حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اﷲ علیہ
آخری قسط
دین فطرت کا چوتھا معیار:
فطرت انسانی اور اس کے لوازم ہر زمان اور مکان میں یکساں طور پر موجود ہیں۔ کسی زمان ومکان قوم و ملک سے مختص نہیں اور نہ ان میں ترمیم وتنسیخ ممکن ہے۔ مثلاً کھانا، سونا، شادی کرنا فطری امور ہیں جن کا وجود ہر قوم اور زمان ومکان میں بلا ترمیم یکسانیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر انسان کا فطری دین وہی ہے جو ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے قابل عمل ہے اور ہر دور میں بلا ترمیم وتنسیخ اس کی راہنمائی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسا دین صرف اسلام ہے۔ جس کا ظہور نا خواندوں کے ملک میں ایک نبی اُمی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوا جو ازندگی کے تمام قوانین پر مشتمل ہے اور پھر یہ ایسے ملکوں میں پھیلا جہاں ہر قسم کے حکماد فلا سفر موجود تھے۔ اور ان ملکوں کی تہذیب و تمدن رسم ورواج بھی مختلف تھے اور تقریباً چودہ سو سال کسی نہ کسی شکل میں اس پر عمل ہوتا آیا لیکن اس دین کے حکیمانہ قوانین اور معقولیت کی ہمہ گیری اور آب وتاب میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ بلکہ ترقی یافتہ دشمنان اسلام میں سے بھی کسی انصاف پسند او رحقیقت شناس شخص نے قوانین اسلام کی معقولیت سے انکار نہیں کیا۔ ہم یہاں صرف مسٹرگبن کی تاریخ روما کی جلد ۵ باب ۵۰ میں سے اس کا ایک قول نقل کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت سب پر حاوی ہے وہ اپنے تمام احکام میں بڑے بڑے شہنشاہ سے لے کر چھوٹے گدا تک مسائل رکھتی ہے وہ شریعت ایسے دانش مندانہ اصول اور اس قسم کے عظیم الشان قانونی انداز میں مرتب ہے کہ سارے جہاں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ قرآن صرف اصول مذہب کے لیے نہیں بلکہ احکام تعزیرات تمدن اور ان قوانین کے لیے بھی ہے جن پر نظم عالم کا مدار ہے۔
دین فطرت کا پانچواں معیار:
فطرت انسانی کا ایک اہم جزو عقل انسانی ہے جو اس کو عام حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ اس لیے دین فطرت وہی ہوگا جس دین کے اصول عقل کے مطابق ہوں گے اور جس دین کے اصول خلاف عقل ہوں وہ فطری دین نہیں بلکہ خود ساختہ دین ہے۔ اسلام کا اصول ہے کہ خدا ایک ہے جملہ اوصاف میں مخلوق سے ممتاز ہے اور اپنی ذات اور صفات میں بے مثال ہے، اس کے با لمقابل مسیحیت کا یہ تصور کہ ایک عاجز انسان جو کھاتا پیتا ہے، یعنی حضرت مسیح، خدا ہے۔ چونکہ غذائے انسانی کی تیاری میں پوری کائنات کی مشینری کو عمل و دخل ہے اس لیے وہ درحقیقت کائنات کے ذرہ ذرہ کا محتاج ہے، لیکن اس کے باوجود مسیحیت نے اس کو اﷲ قرار دیا اور الوھیت کے متعلق اس نے یہ تصور دیا کہ خدا ایک بھی ہے اور تین بھی اور تین ایک ہے اور ایک تین ہے۔ اسی طرح ہندو مذہب کا رام، مہادیو، وشنو کی تثلیث، بدُھ مذہب میں بُدھ کے متعلق تصور الوھیت سب خلاف عقل اور انسان کے فطری اصول کی ضد ہے۔ اس لیے قرآن نے ’’انما الٰھکم الٰہ واحد‘‘ ’’ولیس کمثلہ شیٔ‘‘ کہہ کر خدا کے متعلق تمام غیر فطری اور غیرعقلی عقائد ونظریات کی تردید کی اور اسلامی توحید خالص کا اعلان کرکے ’’افلا تعقلون‘‘ کے ارشاد سے اس کی معقولیت کا اظہار کیا۔ لیکن یہ یادرکھنا چاہیے کہ خلاف عقل اور چیز ہے اورماورائے عقل اور چیز۔ خلاف عقل وہ چیز ہے کہ عقل اس کو غلط اور محال ٹھہراتی ہے۔ جیسے دو اور دو کا پانچ، یا تین کا ایک اور ایک کا تین ہوتا، یا مخلوق کا خدا اور خدا کا مخلوق ہونا۔ یہ سب خلاف عقل ہیں اور فطری مذہب میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ دوئم: ماورائے عقل یعنی ایسی چیزیں جو اپنی جگہ صحیح ہیں لیکن ہمارے مشاہدے میں نہیں آئیں، اس لیے ہم ان کی حقیقت کو احاطہ کرنے سے قاصر ہیں جیسے معجزات اور آخرت۔ ان امور کادین فطرت میں ہونا مضر نہیں بلکہ ہونا لازمی ہے کیونکہ یہ سب افعال باری تعالیٰ ہیں اور اﷲ کے عظیم تصور قدرت کے پیش نظر عام افعال کے سلسلہ اسباب سے ان افعال کا بلند ہونا ضروری ہے۔ خود انسانوں میں سائنسدان جو عام انسانوں سے کچھ بلند ہیں ان کے عجیب وغریب افعال اور رصنائع عام انسانوں کے فہم سے بالا تر ہیں۔ مشاہدہ معیارِ صداقت نہیں، دور حاضر کے عجیب وغریب مصنوعات جو ایک حقیقت ہیں اگر دو سو سال قبل کے انسانوں کے سامنے بیان کئے جاتے تو وہ عدم مشاہدہ کی وجہ سے ضرور انکار کرتے اور ناممکن اور محال بتلاتے مگر کیا وہ اس انکار میں حق بجانب سمجھے جاتے؟ ہرگز نہیں۔ یہی حال معجزات عجیبہ اور عجائبات آخرت کا ہے۔ جو الٰہی قدرت وحکمت کے کار نامے ہیں یعنی افعال الہیہ ہیں۔ ہم نے خود ان کا مشاہدہ نہیں کیا اور اگر ان کی صحت وصداقت کو تولتے بھی ہیں تو انسانی قوت وقدرت کے ترازو پر تو لتے ہیں، اس لیے انکار پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن کیا انکار صحیح ہے؟ قطعاً نہیں۔ یہ انکار ایسا غلط ہے جیسا کہ چیونٹی کے سامنے کوئی یہ بیان کردے کہ ایسا جانور موجود ہے جو ۲۰ من بوجھ اُٹھا سکتا ہے تو وہ اپنی قوت کو دیکھ کر یقینا انکار کرے گی۔ لیکن فی الواقع ہاتھی اتنا بوبھ اُٹھاتا ہے۔ خواہ چیونٹی کو معلوم نہ ہو۔ الغرض نہ جاننا اور چیز ہے اور غلط جاننا اورچیز ۔دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے اول ماورائے عقل اور دوئم خلاف عقل ہے اس لیے سائنس اور دینِ حقیقی وفطری میں ٹکر نہیں ہوسکتی، اگر دین فطرت کوئی ایسی بات بیان کردے جو سائنسی تجربات کے دائرے سے خارج ہے جیسے معجزات سابقہ اور آخرت کے عجائبات مستقبلہ تو زیادہ سے زیادہ سائنس یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ ان کو نہیں جانتی لیکن یہ نہیں کہ وہ ان کے نہ ہونے کو جانتی ہے۔ علم کا نہ ہونا اور چیز ہے اور نہ ہونے کا علم اور چیز ہے۔ سمندر میں بے شمار مچھلیاں ہیں جن کو عدم مشاہدہ وتجربہ کی وجہ سے ہم نہیں جانتے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا نہ ہونا ہم جانتے ہیں۔ مذہب پر اعتراض کرنے والے عموماً اس فرق سے بے خبر ہیں۔
دین فطرت کا چھٹا معیار :
انسان کی فطرت میں یہ امر موجود ہے کہ جب وہ اپنی کسی مشکل کو حل کردینے میں تمام ظاہری اسباب سے قطعاً نا امید اور مایوس ہوجاتا ہے تو وہ فطرتا ایک مخفی اور نامحسوس قوت کا سہارا لیتا ہے، جس کی قوت کو وہ مادی اسباب سے بلند تر سمجھتا ہے۔ اسی طرح ایک مظلوم اور کمزور انسان کسی طاقتور ظالم کے مقابلہ سے جب بے بس ہوجاتا ہے تو اُسی نامحسوس قوت قاہرہ کا آسرا اس کے قلب کو مطمئن کرتا ہے۔ اس لیے فطری مذہب وہی ہوسکتا ہے جس نے اس فوق الکل قوت قاہرہ اور جامع الکمالات حاکم حقیقی کا ایک ایسا جامع تصور پیش کیا ہو، جو اپنی قوت وقدرت علم وحکمت میں یکتا ہو، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کے لیے سہارا بن سکے اور قلوب کے لیے مرکزِ انجذاب ہو، اس کا علم وقدرت اس قدر وسیع ہو کہ انسانوں کا ہر فرد اپنے آپ کو اس کی زیر قدرت وحکومت سمجھے اور ہر شخص یہ سمجھے کہ میرے جملہ اعمال نیک وبد اس کے دائرہ علم میں ہیں۔ تاکہ وحدانیت الٰہی کا یہ عظیم تصور ہر انسان کی بلندی کر دار کا محرک بن سکے۔ اور دُنیا میں اس تصور کی وجہ سے خیرو صلاح عام ہو اور شرو فساد کا دروازہ مسدود۔ اس فطری ضرورت کی تکمیل کا سامان صرف اسلامی تو حید وتصور الوہیت میں موجود ہے لہذا اسلام ہی فطری مذہب ہے مسیحی الٰہیات کا یہ تصور کہ ایک عاجز انسان جو شکم مادر سے پیدا ہوا اور عام انسانوں کی طرح کھانے پینے یا بالفاظ دیگر کائنات کے ذرے ذرے کا محتاج تھا اور بقول مسیحیوں کے ایک انسانی حاکم کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھا، ایسی ہستی کے تصور الوہیت سے مذکورہ فطری ضرورتیں کیونکر پوری ہوسکتی ہیں۔ یہی حال رام چندر، وشنو، مہادیو، گوتم بدُھ وغیرہ کی الوہیت کا ہے اس لیے قرآن نے ’’لیس کمثلہ شیٔ‘‘ کا اعلان کرکے محتاج مخلوق کی الوہیت کی دھجیاں بکھیردیں اور انسان کو توحید باری جیسا عظیم تصور دیا۔ جس کے جلال وجمال قدرت مطلقہ اور حکمت بالغہ کے یقین سے وہ اپنے اندر ہر وقت ایک عظیم قوت اور پرکیف سکون محسوس کرتا ہے۔
دین فطرت کا ساتواں معیار:
انسانی فطرت اپنی پوری تاریخ میں خیروشر، نیکی وبدی، ظلم وعدل شفقت واذیت کے درمیان فرق کو محسوس کرتی چلی آئی ہے اور اب تک اس فرق کے احساس پر اقوامِ عالم متفق ہیں۔ انسانی فطرت کو صرف ان امور کے درمیان فرق کا احساس نہیں۔ بلکہ فطرت انسانی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسانی زندگی کے دائرے میں نیکی، خیروعدل کا غلبہ ہو اور بدی شر اور ظلم مغلوب ہوں۔ ان دونوں فطری حقیقتوں کے پیش نظر انسان کا وجود فطری ایک ایسے دین اور لائحہ حیات کا متمنی ہے جس میں یہ اصلاحی قوت موجود ہو جو خیر کو شر پر غالب کرسکے۔ کیونکہ انسان کو فطرتاً صلح سے محبت اور فساد سے نفرت ہے۔ اسی جذبہ کے تحت ایسے نظام حیات کی تمنا فطرت میں موجود ہے جس میں اصلاح بشری کا پورا سامان موجود ہو اور ایسا نظام حیات صرف اسلام پیش کرتا ہے۔ اصلاح بشری کے لیے محرک بنیادی طور پر دوچیزیں ہیں۔ ایک ذہن بشری پر حاکمیت قاہرہ محیطہ کا استیلاء دوئم نتائج اعمال کا مؤثر یقین۔ ان دونوں چیزوں کا مکمل نظام صرف دین اسلام میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے عملی دور میں صلاح وتقویٰ، نیکی وخداترسی کے جو نمونے اسلام کی تاریخ نے پیش کیے ہیں ان کی نظیر تاریخِ ادیان میں نہیں ملتی۔ جس کا دوست دشمن سب کو اعتراف ہے۔ صلح، جنگ، خلوت ،جلوت، راحت ومصیبت کے تمام حالات میں ان کی صلاح وتقویٰ وخدا تر سی میں ذرا برابر فرق نہیں آیا ان سب تغیرات سے وہ گذرے لیکن ان کی روح صلاح وتقدس بے داغ رہی، حرص دُنیا جو تمام برائیوں کی جڑ ہے وہ ایسی کٹ گئی کہ بقول امام نووی عمربن عبدالعزیز کے زمانہ میں بیت المال سے محتاجوں پر انہوں نے روپے تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن رقم لینے کے لیے ایک فرد بھی نہ مل سکا۔ جس سے ایک طرف معاشی خوش حالی کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف باطنی طہارت وقناعت کا ثبوت کہ کسی ایک فرد نے بھی دنیا لالچ میں آکر یہ غلط دعویٰ نہیں کیا کہ وہ محتاج ہے۔ گویا ان کے قلوب لالچ سے پاک تھے۔
