حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اﷲ علیہ قسط نمبر (1)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدِلِلّٰہِ الَّذِیْ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ۔ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
اصل مقصود کی تحقیق سے قبل ان تین الفاظ کی تشریح ضروری ہے تاکہ اصل مقصود سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسلام ، دین اور فطرت اسلام از روئے لغت نام ہے دل اور زبان اور عمل سے اﷲ کے فیصلوں کے ماننے کا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ذکر ہے۔
اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ اسی طرح وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَالْاَ رْضِ (مفردات راغب)
دین معنی ہے اطاعت خداوندی اور انقیاد شریعت کے جیسے قرآن میں ہے۔ ’’وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ اَیْ طَاعَتُہٗ۔ فطرت کا معنی ہے معرفت الٰہی کا وہ میلان جو انسان میں پیدائش کے وقت سے مرکوز ہے یعنی وہ تخم ہدایت اور اخلاقی حسِ جو انسان کے اندر آغاز آٓفرنیش سے رکھا گیا ہے۔ اب ان تین الفاظ کی تشریح کے بعد ہمارے عنوان کا مفہوم یہ نکل آیا: کہ فطرت انسان میں طاعت خداوندی اور اتباع قانون الٰہی کا جو جذبہ موجود ہے وہ صرف اسلام سے پورا ہوتا ہے یا غیر اسلام سے اگر پہلی شق ہے تو اسلام دین فطرت ہے ورنہ نہیں۔ اسلام کے دین فطرت ہونے سے قبل اس امر کے ثابت کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا نفس دین کا تقاضا انسانی فطرت میں داخل ہے!
نفس دین کا تقاضا انسانی فطرت ہے :
دین انسان کا فطری تقاضا ہے، دین کے فطری ہونے کا پہلا معیار یہ ہے کہ انسان حیوانیت اور مَلَکیت کا ایک مجموعہ ہے اس لیے وہ حیوان مطلق سے اشرف ہے، اورمَلَکیت کے انضمام سے اس کو عام حیوانات پر برتری حاصل ہے اور اسی مَلَکی اور روحانی جُز کے ضمیمہ نے اس کو انسان اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان میں فطری طور پر حیوانی تقاضے موجود ہیں مثلاً کھانے کی خواہش ، پینے کی خواہش اور بلوغ کے بعد صنفی خواہش۔ قدرت نے کرۂ زمین پر اس کی ان پست ترین حیوانی تقاضاؤں کی تکمیل کا سامان مہیا کردیا ہے۔ یعنی پینے کے لیے پانی کھانے کے لیے غذا صنفی خواہش کی تکمیل کے لیے صنف لطیف۔ لیکن اس میں عام حیوانات سے بڑھ کر ایک اور تقاضا اور خواہش بھی موجود ہے وہ محبت الٰہی اور معرفت خداوندی کی تڑپ ہے جس کا اظہار وہ اپنی پوری تاریخ میں کرتا آیا ہے۔ یہودونصاریٰ کے گرجے، ہندؤوں کے مندر، مسلمانوں کی مساجد، بدُھ ودیگر مذاہب والوں کے معاہد اس فطری جذبہ کے اظہار کے مظہر وذرائع ہیں اس لیے ضروری ہوا۔ کہ قدرت کی طرف سے انسان کے اس شریعت اور روحانی جذبہ اور تقاضا کی تکمیل کا بھی اس نے کوئی نہ کوئی انتظام کردیا ہوگا اور وہ انتظام دین الٰہی ہے جس سے اس کی روحانی پیاس بجھتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دین کا تقاضا انسان کے لیے فطری ہے۔
دین کے فطری ہونے کا دوسرا معیار :
