مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمتہ اﷲ علیہ (آخری قسط)
نقیب ختم نبوت مارچ اور اپریل ۲۰۱۶ء کے شماروں میں مفتی اعظم حضرت مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ کے خطاب کی دو قسطیں قارئین مطالعہ فرما چکے ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف رحمہ اﷲ کی دعوت پر جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد میں حضرت مفتی صاحب نے یہ خطاب فرمایا جسے حکیم صاحب مرحوم نے اپنے جریدہ ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ میں شائع کیا۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’اختلافاتِ اُمت اور اُن کا حل‘‘ کے عنوان سے ’’تقریب ہمدرد‘‘ لاہور، ۳؍ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو ایک اور تقریر فرمائی جو فی الحقیقت ’’وحدتِ اُمت‘‘ کے تتمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مناسبت سے اس تقریر کو بھی ’’وحدتِ اُمت‘‘ کے خطاب کے ساتھ تیسری و آخری قسط کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس اﷲ سرہٗ مالٹا کی چار سالہ جیل سے رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے تو علماء کے ایک مجمع کے سامنے آپ نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی۔
جو لوگ حضرت رحمہ اﷲ سے واقف ہیں ‘وہ اُس سے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ ان کی یہ قید و بند عام سیاسی لیڈروں کی قید نہ تھی۔ جنگ ِ آزادی میں اس درویش کی ساری تحریکات صرف رضائے حق سبحانہ ٗ و تعالیٰ کے لیے اُمت کی صلاح و فلاح کے گرد گھومتی تھیں۔ مسافرت اور انتہائی بے کسی کے عالم میں گرفتاری کے وقت جملہ جو اُن کی زبانِ مبارک پر آیا تھا ‘ان کے عزم اور مقاصد کا پتا دیتا ہے۔ فرمایا:’’الحمدﷲ بمصیبتے گرفتارم نہ بمعصیتے‘‘۔
جیل کی تنہائی میں ایک روز بہت مغموم دیکھ کر بعض رفقاء نے کچھ تسلی کے الفاظ کہنا چاہے تو فرمایا: ’’اس تکلیف کا کیا غم ہے جو ایک دن ختم ہو جانے والی ہے‘ غم اس کا ہے کہ یہ تکلیف و محنت اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہے یا نہیں‘‘۔
مالٹا کی قیدسے واپس آنے کے بعد ایک رات بعد عشاء دارالعلوم میں تشریف فرما تھے۔ علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا۔ اس وقت فرمایا کہ ’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں۔ فرمایا کہ:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دُنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا‘ دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناً عام کیا جائے‘ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں‘ بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے‘ اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔
نباضِ اُمت نے ملت مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی‘ باقی ایامِ زندگی میں ضعف و علالت اور ہجوم مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی ٔ پیہم فرمائی۔ بذاتِ خود درسِ قرآن شروع کرایا‘ جس میں تمام علمائے شہر اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اﷲ علیہ جیسے علماء بھی شریک ہوتے تھے اور عوام بھی۔ اس ناکارہ کو اس درس میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے۔ مگر اس واقعے کے بعد حضرتؒ کی عمر ہی گنتی کے چند ایام تھے۔ ع آں قدح بہ شکست وآں ساقی نماند