پہلی چیز کے سلسلے میں اسلام نے خدا کا ایسا عظیم تصور پیش کیا جس کی نظیر کسی مذہب میں موجود نہیں۔ انسان کو اس نے بتایا کہ تیرا اس دنیا میں آنا ایک محدود وقت میں ایک اہم مقصد کے لیے ہوا ہے جس کی ذمہ داری تجھ پر ڈالی گئی، وہ مقصد ایسا ہے کہ جس کو پورا کرنے میں تیراہی فائد ہ ہے اور کسی کا نہیں وہ مقصد یہ ہے کہ انسان اسی دین فطرت پر چل کر دُنیا میں بھی کامیاب زندگی پر فائز ہو اور آگے چل کر اس کی یہ فانی زندگی حیات ابدی میں تبدیلی ہوکر لازوال بن جائے۔ چونکہ یہ نتائج دین خداوندی پر عمل کرنے سے حاصل ہوتے ہیں لہٰذا اسلام نے حاکمیت الٰہی کا وہ تصور پیش کیا جو انسان کو دین پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرسکے۔ دنیا میں جن احکام کی اطاعت کی جاتی ہے، یا تواس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ کسی صاحب اقتدار حاکم کے قوانین ہیں یا کسی حکیم اور داناشخص کے بنائے ہوئے ہدایات ہیں یا کسی مشفق استاد یا والدین کی مشفقانہ پندومو عظت ہیں۔ اگر قوت وقدرت مدارِا طاعت ہے تو خدا کے برابر نہ کسی کی حکومت ہے اور نہ قدرت اور اگر شفقت اور حکمت مدارِا طاعت ہے تو انسان پر خدا سے بڑھ کر کوئی مہربان اور شفیق نہیں اور نہ ایساحکیم۔ حدیث میں آیا ہے کہ ماں اپنی اولاد پر اس قدر مہربان نہیں جتنا کہ اﷲ بندوں پر مہربان ہے۔ جب مذکورہ تین اسباب یعنی حاکمیت، رحمت وحکمت میں سے اگر ایک کمزور سبب بھی کہیں موجود ہو تو انسان خود بخود فطرتاً اطاعت کے لیے جھک جاتا ہے تو خالق کائنات میں جب یہ تینوں اسباب ایک ساتھ جمع ہیں اور علی وجہ الکمال جمع ہیں تو پھر کیوں کر انسان اس کی اطاعت کی طرف نہ جھکتا؟ یہ اطاعت دین کا ایجابی پہلو ہے اور سلبی پہلو یہ ہے کہ انسان حاکم اور مشفق اور حکیم کے احکام کی خلاف ورزی میں اپنا نقصان اور ضرر سمجھتا ہے اس لیے بغاوت اورنا فرمانی نہیں کرتا تو مقام غورہے کہ خدا کی بغاوتِ احکام اور قوانین میں انسان کے لیے کس قدر مضرتیں پنہاں ہوں گی۔ حاکمیت الٰہی کے اس عقیدے اور یقین کا جب روُح انسانی پر پختہ رنگ چڑھ جاتا ہے تو وہ انسان ہو کر فرشتہ صفت بن جاتا ہے اور باقی انسانوں کے لیے مجسمہ رحمت ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام انسانوں کے لیے دنیا کی زندگی بہشت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ دوسری چیز جو انسدادِشر کے لیے ضروری ہے اور اصلاح بشری کے لیے محرک ہے وہ یہ ہے کہ اس فطری دین میں مجازاتِ اعمال کا ایسا مضبوط تصور موجود ہے جس میں خیر کے فوائدونتائج اس قدر پُرکشش ہوں کہ انسان کو اعمال خیر کی طرف کھینچیں اور شر اور بدی کے نتائج اس قدر ہولناک ہوں کہ انسان دنیوی فوائد کے باوجود شر اور بدی کے قریب بھی نہ جاسکے۔ نتائج اعمال کا بیان فطرت انسانی کے لیے نیکی اور اصلاح بھی کر سکتا ہے اس لیے دین فطرت میں ترتیب نتائج کی معقولیت اور ان نتائج کی عظمت شان کیفاً و کماً ہر لحاظ سے موجود ہونا چاہیے۔ نتائج اعمال کی معقولیت کے سلسلے میں اسلام نے یہ ذہن نشین کرایا کہ آئندہ دور کی زندگی میں جنت کی پُر مسرت ابدی حیات دین الٰہی پر عمل کرنے کا لازمی نتیجہ ہے اور دوزخ کی پُر آلام زندگی دین فطرت کے ترک کا لازمی اثر ہے۔ گویا اعمال نیک میں حیات جاو دانی کے خواص مضمر ہیں او ربدی میں ہلاکت جیسے معجون جواہر میں قوت اور سنکھیا میں ہلاکت کی خاصیت پوشیدہ ہے اور جوکوئی اس کو کھالیتا ہے وہ اس کے خواص فطری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بلکہ اعمال چونکہ اجسام کی نسبت لطیف ہیں اور ہر لطیف چیز کی تاثیر قوی ہوتی ہے۔ اس لیے اجسام کی نسبت اعمال کے نتائج میں قوت بھی ہے اور دوام بھی۔ اس لیے اس کے ظہور کامل کے لیے زندگی کا آنے والا دائمی دور حیات مقرر کیا گیا ہے اور اس دور فانی میں اس کو تحت الشعور نہیں لایا گیا۔ پس مجازا ۃ اعمال کا لازمی خاصہ ہے، منتقمانہ کار روائی نہیں۔ اور اگر ہو بھی تو یہ فطری انتقام ہے قہری نہیں۔ اس کے علاوہ نتائج خیر وشر اگر محدود الوقت ہوں تو وہ دنیوی اصلاح کے لیے کافی نہیں۔ اسی طرح اگر ضعیف الا ثر ہوں جب بھی اصلاح بشری کے لیے فطرتاً کافی نہیں۔ کیونکہ نتائجِ اعمال آئندہ دور میں مرتب ہوں گے اور انسان کو نیک اعمال کے لیے جہاں دُنیا ہی میں اپنے بہت سے فوائد مر غوبات اور خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے اگر مستقبل کے فوائد کو حال کے فوائد پر بلحاظ اثر و وقت برتری حاصل نہ ہو تو انسان نیکی کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اسلام نے نعماء جنت اور آلام نار کی برتری اور دوام کا اعلان کیا تاکہ انسان مستقبل کے قوی یقین اور دائمی فوائد پر حال کے چند روزہ معمولی فوائد کو قربانی کرنے کے لیے آمادہ ہوسکے۔ اور یہی قربانی اور ایثار بشریت کی اصلاح وخوشی کا بنیادی سبب ہے۔
دین فطرت کا آٹھواں معیار:
انسان فطرتاً دو حیثیتں رکھتا ہے۔ ایک اپنے اندر کے اعتبار سے کل ہونے کی حیثیت اور دوئم پوری کائنات کا ایک حصہ ہونے کے اعتبار سے جزو کا ئنات ہونے کی حیثیت۔ فطری مذہب وہی ہوگا جس نے انسانی فطرت کے دونوں پہلوؤں کے فرائض کو متعین کردیا ہو۔ انسان بحیثیت کل ہونے کے جسم وبدن رکھتا ہے۔ اس لیے اس لحاظ سے وہ طبیعات کا موضوع بحث ہے، صاحب شعور وارادہ بھی ہے اس حیثیت سے حیوانیات کا موضوع ہے اور حیاتیات کے دائرہ میں آجاتا ہے۔ اجتماعی ضرورتوں کے پیش نظر وہ تمدن کامحتاج ہے اس لیے وہ عمر انیات کا موضوع بحث ہے۔ خوراک وپوشاک ودیگر ضروریات کی طرف محتاج ہونے کی وجہ سے وہ معاشیات کا موضوع بحث ہے۔ اس کے علاوہ انسان ایک اخلاقی حس بھی رکھتا ہے اور اس کو ماوراء الطبیعاتی ہستی کی بھی جستجو ہے اس بناء پر وہ روحانیت کا بھی موضوع بن سکتا ہے۔ گویا ان تمام موضوعات کے اعتبار سے انسان ایک کل ہے لہٰذا انسانی زندگی کے مسائل حل کرنے میں اس کی تمام حیثیات پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے تاکہ اس کی حقیقی خوشحالی کی دریافت ممکن ہوسکے۔ لیکن دور حاضر اور خاص کر مغرب کا تقسیم پسند مزاج اس پر بلحاظ کل اور ہمہ جہتی کے نگاہ ڈالنا پسند نہیں کرتا بلکہ انسان کی ایک جہت وحیثیت کو لے کر انسانی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا معاشی حیثیت یا اس کی حیوانی و عمرانی حیثیت کو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باوجود پوری جدوجہد کے اس کو انسان کے کسی ایک مسئلے کو حل کرنے میں کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ ان حالات میں یورپ کی مثال اس ڈاکٹر کی ہے کہ وہ کسی انسان کے دماغ کی بیماری کا علاج صرف دماغ کی حیثیت سے تشخیص کردے اور اس کے مطابق دوائیں استعمال کرانا شروع کردے لیکن دواؤں کے مسلسل استعمال کے باوجود مرض میں کوئی فرق نہ آئے۔ جو دلیل ہے کہ اس کی تشخیص ہی سرے سے غلط ہے اس لیے کہ اس نے صرف دماغ کی حیثیت سے تشخیص مرض کی حالانکہ دماغ کا تعلق معدہ سے بھی ہے جگر سے بھی اور دل کے اعصاب سے بھی اور ان تمام اعضاء کے لیے دماغ بمنزلہ ایک کل کے ہے۔ اس لیے باقی متعلقات سے دماغ کو الگ کرکے صرف دماغ کی حیثیت سے اس کا علاج کرنا نامعقول ہے۔ بعینہ یہی حال ہے انسان کا جب تک انسان کے کل حیثیات بلکہ اس کی زندگی کے سب ادوار دنیا، برزخ آخرت پیش نظرنہ ہوتو اس کی منفعت ومضرت کی صحیح تشخیص نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے انسانی فطرت کی تمام حیثیات واد وار زندگی کے پیش نظر روحانی پہلو کے اعتبار سے اخلاق وعقائد وعبادات کے احکام دیے، حیوانات کے اعتبار سے حلال وحرام جانوروں کے احکام صادر کیے، معاشیات کے اعتبار سے اکتساب رزق اور تقسیم دولت کے منصفانہ ہدایات واحکام دیے اور متمدن ہونے کی حیثیت سے معاملات کے عادلانہ قوانین نافذ کیے کہ دنیا میں خوشحالی اور امن ہو اور آخرت کی پُرکیف اور دائمی زندگی کے بھی وہ گر اور طریقے بتلائے جو صرف اسلام ہی کا حصہ ہے۔ اور یہ سب قوانین ایسی جامعیت اور معقولیت کے حامل ہیں کہ رو زبروز جدید تجربات کی روشنی میں بھی ان کی افادیت کے نئے نئے پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔
انسان کی دوسری حیثیت اس کے جزکائنات ہونے کی حیثیت سے ہے یعنی پوری کائنات کا وہ ایک اہم جز ہے۔ اس حیثیت سے انسان کے لیے دوقسم کے فرائض کا تعین ضروری ہے (۱): کائنات سے اس کا ربطہ، (۲): خالقِ کائنات سے اس کا تعلق۔ اسلام اور قرآن نے قسم اوّل کے متعلق اعلان کیا: ’’خلق لکم مافی الارض جمیعا‘‘، ’’وسخرلکم مافی السمٰوات والارض‘‘ یعنی انسان کے لیے پوری کائنات علوی ،سفلی، خادم کی حیثیت رکھتی ہے اور انسان ان سب کا مخدوم ہے۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ کائنات کو اپنا خادم سمجھے اور کائنات کے اندر قدرت کے ودیعت کردہ ذخائر سے استفادہ کرے لیکن ان کو اپنا مخدوم ومقصود نہ بنائے۔ اور خالق کائنات سے اس کا تعلق خاد مانہ اور غلامانہ ہے اور یہی تعلق انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ ’’وَما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ یعنی جنات اور انسانوں کی تخلیق خالق کائنات کی بندگی کے لیے ہوئی ہے۔ اگر انسان نے خدا کی بندگی اور اطاعت کو چھوڑا تو وہ اپنی زندگی کے مقصد سے محروم ہوا۔ یہ اس کی سب سے بڑی شقاوت ہوگی اور جس کا اثر حیات ابدی سے محرومی اور آلام ابدی میں مبتلا ہونے کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ اس بے لگام زندگی سے خود غرضی اور حرص اور ذاتی منفعت کا ایسا زہر انسان میں پیدا ہوگا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے لیے مار وکژدم سے زیادہ مضرثابت ہوگا اور انسان کی فطری امن پسندی کا کار خانہ درہم برہم ہو جائے گا۔ چنانچہ آج یورپ کی لادینی سیاست اور خدا فراموش نظام تعلیم کے اثرات سے انسانی تباہی کا یہ نظارہ ہمارے سامنے ہے۔ بقول اقبال:
یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد زیر گردوں رسم لادینی نہاد
گرگے اندر پوستین برّہ ہر زمان اندر تلاش برّہ
مشکلات حضرت انساں ازوست آدمیت راغم پنہان ازوست
جب تک یہ لادینی نظام درہم برہم نہ ہوگا انسان کو کبھی چین نصیب نہ ہوگا،
گفتند: جہانِ ما آیا بتو می سازد گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
