قسط: ۱
مولانا محمد مغیرہ
ایک قادیانی کی طرف سے کیے گئے چند سوالوں کے جوابات:
جامع مسجداحرار چناب نگر میں گذشتہ سال بارہ ربیع الاوّل ۱۴۳۷؍ کو منعقد ہونی والی ختم نبوت کانفرنس عروج پر تھی، میری مصروفیت کی پوزیشن جو ہوتی ہے وہ کانفرنس میں شریک ہونے والے احباب سے مخفی نہیں۔ ایسی حالت میں جھنگ کے ایک کرم فرمانے ملاقات کرتے ہوئے ایک لفافہ میری جیب میں ڈالتے ہوئے کہاکہ کچھ قادیانیوں کے سوالات ہیں جن کا جواب آپ کے ذمہ ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر جب لفافہ کھولا، سرسری نگاہ ڈا لی تو وہی معروف باتیں جو قادیانی تسلسل کے ساتھ ہمیشہ سے کہتے اور لکھتے چلے آرہے ہیں۔ کوئی سر نہ پاؤں، بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں ختم ہوئی، بات سے بات بیمار دماغ میں پیدا ہونے والے فاسد تخیلات ہر قسم کے قانون قاعدہ سے کلیۃً مُبّرا ہر بات کے بعد مولوی ایسے ہیں ویسے ہیں، مولویوں نے دین کا خانہ خراب کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات کے جوابات کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کہ ان کے جوابات تفصیلاً ہمارے بزرگ علماء پہلے دے چکے ہیں اور اس لیے بھی ضرورت نہیں تھی کہ قادیانی گروہ اپنے اختیار کردہ دھرم سے کسی صورت بھی باہر نکلنے کو تیار نہیں اور ان کے نزدیک اسلام وہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے پیش کیا۔ قرآن کی تفسیر وہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے کی، حدیث کا معنی اور مفہوم وہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کہہ چکے اور جو تفسیر قرآن مجید کی اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور آپ کے صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے واسطہ سے امت محمدیہ کو ملی (اور امت محمدیہ اسی تفسیر کو ہی امانتاًاﷲ کی مخلوق کو پیش کرتی چلی آرہی ہے) اور حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم جو اصحاب رسول علیہم الرضوان سے لے کر امت محمدیہ کے تمام طبقات، ائمہ مجتہدین، محدثین چودہ صدیوں سے پیش کرتے چلے آرہے ہیں وہ سب غلط بلکہ قادیانیوں کے نزدیک مولویوں کی غلط تاویلات ہیں۔ اب اس صورت حال میں اگر آپ قادیانیوں کو جواب دیں گے تو ان جوابات کا قادیانیوں کو کیا فائدہ ہوگا۔ ہاں البتہ وہ قادیانی جو اخلاص نیت سے اسلامی تعلیمات سے آگاہی کی فکر دماغ میں رکھتے ہیں اور راہ حق کی تلاش میں ہوں یا وہ مسلمان جو قادیانیوں سے عمومی طور پر ملتے جلتے اور تعلیمات اسلام سے واقفیت نہ ہونے کے باعث قادیانیوں کی روز مرہ ہانکی ہوئی باتوں سے پریشان ہیں انھیں بفضلہ تعالیٰ اس سے فائدہ ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ قارئین محترم! اہل اسلام، اﷲ کے آخری نبی ورسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا نبی ورسول مانتے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر اترنے والی کتاب قرآن مجید کو اﷲ تعالیٰ کی انسانیت کے لیے آخری کتاب ہدایت مانتے ہیں اور اس کی تشریحات جو اﷲ کے آخری نبی فرماگئے ہیں انہی پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیان کردہ تشریحات، آپ کے صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے ذریعے امت کو پہنچیں ہیں اور انھیں پر ہی امت کے تمام طبقات صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، محدثین، مفسرین، مجددّین متفق چلے آرہے ہیں نیز احادیث رسول کا معنی و مفہوم جو امت کے تمام طبقات سے ہوتا ہوا ہمارے پاس پہنچا ہے اسی کو ہی سچا اسلام اور دین حق مانتے ہیں اور چودہ صدیوں سے سنداً بعد سندٍ جو قرآن و حدیث کی بات جس شکل اور جس مفہوم میں اوّل زمانۂ اسلام سے امت کے تمام طبقات مانتے چلے آرہے ہیں، اسی پر گامزن ہیں اور اسی راہ حق سے چمٹے ہوئے ہیں کہ اﷲ کی آخری کتاب میں سے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآءَ ت مَصِیْرًا۔ (النساء، ۱۱۵)
(ترجمہ) جو شخص رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستہ کے سوا کسی اور راستہ کی پیروری کرے اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود بنائی ہے اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ اﷲم اجرنا من النار۔ اور ہر وہ بات چاہے ظاہراً کتنی ہی خوبصورت ہو اور دل کو بھائے بھی مگر اس کا تعلق امت کے تمام طبقات سے ہوتا ہو اﷲ کے آخری نبی ورسول صلی اﷲ علیہ وسلم تک نہ پہنچے اہل اسلام اس کو کسی طور ماننے کے لیے تیار نہ تھے نہ ہی اب ہیں۔
