(قسط: ۱)
آغا شورش کاشمیری رحمہ اﷲ
اُن تمام تحریکوں کے با وجود جو ہندوستانی مسلمانوں میں برطانوی وفاداری کی فصل اگا چکیں اور پھل دے رہی تھیں، انگریز جہاد کی روح سے بدستور ہراساں تھا۔ اس کے لیے ۱۸۸۰ء کے بعد بنگال میں کوئی خطرہ نہ رہا تھا۔ اس نے ہندو اکثریت کے تمام صوبے اپنی مٹھی میں اس طرح کیے تھے کہ ان میں جہاد خارج از بحث ہو چکا تھا۔ صوبہ جات متحدہ میں مسلمان ایک ثقافتی طاقت رہ گئے تھے اور اپنے اپنے سرداروں کی ملکیت تھے۔ ان سرداروں پر انگریزوں نے کچھ اس طرح قبضہ پالیاتھا کہ ان سے جہاد کا پیدا ہونا ناممکن ہو چکا تھا، لیکن انگریز کے استعماری منصوبوں کی نگاہیں ہندوستان سے ملحق مسلمان ریاستوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔
جنگ امبیلہ ۱۸۶۳ء کے فوراً بعد انگریزوں نے جہاد کی پاداش میں پانچ مقدمہ ہائے سازش قائم کیے۔ پہلا مقدمۂ سازش انبالہ ۱۸۶۴ء میں، اس میں گیارہ ملزم تھے۔ دوسرا مقدمۂ سازش پٹنہ ۱۸۶۵ء میں، تیسرا مقدمہ سازش راجہ محل ۱۸۷۰ء میں، چوتھا مقدمۂ سازش پٹنہ میں اور پانچواں مقدمۂ سازش ۱۸۷۱ء میں پٹنہ ہی میں اس کے سات ملزم تھے۔ ان مشہور مقدمات کے علاوہ اور کئی مقدمے قائم کیے گئے۔ ان کے ماخوذین کی استقامت نے انگریزی حکومت کو سخت پریشان کیا، کئی ایک ملزم جنہیں موت کی سزا دی گئی، ان کی سزا اس بنا پر عمر قید میں بدلی گئی کہ وہ موت سے پیار کرتے تھے اور شہادت کی لگن میں اُن کا وزن بڑھ گیا تھا۔ انگریز محسوس کرتا تھا کہ جہاد کا شعلہ کسی وقت بھڑک سکتا ہے۔ گو انگریزوں نے پنجاب کے (غداروں کے تعاون کے) بل پر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو ختم کیا اور تجربہ سے معلوم ہو چکا تھا کہ اس صوبہ کا سپاہی اس کے لیے بہت بڑی متاع ہے۔ لیکن برطانوی استعمار کے آئندہ ارادے مسلمان رعایا کو جس سانچہ میں ڈھالنا چاہتے تھے، ان کا خاکہ عجیب و غریب تھا۔ خلافت عثمانیہ، برطانیہ اور اس کے نصرانی اتحادیوں کی نگاہ میں تھی اور وہ اس کی بندر بانٹ کا منصوبہ تیار کر چکے تھے۔ ان کے پیش نظر ترکوں اور عربوں کو ایک دوسرے سے بھڑانا ہی نہیں تھا بلکہ عربوں کو مختلف ریاستوں میں بانٹ دینے کا منصوبہ ان کے ذہن میں تھا۔ اس منصوبہ کے لیے پنجابی سپاہی منتخب کیا گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء) ملازم تھا۔ ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم۔ اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ اس کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندر خانہ بات کرتے۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے اس سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا، اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا قادیانی استعفیٰ دے کر قادیان آ گیا۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا قادیانی نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔
برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا۔ ان میں سے مرزا قادیانی نبوت کے لیے نامزد کیا گیا۔