فطری امور کی جانچ کے لیے سب سے بڑا حکیمانہ اور فلسفیانہ معیار یہ ہے کہ انسانی اقوام وافراد جو مختلف خصوصیات وامتیازات کے حامل ہیں ان میں سے ان خصوصیات اور امتیازات کو حذف کردینے کے بعد جو امور سب میں مشترک باقی رہ جاتے ہیں وہ امور فطری ہوتے ہیں۔ مثلاً انسانوں کے مختلف اقوام وافراد کے کھانے پینے، بیاہ شادی، رہن سہن پوشاک کے ڈھنگ اور طریقے مختلف ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے ممتاز اور مغایرہوتے ہیں۔ لیکن نفس خوراک، پوشاک، نکاح، مسکن سب اقوام میں مشترک ہیں چاہے طرز مختلف ہو۔ لہٰذا نفس کھانا پینا، پوشاک شادی بیاہ اور مسکن کی ضرورت فطرت انسان میں داخل ہیں اور امور فطریہ کہلاتے ہیں۔ اسی قانون کے مطابق مختلف اقوام کے مختلف ادیان ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن نفسِ دین کا وجود سب میں مشترک ہے۔ کیونکہ خصوصیات دینی کو حذف کردینے کے بعد نفس دین باقی رہ جاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین انسان کا فطری تقاضا ہے اور اسی فطری دین کی طلب اور تڑپ سے یہ مختلف دین پیدا ہوئے ہیں جن میں فطری دین صرف ایک ہے اور باقی ادیان اس فطری تقاضا کی خود ساختہ تخلیق ہیں۔
دین کے فطری ہونے کا تیسرا معیار :
کائنات میں شرف وفضیلت کے اعتبار سے مختلف مدارج مشاہدۃً موجود ہیں۔ مثلاً جمادات، زمین پہاڑ وغیرہ جو سب سے کم درجہ کی مخلوق ہیں جن میں وجود اور ہستی کے سوانہ نشوونما موجود ہے اور نہ حس وحرکت ارادی۔ وہ اپنی ہستی کے بغیران تمام کمالات مذکورہ سے محروم ہیں۔ اس لیے وہ سب سے کم درجہ کی مخلوق سمجھے جاتے ہیں۔ نہ ان میں ترقی کے امکانات ہیں نہ شعور وحرکتِ ارادی کی قوت ۔
مقام نباتات :
جمادات سے بڑھ کر شرف فضیلت نباتات کو حاصل ہے جن میں جماداتی ہستی و وجود کے علاوہ ایک اور بلند مقصدیت بھی پائی جاتی ہے جو نشوونما اور ارتقا ہے۔ ہر جماد روزِ اوّل سے ایک حالت پر ہے لیکن اس کے برخلاف نباتات میں شخصی ترقی کی شان پائی جاتی ہے جس سے جمادات محروم ہیں اس لیے نباتات جمادات سے افضل ہے۔
مقام حیوانات:
نباتات کے اوپر حیوانات کا مقام ہے جن میں جمادات ونباتات کی نسبت شان جامعیت موجود ہے اور ان میں اپنے ماتحت دومدارج کی مخلوق (جمادات، نباتات) کی نسبت بلند مقصدیت پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کو جمادات ونباتات پر برتری حاصل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حیوانات میں جمادی ونباتی کمالات کے علاوہ ایک زائد کمال بھی موجود ہے اور وہ شعور واحساس وحرکت ارادی اور عقل معاش ہے۔ علم حیوانات کی تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ ان میں پورا نظام زندگی موجود ہے۔ بالخصوص چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں پورا معاشی اور اجتماعی نظام پایا جاتا ہے جس کی تحقیق وتفصیل کا یہ موقعہ نہیں ہے۔
مقام انسان:
انسان مخلوقات الٰہی میں شرف کے آخری مقام پر ہے۔ اس لیے اس میں تمام تحتانی مخلوقات کے کمالات جمع ہیں اور ان سب کے علاوہ اس میں زائد کمال اور بلند ترین مقصدیت بھی موجود ہے جو اس کا مدارِ شرف ہے اور اساسِ فضیلت ہے اور تمام کائنات کا وہ آخری اور جامع نسخہ ہے جس میں مَلَکیت کا جُز بھی شامل ہے او رعقل معاد اور فکر عافیت کا عنصر بھی۔ اسی جز کے اعتبار سے اس میں خالق کی محبت اور اس کی معرفت کا ولولہ پایا جا تا ہے۔ اور یہ وہ مقصدیت ہے جو انسانی شرف وتقدس کا ضامن ہے۔ اگر حقیقت فراموش اور خدا بیزار یورپی نصب العین یعنی حیوانیت کو مقصد انسانی قرار دیا جائے تو انسان کے شرف کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور وہ بقول اہل یورپ کے کہ’’ وہ ایک خوش حال حیوان ہے‘‘ ایسی صورت میں وہ درحقیقت ایک بد حال حیوان ہی ہو کر رہ جائے گا۔ ہم کو اس سے انکار نہیں کہ معاشی خوش حالی ایک حدتک ضروری ہے کیونکہ بقاء انسانی اس کے بغیر ممکن نہیں؛ لیکن انسانی ترقی صرف اسی کو قرار دینا بالکل غلط ہے۔
