ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ
زیرِ نظر مختصر رسالہ پہلی مطبوعات کی طرح ہی جماعتی تاریخ کے ایک خاص گوشہ کی نقاب کشائی کے لیے قلم بند ہوا ہے۔ صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۹۳۲ء میں جبکہ مجلس احرار اسلام اپنی پہلی عظیم الشان انقلاب انگیز قومی اور سیاسی جدوجہد ’’تحریک کشمیر‘‘ سے فارغ ہوئی اور ریاستی حکومت انگریزی گورنمنٹ کے توسط سے اکابرِ احرار کے ساتھ گفتگو کے ذریعہ مصالحت کر چکی تھی اور زعماء کے علاوہ ہزارں رضاکار رہا ہو کر جیلوں سے باہر آ چکے تھے۔ اس دوران میں پنجاب کی مشہور ہندو ریاست ’’کپور تھلا‘‘ کے حکام نے اپنی پیشرو حکومت کشمیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلم رعایا کو عموماً اور مسلمان کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کو ہندو ساہوکاروں اور جاگیرداروں کا دائمی محتاج و محکوم رکھنے کے لیے ان پر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ لادا، ان کی مجبوری کو انکار و نافرمانی کا عنوان دے کر جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم چلائی تاکہ بیرونِ ریاست کے عوام اصل حقائق سے بے خبر رہیں اور اس آندھی کی اوٹ میں غریب مسلمانوں پر ظلم و تشدد، قید و بند اور لاٹھی گولی کی قیامت برپا کر دی۔
حسنِ اتفاق سے ریاست میں ایک بہت ہی معزز و با رسوخ مسلمان راجپوت گھرانا مجلس احرار اسلام سے وابستہ تھا، جناب چودھری عبدالعزیزبیگووالیہ مرحوم اس کے رکنِ رکین تھے، انھوں نے انسانی، اخلاقی اور اسلامی جذبات و مقتضیات فطرت سے متاثر ہو کر نیز جماعتی تعلق و ربط کے زیر اثر مجلس کے منشور و دستور کے عین مطابق جوابی تحریک کی داغ بیل ڈالی، مسلمان کسانوں کو پرچمِ احرار کے زیرِ سایہ منظم کیا۔ شریف اور معتدل مزاج ہندوؤں کی اخلاقی ہمدردیاں حاصل کیں، جماعتی اجتماعات سے عوام کا حوصلہ بڑھایا، راجا کو عرض داشتیں لکھ کر متوجہ کیا، اس کے وزراء اور افسران و حکام کے رعب داب اور فرضی تحفظ و قوت کے قلعہ کو اخباری اور تقریری پروپیگنڈے کی بمباری سے متزلزل کیا۔ جواباً ریاست کے معرز احرار رہنما کو سب سے پہلے قید و بند کے لیے چن کر خوف و ہراس پیدا کرنے کی حکومتی سیاست کا مشہور و معروف قدیم حربہ استعمال کیا گیا، اس پر احتجاج شروع ہوا اور تحریک عوامی رنگ اختیار کرنے لگی۔
یہ پنجہ آزمائی احرار کے منشاء کے مطابق تھی کیونکہ اسی ذریعہ سے جماعت کو ریاستی معاملات میں دخل انداز ہو کر عوامی نمائندگی اور تحریک کا موقع میسر آ رہا تھا۔ ایسے مواقع پر مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ جماعت کے مشہور و مقبول عوامی کارکن اور سیاسی مبصر جناب ماسٹر تاج الدین انصاری کو بالعموم جائزہ لینے بھیجا کرتے تھے، چنانچہ محترم ماسٹر صاحب سیاسی فوج کَشی کے لیے ریاست کے ناکے پر واقع اپنے مستقر اور مورچہ جالندھر سے کپور تھلا تشریف لے گئے۔ اُن پر کیا بیتی؟ پھر تحریک نے کیا رخ اختیار کیا؟ انتہائی خشک موضوع کے ضمن میں بے حد خوش گوار انداز تحریر کے ذریعہ یہ دلچسپ، مؤثر اور تربیت افزا معلوماتی داستان اس کتابچہ میں ملاحظہ کیجیے۔ باقی تحریک کا نتیجہ یہ تھا کہ بالآخر حکومت کو اصولی مطالبات ماننے پڑے ، احرار رہنما اور کارکن رہا ہو گئے، کشمیر کے بعد کپور تھلا پر بھی جماعت کی دھاک بیٹھ گئی اور دوسری تمام خصوصاً ہندو ریاستوں کے مقتدرین آئندہ کے لیے اپنے معاملات میں محتاط اور چوکس ہو گئے لیکن جنگِ آزادی کو اس محاذ پر نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور مہاراجگان اور والیانِ ریاست کی صورت میں انگریز کی یہ سیکنڈ ڈیفنس لائن مستقل خدشات سے دوچار ہو گئی۔
(جا نشین امیرِ شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ )
(۱۷؍ نومبر ۱۹۶۸ء)
تحریکِ کپور تھلا:
خدا جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، وہ جس سے جو کام چاہے لے لیتا ہے، وہ قادرِ مطلق ہے۔ چاہے تو تنکے سے شہتیر کا کام لے لے، اس کے کاموں میں کسی اور کا دخل نہیں ہوتا۔ مفکرِ احرار جناب چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ ’’تاریخ احرار‘‘ کی ترتیب میں مصروف تھے، وہ چاہتے تھے کہ چند واقعات جن کا میری ذات سے تعلق تھا، لکھ کر اُن کے سپرد کر دوں، مگر میں ان کی اس خواہش کو اہمیت نہ دے کر ہمیشہ ٹالتا رہا۔ ٹال مٹول سے تنگ آ کر ایک روز چودھری صاحب فرمانے لگے: ’’تم مجھے مجبور کر رہے ہو کہ میں تمھاری نسبت جو رائے رکھتا ہوں، اس پر نظرِ ثانی کروں۔‘‘ اس مرحلے پر ضروری سمجھتا ہوں کہ مفکرِ احرار کے بارے میں کچھ عرض کر دوں۔ مرحوم و مغفور باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ غصہ انھیں بہت کم آتا تھا، وہ بیگانوں پر بھی خفا نہیں ہوتے تھے۔ جب کبھی اپنے رفقاء یا کارکن کسی غلط رائے پر اڑ جائیں اور بار بار سمجھانے کے باوجود ان کی رائے سے اتفاق نہ کریں تو انھیں چند منٹ کے لیے غصہ بھی آ جاتا تھا۔ میرے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے اپنے محبوب رہنما کے غصے سے پالا پڑا۔ جیسا کہ بارہا عرض کر چکا ہوں، میرے دل میں چودھری صاحب مرحوم و مغفور کے لیے بے پناہ عقیدت و محبت اور احترام موجود تھا۔ میں انھیں غصے کی حالت میں دیکھ کسی قدر گھبرا کر سپر انداز ہو گیا اور اہم واقعات قلم بند کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا، وہ کچھ نرم پڑگئے اور فرمانے لگے: ’’میرے تقاضا کی اہمیت کو سمجھو، میری بات کو سمجھو، میں دو ماہ سے ان مسودات کو سینے سے لگائے پھرتا ہوں، میں نھیں نذرِ آتش کر دوں گا، اگر تم اس مرتبہ بھی ٹال مٹول سے کام لوگے۔ جب بھی لاہور آتے ہو، میری بات کو سنی اَن سنی کر کے ٹال جاتے ہو، کمرہ بند کر کے بیٹھ جاؤ۔‘‘ یہ فرمایا اور اپنے خاص خادم حاجی نور محمد مرحوم کو آواز دے کر کہنے لگے: ’’دیکھو یہ اندر بیٹھ کر لکھنے لگیں تو تم باہر سے کنڈی لگا دینا، میں اوپر جا رہا ہوں۔‘‘
میں کمرے میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ بہت دیر سوچتا رہا۔ بالآخر دل نے یہی فیصلہ کیا کہ میں معذرت لکھوں۔ میں نے لکھا:
محترم چودھری صاحب!