دین فطرت کا نواں معیار :
تحفظ اور امن انسان کی فطرت میں داخل ہے اور جس طرح انسان کے لیے صحتِ بدن فطری چیز ہے اور مرض وبیماری اس کی فطرت کے خلاف چیز کا نام ہے اسی طرح انسان فرد ہو یا جماعت جب تک دائرہ حفظ وامن کے اندر ہو تو فطری حالت پر ہے اور جب اس کی ذات،وقار، عزت ومال کی حفاظت دامن کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ اُس کو اپنے فطری تقاضا کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کی مدافعت پر آمادہ ہوجاتا ہے اور جنگ وجدال و خو نریزی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ جب مرض اس کی فطری صحت کو بگاڑتا ہے تو وہ مدافعت مرض کی کوشش کرتا ہے۔ اس امر کے پیش نظر انسان کا فطری مذہب وہ ہے جو انسان کے فطری تقاضائے امن کو پورا کرتا ہو اور یہ مذہب صرف اسلام ہے۔ اس لیے اسلام انسان کا فطری مذہب ہے۔ امن اور حفاظت حقوق کے لیے سب سے پہلے داخلی انتظام کی ضروریات ہے بعدازاں خارجی انتظام کی۔ داخلی انتظام کے سلسلے میں سب سے اہم امر خود انسان کے ذہن وضمیر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جب تک باطن انسان کی اصلاح نہ ہوتو بیرون ازانسان خواہ لاکھوں اصلاحی قوانین بن جائیں انسان کی ایسی اصلاح نا ممکن ہے جس سے امن قائم ہو اور ظلم خلاف حقوق کا انسداد ہو۔ خواہ قوانین حکومت کے ہوں یا دین کے، کیونکہ انسانی اعمال کا اصل سرچشمہ انسان کا ذہن اور ضمیر ہے۔ جب سرچشمہ ہی گد لاہو تو امن وحفظِ حقوق کا صاف پانی کیونکر اس سے پھوٹ سکتا ہے۔ اس امر کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آج کل قوانینِ امن کی کس قدرکثرت ہے لیکن انسانی امن ناپید ہے۔ اسی راز کے پیش نظر اسلام نے قیام امن واصلاح معاشرہ کا آغاز باطن انسان سے کیا ہے اور اس اصلاح کے لیے دوچیزیں بنیادی قرار دی گئیں۔ ۱) توحید الٰہی کا پختہ یقین ۔ ۲) توحید بشریت کامضبوط تصور ۔
قرآن نے اعلان کیا: ’’ انما الٰھکم الہ واحد‘‘ کہ تمام انسان ایک حاکم حقیقی کی رعیت اور بندے ہیں اور ان کا خالق ومالک ایک ہی ذات ہے جو ہر صفت کمال سے موصوف اور نقص سے بری ہے۔ اب جو کوئی فرد یا جماعت یا حکومت کسی انسان پر ظلم کرے یا حق تلفی کرے تو وہ اس حاکم ومالک حقیقی کی بغاوت کرتا ہے جس کی گرفت سے ظالم کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ وہ ایک ہی ہے اس کا کوئی مقابل نہیں جو ظالم کو پناہ دے سکے۔ اسلام نے یہ تصور بھی دیا کہ ظالم جو کچھ کر رہا ہے وہ اﷲ جل مجدہٗ کے علم سے پوشیدہ نہیں بلکہ سب کچھ وہ اُس کے سامنے کر رہا ہے۔ فلا تحسبن اﷲ غافلاً عما یعمل الظالمون ۔اعتقادِ توحید الٰہی درحقیقت انسان کے قلب وضمیر اور باطن میں ایک باخبر اور ہمہ وقت حاضر وناظر اور فوق الکل حکمران ہے جو اس کے اعمال کی نگرانی کرتا ہے۔ خواہ تنہائی میں ہویا مجمع میں، خلوت میں ہو یا جلوت میں…… اس حاکم حقیقی کی گرفت کی تو یہ شان ہے:’’ واتقو ایوماً لاتجزی نفس عن نفس شیئاً ولا یقبل منھا شفاعۃ ولا یوخذ منھا عدل ولا ھم ینصرون‘‘ (سورۂ بقرہ ۱۵)۔ یعنی ہر حال میں انسان اس اعتقاد ویقین کے اثر سے محسوس کرتا ہے کہ جُرم کی صورت میں ایسا حاکم اس کو دیکھ رہا ہے جس کے آگے نہ اثبات جرم کے لیے شہادت کی ضرورت ہے اور نہ ہی وکیلوں کی جرح کار آمد ہوسکتی ہے۔ نہ سفارش ورشوت چل سکتی ہے، نہ کسی زور آور کا زور سزا اور جرم سے بچنے کے لیے کار آمد ہے۔ یہ سب ذرائع وہاں بے کار ہیں، جو انسانی حاکم کی گرفت سے بچنے کے لیے عام طور پر کار آمد سمجھے جاتے ہیں اور جن کی اُمید پر مجرم اقدامِ جرم کی جرأت کرتا ہے۔ تاریخی حقائق گواہ ہیں کہ تو حید الٰہی کے اس عظیم تصور کا رنگ جن کے دل ودماغ میں راسخ ہو گیا وہ خدا ترسی اور نیک عملی کے ایسے نمونے بن گئے کہ گویا انسانوں کی صورت میں زمین پر فرشتے پھر رہے ہیں۔