ہم نے یہ مانا کہ یورپ نے مادی ترقی کے لیے لا محدود ذرائع فراہم کئے ہیں اور کئے جارہے ہیں اور ان میں وہ کھوئے ہوئے ہیں لیکن ان سب ذرائع کا لب لباب اور حاصل معاشی خوشحالی کے سوا کچھ اور بھی ہے؟ قطعاً نہیں اور کیا معاشی خوشحالی سے انسانی مقصدیت اور شرف کی تکمیل ہو جاتی ہے؟ معاشی خوشحالی میں تو اب بھی تمام یورپ سے حیوان مطلق بڑھا ہوا ہے۔ اس لیے مغربی نصب العین کے پیش نظر انسان خوشحالی میں حیوان کا ہمسرنہ بن سکا۔ بلکہ درحقیقت ایک بد حال حیوان ہوکر رہ گیا۔ جس کے ثبوت کے لیے مادی لذت والم میں انسان اور حیوان کے درمیان موازنہ ضروری ہے۔
مادی تصوّر نے انسان کو بد حال حیوان بنایا:
موازنۂ لذت خوراک:
معاشیات میں بڑا مسئلہ خوراک کا ہے۔ جس کو آسانی کے ساتھ خوراک میسر ہو وہ خوشحال ہے اور جس کو تکلیف سے حاصل ہو وہ بدحال ہے آئیے ہم دور حاضر کے مغربی انسان کو اس معیار پر پرکھتے ہیں۔ انسان کو تحصیل غذا کے لیے کس قدر محنت ومشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ اگر وہ مزارع ہے تو پہلے وہ زمین ہموار کرتا ہے۔ پھر اس میں ہل جوتتا ہے۔ پھر غلّہ کاشت کرتا ہے۔ پھر اگر گندم ہے تو تقریباً آٹھ ماہ تک اس کی خدمت کرتا ہے۔ پھر اس کو کاٹتا ہے پھر کھلیان میں لاکر بیلوں یا مشینوں سے اس کو توڑتا پھوڑتا ہے۔ پھر بھوسہ الگ کرتا ہے۔ پھر پیستا ہے پھر گوندھتا ہے پھر پکاتا ہے پھر منہ میں رکھ کر چند سیکنڈ کے لیے لذت اندوز ہوتا ہے۔ اور اگر ملازم ہے تو پہلے اسکول میں بعدازاں کالج میں داخل ہوتا ہے، اگر فیل نہ ہوا تو چودہ سال میں بی اے کرکے منتظر ملازمت ہوتا ہے۔ اگر قسمت نے یاوری کی اور زندہ رہ کر ملازم ہوگیا، تو ایک ماہ کے انتظار کے بعد تنخواہ لے کر آٹا گوشت تر کاری لاتا ہے۔ گویا دور حاضر کا انسان روزی کے لیے محنت و مشقت کے ان تمام مراحل سے گزر کر روزی کو پہنچتا ہے لیکن سمندر کی مچھلیاں، ہوا کے پرندے بلکہ گائے بیل بھی کیا روزی کے لیے اتنی مشقت کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیا بیل نہیں دیکھتے کہ وہ بلازراعت وتجارت وملازمت اور بغیر بی اے پاس کئے جنگل کے خود رَوگھاس کے میدان میں مُنہ ڈال دیتا ہے اور اپنا نوالہ اُٹھا لیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ حیوان مطلق کا کھانا معمول ہے اور ہمارا کھانا عمدہ تو یہ سوال حیوان مطلق مثلاً بیل سے پوچھنے کا ہے کہ کیا اُس کو پلاؤ، شامی کباب اور پڈنگ زیادہ مرغوب ہیں یا ہری گھاس۔ کیونکہ لذتِ غذا امرا ضافی ہے۔ اس اعتبار سے حیوان مطلق مغربی نظریہ حیات پر ایمان رکھنے والوں سے زیادہ خوش قسمت ہے اور لذتیاتی نصب العین کے پیش نظر دور حاضر کے انسان سے حیوان زیادہ کامیاب ہو۔
موازنۂ لذت جماع:
یہ معاملہ کھانے ہی کے ساتھ نہیں بلکہ صنفی لذت کی تحصیل میں بھی حیوان کو جس قدر سہولت حاصل ہے انسان کو نہیں۔ انسان از دواجی لذت کی تحصیل کے لیے شادی کی شرائط کی تکمیل اور بعدازاں بیوی اور اولاد کی روزی کمانے کے لیے کس قدر پریشانیاں اٹھاتا ہے لیکن اسی قسم کی لذت حاصل کرنے کے لیے حیوانات کو کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ بنا بران مادی تصور اور لذتیاتی مقصد کے پیشِ نظر دور حاضر کا انسان ایک لاکھ برس میں بھی حیوانِ مطلق کے مقام کو نہیں پاسکتا۔ اسی لیے قرآن حکیم نے ایسے مادی نظریہ رکھنے والوں کے حق میں فرمایاہے: اُوْلٰئِکَ کَالْاَ نْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ‘‘ کہ وہ حیوانات کی طرح نہیں بلکہ ان سے بہت نیچے ہیں ایک دوسرے مقام پر فرمایا اُوْلٰئِکَھُمْ شَرُّالْبَرِیَّہ وہ تمام مخلوق سے بدتر ہیں۔
مادی انسان اور حیوان کے غم میں مواز نہ
موازنہ غم: لذت یا بی میں مادہ پرست انسان سے ہم نے حیوان مطلق کو فائق ثابت کیا۔ اب ہم غم اور رنج میں دونوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ غم اور رنج چونکہ شعور پر مبنی ہے اورا نسان کا شعور حیوان مطلق سے تیز اور قوی ہے لہٰذا انسان مصائب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور حیوان مطلق میں یہ شعور بہت ہی کم ہے اس لیے تاثر بھی کم ہے۔ مثلاً انسان کو مستقبل کے خطرہ کا شعور ہوتا ہے لہٰذا وہ خطرہ کے وقوع سے قبل بہت پریشان رہتا ہے۔ ڈرتا ہے کہ کہیں ملازمت نہ چلی جائے، کہیں تجارت میں نقصان واقع نہ ہوجائے ، کہیں فصل کو نقصان نہ پہنچ جائے، کہیں رعیت بغاوت نہ کر دے، کہیں دشمن حملہ آور نہ ہو…… لیکن حیوان مطلق ان تمام خطرات اور اُن سے ملحق سارے غموں سے بالکل فارغ ہے۔ اسی طرح کسی انسان کا بیٹا مرجاتا ہے، ماں یا بیوی مرجاتی ہے، بہن یا بھائی مرجاتے ہیں تو مدتوں مغموم رہتا ہے۔ کیونکہ انسان کے شعور میں پائیداری ہے۔ برخلاف حیوان مطلق کے کہ اس کو ان معاملات میں انسان کا عشر عشیر بھی غم نہیں ہوتا۔ اب بتاؤ کہ اگر صرف مادی لذت وراحت پر کامیابی کا مدار ہے تو حیوان زیادہ کامیاب ہے یا ہم؟ حیو ان کو نہ ماضی کا غم ہے نہ مستقبل کا اندیشہ اور ہم کو سب کچھ ہے۔
کامیاب کا اصلی راز دین فطرت پر عمل کرنے میں مضمر ہے:
دین فطرت کی دو قسمیں ہیں عام، خاص۔ دین فطرت عمومی کل کائنات عالم کا دین ہے۔ عرش سے لے کر فرش تک کائنات کا ذرہ ذرہ قدرت کے احکام تکوینیہ کی بندشوں میں جکڑا ہوا ہے۔
ذرۂ ذرۂ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پردۂ مجبوری وبیچارگی تدبیر ہے
آسماں مجبور ہے، شمس وقمر مجبور ہیں
انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں
کائنات کی مشین کا ایک ایک پرزہ اطاعت حکم تکوینی اور تعمیل فرمان قدرت کے تحت حرکت کر رہا ہے اور اس کی خلافت ورزی کی طاقت اس کو نہیں۔ یہ گویا آئین خداوندی کا جبری نفاذ ہے اور مشیت الٰہی کے آگے کائنات کی پوری مشین سرنگوں ہے۔ اس کو قرآن کے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْ ضِ‘‘۔ یعنی خدا کے اس تکوینی حکم کے آگے آسمان وزمین کی پوری کائنات سرنگوں ہے۔ یہ کائنات کا اسلام عمومی ہے جوکہ جبری اور غیراختیاری ہے۔ اس لیے اس اسلام واطاعت عامہ پر ثواب وعذاب کا ثمرہ مرتب نہیں ہوتا اور اس معنی میں پوری کائنات مسلم اور تابع فرمان ہے۔
اسلام خصوصی:
اسلام خصوصی قانون الٰہی کی اس اطاعت کا نام ہے جس میں ہمارے اختیار کو دخل ہو۔چاہے ہم اس دین کو اختیار کریں یا نہ، یہی دین احکام شریعت کی تعمیل کا نام ہے اور اسی دین پر فلاح اور عدم فلاح، ثواب وعذاب، جنت ودوزخ کا مدار ہے۔ یہی دین فطرت انسانی میں داخل ہے اور جس طرح طبعی دین کی خلاف ورزی میں تباہی ہے، اسی طرح شرعی دین کی مخالفت میں بھی بربادی اور تباہی ہے۔مثلاً شیر کا طبعی اورفطری دین یہ ہے کہ وہ گوشت کھائے۔ یہ اس کے جسم کی فطری غذا ہے اور بیل کا فطری دین یہ ہے کہ وہ گھاس کھائے۔ اب اگر یہ دونوں فطرت کے خلاف چلنے لگیں، شیر گھاس کھائے اور بیل گوشت تو دونوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی اور دونوں کی نشو و نما کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بعینہ اسی طرح انسان بھی اگر اپنے فطری دین کی خلاف ورزی کرے تو اس کی انسانیت تباہ ہوجائے گی اور اس کی رُوح اور اخلاقی حس کی نشوونما کا خاتمہ ہوجائے گا۔
دین فطرت کونسا ہے؟…… پہلا معیار:
دین فطرت کی شناخت ومعرفت کا پہلا معیاریہ ہے کہ خود اس دین میں بھی فطری دین ہونے کا دعویٰ موجود ہو۔ ایسا نہ ہو کہ خود وہ دین تو اعلان سے خاموش ہو اور اس دین کے پیرو اس کے متعلق اپنی طرف سے فطرت کا دعویٰ ٹھونس رہے ہوں۔ وہ نہ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہوگا جو کسی طرح قابل پذیرائی نہیں اس معیار پر جب ہم غور کرتے ہیں تو کرۂ ارض کے تمام اویان میں کوئی دین ایسا نہیں جس میں اس کے فطری ہونے کا دعویٰ موجود ہو اور خود اس نے دین فطرت ہونے کا دعویٰ کیا ہو بجز دین اسلام کے کہ اُس نے صاف اعلان کیا ہے۔ فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ۔ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ ‘‘ سورۃروم پارہ ۲۶)
(یعنی سیدھا کر اپنا رخ دین اسلام کی طرف یکسو ہوکر ۔یہی دین فطرت ہے جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ تم اس کو اپنے اختیار اور ماحول کے اثر سے خراب نہ کرو، یہی انسان کی اصلی زندگی کو قائم کرنے والا دین ہے لیکن اکثرلوگ اس راز کو نہیں سمجھتے)۔
دین فطرت کا دوسرامعیار: فطرت انسانی چونکہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہے اور دین ہر ایک دوسرے کے اثرات سے متاثرلہٰذا دین فطرت وہی ہے جس میں دونوں کی ترقی کا سامان موجود ہو ۔کیونکہ ترقی انسانی کی تکمیل اسی سے ہوسکتی ہے ۔جبکہ یہ ضروری ہے تو وحی الٰہی میں مادی وروحانی، دنیا وآخرت دونوں کے ارتقاء ونشوونما کے لیے احکام وہدایات موجود ہوں تاکہ فطرت انسانی ہمہ جہتی کے ساتھ ترقی پذیر ہوسکے۔ بدن اور روح دونوں کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے، اور کسی ایک کی بالیدگی کو اس میں نظر انداز نہ کردیا گیا ہو۔ اس معیار پر ہم جب ادیان عالم پر نظر ڈالتے ہیں ہندو مذہب، بدھ مذہب، جین مذہب اور مسیحت اور اسی طرح یونان کے سقراطی اور افلا طونی تصور میں دین کے لیے دنیا اور بدن انسانی کی مادی ضروریات کو ایک قلم ترک کردینے کی تلقین پر زور دیا گیا ہے اور ترک تعلقات، نفس کشی اور رہبانیت کو دین کا مرکزی نقطہ قرار دیا گیا ہے۔ جو درحقیقت فطرت انسانی کے خلاف جنگ ہے اس لیے اسلا م نے رَھْبَا نِیّۃً اِبْتَدَعُوْھَا مَاکَتَبْنَا ھَا عَلَیْھِمْ (القرآن) اور وَلَا رَھْبَا نِیَّۃً فِی الْاِسْلَامِ )(الحدیث) کہہ کر ان ادیان کے بنیادی نقطۂ فکر کی تردید کی۔