آج بھی مسلمان جن بلاؤں میں مبتلا اورجن حوادث و آفات سے دوچار ہیں‘ اگر بصیرت سے کام لیا جائے تو ان کے سب سے بڑے سبب یہی دو ثابت ہوں گے‘ قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا۔ غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔ قرآن پر کسی درجے میں بھی عمل ہوتا تو خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔
اختلافِ رائے کے حدود
اختلافِ رائے کچھ مذموم نہیں‘ اگر اپنی حدود کے اندر ہو۔ انسان کی فطرت میں اس کے پیدا کرنے والے نے عین حکمت کے مطابق ایک مادہ غصہ اور مدافعت کابھی رکھا ہے اور وہ انسان کی بقاء و ارتقاء کے لیے ضروری ہے‘ مگر یہ مادہ دشمن کی مدافعت کے لیے رکھا ہے۔ اگر اس کا رُخ دوسری طرف ہو جائے ‘خواہ اس کے لیے دشمن کو پہچاننے اور متعین کرنے میں غلطی ہو گئی ہو یا کسی دوسری وجہ سے‘ بہرحال جب دشمن کا رُخ بدلے گا تو یہ خود اپنی تباہی کا ذریعہ بنے گا۔ اسی لیے قرآن کریم نے مؤمن کے لیے پوری وضاحت کے ساتھ اس کا رُخ متعین فرما دیا ہے: ﴿اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّاط﴾(فاطر:۶) ’’یقیناشیطان تمہارا دشمن ہے‘ اس کو ہمیشہ دشمن سمجھتے رہو‘‘۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مؤمن کے غصے اور لڑائی کا مصرفِ صحیح صرف شیطان اور شیطانی طاقتیں ہیں۔ جب اس کی جنگ کا رُخ اس طرف ہوتا ہے تو وہ جنگ قرآن کی اصطلاح میں جہاد کہلاتی ہے جو اعظم عبادات میں سے ہے۔ حدیث میں فرمایا ہے: ((ذَرْوَۃُ سَنَامِہِ الْجِہَادُ)) یعنی ’’اسلام میں سب سے اعلیٰ کام جہاد ہے‘‘۔ لیکن اگر اس جنگ کا رُخ ذرا اس طرف سے ہٹا تو یہ جہاد کے بجائے فساد کہلاتی ہے‘جس سے بچانے کے لیے اﷲ اور رسول اورکتابیں آئی ہیں۔ شکل و صورت کے اعتبار سے جہاد اور فساد میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ وہ کانٹا‘ جہاں سے یہ لائنیں بدلتی ہیں صرف یہ ہے کہ اس کا رُخ شیطان اور شیطانی طاقتوں کی طرف ہے تو جہاد ہے ورنہ فساد۔ دو قومی نظریہ‘ جس نے پاکستان بنوایا ‘اسی اجمال کی عملی تفصیل تھی کہ کلمہ ٔ اسلام کے ماننے والے ایک متحد قوم ہیں اور نہ ماننے والے دوسری قوم۔ ان کے جہاد کا رُخ اس طرف ہونا چاہیے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ قدس سرہٗ نے جہاد کے فرض ہونے کی ایک حکمت یہ بھی بیان فرمائی کہ قہر و غضب اور مدافعت کا مادہ ‘جو انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے‘ جب جہاد کے ذریعے اپنا صحیح مصرف پا لیتا ہے تو آپس کی خانہ جنگی اور فساد سے خودبخود نجات ہو جاتی ہے‘ ورنہ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جس چھت پر بارش کا پانی نکلنے کا راستہ پرنالوں کے ذریعے نہ بنایا جائے تو پھر یہ پانی چھت کو توڑ کر اندر آتا ہے۔
صلح اور جنگ کس سے؟
آج اگر غور کیا جائے تو پورے عالم اسلام پر یہی مثال صادق آتی ہے ۔ شیطان اور شیطانی تعلیم‘ کفر و الحاد‘ خدا اور رسول سے بغاوت اور فحاشی و عیاشی سے طبیعتیں مانوس ہو رہی ہیں۔ ان کی نفرت دلوں سے نکل چکی ہے‘ اس پر کسی کو غصہ نہیں آتا۔ انسانی رواداری‘ اخلاق‘ مروّت کا سارا زور کفر و الحاد اور ظلم کی حمایت میں صرف ہوتا ہے۔ نفرت‘ بغاوت اور عداوت کا میدان خود اپنے اعضاء و جوارح کی طرف ہے۔ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا لڑائی ہے‘ چھوٹا سا نقطۂ اختلاف ہو تواس کو بڑھا کر پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ اخبارات و رسائل کی غذا یہی بن کر رہ گئی ہے۔ دونوں طرف سے اپنی پوری توانائی اس طرح صرف کی جاتی ہے کہ گویا جہاد ہو رہا ہے۔ دو متحارب طاقتیں لڑ رہی ہیں اور کوئی خدا کا بندہ اپنی طرف نظرکر کے نہیں دیکھتا کہ ع