اب آتے ہیں ان سوالات کی طرف جو اس لفافے میں ایک قادیانی نے کیے ہیں اور جواب مانگا ہے۔
۱۔ سب سے پہلے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا سوال ہے۔
اس سے پہلے کہ رفع مسیح علیہ السلام پر بات ہو، یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اﷲ ا ور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام اسلام ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید مسلمانوں کے پاس ایسے باحفاظت موجود ہے جیسے اتاری گئی اور چونکہ قرآن مجید عربی زبان میں ہے اور عربی زبان اتنی وسیع ہے کہ ایک ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہیں اسی لیے قرآن مجید کے اترنے کے ساتھ ہی ابتداً خود صاحب قرآن صلی اﷲ علیہ وسلم نے معانی متعین کر دیے جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے واسطہ سے امت کے پاس آج بھی ایسے ہی محفوظ ہیں جیسے قرآن مجید کے الفاظ محفوظ ہیں۔ تو پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ جیسے قرآن مجید کے الفاظ محفوظ ہیں ایسے ہی قرآن مجید کے الفاظ کے معانی بھی محفوظ ہیں۔
ا گر آج کوئی آدمی اپنی زبان دانی کے زور پر لغت کو سامنے رکھ کر کوئی اور معنٰی مراد لیتا ہے جوکہ خود صاحب قرآن صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں لیے اور آپ سے منقول نہیں ہیں تو اس کی اس کاوش کو ایسے ہی رد سمجھا جائے گا جیسا کہ کوئی قرآن مجید کے الفاظ سے متعلق ہرزہ سرائی کرے۔ دین اسلام کے نام پر اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے جو تعلیمات خواہ عقائد ہوں یا اعمال ، ہر چیز مسلمانوں کے پاس سند کے ساتھ موجود ہے ہر زمانہ میں اسلام کی ہر بات ایسے ہی رہی جیسے آج کے زمانہ میں، اس پر مسلمانوں کو فخر ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق پوری امت مسلمہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا پروگرام بنا کر آپ مکان کا محاصرہ کر چکے تھے، اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھیج کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا جو قیامت سے پہلے زمین پر سیدنا ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی طرح خلیفہ بن کر نزول فرمائیں گے۔ دجال کو قتل کریں گے، چالیس یا پینتالیس سال تک پوری روئے زمین پر حکومت کریں گے، شادی کریں گے، اولاد ہوگی اور پھر ان کو موت آئے گی۔ مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور روضۂ رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام میں مدفون ہوگئے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق یہ عقیدہ من وعن ابتداءِ اسلام سے آج تک مسلمانوں کے پاس موجود ہے اور پوری امت محمدیہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق اسی عقیدہ کو اپنائے ہوئے ہے۔ (اس کی پوری تفصیل احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی تمام تفاسیر میں موجود ہے) جبکہ یہودی قوم آج تک یہی کہتی چلی آرہی ہیں کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا جبکہ قرآن مجید نے صاف طور پر ان کے اس قول قتل مسیح کو نہ صرف یہ کہ لعنتی کہا بلکہ صاف لفظوں میں رد فرمایا۔
قرآن مجید میں ہے کہ یہودیوں کا یہ کہنا:
وَّقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا oبَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًاo (النساء، ۵۸،۱۵۷)
’’ ہم نے اﷲ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کوقتل کردیاحالانکہ نہ انھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیااور نہ انھیں سولی دے سکے بلکہ انھیں اشتباہ ہوگیا اور بیشک اس بارے اختلاف کرنے والے لوگ شک میں پڑگئے۔ ان کے پاس گمان کے اتباع کرنے کے علاوہ کوئی علم نہیں ہے اور یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر سکے بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس اٹھالیا اور اﷲ غالب حکمتوں والا ہے۔
۱: اس آیت کے ترجمہ سے صاف طور پر واضح ہورہا ہے کہ یہود قتل عیسیٰ کے قائل تھے (اور ہیں) جس کی تردید فرما کر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا وہ عیسیٰ کو قتل نہ کرسکے بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ تعالیٰ زبردست طاقت والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے لیے عیسیٰ کواٹھالینا کوئی مشکل کام نہیں اور اﷲ کے کاموں میں حکمت ہوتی ہے۔