مرزا قادیانی کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ (صفحات: ۵۶۲) چار حصوں میں شائع ہوئی، ۱۸۸۰ء میں پہلے دو حصے شائع ہوئے، ۱۸۸۲ء میں تیسرا اور ۱۸۸۴ء میں چوتھا۔ اس کے دوسرے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم۔ اے کی تالیف سلسلۂ احمدیہ کے مطابق ’’آپ کو ماموریت کا تاریخی الہام مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا‘‘۔ اس سے پہلے اس نے ۱۸۸۰ء میں ملہم من اﷲ ہونے کا اعلان کیا اور اپنے مجدد ہونے کا ناد پھونکا۔ دسمبر ۱۸۹۱ء میں اپنے مسیح موعود ہونے کی خبر دی اور ظلی نبی ہونے کی اصطلاح ایجاد کی، پھر ۱۹۰۱ء میں نبوت کا دعویٰ کیا، اور نومبر ۱۹۰۴ء میں کرشن ہونے کا اعلان کیا۔ یہی وہ سال تھے جب انگریزی سیاست اپنے استعماری عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کا شکار کر رہی تھی اور اس کے سامنے بیرون ہندوستان کی مسلمان ریاستوں کو اپنے دام میں لانے کا منصوبہ بھی تھا۔ مرزا قادیانی ان نکات کا جامع ہو کر سامنے آیا، جو انگریزوں کے ذہن میں تھے۔ اس نے انگریزی سلطنت کے استحکام و اطاعت کی بنیاد اپنے الہام پر رکھی اور ایک نبی کا روپ دھار کر انگریزی سلطنت کی وفاداری سے انحراف کو جہنم کی سزا کا مستحق قرار دیا۔ اپنی ربانی سند کے مفروضہ پر جہاد کو منسوخ کر ڈالا اور ان لوگوں کو حرامی قرار دیا جو اس کے بعد جہاد کا نام لیتے یا اس کی تلقین کرتے تھے۔
ہندوؤں میں آریہ سماج نامی ایک پروگریسو فرقہ اٹھ رہا تھا، سوامی دیانند اس کے بانی تھے۔ مرزا قادیانی نے اس فرقہ کو ہدف بنا کر ہندو دھرم پر رکیک حملے کیے، نتیجتاً آریہ سماج نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن و اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا آغاز کیا۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے عیسائی مشنریوں کے خلاف یُدھ رچایا۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے متعلق نا زیبا زبان استعمال کر کے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف مشنریوں کی زبان کھلوائی، نتیجتاً پنجاب کے مسلمان جہاد سے رو گردان ہو کر ہندو دھرم اور عیسائی مذہب سے نبرد آزما ہو گئے، محاذ کا رخ پلٹ گیا۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت سے خود مسلمانوں میں ایک ایسا محاذ کھل گیا کہ علماء کے لیے ختمِ نبوت کا مسئلہ حفظِ ایمان کے لیے ضروری ہو گیا۔ مرزا قادیانی نے مسلمانوں کے حصارِ وحدت کو منہدم کرنے کے لیے ایک ایسی کدال اٹھائی کہ وہ انگریزوں کے خنجر کو بھول کر اس کدال کے پیچھے پڑ گئے۔ گو مسلمانوں کے ہر دائرہ میں انگریزوں کی ہر خواہش پورا کرنے کے لیے مختلف افراد پیدا ہو چکے تھے، لیکن مرزا قادیانی اس رعایت سے ان سب کا جامع تھا کہ جہاں انگریز اپنے قلعے مضبوط رکھنا چاہتا تھا۔ وہاں مرزا نے ’’حواری نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ کر کے اس ضرورت کا سفر شروع کیا۔ ادھر علماء کے محاسبہ سے مرزا کی شہرت کا آغاز ہو گیا اور یہی وہ چاہ رہے تھے، ورنہ مرزا خود ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کے صفحہ ۲۱۱ پر تسلیم کرتا ہے کہ:
’’ہماری معاش کا دارومدار والد کی ایک مختصر آمدنی پر تھا۔ اور بیرونی لوگوں میں ہمیں ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا۔ میں ایک گمنام انسان تھا، جو قادیان جیسے ویران گاؤں کے زاویۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا‘‘۔