’’ظالم جو بہہ رہا ہے وہ تیرا ہی گھر نہ ہو!‘‘
سیاستِ ممالک سے لے کر خاندانی اور گھریلو معاملات تک سب میں اسی کا مظاہرہ ہے۔ جہاں دیکھو ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ﴾ کا سبق پڑھنے والے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ قرآنِ حکیم نے جہاں عفوو درگزراور حلم و بردباری کی تلقین کی تھی ‘وہاں جنگ ہو رہی ہے‘ اور جس محاذ پر جہاد کی دعوت دی تھی وہ محاذ دشمنوں کی یلغار کے لیے خالی پڑا ہے۔ فالی اللّٰہ المشتکی وانا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
اسمبلیوں‘ کونسلوں‘ میونسپل بورڈوں کی نشست‘ حکومت کے عہدوں اور ملازمتوں کی دوڑ‘ صنعت و تجارت میں مقابلہ اور کمپی ٹیشن ‘ جائیدادوں اور زمینداروں کی کشمکش جہاں خالص اپنے حقوق کی جنگ ہے‘ جس کو چھوڑ بیٹھنا سب کے نزدیک ایثار اور اعلیٰ اخلاق کا ثبوت ہے‘ وہاں کوئی ایک انچ اپنی جگہ سے سرکنے کو تیار نہیں۔ دین و مذہب کے نام پر کام کرنے والوں کی اول تو تعداد ہی کم ہے اور جو ہے وہ عموماً قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے اغماض کر کے جزوی اور فروعی مسائل میں الجھ کررہ گئی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ معرکۂ جدال بنا ہوا ہے‘ جس کے پیچھے غیبت‘ جھوٹ‘ ایذائے مسلم‘ افتراء و بہتان اور تمسخر و استہزاء جیسے متفق علیہ کبیرہ گناہوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ دین کے نام پر خدا کے گھروں میں جدال و قتال اور لڑائیاں ہیں۔ نوبت پولیس اور عدالتوں تک پہنچی ہوئی ہے۔
ان دین داروں کو خدا اور رسول پر استہزاء کرنے والوں‘ شراب پینے والوں‘ سوداور رشوت کھانے والوں سے وہ نفرت نہیں جو اِن مسائل میں اختلاف رکھنے والوں سے ہے۔کوئی خدا کا بندہ اس پر نظر نہیں کرتا کہ اس مثبت و منفی دونوں پہلوؤں میں کوئی بھی کسی کے نزدیک ایسا نہیں جس کے لیے مسلمانوں سے جنگ کرنا جائز ہو‘ جس کے لیے دوسروں کی غیبت و بہتان‘ تذلیل و تحقیر روا ہو۔
اصلاحِ حال کی ایک غلط کوشش
ہمارے نو تعلیم یافتہ روشن خیال مصلحین کی توجہ جب اس باہمی اختلاف کے مہلک نتائج کی طرف جاتی ہے اور اس کے علاج کی فکر ہوتی ہے‘ تو ان کے خیال میں ساری خرابیاں صرف ان اختلافات میں نظر آتی ہیں جو دین و مذہب کے نام پر سامنے آتے ہیں اور وہ صرف اسی اختلاف کو مٹانے کے لیے علاج سوچتے ہیں۔ وہ اس وقت ان سب لڑائیوں کو بھول جاتے ہیں جو خالص نفسانی اور ذاتی غرض کے لیے لڑی جا رہی ہیں‘ جن کے لیے ایک دوسرے کی جان‘ آبرو اور مال سب کچھ حلال سمجھ لیا جاتا ہے‘ جس کے پیچھے پورے ملک میں باہمی منافرت کے سیلاب اُمنڈتے ہیں۔ مگر ان کو چونکہ نئی تہذیب و شرافت کا نام دے دیا ہے‘ اس لیے نہ وہ قوم کے لیے کوئی مرض رہا اور نہ اس کا علاج سوچنے کی ضرورت رہی۔ اختلاف و لڑائی میں صرف ملا بدنام ہے ۔ اسی کا علاج زیر غور ہے۔ حالانکہ دین و مذہب کے نام پر جو اختلافات ہیں‘ اگر غور کیا جائے تو ان کی خرابی صرف حدود سے تجاوز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے‘ ورنہ وہ کوئی برادری کا نوتہ نہیں بن سکتے۔ وہ اپنے ذاتی حقوق نہیں جنہیں ایثار کیا جا سکے‘ بلکہ قرآن و سنت کی تعبیر کے اختلافات ہیں جن کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے بعض روشن خیال مصلحین نے سارا فساد انہی اختلافات میں منحصرسمجھ کر اس کا یہ علاج تجویزکیا کہ فرقہ وارانہ اختلافات کو ہٹا کر سب کا ایک نیا اور مشترک مذہب بنالیا جائے۔ پوری قوم کا وہی ایک مذہب ہو‘ تا کہ اختلاف کی بنیاد ہی ختم ہو جائے۔مگر یہ بات مذہبی مسائل میں عقلاً صحیح ہے نہ عملاً ممکن۔ ہاں خالص دُنیوی معاملات میں جن میں جھگڑا ذاتی حقوق ہی کا ہو‘ وہاں اپنے اپنے مطالبات کو نظر انداز کر کے ایسی صلح کی جا سکتی ہے‘ اس لیے باہمی جنگ و جدل کا علاج یہ نہیں کہ اختلافِ رائے کو مٹا کر سب کو ایک نظریے کا پابند کر دیا جائے۔
اختلافِ رائے اور جھگڑے فساد میں فرق
اہل عقل و بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی اور دُنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ ان میں اختلاف کرنا عقل و دیانت کا عین مقتضیٰ ہوتا ہے۔ ان میں اتفاق صرف دو صورتوں سے ہو سکتا ہے‘ یا تو مجمع میں کوئی اہل بصیرت اور اہل رائے نہ ہو۔ ایک نے کچھ کہہ دیا سب نے مان لیا اور یا پھر جان بوجھ کر کسی کی رعایت اور مروّت سے اپنے ضمیر اور اپنی رائے کے خلاف دوسرے کی بات پر صاد کر دیا۔ ورنہ اگر عقل و دیانت دونوں موجود ہوں تو رائے کا اختلاف ضروری ہے‘ اور یہ اختلاف کبھی کسی حال پر مضر بھی نہیں ہوتا‘ بلکہ دوسروں کے لیے بصیرت کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اسمبلیوں میں حزبِ اختلاف کو اسی بنیاد پر ضروری سمجھا جاتا ہے۔
قرآن و سنت کے مجملات اور مبہمات کی تشریح و تعبیر میں اسی طرح کے اختلافات کو ’’رحمت‘‘ کہا گیا ہے‘ جو اسلام کے عہد اوّل سے صحابہ و تابعین اور پھر ائمہ مجتہدین میں چلے آئے ہیں۔ ان مسائل میں جو اختلافات صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم میں پیش آ چکے ہیں‘ ان کو مٹانے کے معنی اس کے سوا نہیں ہو سکتے کہ صحابہ کرامؓ کی کسی ایک جماعت کو باطل پر قرار دیا جائے‘ جو نصوصِ حدیث اور ارشاداتِ قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ اسی لیے حافظ شمس الدین ذہبی ؒنے فرمایا ہے کہ جس مسئلے میں صحابہ کرامؓکے درمیان اختلاف ہو چکا ہے‘ اس کو بالکل ختم کر دینا ممکن نہیں۔
صحابہؓ‘ اور ائمہ مجتہدینؒکا طرزِ عمل
اسی کے ساتھ صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور کی وہ تاریخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ماتحت جو ان میں اختلافِ رائے پیش آیا ہے‘ اس پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اس نے جنگ و جدال کی صورت اختیارکی ہو۔ باہمی اختلافِ مسائل کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا اور تمام برادرانہ تعلقات قائم رہنا اس پوری تاریخ کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ سیاسی مسائل میں ’’مشاجراتِ صحابہؓ ‘کا فتنہ ‘ ‘تکوینی حکمتوں کے ماتحت پیش آیا‘ آپس میں تلواریں بھی چل گئیں‘مگر عین اسی فتنہ کی ابتدا میں جب امام مظلوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ باغیوں کے نرغے میں محصور تھے اور یہی باغی نمازوں میں امامت کراتے تھے‘ تو امامِ مظلوم نے مسلمانوں کو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی اور عام ضابطہ یہ بتا دیا کہ اذا ہم احسنوا فاحسن معہم وان ہم اساء وا فاجتنب اساء تہم یعنی ’’جب وہ لوگ کوئی نیک کام کریں اس میں ان کے ساتھ تعاون کرو ‘اور جب کوئی برا کام اور غلط کام کریں تو اس سے اجتناب کرو‘‘۔ اس ہدایت کے ذریعے اپنی جان پر کھیل کر مسلمانوں کو قرآنی ارشاد: ﴿تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ کی صحیح تفسیر بتا دی اور باہمی انتشار و افتراق کا دروازہ بند کر دیا۔
اور اسی فتنے کے آخر میں جب کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہما کے درمیان میدانِ جنگ گرم تھا‘ روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے موقع پا کر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کی مدد کرنے کا پیغام ملا تو حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ ‘کا جواب یہ تھا کہ : ’’ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رُخ کیا تو علیؓ کے لشکر کا پہلا سپاہی‘ جو تمہارے مقابلے کے لیے نکلے گا ‘وہ معاویہ ہوگا‘‘۔ معلوم یہ ہوا کہ باہمی اختلاف جو منافقین کی گہری سازشوں سے تشدد کا رُخ اختیار کر چکا ہے‘ اس میں بھی اسلام کے بنیادی حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہوئے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ماتحت اختلافِ رائے جو صحابہؓ‘‘ تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ میں رہا ہے تو وہ بلاشبہ رحمت ہی ہے۔ اس کا کوئی پہلو نہ پہلے مسلمانوں کے لیے مضر ثابت ہوا اورنہ آج ہو سکتا ہے‘ بشرطیکہ وہ انہی حدود کے اندر رہے جن میں ان حضرات نے رکھا تھا کہ ان کا اثر نماز‘ جماعت‘ امامت اورمعاشرت کے کسی معاملے پرنہ پڑتا تھا۔
جدال اوراصلاح
مذہب کے نام پر دوسرے اختلافات قرونِ اولیٰ کے بعد بدعت و سنت اور دوسرے عنوانات سے پیدا ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے قرآن و سنت کی تعبیر میں اصولِ صحیحہ کو چھوڑ کر ذاتی آراء کو امام بنا لیا اور نئے نئے مسائل پیداکر دیے۔ یہ اختلافات بلاشبہ وہ تفریق و افتراق تھے جن سے قرآن و سنت میں مسلمانوں کو ڈرایا گیا ہے۔ ان کو ختم یا کم کرنے کی کوشش بلاشبہ مفید تھی‘ مگر قرآن حکیم نے اس کا بھی ایک خاص طریقہ بتادیا ہے جس کے ذریعے تفریق کی خلیج کم ہوتی چلی جائے‘ بڑھنے نہ پائے۔ یہ وہ اصولِ دعوت الی الخیر ہیں جن میں سب سے پہلے حکمت و تدبیر سے اور پھر خیرخواہی و ہمدردی اور نرم عنوان سے لوگوں کو قرآن و سنت کے صحیح مفہوم کی طرف بلانا ہے اور آخرمیں مجادلہ بالتی ہی احسن یعنی حجت و دلیل کے ساتھ افہام و تفہیم کی کوشش ہے۔
افسوس ہے کہ آج کل عام اہل علم اور مصلحین نے ان اصول کو نظرانداز کر دیا۔ صرف جدال میں ا ور وہ بھی غیر مشروط انداز سے‘ مشغول ہو گئے کہ اپنے حریف کا استہزاء و تمسخر‘ اس کو زیر کرنے کے لیے جھوٹے ‘سچے‘ ناجائز اور جائز ہر طرح کے حربے استعمال کرنا اختیار کر لیا‘ جس کا لازمی نتیجہ جنگ و جدال اور جھگڑا وفسادتھا۔
اختلافات کی خرابیوں کا وقتی علاج
