹا ہو توصرف دن دن کی قضا واجب ہوگی یعنی قضا کے لیے صبح صادق سے پہلے مسجد میں داخل ہو۔ روزہ رکھے اور اسی دن شام کو غروب آفتاب کے بعد نکل آئے اور اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو رات اور دن دونوں کی قضا کرے یعنی شام کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہو۔ رات بھر وہاں رہے روزے رکھے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔مسئلہ: اسی رمضان میں کسی دن قضا کرسکتا ہے۔
مسئلہ: اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کے بعد مسجد سے باہر نکلنا ضرور نہیں بلکہ باقی ایام میں نفل کی نیت سے اعتکاف جاری رکھ سکتا ہے۔
مباحات اعتکاف:
۱۔کھانا پینا ۲۔سونا ۳۔بال کٹوانا لیکن بال مسجد میں نہ گریں ۴۔ضروری خریدو فروخت کرنا بشرطیکہ اس وقت سودا مسجد میں نہ لایا جائے اور ضروریات زندگی کے لیے ہو مثلاً گھرمیں کھانے کو نہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص قابل اطمینان خریدنے والا نہ ہو ۵۔کام کی بات چیت کرنا ۶۔کپڑے بدلنا،خوشبو لگانا، سر میں تیل لگانا ۷۔مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا اور نسخہ تجویز کرنا ۸۔قرآن کریم یا دینی علوم کی تعلیم دینا ۹۔برتن کپڑے دھونا جب کہ خود مسجد میں رہے اور پانی باہر گرے ۱۰۔نکاح پڑھنا یا پڑھوانا ۱۱۔ضرورت کے وقت مسجدمیں ریح خارج کرنا۔
مکروہات اعتکاف:
۱۔خاموشی کو عبادت سمجھ کر حالت اعتکاف میں بالکل چپ بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے ۲۔فضول اور بلا ضرورت باتیں کرنا ۳۔سودا مسجد میں لا کر بیچنا مکروہ تحریمی ہے ۴۔اعتکاف کے لیے مسجد کی اتنی جگہ گھیرنا جس سے دوسرے اعتکاف کرنے والوں اور نمازیوں کو تکلیف ہو ۵۔اجرت پر کتابت کرنا یا کپڑے سینا یا تعلیم دیناوغیرہ ۶۔تجارت کی غرض سے خرید و فروخت کرناگرچہ سودا مسجد میں نہ لائے ہوں مکروہ ہے لیکن اگر اپنے لیے یا گھر والوں کے لیے ضرورت و مجبوری ہو تو مسجد میں رہتے ہوئے کوئی سودا خرید سکتا ہے اور فروخت کرسکتاہے۔
اعتکاف کے آداب:
۱۔اعتکاف کے مکروہات سے بچے ۲۔ اپنے اوقات کو تلاوت قرآن، ذکر اور دیگر عبادتوں اور دین کے سیکھنے سکھانے میں لگائے ۳۔ صحیح اور معتبر دینی کتابیں پڑھنا بھی موجب ثواب ہے
مسنون اعتکاف کے دیگر مسائل:
مسئلہ: رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی ایک بستی یا محلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو تمام اہل محلہ کی طرف سے سنت ادا ہو جائی گی لیکن اگر پورے محلے میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا تو پورے محلے والوں پر ترک سنت کا گناہ ہو گا۔ مسئلہ: کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف میں بٹھانا جائز نہیں۔
مسئلہ: اگر محلے والوں میں سے کوئی شخص بھی کسی مجبوری کی وجہ سے اعتکاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور کسی دوسرے محلے کا آدمی اس مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے تو یہ بھی صحیح ہے اور اس سے محلہ والوں کی سنت ادا ہوجائے گی۔
واجب یعنی نذر کے اعتکاف کے دیگر مسائل:
مسئلہ: جب آدمی یوں کہے ’’میں نے فلاں دن کا اعتکاف اپنے ذمہ لازم کرلیا‘‘ یا میں فلاں دن اعتکاف کرنے کی نیت مانتا ہوں یا اگر اﷲ تعالیٰ نے فلاں کو تندرستی دی تو میں اتنے دن اعتکاف کروں گا۔ ان تمام صورتوں میں نذر صحیح ہوجائے گی اور اعتکاف واجب ہوجائے گا۔