دوسری چیز انسانی وحدت کا یقین ہے۔ یورپ نے وحدت انسانی کو پارہ پارہ کردیا اور رنگ قوم وطن کے امتیازات کی بنیاد پر ایک انسانیت سے صدہاقو میں بنائیں اور ایک کو دوسرے سے لڑایا اور اب تک لڑا رہا ہے لیکن اس کے باوجود نمائش کے لیے امن کا نعرہ بھی بلند کر رہا ہے۔ اسی طرح روس نے بھی انسانیت کو دو محاذوں میں تقسیم کیا۔ امراء وغربا اور ان دونوں طبقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار کردیا اور انسانی کشت وخون کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ چنانچہ روس نے قیامِ کمیونزم کے لیے صرف ابتدائی ایام میں 19لاکھ افراد کوموت کی سزادی، ۲۰ لاکھ افراد کو مختلف سزائیں دیں اور پچاس لاکھ افراد کو جلاوطن کردیا گیا (سرمایہ دار اور اشتراکیت صفحہ ۵۲)کو ریا کی معمولی جنگ میں مذکورہ طبقاتی تفریق کی بنیاد پر ۲۵ جون ۵۰ء سے ۱۴مئی ۱۹۵۲ء تک پچاس لاکھ مرد عورتیں بچے ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ مجروح ہوئے۔ (رپورٹ مندرجہ پاسبان کوئٹہ، ۲۰مئی ۵۲ء) اسی طبقاتی جنگ میں چین میں ڈیڑھ کروڑ زمینداروں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ (پیرس کی اتحادی اسمبلی ۳ دسمبر ۱۹۵۰ء میں چینی نمائندہ کا بیان مندرجہ انجام ۵ دسمبر ۱۹۵۱ء) اسلام نے قیام امن کی بنیادی اساس کو استوار کرنے کے لیے وحدت بشری کا ان الفاظ میں اعلان کیا۔ ’’انا خلقنا کم من ذکر وانثی وجعلنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا، ان اکرمکم عند اﷲ اتقاکم‘‘ اس آیت میں بالترتیب تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے (۱) انسانی وحدت گویا افراد انسانی، ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی کنبہ ہیں۔ (۲) قومی اورنسلی امتیازات تعارف کے لیے ہیں۔ تحارب یعنی باہمی جنگ وجدال کے لیے نہیں (۳) انسانی افراد میں کوئی چیز معیار شرافت نہیں بجز خدا ترسی اور نیک کرداری۔ اگر ان تینوں امور پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے تو دنیا سے آج ہی تمام فسادات اور بدامنیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور انسان اپنے فطری امن کو پاسکتا ہے۔ بین الاقوامی اور بین الملکی امن کے لیے یہی ایک علاج ہے کہ کل قومیں اور حکومتیں اپنے بادشاہ حقیقی اور حاکم اصلی کی ماتحتی تسلیم کرلیں اور اسی کے قانون کے مطابق عمل اور برتاؤ کریں او رقومی وطنی، نسلی جانبداری تینوں کو توڑ دیں، خدا ترسی اور نیکو کاری کی حوصلہ افزائی کریں اور اسی کو معیار شرف وفضیلت تصور کریں تاکہ موجودہ خدا فراموش اور بے لگام حیوانی زندگی اور اس سے پیدا شدہ فسادات اور تباہیوں کا خاتمہ ہوسکے، جو غیر حق کی حاکمیت کا لازمی نتیجہ ہے۔
غیر حق چوں ناہی و آمر شود زور ور بر ناتواں قاہر شود
ہم مسلمانان افرنگی مآب چشمۂ کوثر بجویند از سراب
حکمتے کو عقدۂ اشیا کشاد با تو غیر از فکر چنگیزی نداد
می نگنجد آنکہ گفت اﷲ ہو در حدود ایں نظام چار سو