مرزا نے عیسائیوں اور آریوں سے مناظرے کی آڑ میں مسلمانوں سے چندہ مانگنا شروع کیا، تو تین لاکھ سے زائد روپیہ جمع ہو گیا(حقیقۃ الوحی)۔ اپنے الہامات کو مدار بنا کر انگریزی حکومت کی تائید و حمایت میں اس قدر کتابیں لکھیں کہ ’’تریاق القلوب‘‘ (مصنفہ مرزا غلام احمد)، صفحہ ۱۵ کے مطابق وہ تمام کتابیں اکٹھی کی جائیں تو ان سے ۵۰ الماریاں بھر سکتی ہیں۔ انگریز اسلامی ملکوں میں اپنے آئندہ منصوبوں کے لیے نقب لگارہاتھا۔ مرزاکی اطاعت و حمایت کے مذکورہ پلندے اس منصوبہ کاراشن تھا۔ ان کتابوں سے عربی فارسی اورانگریزی میں تراجم کرائے گئے۔ پھران کتابوں اور مرزاکے سینکٹروں اشتہاروں کو عرب،مصر، شام، کابل اور روم بھجوایاگیا۔ (ملاحظہ ہو: انقلاب مصنفہ مرزاقادیانی )مرزانے اس مہم کے سلسلہ میں بہت سے کتابچے کئی ایک کتابیں اور بے شمارخطوط اور اشتہارشائع کیے۔ ان سب کالب لباب یہ تھاکہ مسلمان سلطنت برطانیہ کے سچے خیرخواہ ہوجائیں۔ خونی مہدی او رخونی مسیح کی بے اصل روایتوں کوترک کردیں اور جہاد کوجوش دلانے والے مسائل جواحمقوں کے دلوں کوخراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں‘‘۔ (تریاق القلوب صفحہ۱۵)
مرزانے اپنی کتاب ’’شہادت القرآن ‘‘میں اپنے ایک اشتہار کو صفحہ ۳ پر نقل کیاہے۔ لکھتاہے:
’’میرامذہب جس کومیں باربارظاہر کرتاہوں۔ یہی ہے کہ اسلام کے دوحصے ہیں ایک یہ کہ خداتعالی کی اطاعت کرے۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیااور ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہے اور وہ سلطنت برطانیہ ہے‘‘۔
ایک دوسری کتاب ’’تبلیغ رسالت ‘‘جلد ہفتم کے صفحہ۱۰پرلکھتاہے:کہ میں اس وقت ساٹھ برس کاہوں اس عمرتک اسی ایک اہم کام میں مشغول ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں کوحکومت انگلشیہ کی سچی محبت ‘خیر خواہی اور ہمدردی کی طرف پھیردوں اور کم فہموں کے دلوں سے جہاد کا غلط خیال دور کر دوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ مسلما نوں کے دلوں پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہو گئی۔ ‘‘
تبلیغ رسالت جلد ششم کے صفحہ ۶۵ پر گورنمنٹ کے نام ایک عریضہ ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ:میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے لکھی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے جہاد ہر گز درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلامیہ میں پہنچائیں۔ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے۔ ‘‘اسی عریضہ میں درج ہے کہ ’’میرے مریدوں کی ایک جماعت تیار ہوئی ہے ‘جو اس گورنمنٹ کے دل و جاں نثار ہیں۔‘‘ ایک دوسری جگہ رقم طرازہے :’’میں نے اس مضمون کی ۵۰ ہزار کے قریب کتابیں رسائل اور اشتہارات چھپوا کر ملک اور دوسرے بلاد اسلام میں بھجوائے ہیں کہ انگریزی حکومت ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اﷲ کا شکر گزار ہو اورــدعا گو رہے۔ میں نے یہ کتابیں اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی بخوبی شائع کی ہیں۔ اس کے علاوہ روم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ، بلادِ شام، مصر اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھاان کی اشاعت کی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑدیے جو نا فہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ مجھے اس خدمت پرفخرہے، برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی کوئی نظیرکوئی مسلما ن نہیں دکھلاسکتا۔ (ستارۂ قیصریہ۳)