۲: یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کے قتل کے مدعی تھے مگر اﷲ تعالیٰ نے قتل کی نفی فرما کر اسی جسم کے رفع کا ذکر فرمایا بل رفعہ اﷲ الیہ معلوم ہوا کہ جس جسم کو قتل کرنے کے یہودی مدعی تھے، اسی جسم کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔ قتل جسم کا ہوتا ہے روح کا نہیں ہوتا۔ روح کا قتل ممکن ہی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ جسم نہیں اٹھایا گیا بلکہ روح اٹھائی گئی ہے تو رفع روح سے مراد موت ہوگی۔ یہی تو یہودیوں کی منشا تھی کہ کسی طریقے سے عیسیٰ علیہ السلامس کو راستہ سے ہٹایا جائے جو یہود کے ہاتھوں نہ سہی خود اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ کو موت دے کر یہودیوں کا راستہ صاف کردیا۔ یہ مفہوم لینا کسی طرح بھی درست اور صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اسی بات کو یوں بیان فرمایا ہے کہ………… ومکرواومکواللّٰہ واللّہ خیر الما کریں کیا اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جائے گا کہ یہودیوں نے عیسیٰ کو قتل کرنے کی تدبیر کی اور اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ کوموت دینے کی تدبیر کی، یہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟لازمی طور پر یہودیوں کی تدبیر اگر عیسیٰ کو مارنے کی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی تدبیر اس کے مخالف ہی ہونی چاہیے اور وہ ہے عیسیٰ کو موت سے بچانا اور اسی کا ذکر………… وما تقلوہ یقینا رفعہ اللّٰہ الیہ میں ہے کہ عیسیٰ کو یہود کے ہاتھوں قتل سے بچا کر اپنے طرف اٹھالیا۔
لفظ رفع کا معنی:
لفظ رفع کا حقیقی معنٰی جس کے لیے یہ وضع کیا گیا ہے وہ ہے کسی چیز کو نیچے سے اوپراٹھانا، جبکہ اس کا مجازی معنی کسی چیز کی عظمت اور درجات کی بلندی کے لیے بولاجانا بھی ہے۔ قرآن مجید میں دونوں یعنی حقیقی اور مجازی معنوں کے لیے رفع کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن کہاں حقیقی او رکہاں مجازی، اس کا فیصلہ بھی ابتداء ہی سے ہوچکا ہے۔
لفظ رفع کے حقیقی معنوں میں استعمال کی چند آیات:
اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ [رعد،آیت:۲] اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستونوں کےn وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَ۔ [بقرہ: آیت:۶۳] اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہدلیا تھا اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا n وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ [یوسف، آیت:۱۰۰]۔ (یوسف علیہ السلام نے) اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا۔
ان تینوں آیات میں لفظ رفع اپنے حقیقی معنٰی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں حقیقی معنی کیے بغیر چارۂ کار نہیں۔ کیا پہلی آیت میں یہ ترجمہ کیا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں کے درجے بلند کیے، دوسری آیت میں یہ ترجمہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کے درجے بلند کیے، تیسری آیت میں یہ ترجمہ کرنا کہ ’’بنی اسرائیل سے پکا وعدہ لیا اور ان پر کوہ طور کے مرتبے کو بلند کیا‘‘ ہرگزدرست اور صحیح نہیں ہے۔
ایسے ہی لفظ رفع مجازی معنٰی میں قرآن مجید میں کل بارہ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ مگر صرف چندآیات پیش خدمت ہیں جہاں لفظ رفع مجازی معنٰی بلندی درجات میں استعمال ہوا ہے۔n رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَات [انعام آیت: ۱۶۵]۔ بلند کیے اس (اﷲ) نے تمہارے بعض کے درجات کو بعض پر۔ n مِنْہُمْ مَنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَات [بقرہ، آیت:۲۵۳]۔ ان میں بعض ایسے ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور بلند کیے ان میں سے بعض کے درجات۔n رَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَات [زخرف، آیت:۳۲]۔ ہم نے بلند کیے ان میں سے بعض کے بعض پر درجات۔
ان مذکورہ تین آیات کے علاوہ جہاں کہیں بھی لفظ رفع مجازی معنٰی بلندیٔ درجات کے لیے استعمال ہوا ہے وہاں ضرور کوئی نہ کوئی قرینہ موجود ہوگا جس وجہ سے رفع کا معنی مجازی کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ جیسے مذکورہ تینوں آیات میں لفظ ’’درجات‘‘ موجود ہے۔