مسئلہ: اگر ایک دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو اگر دن سے اس کی نیت صرف روشنی کے وقت ہے تو صرف دن دن کا اعتکاف واجب ہوگا یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اور اگر دن سے چوبیس گھنٹے کی نیت تھی تو ایک دن رات کا اعتکاف واجب ہوگا یعنی ایک دن غروب آفتاب کے پہلے سے دوسرے دن غروب آفتاب تک روزہ دونوں صورتوں میں شرط ہے۔
مسئلہ: اگر صرف ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو یہ نذر صحیح نہیں ہوئی کیونکہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوسکتا۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص نذر کرتے وقت زبان سے یہ بھی کہہ دے کہ میں نماز جنازہ یا کسی درس یا دینی مجلس میں شرکت کے لیے باہر آیا کروں گا تو اس کام کے لیے باہرآنا جائز ہوگا اور اس سے اعتکاف پر کچھ اثر نہ پڑے گا۔ لیکن سنت اعتکاف میں ایسا استثناء جائز نہیں۔
مسئلہ: اگر کسی کو نذر پوری کرنے کا وقت نہیں ملا مثلاً اس نے بیماری میں نذر مانی تھی اور تندرست ہونے سے پہلے ہی مرگیا تو اس پر کچھ واجب نہیں۔
مسئلہ: اگر کسی نے اعتکاف کی نذر مانی اور اسے نذرپوری کرنے کا وقت بھی ملا لیکن وہ نذر ادا نہ کرسکا یہاں تک کہ موت کا وقت آگیا تو اس پر واجب ہے کہ وارثوں کو اس کے بدلے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرے۔ ایک دن کے اعتکاف کافدیہ پونے دوسیر گندم یا اس کی قیمت ہے۔
نفلی اعتکاف کے دیگر مسائل:
مسئلہ: اس اعتکاف کے لیے نہ وقت کی شر ط ہے نہ روزے کی نہ دن کی اور نہ رات کی بلکہ انسان جب چاہے جتنے وقت کے لیے چاہے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے۔
مسئلہ: رمضان کے آخری عشرہ میں د س دن سے کم کی نیت سے اعتکاف بھی نفلی ہوگا۔
مسئلہ: کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے مسجد جائے اور داخل ہوتے وقت نیت کر لے کہ جتنی دیر مسجد میں رہوں گا اعتکاف میں رہوں گا۔
مسئلہ: مسجد سے باہر نکلنے سے یہ اعتکاف خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔
عورتوں کااعتکاف:
اعتکاف کی جگہ کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ وہ اس جگہ میں ہو جس میں نماز کی زیادہ فضیلت ہو۔ مردوں کے لیے مسجد میں نماز کی زیادہ فضیلت ہے لہٰذا ان کے لیے اعتکاف کی جگہ مسجد ہے جب کہ عورتوں کے لیے گھر کی مسجد یعنی گھر میں نماز کے لیے مقرر کی ہوئی جگہ میں نماز زیادہ افضل ہے تو ان کے لیے گھر کی مسجد اعتکاف کی جگہ ہے۔ جن حدیثوں میں مسجد میں اعتکاف کا ذکر ہے ان ہی سے یہ ضابطہ حاصل ہوتا ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں عورتیں عام طور پر مسجد میں جا کر جماعت سے نماز ادا کرتی تھیں لیکن صحابہ رضی اﷲ عنہم کے دور میں عورتوں کا اس طرح سے مسجد میں جانا موقوف ہوگیا تھا۔اعتکاف میں اصل کام تو نمازوں کا اہتمام ہے اس کے لیے صحابہ رضی اﷲ عنہم کے اجماع و اتفاق کو چھوڑ کر اور توڑ کر عورت مسجد میں جا کر نمازیں پڑھے او راعتکاف کرے یہ بات جائز نہیں ۔ اس لیے عورت کومسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا اعتکاف گھر میں ہوگا اور وہ اس طرح کہ گھر میں جو جگہ نماز پڑھنے اور عبادت کے لیے بنائی ہوئی ہو اس جگہ اعتکاف کرے اور اگر گھر میں ایسی کوئی جگہ مخصوص نہ ہو تو اعتکاف سے پہلے ایسی کوئی جگہ بنالے اور اس میں اعتکاف کرے۔ اگر نماز کی مستقل جگہ بنانا ممکن نہ ہو تو گھر کے کسی بھی حصہ کو عارضی طور پر مخصوص کر کے وہاں عورت اعتکاف کرسکتی ہے۔