آج جب کہ مسلمانوں کا تفرق انتہا کو پہنچا ہوا ہے‘ اپنی مزعومات کے خلاف کوئی کسی کی بات ماننے‘ بلکہ سننے کے لیے بھی تیار نہیں اورکوئی ایسی قوت نہیں کہ کسی فریق کومجبور کر سکے ‘تو اس باہمی جنگ وجدال اور اس کے مہلک اثرات سے اسلام اور مسلمانوں کوبچانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ فرقوں اور جماعتوں کے ذمہ دار ذرا اس پر غورکریں کہ جن مسائل میں ہم جھگڑ رہے ہیں‘کیا وہی اسلام کے بنیادی مسائل ہیں جن کے لیے قرآن نازل ہوا‘ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زندگی اُن کے لیے وقف کر دی‘ اوران کے پیچھے ہر طرح کی قربانیاں دیں؟یا بنیادی مسائل اورقرآن و اسلام کا اصلی مطالبہ کچھ اور ہے؟
جس ملک میں ایک طرف عیسائی مشنریاں پوری قوت اورچمک دمک کے ساتھ اس کو عیسائی ملک بنانے کے خواب دیکھ رہی ہیں‘ ایک طرف کھلے بندوں خداور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ ایک طرف قرآن اور اسلام کے نام پر وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے جس کو دنیا سے مٹانے ہی کے لیے قرآن اور اسلام آئے تھے‘ اس جگہ صرف فروعی مسائل اور ان کی تحقیق و تنقید و ترویج کی کوششوں میں الجھ کران بنیادی مہمات سے غفلت برتنے والوں سے اگر اﷲ تعالیٰ و رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ ہمارے دین پر یہ افتادیں پڑ رہی تھیں‘ تم نے اس کے لیے کیا کیا؟ تو ہمارا کیا جواب ہوگا؟ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرقہ اور کوئی جماعت جب ذرا اپنے جھگڑوں سے بلند ہو کر سوچے گی تو اس کو اپنی موجودہ مصروفیات پر ندامت ہوگی‘ اور اس کی کوشش کا رُخ بدلے گا۔ اس کے نتیجے میں باہمی آویزش یقینا کم ہوگی۔
میں اس وقت کسی کو یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنے خیالات و مزعومات کوبدلے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنی توانائی صَرف کرنے کا محل تلاش کر کے اس پر لگا دیں اور باہمی اختلافات کو صرف حلقہ ٔ درس یا فتویٰ یا تحقیقی رسائل تک محدود کر دیں‘ اور ان میں بھی لب و لہجہ قرآنی اصولِ دعوت کے مطابق نرم رکھیں۔ فقرے کسنے اور دوسرے کی توہین کرنے کو زہر سمجھیں۔ ہمارے پبلک جلسے‘ اخبار اور اشتہار بجائے باہمی آویزش کو ہوادینے کے اسلام کے بنیادی اور متفق علیہ مسائل پر لگ جائیں تو پھر ہماری جنگ‘ جو فساد کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ وہ دوبارہ جہاد میں تبدیل ہو جائے گی ‘اور اس کے نتیجے میں عوام کا رُخ بھی باہمی جنگ و جدل سے پھر کردین کی صحیح خدمت کی طرف ہو جائے گا۔
صحیح اور غلط طرزِ عمل
بہت سے حضرات مسائل میں علماء کے اختلافات سے پریشان ہو کر پوچھا کرتے ہیں کہ ہم کدھر جائیں‘ جس کی تہہ میں یہ پوشیدہ ہوتا ہے کہ اب ہم کسی کی نہ سنیں‘ سب سے آزاد ہو کر جو سمجھ میں آئے کیا کریں۔ اور بہ ظاہر ان کا یہ معصومانہ سوال حق بجانب نظر آتا ہے‘ لیکن ذرا غور فرمائیں تو ان کو اس کا جواب اپنے گردوپیش کے معاملات میں خود ہی مل جائے گا۔ایک صاحب بیمار ہوئے۔ ڈاکٹروں یا حکیموں کی آراء میں تشخیص و تجویز کے بارے میں اختلاف ہو گیا تو وہ کیا کرتے ہیں؟ یہی ناکہ وہ اُن ڈاکٹروں اور حکیموں کی ڈگریاں معلوم کر کے ‘یا پھر ان کے مطب میں علاج کرانے والے مریضوں سے یا دوسرے اہل تجربہ سے دریافت کر کے اپنے علاج کے لیے کسی ایک ڈاکٹر کو متعین کر لیتے ہیں۔ اسی کی تشخیص و تجویز پر عمل کرتے ہیں مگر دوسرے ڈاکٹروں اور حکیموں کو برا بھلا کہتے نہیں پھرتے۔ یہاں کسی کا یہ خیال نہیں ہوتا کہ معالجوں میں اختلاف ہے تو سب کو چھوڑو‘ اپنی آزاد رائے سے جو چاہو کرو۔ کیا یہی طرزِ عمل علماء کے اختلاف کے وقت نہیں کر سکتے؟