’’میں آپ بیتی لکھنے سے اس لیے قاصر ہوں کہ مجھے آپ بیتی لکھنے میں خود ستائی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ میں اس بارے میں کس قدر کمزور واقع ہوا ہوں۔ میں جس انداز سے تحریکات میں کام کرتا ہوں، اگر میں وہ سب طور طریقے لکھ دوں تو میرے پلے کیا باقی رہ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے سے مخالف مسلح ہو جائے اور میں شہرت کے ہاتھوں بالکل ناکارہ ہو کر رہ جاؤں گا۔ گمنامی مضبوط قلعے کا کام دیتی ہے، شہرت سیاسی کارکن کو مشکلات میں الجھا دیتی ہے۔ شہرت یافتہ کارکن کی حیثیت مستعمل کارتوس کی ہو جاتی ہے۔ میرے ہاتھوں قدرت جب کوئی اچھا کام لیتی ہے تو آپ میری پیٹھ ٹھونک کر حوصلہ افزائی کر دیتے ہیں، میں اسی نشے میں مست رہتا ہوں۔ گمنام رہوں گا تو زیادہ آسانی سے کام کروں گا، شہرت میرے ایسے کمزور انسان کو لے ڈوبے گی۔‘‘
یہ میری معذرت تھی جو میں نے لکھ کر میز پر رکھ دی۔ مرحوم بالاخانے سے نیچے اتر کر کمرے میں آئے تو میں نے تحریری معذرت ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ چودھری صاحب مرحوم نے میری معذرت پڑھی اور ہنس کر فرمانے لگے: ’’واہ رے میرے صوفی! کسی خانقاہ میں بیٹھ کرہُو حق کا ورد کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں خاموشی سے ان کی باتیں سن کر گل محمد بنا بیٹھا رہا۔ میرے اس رویہ پر معترض یہ معقول اعتراض کر سکتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء کے فسادات کی خونچکاں داستان ’’سرخ لکیر‘‘ کے نام سے کیسے لکھی گئی؟ یہ اعتراض اپنی جگہ بالکل درست ہے مگر میں یہاں بھی اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا۔ اس لیے کہ چودھری صاحب مرحوم و مغفور میرے دماغ کو حکم دیتے تھے۔ شورش کاشمیری میرے عزیز ترین رفقاء میں سے تھے۔ وہ میرے دل سے باتیں کر کے اسے اتنا ہموار کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ دل نے دماغ کو تابع کر لیا اور میں ’’سرخ لکیر‘‘ لکھنے پر آمادہ ہو گیا۔ ’’سرخ لکیر‘‘ بھی اس خونی داستان کی مکمل تصویر نہیں ہے۔ میں وہاں بھی اکثر واقعات کو غچّہ دے گیا ہوں۔ اس لیے کہ ان واقعات میں مجھے خود ستائی کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آ رہا تھا۔ آج میرے خیالات اور میری رائے میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے، یہ تبدیلی صرف اسی قدر ہوئی ہے کہ میں چند واقعات کو نہایت احتیاط سے سپرد قلم کردوں ۔
چل میرے خامے بسم اﷲ:
حافظہ کی طنابوں سے ماضی کو حال کی جانب کھینچ لانا بہت مشکل کام ہے۔ ماضی بعید کا کھینچ لانا تو اور بھی کٹھن ہے۔ اﷲ کے بھروسے پر کوشش کرتا ہوں، وہ امداد فرمائے تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ غالباً فروری کا مہینہ تھا، یہ شاید ۱۹۳۲ء کی بات ہے۔ ان دنوں تحریک کپور تھلا احرار کے گلے کا ہار بن چکی تھی۔ کپور تھلا ریاست کے جابر، متکبر، منتقم اور ظالم حکام نے ہمارے رفیق چودھری عبدالعزیز آف بیگو وال مرحوم کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا دے کر جیل میں بند کر رکھا تھا۔ مسلمانوں کی جذباتی اور برساتی سیاسی جماعتیں جو تحریک کپور تھلا میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے شامل ہوئی تھیں، تحریک کا زور کم ہونے پر ایک ایک کر کے کھسک گئیں۔ احرار مستقل مزاجی سے ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے۔