جب یہ بات کھل کر سامنے آگئی کے لفظ رفع کا اصل معنٰی کسی چیز کونیچے سے اوپر اٹھانا ہے جبکہ لفظ رفع مجازی معنی بلندیٔ درجات کے لیے بھی بولا جاتا ہے تو پھر ہر جگہ پر لفظ رفع کے مجازی معنٰی بلندیٔ درجات کرنے پر مجبور کرنا کم علمی اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عربی لغت کے امام، امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں الرفع تارۃ فی الاجسام الموضوعۃ اذا اعلیتھا عن مقرھا نحو ورفعنا قوقکم الطور۔ اٹھانا: کبھی تو نیچے رکھے ہوئے جسموں کو ان کی جگہ سے اوپر اٹھانے کو کہتے ہیں، جیسے رفعنا قوقکم الطور ہم نے تم پر پہاڑ کواٹھایا اور کبھی کسی چیز کی عظمت اوردرجہ کی بلند کے لیے بولا جاتا ہے، جیسے رفعنا لک ذکر ک۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ رفع کا معنٰی حقیقی نیچے سے اوپر اٹھانا ہے اور مجازی معنی بلندیٔ درجات ہے تو آپ ایک دفعہ پھر واپس پلٹیں، آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ کی طرف کہ حقیقی معنٰی اٹھانا کیا جارہا ہے نہ کہ مجازی۔ کیونکہ اگر معنی مجازی کیا جاتا تو بعد میں آنے والے جملہ کان اللّٰہ عزیزاً حکیما معاذ اﷲ بے فائدہ نظر آئے گا کیونکہ رفع روحانی سے مراد موت ہی لی جائے گی۔ اور کسی کو موت دینا تو ایک عمومی بات ہے، اﷲ تعالیٰ کی صفت عزیز کا ذکر پھر بے معنی نظر آرہا ہے۔ ہاں اگر اس کا معنی حقیقی اٹھانا کیا جائے تو پھر یقینا کان اللّٰہ عزیزا حکیما اﷲ تعالیٰ غالب طاقتور اور قوت والا ہے صحیح اور درست ہوگا کہ آسمان پر کوئی نہیں جاسکتا مگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ تعالیٰ یہ کر سکتا ہے کہ وہ ذات طاقتور اور قوت والی ہے۔
جبکہ سیدنا ادریس علیہ السلام سے متعلق قرآن مجید میں صرف رفعناہ مکانا علینا ……ہے اور مکانا علیا بلندیٔ مقام،بلندیٔ درجات کے مفہوم میں ہے جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے رَفَعَہُ اللّٰہ اِلَیہ کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع میں مکان یا درجات کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ تو پھر کیسے سیدنا ادریس علیہ السلام اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو ایک سمجھا جاسکتا ہے البتہ سیدنا ادریس علیہ السلام کا رفع الگ ایک مستقل موضوع ہے اس کو درمیان میں لانا بات کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں۔
[سورۃ مائدہ کی آیت:۱۱۶۔۱۱۷] وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِo مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًامَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ o
اس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا قطعاً کوئی تذکرہ نہیں مگر قادیانی اس آیت میں موجود لفظ توفیتنی کا معنٰی موت کر کے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے کی خام کوشش کرتے ہیں۔ یہ اس وقت ہے جبکہ توقیتنی کا معنٰی موت ہوسکتا ہو، جب اس کا معنٰی موت ہے ہی نہیں تو پھر اس سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی موت پر استدلال پکڑنا کیسے درست مان لیا جائے۔
مسلمان قرآن مجید کی تفسیر وہ مانتا ہے جو خود حضور علیہ السلام نے فرمائی ہو اور آپ کے صحابہ سے منقول ہو اور پوری امت کے مفسرین مجددین کرتے چلے آرہے ہوں۔ آج کے دور کے آوارہ یا آزاد خیال، اﷲ ا ور رسول کی اتباع سے عاری کسی شخص کی بات مان کر ہم نے اپنے لیے جہنم ضرور خریدنی ہے۔ تَوَ فّی کا لفظ وَفٰی سے بنا ہے اور اس کا حقیقی معنٰی کسی چیز کو پورا پورا لینا ہے۔ جبکہ مجازی طور پر نیند اور موت پر بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اپنے حقیقی معنٰی کسی چیز کو پورا پورا لینا اور مجازی معنٰی نیند اور موت کے لیے بولا گیا ہے۔
مجازی معنٰی نیند کے لیے’’ توفی‘‘ کا استعمال:
ھوالذی یتوفّٰکم بالیل [سورۃ انعام:۶۰]۔ (اﷲ) وہ ذات ہے جو تمہیں سلا دیتا ہے رات کو
مجازی معنٰی موت کے لیے لفظ’’ توفی‘‘ کا استعمال:
ومنکم من یتوفی من قبل [سورۃ مومن:۶۷]۔ بعض تم میں سے وہ ہیں جو مرجاتے ہیں پہلے۔
حقیقی معنٰی پورا پورا لینا یا دینے کے لیے لفظ’’ توفی‘‘ کا استعمال:
توفون اجورکم یوم القیمۃ [آل عمران:۸۵]۔ دئیے جاؤ گے پورے پورے اجر قیامت کے دن میں۔
