شاہ بلیغ الد ین رحمتہ اﷲ علیہ
احمد بن حرب اس تیزی سے اپنے گھر سے نکلے کہ لوگوں نے انہیں روک کر پوچھا حضرت ! آپ خیریت سے ہیں؟اُنھوں نے کہا ہاں ! لوگوں نے پوچھا گھرمیں سب خیریت سے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیااﷲ کا فضل ہے ایک نے کہا آپ اس تیزی سے کہاں چلے ؟ وہ بولے ابھی ابھی سناہے کہ فلاں صاحب کے پاس چوری ہوئی ہے۔ دو بول تسلی کے اُن سے کہنے جارہاہوں ! کسی نے کہا حضرت ! اس میں عجلت کی کیا بات ہے ؟فرمایا پڑوسی توبھائی ہوتا ہے اورنیکی میں ہمیشہ عجلت کرنی چائیے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک موقع پرحضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام لمومنین سیدہ کائنات حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی اس درجہ تا کیدکی کہ میں سمجھا بہت جلد پڑوسی کو وراثت میں حق مل جائے گا۔ اس ارشاد مبارک کا مطلب اس بات کو واضح کرنا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ سگے بھائی بہنوں کی طرح سلوک روا رکھا جائے۔ صحیح بخاری ہی میں ہے ایک اور موقع پر ارشاد ہوا کہ جو اﷲ اور روز جز اپر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیے ہمسائے کی عزت کرے! بزرگوں کا کہنا ہے کہ چالیس گھر آگے پیچھے دائیں بائیں ہمسایوں میں داخل ہیں۔
اسلام نے جو سوسائٹی بنائی ہے اُس میں میل جول اخوت ومحبت کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی لیے حکم دیا گیا ہے ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو ! ایک دوسرے کو کھانے پر بلاؤ تحفے تحائف بھیجتے رہو، بیمار کے پاس جاؤ، ممکن ہو تو اس کی دوادارو کا انتظام کرو، خوشی اورغم دونوں میں شریک رہو، موت مٹی میں ہاتھ بٹاؤ…… ایک تو یہ انسانیت اور اخلاق کا تقاضہ ہے دوسرے اﷲ اور اﷲ کے رسول نے حکماً پڑوسی سے دوستی محبت اورحسن سلوک پر ہمیں پابند کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں ہے کہ پڑوسی سے نیکی کیا کرو اس کی تشریح بھی کردی گئی ہے کہ ایک پڑوسی تو وہ ہوگا جو ممکن ہے تمہار اعزیز ورشتہ دار ہو دوسرا پڑوسی کوئی اجنبی ہوگا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا پڑوسی کوئی بھی ہو اُس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ یعنی وہ شخص بھی جو تھوڑی دیر کے لیے کسی سواری میں تمہارے ساتھ ہو جائے یا کسی دوکان پر تمہیں مل جائے، دفتر میں تمہارے پاس بیٹھنے والا ہویا سفر میں تھوڑی دیر کے لیے ساتھی بن جائے ……اُس سے بھی پڑوسی کی طرح محبت اور لطف وکرم کا برتاؤ کرو۔
تھوڑی دیر کے ساتھ میں بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی اور غمنحواری کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک بارصحابہ کرام جمع تھے اﷲ کے رسول نے ارشاد فرمایا کہ واﷲ وہ مومن نہ ہوگا اس فقرے کو آپ ﷺنے تین باردُہرایا تو صحابہ کرام فکر مند ہوگئے پوچھا کون یا رسول اﷲ فرمایا جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ رہا۔
اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو نہ ستاؤ ایک دوسرے کی دل آزادی نہ کرو۔ سوچیے جو دین خوش اخلاقی کے لیے بار بار تاکید کرتا ہے اگر اس کے ماننے والے سیاسی مسلک یا عقائد میں فرق کی وجہ سے ایک دوسرے کو جوتی کی نوک پر رکھ لیں، گالیوں سے نوازیں، دھمکی بھرے خطو ط لکھیں یاٹیلیفون پر اپنے سفلے پن کا مظاہرہ کریں تو اسے کیا کہا جائے؟۔ افسوس یہ ہے کہ سیاہ پوش اور سیاہ قلب منافقو ں کے علاوہ یہ کام بعض اوقات بڑے بڑے صاحبان عباوقبا بھی کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ حُجرات میں انھیں ظالم قرار دیا ہے اور ظالم کامقدر دوزخ ہے۔
سنن ابوداؤد میں ہے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے ایک بکری ذبح کی تو پوچھا کہ فلاں ہمسائے کوگوشت بھیجا؟ گھر والوں نے کہا کہ وہ تو یہودی ہے فرمایا پڑوسی بھی توہے۔
احمدبن حرب نے اپنے پڑوسی کی ہمدردی کی اور جس طرح اسے تسلی دی اُس کا ایسا اثر اُس کے دل پر ہوا کہ اُس نے انھیں روک لیا اور اُن کے آگے دستر خوان بچھایا۔ احمدبن حرب نے روکا تو ہمسائے نے کہا کہ مجھ پر تین شکر واجب ہوتے ہیں، ایک یہ کہ دوسروں نے میرا مال چرایا، الحمد ﷲ یہ گناہ میں نے نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ ابھی میرا بہت کچھ مال باقی ہے، تیسرے یہ کہ تھوڑاسا دنیاوی مال گیا لیکن میر اایمان سلامت ہے، اس میں کوئی چوری نہیں ہوئی۔ کیا میں اس خوشی میں آپ جیسے نیک اور ہمدرد پڑوسی کی تو اضع بھی نہ کروں؟ (ماخود: طوبیٰ)