ریاستی دنیا ہماری دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ وہاں حکام اور عوام ہمارے حکما اور عوام سے طبعاً مختلف ہوتے ہیں۔ ریاست کپور تھلا کے اندر اور باہر عوام کا جذبہ کچھ سرد پڑ گیا تھا مگر ریاستی حکام بالکل چوکس تھے۔ چودھری افضل حق خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جنت میں بہتر جگہ دے۔ (آمین) وہ تحریک کپور تھلا کی صورتِ حال سے سخت پریشان تھے۔ اس پریشانی سے ان کی صحت پر برا اثر پڑ رہا تھا۔ میں ان دنوں وطن مالوف لدھیانہ میں مقیم تھا۔ دوپہر کی گاڑی سے چودھری صاحب کا پیغام لے کر لاہور کا ایک رضا کار آیا اور کہنے لگا مجھے حکم ملا ہے کہ میں آج ہی شام کی گاڑی سے آپ کو لاہور لے چلوں۔ چودھری صاحب نے سخت تاکید فرمائی ہے۔ تعمیلِ ارشاد کے لیے میں رات کو لاہور پہنچ گیا۔ مرحوم کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے پھر فرمایا سو جاؤ، صبح اٹھ کر مجھے تم سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔ صبح اٹھے تو چودھری صاحب کی آنکھوں میں نیند کا خمار تھا۔ وہ رات کو پریشانی اور فکر مندی کے باعث سو نہ سکے تھے، بے حد متفکر نطر آتے تھے۔ بات شروع ہوئی تو وہ کپور تھلا کا قصہ دہرانے لگے اور فرمایا کہ: ’’ہم اس تحریک میں الجھ کر رہ گئے ہیں، مجلس احرار کی عاملہ کا معزز رکن جیل میں ہے، ہم سب باہر ہیں۔ ریاست کے فرعون مزاج حکام منتقمانہ جذبہ سے کام لے رہے ہیں۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا چارہ کار نہیں ہے کہ یا تو ہم سب اسی جیل میں جا بیٹھیں جہاں ہمارا معزز رفیق محبوس ہے، یا بے حیا بن کر اپنی سیاسی موت پر دستخط کر دیں۔ ریاستی حکام سے معافی مانگیں اور اپنے معزز رفیق کو مجبور کریں کہ وہ ریاستی حکام کے پاؤں پر سر رکھ دے، آخری بات سے مر جانا بہتر ہے، مگر پہلی صورت بھی بحالاتِ موجودہ بہت مشکل اور مضحکہ خیز سی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔‘‘
مرحوم کی پریشانی اور بے بسی نے میرے دل کو تڑپا دیا۔ سارا دن اسی پریشانی میں گزر گیا، شام کے وقت میں نے چودھری صاحب سے عرض کیا کہ مجھے آپ کل تک مہلت دیجیے، صبح کچھ عرض کر سکوں گا۔ سوچتا رہا، ہر چہار طرف عقل کے گھوڑے دوڑائے مگر کسی سمت ہموار میدان نظر نہ آیا۔ اچانک مجھے ایک خیال آیا اور میں مطمئن ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ ساری پارٹی کو مصیبت میں مبتلا رکھنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ مقصد کے حصول اور پارٹی کی آبرو کی خاطر خود کو قربان کروں؟ یہ خیال میرے دل کی گہرائیوں میں اتر کر آخری فیصلے کی صورت اختیار کر گیا۔
میں نے علی الصبح چودھری صاحب کو بالا خانے سے نیچے تشریف لانے کے لیے آواز دی، وہ آئے تو میں نے بغیر کسی تمہید کے ان کی خدمت میں اپنے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ اﷲ کے بھروسے پر اپنے کمزور اور ہیچ مدان خادم کو جماعت کی طرف سے تحریک کپور تھلا کا انچارج بنا کر اعلان کر دیجیے۔ مرحوم چودھری صاحب نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ ان کی آنکھوں میں پیار اور محبت کے آنسو تھے، یہ بڑی قیمت تھی جو میں نے اس اعلان کے ذریعے اسی وقت وصول کر لی۔ مجھے مختار بنا دیا گیا۔ اب تحریک کپور تھلا کی ذمہ داریوں کا بوجھ میرے نازک اور کمزور کندھوں پر تھا۔