غرض مرزاخود ساختہ نبوت کے بل پر جہاد کی تنسیخ اور ممانعت کے لیے لگا تار الہام پر الہام شائع کرتارہااور ان الہامات و نگارشات سے بھری ہوئی کتابیں عربی‘فارسی اور انگریزی میں ترجمہ ہو کر برطانوی عملداری کی معرفت ان تمام ممالک میں تقسیم ہوتی رہیں جواس وقت تک برطانوی اقتدار میں آچکے اورباقی اس کی استعماری نگاہ میں تھے۔ ’’منارۃ المسیح‘‘کی تعمیر کے لیے فراہمیٔ چندہ کے اشتہار میں مرزا نے لکھا کہ: (بہ تلخیص) ’’اس مینار کو کسی حصۂ دیوار میں نصب کرایا جائے گا کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا۔ اب سے زمینی جہاد بند کیے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ آج سے دین کے لیے لڑنا حرام کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لیے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی کہلا کر قتل کرتا ہے، وہ خدا اور اس کے رسول کا نا فرمان ہے۔
تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۷پرلکھاہے کہ:
’’جیسے جیسے میرے مریدبڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے، کیونکہ مجھے مسیح و مہدی مان لیناہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔ ‘‘
مرزانے ایک رسالہ نور الحق تصنیف کیا۔ اس میں لکھاکہ:’’اس حکومت کے پاس میرا کوئی ہمسر اور نصرت و تائید میں مثیل نہیں۔ میرا وجود انگریزی حکومت کے لیے ایک قلعہ ایک حصار اور تعویذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘
مرزانے اطاعت برطانیہ اور حرمت جہاد کے سلسلہ میں بلاشبہ ایک ضخیم دفتر مرتب کیا۔ تبلیغ رسالت میں واضح طور پر اقرار کیا کہ :’’میرے پانچ اصول ہیں جن میں دو حرمت جہاد اور اطاعت برطانیہ ہیں۔ ‘‘
مر زاکے فرزندمرزامحمود احمدنے تنسیخ جہاد کے موروثی سو ال پر کہا: ’’بعض احمق سوال کر تے ہیں۔ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنادرست ہے یانہیں ؟یہ گورنمنٹ ہماری محسن ہے اس کاشکریہ اداکرنافرض اور واجب ہے۔ محسن کی بد خواہی ایک بدکاراور حرامی کاکام ہے۔ ‘‘(الفضل جلد ۲۷۔ ۲ا؍دسمبر۱۹۳۹ء)
پہلی جنگ عظیم ۱۸ ۱۹۱۴-ء میں عر ب ریاستوں کے احوال و آثار اور اسرار ووقائع چور ی کرنے کے لیے مرزا محمود نے اپنے پیروؤں کی ایک کھیپ مہیا کی۔ ہندوستانی فوج کی ہر کمپنی کے ساتھ جاسوسی کے فرائض انجام دینے کے لیے ایک یا دوقادیانی منسلک کیے گئے۔ کئی ایک معتمد ترکی بھیجے گئے جنہوں نے مقامی ملازمت کے پردے میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی حسب ہدایت کام کیا۔ دمشق میں مرزا محمود کا سالا ولی اﷲ زین العابدین ترکوں کی پانچویں ڈویژن کے انچارج جمال پاشا کی معرفت قدس یونیورسٹی میں دینیات کا لیکچرار لگ گیا لیکن جس روز انگریزی فوج دمشق میں داخل ہوئی وہ انگریزی کمانڈر کے ماتحت ہوگیااور کئی ایک معتمد ترکوں کے قتل کرانے میں حصہ لیا۔ اس کا چھوٹا بھائی میجر حبیب اﷲ شاہ فوج میں ڈاکٹر تھا۔ اس کو بغداد فتح ہونے پر عارضی گورنر مقرر کیا گیا۔ جب ۱۹۲۴ء میں عراقی حکومت کو مرزائیوں کے خد و خال کا پتہ چلا تو ان کی غدارانہ سرگرمیوں کے باعث ان سب کو وہاں سے نکال دیا۔ مرزا محمود نے جمعہ کے خطبہ (مطبوعہ الفضل ۳۱؍اگست ۱۹۲۳ء)میں اعترا ف کیاکہ:’’عراق فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہایا اور میری تحریک پر سیکڑوں لوگ بھرتی ہو کر گئے‘‘۔
