عبداللطیف خالد چیمہ … شذرہ
آئین کی اسلامی دفعات اور ملک کی نظریاتی اساس کے خلاف مقتد ر حلقے مسلسل ایسے اقدامات کر رہے جن سے وطنِ عزیز کی نظریاتی سرحدوں کے منہدم ہونے کے خطرات روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق آنجہانی قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کی تصاویر اسلام آباد کے ماڈل سکولز میں آویزاں کر دی گئی ہیں اور تصویر کے ساتھ یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ یہ ’’پہلے پاکستانی مسلمان سائنس دان ہیں جنھوں نے نوبل انعام حاصل کیا‘‘۔ تصویر کے نیچے یہ انگریزی عبارت درج ہے:
ڈاکٹر عبدالسلام سکّہ بند قادیانی تھا۔ آئینِ پاکستان کی رُو سے قادیانی مسلمان نہیں اور ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر عبدالسلام نے کبھی بھی اپنے قادیانی ہونے کا انکار نہیں کیا۔ البتہ ایسا ضرور ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے سرکاری سطح پر ایک دعوت نامے کے جواب میں کہا تھا کہ: ’’میں ایسے لعنتی ملک پر قدم نہیں رکھنا چاہتاجہاں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہو‘‘۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ: ’’قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں‘‘۔ لیکن اب تو جناب! قادیانیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر اکھنڈ بھارت کے حامی اور پاکستان کے ایٹمی راز دشمن کو پہنچانے والے ’’ہیروز‘‘ ٹھہرائے جائیں گے تو پھر وفادار کون ہے؟ اس لیے نسلِ نَو کے اذہان کو کفر و الحاد سے آلودہ نہ کیا جائے کہ یہ اقبال کے شاہین اور ہمارا مستقبل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو ۱۰؍ دسمبر ۱۹۷۹ء کو نوبل پرائز ملا۔ قادیانی جماعت کے ترجمان ’’الفضل‘‘ نے لکھا تھا کہ: ’’جب انھیں نوبل انعام کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنی عبادت گاہ میں گئے اور اپنے متعلق مرزا قادیانی کی پیشین گوئی پر اظہارِ تشکر کیا‘‘۔
۱۰؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیرِ اعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا، جو آج بھی سرکار کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس میں ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ: ’’آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں، حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، کوئی شخص خالق
اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب جب کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس حکومت سے قطعِ تعلق کر لوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہو گا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو‘‘۔
فروری ۱۹۸۷ء ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکی سینٹ کے ارکان کو ایک خط لکھا کہ آپ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور اقتصادی امداد، ہمارے خلاف کیے گئے اقدامات کی واپسی سے مشروط کریں۔
وطنِ عزیز پاکستان کے بارے میں اسی عبدالسلام نے ’’مسٹر بھٹو کے دور میں‘‘ ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیجا گیا دعوت نامہ ان ریمارکس کے ساتھ واپس وزیرِ اعظم سیکرٹیریٹ کو بھیج دیا کہ ’’میں اس لعنتی ملک میں قدم نہیں رکھنا چاہتا جب تک آئین میں کی گئی ترمیم واپس نہ لی جائے‘‘۔ (ہفت روزہ چٹان لاہور، جون ۱۹۸۶ء۔ شمارہ:۲۲)
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی ذمہ داران کی تجویز ہے کہ طلباء میں سائنس کا رجحان پیدا کرنے کی خاطر مسلم سائنس دانوں کا تعارف عام کیا جائے اور اس حوالے وہ ماضی کے مسلم سائنس دانوں کی بجائے قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کا نام تجویز کر رہے ہیں۔ پاکستان پر اس حوالے سے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستانی مسلم سائنس دان کے طور پر ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو قومی تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے اور اس میں یہ بات بھی لائی جا رہی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام بلیک لسٹ کیا جائے۔ ایٹم بم یا میزائل کے میدان میں پاکستان کی ترقی کو ڈسکس نہ کیا جائے۔
برطانیہ کے ایک انٹرنیٹ اخبار ’’لندن پوسٹ‘‘ نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی امریکہ کو مخبری کی، اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر عبدالسلام کے لیبارٹریز میں داخلہ پر پابندی لگا دی تھی۔ چونکہ وزیرِ اعظم کو اطلاع ملی تھی کہ یہ شخص ایٹمی پروگرام کی مخبری کر رہا ہے۔ اسی طرح معروف صحافی اور سابق بیورو کریٹ زاہد ملک نے اپنی کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم‘‘ میں سابق وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کے حوالے سے لکھا کہ:
’’انھیں امریکہ میں امریکیوں نے پاکستانی ایٹم بم کا ماڈل دکھایا اور پوچھا کہ آپ کس طرح اس سے انکار کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ باہر نکلے تو ڈاکٹر عبدالسلام کاریڈو ر میں جا رہے تھے اور یہ ماڈل انھی کا فراہم کردہ تھا‘‘۔
چند برس قبل اس حوالے سے ایک صحافی نے صاحبزادہ یعقوب علی خان سے سوال کیا تو ان کا جواب تھا:
’’میں نے کبھی اس کی تردید نہیں کی، اس لیے آپ کا سوال کرنا ہی غلط ہے‘‘۔
اندریں حالات ہم وزارتِ تعلیم اور اعلیٰ حکام سے درخواست کریں گے کہ وہ پاکستان کے وفاداروں اور پاکستان کے دشمنوں میں فرق ملحوظ رکھے ۔اس امر کی تحقیق بھی ہونی چاہیے کہ غیرمسلم قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو کس طرح اور کس نے بطورِ مسلمان سائنس دان پیش کرنے کی جسارت کی؟