مسئلہ: اگر عورت شادی شدہ ہو تو اعتکاف کے لیے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔
مسئلہ: اگر عورت نے شوہر کی اجازت سے اعتکاف شروع کردیا بعد میں شوہر منع کرنا چاہے تو اب منع نہیں کرسکتا اور اگر منع کرے گا تو بیوی کے ذمہ اس کی تعمیل واجب نہیں۔
مسئلہ: عورت کے اعتکاف کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حیض اور نفاس سے پاک ہو۔ اگر کسی عورت نے اعتکاف شروع کردیا پھر اعتکاف کے دوران ماہواری شروع ہوگی تو وہ فوراً اعتکاف چھوڑ دے اس صورت میں جس دن اعتکاف چھوڑا ہے صرف اس دن کی قضا اس کے ذمے ہوگی جس کا طریقہ یہ ہے کہ ماہواری سے پاک ہونے کے بعد کسی دن روزہ رکھ کر اعتکاف کرے۔ اگر رمضان کے دن باقی ہوں تو رمضان میں قضا کرسکتی ہے۔
مسئلہ: عورت نے گھر کی جس جگہ اعتکاف کیا ہو وہ اس کے لیے اعتکاف کے دوران مسجد کے حکم میں ہے۔ وہاں سے اوپر ذکر کی گئی ضرورتوں کے بغیر نکلنا جائز نہیں۔ وہاں سے اٹھ کر گھرکے کسی اور حصے میں جائے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: عورت اگر مسجد میں اعتکاف کرے تو مکروہ تنز یہی ہے اور اس سے عورت کو بلا تردد منع کیا جائے گا جیسا کہ مسجد میں فرض نمازوں کے لیے جانے سے روکا گیا ہے۔
ایک اہم مسئلہ:
بعض جگہوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر رمضان کے مہینے میں پیر صاحب پورے مہینے کا اعتکاف کرتے ہیں اور ان کے متعلقین ان کے ساتھ مختلف وقتوں کے لیے مختلف وقتوں میں اعتکاف کرتے ہیں۔ کوئی پورا مہینہ کوئی پہلا عشرہ، کوئی دوسرا عشرہ، کوئی تیسرہ عشرہ او رکوئی کم و بیش۔ اس طریقہ میں یہ خرابیاں ہیں:
۱۔ سنت اعتکاف صرف آخری عشرہ میں ہے۔ چونکہ بہت سے لوگ پہلے یا دوسرے عشرے میں اعتکاف کرتے ہیں اور اس کی ان کو صراحۃً یا دلالتاً ترغیب دی جاتی ہے تو اس طرح ان کو سنت اعتکاف سے ہٹا کر نفلی اعتکاف میں لگادیا جاتا ہے حالانکہ جب وہ اپنا وقت فارغ کر ہی رہے ہیں تو وہ آخری عشرہ فارغ کرسکتے تھے۔ تاکہ سنت اعتکاف بھی ہوتا اور شب قدر بھی حاصل ہوتی۔
۲۔ حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک رمضان میں پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر دوسرے عشرہ کا اعتکاف کیا۔ پھر آپ نے اپنے قبے سے سرنکالا اور فرمایا میں نے شب قدر کی تلاش میں پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر دوسرے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر میرے پاس فرشتہ آیا اور مجھے بتایا گیا کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہے۔ تو جس جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کرے۔ (مشکوٰۃ)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف ایک مرتبہ شب قدر کی تلاش میں ایک ایک عشرہ کر کے پورے مہینے کا اعتکاف کیا۔ شروع سے پورے مہینے کے اعتکاف کی نیت نہیں کی اور رمضان میں اعتکاف کی غرض شب قدر کو حاصل کرنا تھا۔ اب جب ہمیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتانے سے معلوم ہوگیا کہ وہ آخری عشرہ میں ہوتی ہے تو اب مسنون اعتکاف کی نیت کرکے پورے مہینے کا اعتکاف کرنا مناسب نہیں۔اور اگر پہلے بیس دن نفلی اعتکاف کی نیت کریں اور آخری دس دن سنت اعتکاف کی نیت کریں تو محض نفلی اعتکاف کی خاطر تداعی اور اجتماع ہوگا جو اصول کے خلاف ہے اور بدعت ہے۔