قارئین کرام! یہ بات واضح ہوگئی کہ’’ توفی‘‘ کا لفظ حقیقی اور مجازی اعتبار سے تین معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ توفیتنی جس آیت میں استعمال ہوا ہے یہ آیت آج تو نازل ہوئی نہیں۔ یہ سورۃ مائدہ کی آیت ۱۱۷؍ ہے جو اﷲ کے آخری نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس وقت اس کا معنٰی کیا سمجھا گیا اور کیا معنٰی کیا گیا۔ آج بھی لازماً وہی معنی مراد لیا جائے گا۔مُرورِ زمانہ سے معنی میں تبدیلی کرنا کیسے درست ہے؟ اور اگر آج ہر آدمی کو آزاد کردیا جائے کہ جو کسی کی سمجھ میں آئے، قرآن مجید کے الفاظ کا اپنی رائے کے مطابق ترجمہ یا تفسیر کر لے اور اس کو مان لیا جائے تو معاذ اﷲ قرآن مجید تختۂ مشق بن جائے گا۔ کتاب ہدایت نہ رہے گی۔ کتاب ہدایت اسی صورت میں ہی کہلاسکے گی کہ جو بات روز اوّل کہی گئی ہو وہی قائم رہے، قیامت تک جیسے الفاظ میں تغیر و تبدل روا نہیں۔ ترجمہ و تفسیر میں بھی کسی قسم کا تغیر و تبدل جائز نہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے الفاظ کو اور ان کے ترجمہ و تفسیر کو اسی طرح قائم رکھا جائے گا جس شکل میں اﷲ کے آخری نبی ورسول سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے سپرد کرگئے اور امت کے تمام مسلمان طبقات اسی راہ پر گامزن ہیں۔
تو لیجئے: سورۃ مائدہ کی آیت:۱۱۷؍ میں لفظ توفیتنی کا ترجمہ امت کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے مفسر سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما یوں فرما رہے ہیں (تفسیر ابن عباس) فلما توفیتنی رفعتنی من بینہم: ترجمہ:جب تونے اٹھالیا مجھے ان کے درمیان سے۔ یہ ترجمہ سیدنا ابن عباس فرما رہے ہیں اور وہ صحابی رسول ہیں اور انھوں نے قرآن مجید خودنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پڑھا اور سیکھا تو یقینا ابن عباس کا ترجمہ کیا ہوا وہی ہوگا جو خودرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہوگا۔ اس کے بعد کوئی مسلمان سوچ سکتا ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت میں تو فیتنی کا معنی کوئی اور کرے (جو قادیانیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں) یقینا امت کے تمام مفسرین نے توفیتنی کا معنی وہی اپنایا ہے جو ابھی سیدنا ابن عباس سے منقول ہوا۔ چودہ صدیوں میں امت کے نامور مفسرین کی تفسیروں سے توفیتنی کا معنی پیش کرتے ہیں یقینی طور پر نہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تفسیریں قادیانیوں کے بڑے مراکز میں موجود ہوں گی۔اگر ہمارے لکھے پر ان کو یقین نہ آئے تو کوئی قادیانی ان تفسیروں کو اٹھا کر دیکھ سکتا ہے اگر واقعتا ان کو مذکورہ ترجمہ ہی نظر آئے تو مرزا قادیانی کا اپنی رائے سے کیے ہوئے ترجمہ کو چھوڑ کر سیدنا ابن عباس کے ترجمہ کو اپنا لینا ہی سلامتی کا راستہ ہے۔ اور اسی راستہ پر تمام مفسرین چلتے آتے ہیں اور اگر اس پر آپ آمادہ نہیں ہو رہے تو پھر اپنے ضمیر سے ہی فیصلہ لے لیں کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی قرآن دانی کے مقابلے میں آپ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو کیسے؟یہ تو آپ کی مرضی، آپ یا آپ کا ضمیر اس بارے کیا فیصلہ کرتا ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں چودہ صدیوں کے معروف بڑے بڑے مفسرین کے حوالہ سے توفیتنی کا معنی پیش کرتے ہیں۔
تفسیر مظہری میں ہے: فلما توفیتنی یعنی قبضتنی ورفعتنی الیک
تفسیر بحرالمحیط میں ہے: توفیتنی قبضتنی الیک بالرفع
تفسیر روح المعانی میں ہے:فلما توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الی السماء
تفسیر کبیر میں ہے: فلما توفیتنی فالمراد منہ وفاۃ الرفع الی السماء
امت کے چودہ صدیوں کی ان مذکورہ بڑی تفسیروں میں کیا ہوا ترجمہ، وہی ملا جو سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ پہلے ترجمہ فرما چکے ہیں رفعتنی من بینہم ’’اٹھا لیا تو نے مجھے ان کے درمیان سے‘‘ تو اس سے فلما توفیتنی میں وہی معنی حقیقی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ہی متیقن اور متعین ہوا نہ کہ موت۔ تو اب توفیتنی کا معنی جو سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کیا ہے اس کے مطابق پوری آیت کا ترجمہ کریں، دیکھیں کہ اس آیت میں کہیں وفات مسیح علیہ السلام کا تذکرہ ہے، یقینا نہیں تو پھر قادیانیوں کی دھوکہ دہی اور عیاری پر مبنی اس خیالی معنیٰ کے بل بوتے پر کھڑی کی ہوئی وفات مسیح کی عمارت دھڑام گرگئی تو پھر کیونکر اس آیت کو وفات مسیح علیہ السلام پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی آیت وما محمد الارسول قدخلت من قبلہ الرسل (آل عمران : 144) سے قادیانی لوگ وفات مسیح علیہ السلام ثابت کرتے ہیں اور ’’خلت‘‘ کا معنی موت کرتے ہیں۔ جس سے آیت کا ترجمہ یوں ہوگا ’’نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول، تحقیق فوت ہوگئے ہیں ان سے پہلے سب رسول‘‘ یہاں بھی وہی بات جو مرزا غلام احمد قادیانی نے کہی بے تحقیق اس کو مان کر دوسری ہر بات کی نفی، حالانکہ یہاں ’’خلت‘‘کا معنی موت ہے ہی نہیں۔ اگر قادیانی حضرات نے ایسی اندھی تقلید کرنی ہے تو پھر مندرجہ ذیل آیات میں ’’خلت‘‘ کا لفظ آرہا ہے۔
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ [آل عمران:137]
قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ [الاعراف :38]
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھِمُ الْمَثُلٰتُ [الرعد:6]
کَذٰلِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْٓ اُمَّۃٍ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِھَآ اُمَمٌ [الرعد:30]
یہاں کسی جگہ خلت کا معنی موت کو دکھائیں منہ مانگا انعام پائیں۔
مرزا قادیانی کے بیٹے اور دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین کی لکھی ہوئی تفسیر صغیر اٹھا کر دیکھ لیں یا مرزا طاہر کا کیا ہوا ترجمہ دیکھ لیں یقینا آپ کو خلت کا معنی موت کیا ہو انظر نہیں آئے گا۔اور اگر پھر بھی خلت کا معنی موت کرنے میں کوئی قادیانی بضد رہے تو پھر اس کو اس طرف توجہ کرادینی چاہیے کہ اگر خلت کا معنی موت ہے پھر مرزا قادیانی مندرجہ ذیل آیت میں خلت کا معنی موت کیوں نہیں کر رہے مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ [المائدہ: 75]
یعنی مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے رسول ہی آتے رہے ہیں روحانی خزائن جلد:۶صفحہ:۸۹ ؍ اس جگہ مرزا قادیانی نے خلت کا معنی موت نہیں کیا اگر خلت کا معنی موت ہوتا تو یہاں بھی مرزا قادیانی ضرور خلت کا معنی موت کرتے۔ مذکورہ آیت وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل میں اگر خلت کا معنی موت کیا جائے تو اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ مرزا قادیانی لکھتے ہیں کہ ’’بہت سے نبیوں کی وفات کا خدا تعالیٰ نے ذکر بھی نہیں کیا‘‘ روحانی خزائن جلد:۱۴، ص:۳۸۷، اور اگر خلت کا معنی موت کرنے پر قادیانی بضد ہیں پھر تو یقینا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے سارے نبیوں کی موت و وفات کا تذکرہ ہوگیا۔ ایک جگہ کہنا کہ بہت سے نبیوں کی وفات کا خدا تعالیٰ نے ذکر بھی نہیں کیا ۔ دوسری جگہ کہنا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے سارے رسول فوت ہوگئے ہیں۔
قادیانی حضرات میں ہے کوئی عقل والا جو اس گتھی کو سلجھا سکے۔ لیکن جب بھی کسی قادیانی نے عقل سے کام لیا اس قادیانی دھرم کو چھوڑ نے میں ہی نجات پائے گا۔ لیکن ’’میں نہ مانوں‘‘ کا کوئی جواب نہیں نہ اس کا کوئی حل ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر کسی جگہ پر خلت کا معنی موت کسی وجہ سے ہوا بھی ہے تو پھر اس سے کیسے لازم آگیا کہ آیت وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل میں بھی خلت کا معنی موت کیا جائے۔
ایسے ہی وفات مسیح پر پیش کی جانے والی آیت۔
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ [انبیاء :34]
نہیں بنایا ہم نے آپ سے پہلے کوئی بشر ہمیشہ رہنے والا کیا۔
یہ آیت بھی انھیں آیات میں سے ہے جو مرزا قادیانی نے وفات مسیح ثابت کرنے کے لیے پیش کیں اور اس کے پیروکار بھی اسی لکیر کو مسلسل پیٹتے چلے آرہے ہیں اور یہ بھی دھوکا ہی ہے۔ مسلمانوں کا بھلا کب یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ رہیں گے، ان کو موت نہیں آئے گی۔ بلکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے زمین پر نزول فرمائیں گے اور پھر ان کو موت آئے گی۔ ان کی نماز جنازہ مسلمان پڑھیں گے اور روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں دفن ہوں گے۔
حضرت عیسیٰ علی السلام کے ہمیشہ رہنے کا عقیدہ کسی مسلمان کا ہے ہی نہیں تو پھر یہ آیت قرآنیہ مسلمانوں کے عقیدے کے مقابلے میں کیسے کوئی پیش کرسکتا ہے۔