مرزا محمود نے مصطفی کمال کوقتل کرنے کے لیے اپنے ایک معتمد نوجوان مصطفی صغیر کا انتخاب کیا۔ اس کو انگریزی حکومت نے مرزا معراجدین سپرنٹنڈنٹ سی آئی ڈی کے ہمراہ ترکی روانہ کیا لیکن وہ اقدام قتل سے پہلے پکڑا گیا اور پھانسی پا گیا۔ میر سعد حیدر آبادی مکہ مکرمہ میں قادیانی مشن کا انچارج تھا اور وہاں برطانوی محکمہ جاسوسی کے ایک اہم عہدیدار کرنل ٹی۔ ڈبلیو لارنس کی ہدایت پر کام کرتا تھا۔ لیکن جب عربوں کو اس کا پتہ چلا تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت فرار ہو گیا۔ شام میں جلال الدین شمس کو مقرر کیا گیا لیکن جب اہل شام کو معلوم ہو اکہ برطانوی جاسوس ہے تو ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو اس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن وہ بچ گیا۔ آخر عراق میں برطانوی گرفت ڈھیلی پڑنے پر۱۷ ؍مارچ ۱۹۲۸ء کو حیفہ آ گیا۔
اس کے بعد برطانوی سرکار کی ہدایت پر فلسطین کو قادیانی کارندوں کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا۔ وہاں برطانیہ کی جاسوسی کے محکمہ کا افسر اعلی ایک یہودی تھا۔ قادیانی مشن کو اس کے ماتحت کیا گیا اور یہی احمد یت و یہودیت کے درمیان گٹھ جوڑ کا آغاز تھا۔ لائیڈ جارج وزیر اعظم انگلستان نے فلسطین میں قادیانی خدمات کا کھلم کھلا اعتراف کیا۔ ۱۹۲۲ء میں مرزا محمود خود فلسطین گیااور اعلان کیا کہ یہودی اس خطہ کے مالک ہوجائیں گے۔ مرزامحمود نے برطانوی ہائی کمشنرسے ملاقات کی اور آئندہ خدمات کانقشہ تیار کیا۔ جلال الدین شمس کے ساتھ دو یہودی نژاد محمد المغربی الطرابلسی اور عبد القادر عودہ صالح منسلک کیے گئے۔
روس سے برطانیہ کوہندوستان میں ابتداء ہی سے خطرہ تھا۔ لیکن پھر یہ کام قادیانیو ں کو سونپا گیا چنانچہ ۱۹۲۱ء میں ایک قادیانی محمد امین خان ایران کے راستہ روس میں داخل ہوا اور روسی حکومت نے پکڑکے جیل میں ڈال دیا۔ وہ برطانوی حکومت کی مد اخلت سے رہا ہوا واپس آیا تو مرزا محمود سے ہدایت لے کر دوبارہ ایک دوسرے شخص ظہور حسین کے ہمراہ لوٹ گیا۔ ظہور حسین بھی روسی حکومت کے ہاتھ آگیااور دو سال ماسکو جیل میں رہا۔ بالآخر برطانوی سفیر مقیم ماسکو کی تگ و دو سے رہا ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۱۹ء میں افغانستان اور انگریزوں میں جنگ چھڑی تو قادیانی ایک کمپنی کی شکل میں برطانوی خدمات انجام دینے لگ گئے۔ مرزا محمود کا چھوٹا بھائی ٹرانسپورٹ کور میں کام کرتارہااس کے سپرد قبائلی علاقے کے حالات کی فراہمی کا مشن تھا۔ ایک شخص نعمت اﷲ قادیانی کوافغانستان میں جاسوسی کے لیے مقرر کیا گیا۔ لیکن جولائی ۱۹۲۴ء میں وہ گرفتار ہو گیا اور افغان گورنمنٹ نے سنگسار کر ڈالا۔ پھر فروری ۱۹۲۵ء میں دواور قادیانی ملا عبد الحلیم اور ملا نور علی اسی پاداش میں قتل کیے گئے۔ پہلاقادیانی جوافغانستان میں ہلاک کیا گیا۔ وہ صاحبزادہ عبد اللطیف تھا۔ جو مرزا محمود کے بیان کے مطابق (الفضل ۲ا؍گست ۱۹۳۵ء) جہاد کی مخالفت کے جرم میں قتل کرایا گیا۔
