جمشید حامد ملتانی
امت مسلمہ کے احوال میں بطور مثال صرف شام کے المیہ کو ہی دیکھ لیا جائے۔ شام کے موجودہ حا لات پر شاید میری باتیں تلخ ہوں لیکن حقیقت پر مبنی ہوں گی۔شام خود ایک ایسی تلخ حقیقت بن گیا ہے کہ مسلم اُمہ کے لیے جس کے ادراک کے بعدہر راحت بے مزہ ہو کر رہ گئی ہے۔
شام کے مسلمانوں کی زندگی دہکتی آگ میں گزر رہی۔ وہ ہر دن جل رہے ہیں نہ اُن کوکھانامیسر ہے نہ پینا، نہ تعلیم اور نہ طبی امداد۔اس ترقی یافتہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب عالمی تنظیمیں شام کے معاملے میں سر گرم ہونے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ شاید شام کے مسلمانوں کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے انسانی حقوق تنظیمیں شام کے معاملے میں کوئی بات نہیں کرتی اور نہ کوئی کردار ادا کرتی ہیں۔ جیسے ہی اِن کے سامنے شام کے متعلق کوئی بات ہوتو یہ آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بہرے ہوجاتے ہیں۔حالانکہ شام نئے اور خطرناک ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بن گیا ہے لیکن پھر بھی سب خاموش ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ۔
یوں تو ہر دہشت گردی کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایاجاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھلی دہشت گردی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہے اور کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے۔ جہاں کہیں بھی انسانوں پر شدید ظلم ہو رہا ہو تو یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضرور مسلمان ہی ہو گا۔ اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ مغربی ممالک کی مسلم دشمن تنظیمیں مسلمانوں کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے دھکیلنے اور معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر کرنے کیلئے ہر قسم کی سازشیں کررہے ہیں۔ اور اس جنگ میں اپنے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنی دولت کا ایک بہت بڑا حصّہ خرچ کررہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی افواج ،تھنک ٹینک اور خفیہ اداروں کی مدد سے مسلمانوں کو شدید قسم کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آج کا مسلمان دشمنوں کے ایسے شکنجوں میں جکڑ چکا ہے جس سے نکلنے کے لیے اﷲ تعالی کی خاص توفیق اور بہت ہی سوچ سمجھ کی ضرورت ہے اور دشمنوں کے یہ شکنجے کئی صورتوں میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ پیرویٔ مغربی اب ہمارے ظاہری احوال میں بھی غالب آتی جا رہی ہے۔ہمارے نوجوانوں کے لباس، ہماری گفتگو اور فارغ اوقات کی مصروفیت میں فحاشی و عریانی کا پھیلنا، موسیقی Facebook,Tiktok,) Bigo, Likee, ( اور نجانے کتنی مزید لا یعنی اور گناہ آموز آلات و اسباب کے ذریعے مسلمانوں کی نئی نسل کو بے مقصدیت کے گہرے کنوؤں میں ڈال کر ان کے دلوں کو مُردہ، حق پرستی اور مدافعت حقوق کے جذبات میں پست اور حقیقی مقصد سے دور کیا جا رہا ہے۔ اگر ان احوال پر بروقت قابو نہ پایا گیا اور تدارک نہ ہوا تو آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوگا۔ اس ابلیسیت سے محفوظ رہنے کیلئے سب سے پہلے مسلمانوں کو اپنی حقیقت کو پہچاننا ہو گا۔ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کون ہیں اور ہم نے اپنی شناخت جو بھی طے کی ہے وہ کس وجہ سے ہے۔ سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے آپس میں اتحاد قائم کرنا، فرقہ واریت ختم کرنا اور اپنی تعلیمات کو اﷲ کے نظام و قوانین کے مطابق درست کرنا لازمی ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمیں ذلت اور رسوائی سے کوئی نہیں بچا سکتا کیونکہ اﷲ پاک نے حقیقی ایمان اور اﷲ کے نظام و قوانین کوچھوڑ کرجعلی ایمان اور دنیاوی نظام و قوانین کو اختیار کرنے والوں کے بارے میں قرآن شریف میں مذکورہ ارشاد کا مفہوم کچھ یوں ہے:
ایسی قوم کو راہِ راست کیسے نصیب ہو سکتی ہے ،جس نے اﷲ کے نظام و قوانین پر عمل پیرا ہونے کے بعد پھر ان کے خلاف زندگی بسر کرنا شروع کردی ، حالانکہ وہ خود اس بات پر شاہد ہیں کہ ان کے رسول نے، اﷲ کے نظام کو عملی شکل دے کر ،اور دُنیا کے سامنے اس کے واضح نتائج پیش کر کے ،اس کا حق ہونا ثابت کر دیا تھا۔سو ظاہر ہے ایسی ظالم قوم،اﷲ کی دی ہوئی رہنمائی سے فیضیاب نہیں ہو سکتی ۔یہ قوم اﷲ کے نظام کے ثمرات سے اور کائناتی قوتوں کی برکات سے محروم رہے گی ،اور اقوامِ عالم بھی انہیں ذلیل و خوار سمجھ کر ان پر پھٹکار کرتی رہیں گی۔ یہ ذّلت و خواری ان پر ہمیشہ مسلّط رہے گی اور کسی طرح کے زبانی جمع خرچ سے ان کے عذاب میں کمی واقع نہ ہو سکے گی۔ اور نہ ان کے اعمال کے نتائج نکلنے میں دیر ہوگی۔ ہاں اگر یہ لوگ غلط روشِ زندگی کو چھوڑ کر پھر سے اﷲ کے نظام و قوانین کی طرف لوٹ آئیں، اور اپنی ذات اور معاشرہ کی اصلاح کر لیں تو انہیں پھر سے اﷲ کے نظام کا تحفظ اور اس کی رحمت حاصل ہوسکتی ہے ۔(سورت آل عمران، آیت: ۸۶ تا ۸۹)
اسی طرح اتحاد اور وحدت کی ضرورت پر بھی کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب تک ہم مسلمانوں کا آپس میں اتحاد نہیں ہوگا تو کوئی بھی ایسے ہی ہمیں نقصان پہنچاتا رہے گا اور ہمارے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ فرقہ واریت ہے۔ ہماری زندگی میں توحید کی مرکزی حیثیت کا ختم ہوجانا اور دلوں میں ایمان اور اسکا جذبہ ختم ہونا بھی بڑی وجہ ہے۔ یہ سب قرآن پاک کی روح کو خود سے ہم آہنگ نہ کرنے اور اﷲ کے نظام کے مطابق زندگی بسر نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
اسی لیے لوگوں میں دین کا جذبہ نہیں رہا اور مسلمان خود دوسرے مسلمان کے حق کے لیے کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ آج ہم افراتفری کے دور میں ہیں جوکہ قیامت کا نزدیک ترین وقت ہے۔ آج شام، فلسطین، برما، کشمیراورنہ جانے کتنی بے شمارجگہیں ہیں جہاں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔اگرہم نے اﷲ کے نظام کے مطابق اپنے احوال کی فکر نہ کی تو ایسے ہی مزید ذلت اور رسوائی کا سامنا ہوگا۔ اور اگرہم نے اپنے نظام کر درست کر لیا تو اِس میں کوئی شک نہیں(اﷲ ) ضرورمظلوم مسلمانوں کا ساتھ دے گا اور کافرکو شکست کا سامنا ہوگا۔