ایسے ہی آیت کل نفس ذائقۃ الموت کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اس لیے یہ کیسے لازم آگیا کہ ہر نفس پر موت طاری ہوچکی ہے۔ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے علم اور فیصلہ کے مطابق جب کسی کا وقت آجائے گا وہ اس وقت موت کا ذائقہ چکھ لے گا، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِذَا جَآءَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ [الاعراف :34]
ایسے ہی اﷲ کے فیصلے کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا وقت آئے گا وہ بھی کل نفس ذائقۃ الموت کے مطابق موت کا پیالہ پیئیں گے، ویسے بھی ہر وقت کسی کی موت کی تمنا کرتے رہنا کونسا اچھا کام ہے اپنی زندگی سنوارنے کی فکر کرنا چاہیے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ قادیانی حضرات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کرنے کے درپے کیوں ہیں؟ کہیں یہ تو نہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں جب تشریف لائیں گے تو آپ کے تشریف لانے سے اسلام جمیع اطراف میں پھیل جائے گا اور دنیا میں سوائے اسلام کے تمام مذاہب اپنا وجود کھو دیں گے۔ اس غلبۂ اسلام سے پریشان ہیں یا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زمین پر نزول فرمائیں گے تو آپ کے ہاتھ سے دجال اکبر قتل ہوگا، اس کے قتل ہونے سے پریشان ہیں۔ چاہے جو وجہ بھی ہو ان کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قیامت سے پہلے دنیا میں ضرور تشریف لائیں گے اور قادیانیوں کے تخیلات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ایسے ہی آیت: اوترقیٰ فی السماء قل سبحان وبی ھل کنت الابشر رسولا۔ اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی اس آیت کو نا مکمل پیش کرنے کے بعد اس آیت سے یوں استدلال کرتے ہیں ’’یعنی کفار کہتے ہیں کہ توآسمان پر چڑھ کر دکھلا تب ہم ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پاک تر ہے کہ اس دارالابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھلادے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی، اس آیت سے تو صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگتا تھا اور انھیں صاف جواب ملا کہ عادت اﷲ نہیں ہے کہ جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔ (روحانی خزائن، جلد:۳، ص: ۴۳۷، ۴۳۸)
قارئین محترم! یہ آیت مرزا قادیانی کی طرف سے وفات مسیح علیہ السلام پر پیش کردہ تیس آیات میں سے آخری آیت ہے جسے مرزا غلام قادیانی نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے وفات شدہ ہونے کے اپنے دھرم کوثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ قرآن مجید میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۹۳ کا ابتدائی حصہ اور آخری حصہ ملا کر آیت کے درمیان کے حصے کو اڑادیا اپنے مطلب براری کی اپنے خیال میں کوشش کی اور پھر بھی اپنی مرضی کا مفہوم اخذ نہ کیا جاسکا تو اپنے مقصد کے حصول کے لیے مرضی کا ترجمہ یوں کیا کہ ’’یعنی کفار کہتے ہیں کہ توآسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لادیں گے۔‘‘
جس کو قادیانی مربی اور عام پڑھا لکھا طبقہ مرزا قادیانی کی اتباع میں مسلسل پیش کرتا چلا آرہا ہے جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو فوت ہوئے تقریباً ایک سو سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر کمال ہے کہ کبھی کسی مربی نے یا کسی پڑھے لکھے قادیانی طبقے نے کبھی قرآن مجید اٹھا کر دیکھا ہو کہ آیت قرآنی اس شکل و صورت میں ہے ہی نہیں، چونکہ مرزا قادیانی نے کہہ دیا لہٰذا اسی کو ہی حرف آخر سمجھ کر اب تک چلائے ہوئے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی دھوکہ بازی میں ساری قادیانی جماعت گھری ہوئی ہے کہ آنکھیں ہونے کے باوجود دیکھ ہی نہیں سکتے اور اﷲ تعالیٰ کے فرمان لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ[اعراف:179] کا عملی مظہر و مصداق ہیں۔
قارئین محترم مرزا غلام احمد قادیانی کی دھوکا بازی کا ایک نمونہ آپ کے سامنے کھلے عام پیش کرنے کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ وہ آیت مبارکہ پورے لفظوں میں آپ کے سامنے پیش کریں اور پھر اس سے پھونٹنے والی روشنی آپ کے سامنے ذکر کریں کہ آپ کو اندھیرے اجالے کا پتہ چل سکے۔ مذکورہ پوری آیت یوں ہے: اوترقیٰ فی السماء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتابانقرۂ (ترجمہ اس کا یوں ہے ) یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور ہم تیرے آسمان پر چڑھ جانے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو اوپر جا کر ہم پر کوئی کتاب نہ اتارے جسے ہم (خود) پڑھیں۔