مرزا نے استعمار پرستی کی ترنگ میں سب سے شرمناک کام یہ کیا کہ مسلمانوں کی ملی وحدت میں نا قابل عبور خلیج پیدا کی۔ اس وقت جن علماء حق سے مسلمانوں کی دینی غیرت کا چرچا تھا، مرزا نے للکار للکار کے انہیں بے نقط گالیاں دیں۔ ان کے ناوک سے کوئی دینی وجود محفوظ نہ رہا۔ ایک صاحب منشی الہی بخش نے مرزا کی تحریروں سے ان گالیوں کو ردیف وار جمع کیا۔ مرزاکی محبوب گالیاں تو بہت سی تھیں لیکن بڑی گالی یہ تھی کہ جو انہیں نہیں مانتا وہ زانیہ عورتوں کی اولاد ہے(آئینہ کمالات صفحہ ۸۴۷)پھراس کے ہم معنی الفاظ کااعادہ کرتارہا۔ دوسری گالی جس سے مرزا کا نطق لذت پاتا وہ حرامزادہ کالفظ تھا۔ مرزا نے عیسائیوں او ر آریوں کو تسلسل سے حرامزادہ کہا۔ اسی طر ح مسلمان علماء کو اپنی بعض کتابوں اور کئی ایک اشتہاروں میں اسی لفظ سے مخاطب کیا۔ اس کے مترادف جتنے عریاں الفاظ تھے اکثر و بیشتر لکھتا رہا، حتی کہ بعض پمفلٹ صرف گالی تھے۔ مرزا نبی ہوتا تو نبی کی زبان استعمال کرتا۔ چونکہ متنبی تھا اور انگریزی حکومت نے اسے ایک مشن سونپ رکھا تھا اس لیے حکومت مرزا کی اس زبان کا حوصلہ بڑھاتی۔ نتیجۃً عیسائیوں اور آریوں کوپرو پیگنڈاکرنے کاموقع ملتاکہ اسلام میں پیغمبر وں کی زبان یہ رہی ہے اور جو شخص خود کو محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کاظل و بروز کہتا ہے اس کی اپنی زبان اتنی غلیظ ہے تو جس کا بروز و ظل ہے اس کی زبان (خاکم بدہن) کیا ہو گی؟ یہ گویا مرزا کی بدولت سیرت رسول پرحملہ آوری کا ایک حربہ تھا۔ دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ مرزا نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تنافر کو اٹھا کر پختہ کیا جو انگریزی عملداری کے لیے ضروری تھا۔ مرزا برطانیہ کی استعماری خواہشوں کا مظہر تھا۔ اس نے پنجاب کی حد تک انگریزی حکومت کی بے نظیر خدمت کی کہ پور ا صوبہ کئی واسطوں سے وفاداری بشرط استواری کا مرقع ہوگیا اور یہی مرزا کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔
پنجاب کے ان اضلاع میں جو انگریزوں کے لیے سپاہی پیدا کرتے تھے۔ قادیانیت کی آبیاری کی گئی اور عسکری اضلاع میں ایک آدھ گاؤں ان کے لیے مخصوص کیا گیا۔ لیکن پنجاب کاسہ لیسی میں فرد ہونے کے باوجود مرزائیت کے لیے تنگ ہو گیا، تمام مساجد میں مرزائیت کے خلاف جمعہ کو وعظ ہوتے۔ کسی مرزائی کے لیے مسلمانوں میں ٹھہرنا مشکل ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم تک منبر و محراب کے یہی لیل و نہار رہے کہ علماء دینی تقاریر و خطبات میں مرزائیت کا محاسبہ کرتے اور عوام اس سے بچتے۔ کوئی جگہ تھی تو مغربیت میں ڈھلے ہوئے سیاسی مسلمانوں کا ایک گروہ تھا جو قرآن و حدیث سے نا بلد ہونے کے باعث مرزائیت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ خیال کرتا اور اس سے اختلاف کو منبر و محراب کی عادتِ مستمرہ گردانتا یا پھر ان کے مفادات کا ایک حصہ مرزائیت کے حلقہ میں تھا۔ اس زمانہ کے تمام دینی رسائل و جرائد میں مرزائیت کی چتھاڑ کی جاتی۔ ادھر علماء کے تمام حلقے اختلاف فکر و نظر کے باوجود، مرزائیت کے مقابلہ میں متفق الرائے تھے۔ اس زمانہ میں مرزائیت سے متعلق علماء کی جانب سے جو کتابیں، رسالے، کتابچے اور اشتہارات شائع ہوئے، ان کی تعداد ’’مجلس احرار‘‘ کی سروے رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ مرزا کا انتقال برانڈرتھ روڈ لاہور میں ایک معتقد کے ہاں ہوا، لیکن اس کا جنازہ قادیان لے جانا مشکل ہو گیا۔ مسلمانوں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ بعض منچلوں نے بھنگڑا ڈالا کہ ختمِ نبوت کا ایک سارق بیت الخلاء میں نقد جان ہار گیا۔ لوگوں نے ریلوے اسٹیشن تک میت پر کوڑا کرکٹ پھینکا۔ یہ تمام مظاہرہ اس امر کی دلیل تھا کہ مرزا کے لیے مسلمانوں کے ذہن میں کوئی جگہ نہیں۔ وہ اسے کافر و مرتد گردانتے اور اس کے دعویٰ نبوت کو حضور سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم المرسلینی کے خلاف جارحانہ اقدام سمجھتے ہیں۔ ان مظاہر سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی اپنی زندگی ہی میں ملت اسلامیہ کا راندہ ہو چکا تھا اور اس کے لیے ہندوستانی اقوام میں مذہباً کوئی جگہ نہ تھی۔ ادھر مسلمانوں کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ ائمہ تلبیس میں سے ہے۔
احرار رہنما شروع ہی سے قادیانیت کے محاسب تھے، لیکن جماعتی طور پر تحریک کشمیر کے فوراً بعد ۱۹۳۳ء میں قادیانیت کا تعاقب شروع کیا اور سال ڈیڑھ سال کے اندر قادیانی قلعہ میں زبردست شگاف پیدا کر دیے۔ مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریک پیدا کر دی تھی، مجلس احرار نے تنظیم پیدا کی۔ اس تحریک و تنظیم نے قادیانی گروہ کو مسلمانوں کی ذہنی فضا سے بے دخل کر دیا۔ اس صورتِ حال سے قادیانی پریشان اور انگریز ششدر تھے۔ انھوں نے اس مسئلہ کو ’’احرار احمدی‘‘ نزاع سے تعبیر کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ اس طرح مسلمانوں کی احتجاجی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور وہ سیاسی شکایتیں جو مسلمانوں کو احرار سے ہیں اُن کی معاون ہوں گی۔ مرزائیوں نے اس عنوان سے احرار کشی کے لیے دوڑ دھوپ کی۔ پہلے مسجد شہید گنج کی تحریک سے فائدہ اٹھایا۔ پھر پاکستان کی تحریک میں احرار سے مسلمانوں کی ناراضی کو استعمال کیا۔
قادیانی مسلمانوں کی ہر تحریک سے من حیث الجماعت ہمیشہ الگ رہے۔ ان کے نزدیک برطانوی وفاداری کے سوا کسی دوسری وفاداری کا سوال ہی نہ تھا۔ پاکستان بنا تو ظفر اﷲ خان کا وزیر خارجہ ہونا ان کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہو گیا۔ مرزا بشیرالدین محمود مطمئن تھا کہ علماء بالعموم اور احرار بالخصوص تحریک پاکستان میں عدم شمول کے باعث مسلمانوں کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں، اب اُن کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔ اس نے پاکستان کی سیاست کو نرغے میں لینے کی سازشیں شروع کی۔ حتیٰ کہ (۱۹۵۲ء) میں بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ احرار سیاست سے دستبردار ہو گئے تھے، لیکن اس چیز نے اُنھیں چوکنا کر دیا اور وہ قادیانی اُمت کا محاسبہ کرنے دوبارہ میدان میں آ گئے، انھوں نے دو سال میں وہی تحریک اور تنظیم پیدا کر لی، جس نے آزادی سے پہلے قادیانی اُمت کو مسلمانوں کے ذہن سے خارج کر دیا تھا۔ اب مسئلہ پاکستان کی اسلامی ریاست کا تھا، عوام کا احتساب اب بے پناہ ہو گیا، لیکن سرکاری حکام اسی طرح برطانوی استعمار کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ انھوں نے مسئلہ کو احرار احمدی نزاع کا نام دے کر معدوم کرنا چاہا اور تحریک ختمِ نبوت کو مارشل لا کے بل پر کچل ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی احرار کے خلاف پروپیگنڈا تیز ہو گیا۔ جسٹس منیر تحقیقاتی رپورٹ میں مسئلہ کا مذاق اڑایا۔ احرار کو شد و مد سے پاکستان دشمن قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’انھوں نے پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہنگامہ برپا کیا ہے‘‘۔
یہ صحیح ہے کہ مارشل لاء کے استبداد نے راست اقدام کی تحریک ۱۹۵۳ء کو ختم کر دیا، لیکن قادیانی تمام دنیائے اسلام کی نظر میں آ گئے اور جو لوگ اب تک بے خبر تھے کہ مسئلہ کیا ہے؟ وہ باخبر ہو گئے۔ جسٹس منیر نے اس مسئلہ میں نہایت بھونڈا طریق استعمال کیا، انھوں نے علماء کی عزت پر ہاتھ ڈال کر اسلام کا مذاق اڑایا۔ لیکن قادیانیت کے بالارادہ یا بلا ارادہ دفاع کے باوجود اس کو اسلام کا سرٹیفکیٹ دینے کا حوصلہ نہ کر سکے۔
مارشل لا کہاں گیا؟ اور مارشل لا لگانے والے کدھر گئے؟ اس بحث کو چھوڑیے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کا پہلا سنگ میل جلیانوالہ باغ کا حادثہ اور پنجاب کا مارشل لا تھا۔ لیکن اس کے ۲۷ برس بعد انگریز برعظیم سے رخصت ہو گیا۔ وہ مارشل لا جو ۱۹۵۳ء میں ختم نبوت کے فدائیوں پر لگا، اس کے ۲۱ برس بعد از روئے آئین مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہو کر جداگانہ اقلیت قرار پا گئے اور جس قضیہ کو انگریزی عہد کے باقیات نے ’’احرار احمدی نزاع‘‘ کا نام دیا تھا، وہ اسلام کا بنیادی مسئلہ ہو کر حل ہو گیا۔
احرار بلاشبہ اس محاذ کی جاں نثار فوج تھے، لیکن مسئلہ اُن کا نہ تھا۔ مسئلہ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمت اور غلام احمد قادیانی کی جماعت کا تھا۔ مرزا قادیانی نے استعمار کی اندھیری رات میں مسلمانوں کی وحدت پر شب خون مار کر اپنے پیرو پیدا کیے تھے۔ قادیانی ملک کی جدوجہد آزادی میں سیاسی بدکاری کے مرتکب نہ ہوتے یا اُن کا استعماری چہرہ سامنے نہ آتا تو بھی اُن کا احرار کی پکڑ سے بچنا ناممکن تھا۔ اُن کا یہ جرم ہی نا قابلِ معافی تھا کہ مرزا قادیانی نے نبوت کا سرقہ کیا، قرآن و حدیث کے مطالب میں قلمیں لگائیں، خود کو تمام انبیاء کا بروز کہا، جہاد فسخ کیا، برطانیہ کی طاعت لازم کی، حتی کہ ان تمام مسلمانوں کو اسلام سے خارج کر ڈالا، جو اس کے قائل نہ تھے۔ لیکن یہ حقیقت کھل کے سامنے آ گئی کہ مرزا قادیانی برطانوی استعمار کی پیداوار ہے۔ اس کے پیروکار مسلمانوں کے روپ میں برطانوی جاسوس ہیں اور اس کے دو کام ہیں۔ ایک مسلمان ریاستوں کی جاسوسی، دوسرے ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی چاکری۔ احرار نے مختلف مرحلوں و تجربوں میں مطالعہ کیا اور جب اُن کا مطالعہ ہر لحاظ سے مکمل ہو گیا تو قادیانیت کا تعاقب شروع کیا اور چند دنوں ہی میں فضا بدل ڈالی۔
(جاری ہے)