ایک مثال اور لیجیے! آپ کو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کرنا ہے۔ قانون جاننے والے وکلاء سے مشورہ کیا۔ ان میں اختلافِ رائے ہوا تو کوئی آدمی یہ تجویز نہیں کرتا کہ مقدمہ دائر کرنا ہی چھوڑ دے‘ یا پھر کسی وکیل کی نہ سنے اور خود اپنی رائے سے جو سمجھ میں آئے وہ کرے۔ بلکہ ہوتا یہی ہے کہ مختلف طریقوں سے ہر شخص اتنی تحقیق کر لیتا ہے کہ ان میں کون سا وکیل اچھا جاننے والا اورقابل ِ اعتماد ہے‘ اس کو اپنا وکیل بنا لیتا ہے ‘اور دوسرے وکیل کو باوجود اختلاف کے دشمن نہیں سمجھتا‘ برا بھلا نہیں کہتا‘ اس سے لڑتا نہیں پھرتا۔
یہی فطری اور سہل اصول اختلافِ علماء کے وقت کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ یہاں ایک بات یہ بھی سن لی جائے کہ بیماری اور مقدمے کے معاملات میں تو آپ نے کسی غلط ڈاکٹر یا غیر معتمد وکیل پر اعتماد کر کے اپنا معاملہ اس کے حوالے کر دیا تو اس کا جو نقصان پہنچنا ہے وہ ضرور آپ کو پہنچے گا‘ مگر علماء کے اختلاف میں اس نقصان کا بھی خطرہ نہیں۔
حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے اگر کسی عالم سے سوال کیا اور اس نے فتویٰ غلط دے دیا تواس کا گناہ سوال کرنے والے پرنہیں‘ بلکہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔ شرط یہ ہے کہ سوال اس شخص سے کیا گیا ہو جس کا عالم ہونا آپ نے ایسی ہی تحقیق و جستجو کے ذریعے معلوم کیا ہو جو اچھے معالج اور اچھے وکیل کی تلاش میں آپ کیا کرتے ہیں۔ اپنی مقدور بھر صحیح عالم کی تلاش و جستجو کر کے آپ نے ان کے قول پر عمل کر لیا تو آپ اﷲ کے نزدیک بری ہو گئے۔ اگر اس نے غلط بھی بتا دیا ہے تو آپ پر اس کا کوئی نقصان یا الزام نہیں۔ ہاں یہ نہ ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر کی تلاش میں تو اس کا ایم بی بی ایس ہونا بھی معلوم کریں ‘اور یہ بھی کہ اس کے مطب میں کس طرح کے مریض زیادہ شفایاب ہوتے ہیں‘ مگر عالم کی تلاش میں صرف عمامے‘ کُرتے اور داڑھی کو یازیادہ سے زیادہ جلسے میں کچھ بول لینے کو معیار بنا لیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ اپنی ذمہ داری سے بری نہیں۔ اس نے جواب میں کوئی غلطی کی تو آپ بھی اس کے مجرم قرار پائیں گے۔
باہمی جنگ و جدال کے دو رُکن
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آج مذہب کے نام پر جو جنگ و جدال کا بازار گرم ہے اس کے دو رکن ہیں۔ ایک ہر فرقہ اور جماعت کے علماء‘ دوسرے وہ عوام جو اِن کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ علماء اگر اپنی تحقیق و تنقید میں قرآنی اصولِ دعوت کے مطابق دوسرے کی تنقیص و توہین سے پرہیز کرنے لگیں‘ اور اسلام کے وہ بنیادی مسائل جن میں کسی فرقے کو اختلاف نہیں اور اسلام اور مسلمانوں پر جو مصائب آج آ رہے ہیں وہ سب انہی مسائل سے متعلق ہیں‘ اپنی کوششوں اور محنتوں کا رُخ اس طرف پھیر دیں‘ اسی طرح عوام اپنی مقدور بھر پوری کوشش کر کے کسی صحیح عالم کا انتخاب کریں اور پھر اس کے بتائے طریقے پر چلتے رہیں‘ دوسرے علماء یا ان کے ماننے والوں سے لڑتے نہ پھریں‘ تو بتائیے کہ ان میں اشکال کیا ہے؟ سارے فرقے اور ان کے اختلافات بدستور رہتے ہوئے بھی یہ باہمی جنگ و جدل ختم ہو سکتا ہے‘ جس نے آج مسلمانوں کو کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ صرف ذرا سی توجہ دینے اور دلانے اور طرزِ عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ کاش میری یہ آواز اُن بزرگوں اور دوستوں تک پہنچے جو اِس راہ میں کچھ کام کر سکتے ہیں‘ اور محض اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر اس ہمدردانہ دعوت کے لیے کھڑے ہو جائیں تو اُمت کی بہت سی مشکلات حل ہو جائیں‘ اور ہمارا پورا معاشرہ جن مہلک خرابیوں کی غار میں جا چکاہے ان سے نجات مل جائے۔
عام سیاسی اور شخصی جھگڑوں کا علاج
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مذہبی معاملات میں جس شخص نے کوئی خاص رُخ اختیار کر رکھا ہے ‘ وہ اسی کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین سمجھ کراختیار کیے ہوئے ہے‘ خواہ وہ حقیقت کے اعتبار سے بالکل غلط ہی ہو ‘مگر اس کا نظریہ کم از کم یہی ہے کہ وہ اﷲ کا دین ہے۔ ان حالات میں اس کو ہمدردی اور نرمی سے اپنی جگہ افہام و تفہیم کی کوشش تو بجائے خود جاری رکھنا چاہیے ‘لیکن جب تک اس کا نظریہ نہ بدلے اس کو دعوت نہیں دی جا سکتی کہ تم ایثار کر کے اپنا نظریہ چھوڑ دو اور صلح کر لو۔ ان سے تو صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اختلافِ رائے کو اپنی حدود کے اندر رکھیں اور افہام و تفہیم‘ قرآنی اصول و حکمت و موعظت اور مجادلہ بالتی ھی احسن کو نظر انداز نہ کریں۔مگر جن معاملات کا تعلق صرف شخصی اور ذاتی حقوق اور خواہشات سے ہے‘ وہاں یہ معاملہ سہل ہے کہ جھگڑے سے بچنے کے لیے دوسرے کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دے‘ اپنے حق سے دستبردار ہو جائے۔ اور جو شخص ایسا کرے دنیا میں بھی اس کی عزت کو چار چاند لگ جاتے ہیں اورجس مقصد کو چھوڑا ہے وہ بھی دوسرے راستے سے حاصل ہو جاتاہے‘ اور آخرت میں تو اس کے لیے ایک عظیم بشارت ہے جس کا بدل پوری دنیا اوردنیا کی ساری حکومتیں اور ثروتیں بھی نہیں ہو سکتیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَاءَ وَاِنْ کَانَ مُحِقًّا))(۱)’’میں ضامن ہوں اُس شخص کو وسط جنت میں مکان دلانے کا جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیا۔‘‘
میں آخر میں پھر اپنے پہلے جملے کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ ہماری ساری خرابیوں کی بنیاد قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا ہے اور یہ آپس کی لڑائی بھی درحقیقت قرآنی تعلیمات سے ناواقفیت یا غفلت ہی کا نتیجہ ہے۔ گروہی تعصبات نے یہ حقائق نظروں سے اوجھل کر رکھے ہیں۔دنیا میں صالحین کی اگرچہ قلت ضرور ہے مگر فقدان نہیں۔ افسوس ہے کہ ایسے مصلحین کا سخت قحط ہے جو گردوپیش کے چھوٹے چھوٹے دائروں سے ذرا سر نکال کر باہر دیکھیں اور اسلام اور قرآن ان کو کس طرف بلا رہے ہیں‘ ان کی صدا سنیں۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین کے راستے پر چلنے کی توفیق کامل عطا فرما دیں۔
اَللّٰہُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وََتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَالْفِعْلِ وَالْعَمَلِ وَالنِّـیَّـۃِ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ وَصَفْوَۃِ رُسُلِہٖ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
ء ء ء