(ایک نظر پھر)مرزا غلام احمد قادیانی نے آیت قرآنی ان لفظوں میں ذکر کی: او ترقیٰ فی السماء قل سبحان ربی ہل کنت الالبشر رسولا۔ جبکہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت یوں ہے: اوترقیٰ فی السماء ولن نؤمن لرقیک حتیٰ تنزل علینا کتابا نقرۂ قل سحبان ربی ہل کنت الابشر رسولا۔ مرزا قادیانی کا کیا ہوا ترجمہ: یعنی کفار کہتے ہیں کہ تو آسمان پر چڑھ کر دکھلا تب ہم ایمان لاویں گے۔ ان کو کہہ دے کہ میرا خدا پاک تر ہے کہ اس دارالابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھلاوے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ جب کہ صحیح ترجمہ اس کا یوں ہے۔ یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور ہم تیرے (آسمان پر) چڑھ جانے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو (اوپر جا کر) ہم پر کوئی کتاب (نہ) اتارے جیسے ہم (خود) پڑھیں۔ (اے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ کہہ دیں کہ میرا رب پاک ہے، نہیں ہوں میں مگر ایک آدمی رسول ۔
قارئین محترم! آپ ذرہ تجربہ تو کریں مذکورہ آیت پندرھواں پارہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۹۳ ہے کسی مسلک کے کسی عالم کا ترجمہ اٹھائیں، اگر کسی کو میسر ہو تو (قادیانیوں کو ضرور میسر ہوگے) مرزا بشیرالدین کا کیا ہوا ترجمہ جو تفسیر صغیر کے نام پر ہے اس کو دیکھیں یا مرزا طاہر کا ترجمہ کیا ہوا دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں، یقینا اس دھوکہ دہی سے آپ خوب سے خوب تر واقف ہوجائیں گے اگر آنکھوں سے یہ دھوکہ معلوم ہوجائے اور یقینا ہوگا تو پھر آپ اسی پر قیاس کریں کہ ایسے ہی قادیانی دھرم دھوکہ و فریب سے از اوّل تاآخر بھرا ہوا ہے۔مگر قلیلا ماتومنون۔
قارئین محترم! اصل میں بات یہ ہے کہ کفار نے کچھ سوال کیے تھے جس کے جواب میں ہل کنت الابشر رسولا کہا گیا اور یہ سوالات تقریباً چار آیات پر مشتمل ہیں۔ کفار کے کیا سوالات ہیں، قرآن مجید میں ان لفظوں میں مذکور ہیں وَقَالُوْا لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًاo اَوْتَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْھٰرَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا oاَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْتَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًا oاَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآءِ وَلَنْ نُّوْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا [ بنی اسرائیل93-90:]
ترجمہ: ہم تجھ پر ہر گز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمے جاری کردے یا تیرے پاس کھجور اور انگور کا باغ ہو اور اس کے نیچے نہریں جاری ہوں یا تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا برسا دے جیسے کہ تو کہا کرتا ہے یا اﷲ تعالیٰ اور فرشتوں کو ضامن لے آ،یاتیرے لیے کوئی سونے کا گھر بنایا ہوا ہے یا آسمان پر چڑھ جائے اور ہم تیرے (آسمان پر) چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک کہ وہاں سے ہمارے لیے کوئی کتاب نازل کر جسے ہم خود پڑھیں۔
یہ چھ سوال ہیں جو کفار نے کیے کہ اگر ایسے ہوجاؤ تو تیرے پر ایمان لے آئیں گے۔
جس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا، تو ان کو یہ کہہ دے کہ میرا رب پاک ہے اس کے سامنے میری کوئی طاقت نہیں، میں اپنے اختیار سے یہ امر نہیں کرسکتا، میں تو ایک بشر اور رسول ہوں، معجزات کا دکھانا میرے بس میں نہیں، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا وماکان لرسول ان یأتی بآیۃ الا باذن اللّٰہ [الرعد : ۳۸]
یعنی کوئی رسول بھی حکم الٰہی کے بغیر معجزہ نہیں دکھا سکتا، تو اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے صرف یہ سوال نہ تھے بلکہ کئی معجزات مانگے جارہے تھے جس پر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان ربی ہل کنت الابشر رسولا۔ کہ میں تو ایک رسول ہوں میرے اختیار میں نہیں کہ میں اپنی مرضی سے یہ سب کچھ کرسکوں۔ ہاں اس قسم کے خوارق عادت کاموں کا اﷲ کے حکم سے ہونا اس کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی جگہ پر ہے۔ (جاری ہے)