ان مذکورہ ادیان کے خلاف سو فسطائی تصور دین ہے جو اس وقت یورپ اور امریکہ بلکہ ایشیا کے مغرب زدہ طبقہ کا عملی مذہب ہے۔ اس میں روح کو نظر انداز کرکے سارا زورِ فکر بدن انسانی کے مادی فوائد پر مرکوز کیا گیا ہے اور لذتیت کو اپنا نصب العین اور محور فکر بنا دیا گیا۔ حقوق خدا، فکر آخرت، پاکیزگی رُوح کا تصور ان کے نزدیک قابل توجہ نہیں ان کا نظریہ حیات بقول اکبر یہ ہے:
چند دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پُھول جا
اس حیوانی اور خالص مادی مقصد فکر کا نتیجہ ہے کہ یورپ کو بے انتہا مادی ساز وسامان کے ہونے کے باوجود اب تک چین نصیب نہیں ہوا۔ اور مادی فوائد کے باوجود وہ اطمینان قلب کی دولت سے محروم ہے بلکہ اس خالص مادی نقطہ فکر کی وجہ سے دنیا آئے دن کے خودکشی ہلڑبازی، ہڑتالوں، احتجاجی جلوسوں، فکری انتشار، فریب دھوکہ بازی اور ایٹمی جنگوں کے تصور کی وجہ سے ان کے لیے جہنم کدہ بن گئی ہے اور ان کا باطنی اضطراب اس امرکا آئینہ دار ہے کہ ان کی یہ طرزِ زندگی ان کے لیے تہذیب نہیں بلکہ تعذیب ہے۔ مغربی جرمنی کے ڈاکٹر از منسٹر کی جنگ گذشتہ کے متعلق بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق گذشتہ جنگ عظیم میں چھ کر وڑ انسان مقتول اور مجروح ہوئے اورپندرہ کروڑ اشخاص کے گھر جل کر خاک ہوئے، ڈھائی کروڑ افراد جلا وطن ہوئے۔ اور جنگ عظیم کے شیطانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے اس جنگ میں اتنی رقم اور دولت صرف ہوئی جو بلا استثناء اگر انسانوں کی پوری آبادی پر بحساب اڑھائی سو روپے ماہوار فی کس تقسیم کردی جاتی تو ایک سو سال تک پوری انسانی آبادی اس سے خوشحال زندگی بسر کرسکتی تھی۔ یہ ہیں خدا سے بیزار آخرت فراموش، اور بے دین تہذیب کے وہ نتائج جو تہذیب کے نام پر دنیا کو پیش آئے۔ ساری دنیا کی ساری غیر مہذب قوموں کی مجموعی جنگوں کی پوری تاریخ میں ان نقصانات کا دسوان حصہ بھی نظر نہیں آتا۔ تو کیا اس تہذیب کو ہم تعذیب سمجھنے میں حق بجانب نہیں؟
دین فطرت کا تیسرا معیار:
انسان کی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ وہ ہر خیر اور فائدہ کو طلب کرتا ہے اور ہر ضرر اور شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کا یہ فطری جذبہ ناقابل تقسیم ہے۔ آپ کو ایسا کوئی انسان نہیں مل سکے گا جو ہر خیر کی طلب اور ہر شر سے تحفظ کا خواہان نہ ہو۔ بناء برایں دین فطرت وہی ہے جو انسان کے اس فطری جذبہ کاجامع اور مکمل ترجمان ہو۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے کے متعلق خیرو شر کے حدود متعین ہوں۔ خواہ اخلاقی ہوں یا معاشرتی، عدالتی ہوں یا تجارتی، تعزیراتی ہوں یا سیاسی، قومی ہوں یا بین الاقوامی، اخروی ہوں یادنیاوی، الٰہی حقوق ہوں یا انسانی…… اس وقت دنیا میں کوئی ایسا دین نہیں جس میں تمام شعبہائے حیات انسانی کے متعلق جامع ہدایات اور احکام موجود ہوں۔ اگر ہے تو صرف دین اسلام ہے باقی ادیان میں سوائے چند مذہبی رسومات کے اور کچھ نہیں۔ فطرت کی اس آواز اور تقاضاؤں کی تکمیل صرف دین اسلام میں موجود ہے جو اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔ (جاری ہے)