میں لاہور سے جالندھر چلا آیا، تاکہ ریاست کپور تھلا کے قریب بیٹھ کر حالات کا بغور مطالعہ کر سکوں۔ جالندھر میری جنم بھومی ہے۔ وہاں میرا ننھیال تھا۔ ہم خیال احباب کے علاوہ کچھ تعلقات بھی تھے۔ ہفتہ عشرہ میں پروگرام بن گیا۔ ہاتھ خالی تھے، مقامی احباب نے خلوص سے ہاتھ بٹایا۔
بستی جالندھر کے رہنے والے میرے ایک دوست اسلام الدین (وکیل) کے پاس ’’الجہاد‘‘ روزنامہ کا ڈیکلریشن موجود تھا، وہ میری امداد پر آمادہ ہو گئے اور اخبار میرے سپرد کر دیا، انھیں صرف یہ دلچسپی تھی کہ اخبار جاری رہے۔ عدم اشاعت کی وجہ سے ڈیکلریشن ضائع نہ ہو جائے، درد مند مسلمان تھے۔ اس لیے انھیں تحریک کپور تھلا سے ایک گونہ ہمدردی ضرور تھی۔ میرے پلے تو کچھ تھا نہیں، مجھے مرکز کی مالی حالت بھی معلوم تھی، میں نے دل میں یہی ٹھان لی تھی کہ خالی ہاتھ یکہ و تنہا ریاست سے بھِڑ جاؤں۔ مقامی حضرات ممکن امداد کے لیے آمادہ و تیار تھے۔ ابتدا میں دو ورق کا روزنامہ نکالنا شروع کیا۔ جالندھر کے احرار دوستوں نے ایک اشاعت کے لیے کاغذ کا بندوبست کر دیا۔ ایک کاتب بلا لیا، کاتب سے کہا کہ زود نویسی سے مضمون گھسیٹنے کا بندوبست کرو۔ نوک پلک ٹھیک ٹھاک کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ پریس والے سے کہا آج کا بِل کل لے لیجیے گا۔ کاتب اور پریس دونوں مان گئے۔ ریاست کے اندر اور باہر کی خبریں کچھ معتبر اور کچھ غیر معتبر کچھ سچی اور کچھ جھوٹی ایک پھڑکتا ہوا اداریہ، یہ میرے اخبار کا کل حدود اربعہ تھا۔ ہمارا ایک اندھا والنٹیر حافظ سلامت اﷲ ’’الجہاد‘‘ کا فی سبیل اﷲ ایجنٹ بن گیا۔ اس نے ’’الجہاد‘‘ کا بنڈل کندھے پر رکھا اور جالندھر کے بازاروں میں زناٹے کی آواز لگائی ’’الجہاد دو پیسے میں، ریاست کپور تھلا کی گرما گرم خبریں، مجلس احرار کا اخبار، دو پیسے میں۔‘‘ دو گھنٹے میں اخبار فروخت ہو گیا۔ نقد دام مل گئے، رقم ہاتھ آئی تو ہم نے کاتب اور پریس کا بل ادا کر دیا۔ ’’الجہاد‘‘ کی اشاعت بھی بڑھ گئی۔ جلسے بھی ہونے لگے ایڈیٹری اور لیڈری دونوں کام چل نکلے۔ سویا ہوا جالندھر پھر جاگ اٹھا۔ ریاست کے اندر بھی ہلچل ہونے لگی۔
’’تاریخ احرار‘‘ میں چودھری صاحب نے کپور تھلا ایجی ٹیشن کی اجمالی صورت پیش کی ہے۔ یہاں بھی میں صرف ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔ میں انھی دنوں ایک روز جالندھر میں اپنے اخبار ’’الجہاد‘‘ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ مجھے میرے مخبر نے کپور تھلا سے آ کر ایک تشویش ناک خبر سنائی۔ وہ کہنے لگا کہ غضب ہو گیا ہے، ریاستی حکام نے نہایت کمینگی سے کام لیتے ہوئے چودھری عبدالعزیز صاحب کو اخلاقی قیدیوں کی کوٹھڑی میں بند کر کے وہاں کی ملحقہ کوٹھڑیوں سے تمام قیدیوں کو نکال لیا ہے اور اس احاطے کے بھنگی کو حکم دیا ہے کہ وہ روزانہ چودھری صاحب کی بے عزتی کیا کرے مگر بھنگی نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا ہے کہ چودھری عبدالعزیز ایک معزز اور بااثر گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، میں ایسا کروں تو ان کی قوم مجھے ہرگز زندہ نہ چھوڑے گی۔ اس بھنگی کو تبدیل کر کے اس احاطے میں آج دوسرا بھنگی متعین کیا ہے۔ اس خبر نے میرے اوسان خطا کر دیے، میں اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا اور اٹھ کھڑا ہوا، صحن میں ٹہلنے لگا۔ دس پندرہ منٹ میرا دماغ کھولتا رہا۔ کپور تھلا کا جیل خانہ مجھ سے بہت دُور اور میری دسترس سے باہر تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ذرا سکون ہوا تو میں نے اپنے اخبار میں ایک نوٹ لکھا۔ کپور تھلا کے ذمہ دار حکام کو اچھی طرح نیک و بد سمجھا دیا۔ اخبار قبل از وقت ریاستی حکام تک پہنچا دیا، مجھے نہیں معلوم کہ حکام نے میری اس دھمکی کا کیا اثر لیا۔
کچھ دنوں بعد میں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اس علاقے میں جہاں راجپوت برادری کے گاؤں آباد ہیں، ایک پیغام بھیجا کہ بہادر راجپوتو! تمھاری غیرت کو کیا ہوا، اپنے علاقے میں جلسۂ عام کر کے احتجاج کرو۔ میں اس جلسے میں خود بھی شمولیت کروں گا۔ ہمت سے کام لو، خدا امداد کرنے والا ہے۔ میرے اس پیغام سے راجپوت برادری نے ایک پھریری لی، بہادر قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور جلسۂ عام کا اعلان کر دیا۔ مجھے پیغام ملا کہ چلے آؤ، ہم نے علاقہ بولتھ ریاست کپور تھلا میں بہت بڑے اجتماع کا بندوبست کر لیا ہے۔ میرے سامنے سوال یہ تھا کہ اب میں کس راستے سے مقررہ وقت اور متعینہ جگہ پر پہنچوں؟ ہر جگہ قدغن موجود ہے، حکام چوکس ہیں، جلسے کے اعلان نے انھیں اور بھی چوکس کر دیا ہو گا۔ ریاست والے یہ تو جانتے تھے کہ تاج الدین کوئی ہے مگر ریاست کے عوام اور پولیس والے تاج الدین کے حلیہ سے قطعاً ناواقف تھے، انھیں میرا طول و عرض معلوم نہ تھا۔ میں کپور تھلا شہر میں پہنچ گیا۔ پھر خیال آیا کہ اب کیا کروں آگے کیسے جاؤں؟ چودھری صاحب کا ایک عزیز میرا رفیق سفر تھا، وہ بہت عمدہ تانگے میں مجھے آرام سے سفر کرانا چاہتا تھا، مگر میں ایک پرانے تانگے میں جس میں پہلے سے دو دیہاتی مرد، ایک عورت اور ایک بچہ سوار تھا جا بیٹھا، تانگہ بولَتھ کی جانب جا رہا تھا۔ راستے میں کڑی نگرانی ہو رہی تھی۔ عمدہ تانگوں اور موٹروں کو روکا جا رہا تھا، ہمارے تانگے کو دو ایک جگہ روکا گیا مگر پہرہ داروں نے یہی کہہ کر ہمیں آگے جانے دیا کہ اس تانگے میں وہ نہیں ہے، جسے ہم روکنا چاہتے ہیں۔ بڑے تن و توش اور ٹھاٹھ دار لیڈر کی تلاش ہو رہی تھی، میں تھا مریل قسم کا چُرمُر سا آدمی! مجھے کسی نے پوچھا اور نہ روکا۔
میں بولَتھ کے قریب پہنچا تو راستے ہی میں اُتر گیا اور کھیتوں کے راستے آبادی کی طرف ہو لیا۔ دور سے نگاہ ڈالی تو دیکھا اچھا خاصا ہجوم موجود ہے۔ میرا رفیق جو میرے ہمراہ آیا تھا، مجھ سے چند منٹ پیشتر ہی الگ ہو چکا تھا، گاؤں میں داخل ہوا تو مجھے دیکھ کر وہ میری طرف لپکا۔ میں نے اسے اشارے سے منع کر دیا مگر وہ میرے قریب آ ہی گیا۔ کہنے لگا کچھ کھا پی تو لیجیے، پھر جلسے میں چلتے ہیں۔ میں نے انھیں کہا میرے عزیز کیسا کھانا؟ تم مجھے تنہا چھوڑ دو۔ بات یہ تھی کہ میرے سامنے اپنے معزز رفیق چودھری عبدالعزیز کی مظلومیت موجود تھی۔ میں اسی تصور میں اپنے آپ کو مظلوم ساتھی کی امداد کی لیے تیار کر رہا تھا۔ اس ہجوم میں کوئی نہ جانتا تھا کہ میں کون ہوں، جلسے میں کافی لوگ موجود تھے۔ جلسہ گاہ میں ایک شخص نے چلا کر بہ آواز بلند کہا کہ بھائیو! عنقریب ہمارے ایک بڑے لیڈر آنے والے ہیں، آپ سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں۔ کھلے میدان میں جلسہ ہو رہا تھا اور چاروں طرف کھیت تھے۔ میں جلسہ گاہ کی جانب آہستہ آہستہ بڑھا۔ اچانک اسی وقت مسلح پولیس کی ایک لاری اور ایک موٹر جس میں ایک سکھ آفیسر بیٹھا تھا ہارن بجاتی ہوئی جلسے کے سر پر آن پہنچی۔ ڈنڈا پولیس کے سپاہی لاری میں سے کودے۔ سکھ آفیسر نے موٹر سے نکلتے ہی حکم دیا: ’’مارو اِن بدمعاشوں کو، جانے نہ دو۔‘‘ جلسے میں شامل ہونے والے مسلمان ابھی ٹھیک طرح سنبھل کر بیٹھے بھی نہ تھے کہ لاٹھی چارج شروع ہو گیا۔ بڑا خوفناک لاٹھی چارج تھا۔
میں جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ ہنگامہ دیکھ کر میرے قدم رک گئے۔ مسلمانوں پر بارش کی طرح لاٹھیاں برسنے لگیں، پہلے تو میں نے یہ خیال کیا کہ ابھی کسی نے مجھے دیکھا بھی نہیں، پیچھے ہٹوں اور غور کروں کہ اس کے بعد کیا ہونا چاہیے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟ فوراً دوسرا خیال آیا، ضمیر نے ملامت کی اور کہا بزدل تم یہاں آئے ہی کیوں تھے؟ لوگ زخمی ہو کر بھاگ رہے تھے۔ سپاہی شکاری کتوں کی طرح اپنے شکار کا پیچھا کر رہے تھے۔ پاس ہی کھیت تھے، ہجوم کھیتوں کی طرف بھاگا۔ غرضیکہ ایک بھگدڑ مچ گئی، میں آگے قدم بڑھا کر پولیس کی زد میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ ایک سپاہی میری طرف لپکا اور آتے ہی مجھ پر چارج شروع کر دیا، ایک دو تین چار، میرے کمزور اور نحیف جسم پر لاٹھیاں برسنے لگیں۔ پہلی لاٹھی پر جسم میں سناٹا پیدا ہوا، پھر برداشت کا مادہ ابھر آیا، میں اپنی جگہ جم کر کھڑا رہا۔ یہ صورتِ حال سپاہی کی منشا کے خلاف تھی، وہ مجھے چھوڑ کر ایک اور آدمی کی طرف لپکا۔ یہ واقعہ اس وقت وقوع پذیر ہوا، جب میں جلسہ گاہ میں سکھ مجسٹریٹ کے قریب اور ایک پولیس سارجنٹ سے بہت کم فاصلے پر کھڑا تھا۔ میں نے اس سارجنٹ کو یہ کہتے بھی سنا کہ اسے چھوڑ دو، بھاگنے والوں کا پیچھا کرو، انھیں پکڑو۔ مجھے اس سکھ آفیسر نے جس کے حکم سے لاٹھی چارج ہوا تھا، اپنے قریب بلایا اور نرم آسامی سمجھ کر میرے منہ پر طمانچہ مارا۔ میری عینک دُور جا پڑی، میں اپنے جگہ خاموش کھڑا رہا۔ ابھی وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ایک تھانیدار ہانپتا کانپتا آیا، سکھ آفیسر کو سلام کیا اور کہا کہ ہم نے صرف چار پانچ ذمہ دار آدمیوں کو پکڑ لیا ہے، باقیوں کو مار بھگایا ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے، میں نے حالات کا جائزہ لے کر سمجھ لیا تھا کہ اب اس کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ لٹھ بند سپاہی جمع ہو گئے۔ تھانیدار انھیں گرفتار شدگان کے ہمراہ لے کر لاری میں سوار ہو گیا مگر وہ سارجنٹ جس نے مجھے اطمینان سے مار کھاتے دیکھا تھا، مجسٹریٹ سے سرگوشیاں کرنے لگا۔ میری طرف اشارہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ میرا ہی ذکر خیر ہے۔ میرا جم کر مار کھاتے رہنا ان کے لیے حیرت انگیز تھا، مجسٹریٹ میری طرف آیا اور دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ تم ہماری ریاست کے باشندے تو معلوم نہیں ہوتے،میں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ آپ نے صحیح سمجھا۔ میں تو ’’مسلم نیوز سروس لاہور‘‘کا نمائندہ ہوں۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہاں ایک عظیم الشان جلسہ ہونے والا ہے۔ میں نے سوچا لاؤ جلسے کی رپورٹ بھی لیتا آؤں اور حکام سے ملاقات بھی کر لوں۔ ایسے مواقع ہماری اخباری برادری میں بہت منافع بخش سمجھے جاتے ہیں مگر یہاں تو…… میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ سکھ مجسٹریٹ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ گھبرا گیا اور کہنے لگا: او ہو! یہ تو بہت برا ہوا مگر آپ نے بھی تو حد کر دی کہ ہم سے ملے بغیر جلسے میں آ گئے، ہم آپ کے لیے سواری اور قیام و طعام کا بندوبست کرتے۔ ہمیں بے حد افسوس ہے، یہ تو بہت برا ہوا، پھر اپنے عملے کی طرف مخاطب ہو کر گرجدار آواز میں کہا: بلاؤ اس حرام زادے سپاہی کو جس نے ان پر لاٹھی چلائی تھی، میں ہنسی کو بمشکل ضبط کر سکا اور دل میں کہا کہ ایک حرام زادہ تو مجھ سے ہم کلام ہے اور دوسرے کی تلاش کا حکم جاری کر رہا ہے۔ بہرحال میں خوش تھا کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے مگر ایسا خیال کرنا میری بھول تھی اس لیے کہ میں ابھی تک پنجۂ صیاد میں تھا۔ اس مار دھاڑ کے بعد وہ پولیس سارجنٹ جو سکھ مجسٹریٹ کا نائب کورٹ بھی تھا، مجسٹریٹ کو الگ لے جا کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگا، وہ دونوں میری طرف کبھی کبھی دیکھتے بھی تھے اور باتیں بھی کیے جاتے تھے میرا ماتھا ٹھنکا، میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے تحقیقات کیے بغیر جانے نہ دیں گے، چنانچہ یہی ہوا۔ مجسٹریٹ صاحب میری طرف جھومتے جھامتے آئے اور کہنے لگے کہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں مسافر ہوں، یہاں کوئی میری جان پہچان نہیں ہے، آپ جہاں چاہیں لے چلیں، میں تنہا کدھر جاؤں؟ میری یہ بات مجسٹریٹ کی منشاء کے مطابق تھی۔ اس نے مجھے موٹر میں بٹھا لیا، موٹر ڈِھلواں (ریاست کپور تھلا) کی جانب چل پڑی۔ پولیس کی لاری اور نو گرفتار ملزم ہم سے پہلے جا چکے تھے۔
راستے میں پھر باتیں شروع ہوگئیں۔ مجسٹریٹ نے مجھ سے پوچھا: اب ڈِھلواں پہنچ کر آپ کیا کریں گے؟ میں نے جواب دیا کہ آپ مجھے جرنیلی سڑک پر پہنچا دیں تو لاہور جانے والی کسی لاری یا موٹر میں جیسی بھی سواری ملی، لاہور چلا جاؤں گا۔ موٹریں تو رات کے وقت بھی جرنیلی سڑک پر رواں دواں رہتی ہیں، میری بات سن کر مجسٹریٹ کچھ نیم رضا سا ہو گیا، ہم ڈِھلواں پہنچے تو سارجنٹ انھیں پھر الگ لے گیا اور رازدارانہ انداز میں انھیں کچھ سمجھاتا رہا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ مجھے جانے نہ دیں گے۔ اس یقین پر میں نے اپنا رویہ بدل لیا۔ جونھی مجسٹریٹ میری طرف آیا، قبل اس سے کہ وہ مجھے اپنا فیصلہ سنائے میں نے کہا: سردار صاحب آج کی رات میں آپ کا مہمان بن جاؤں تو کیسی بات ہے؟ مجھے یہیں ٹھہر جانے کی اجازت دیجیے۔ یہ سن کر سردار صاحب نے بڑھ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور خوش ہو کر فرمانے لگے: ٹھہرو جی، خوشی سے ٹھہرو۔ ڈیرے کے چوکیدار کو مخاطب ہو کر کہنے لگے ارے او چوکیدار ! ادھر آؤ، دیکھو عمدہ دری اور چوتہی، صاف ستھرا تکیہ اور لحاف، بہت اچھے بستر کا، میاں کے لیے بندوبست کرو، ان کے لیے عمدہ کھانا بھی فوراً تیار کراؤ اور پھر اشارے سے فرمایا: ادھر آؤ۔ چوکیدار کو ہمراہ لے گئے اور کمبخت سارجنٹ کو میری نگرانی پر مامور کر گئے۔
تھوڑی دیر بعد چوکیدار آ گیا، اس کے ہمراہ ایک شخص تھا۔ مجھے اب گاؤں کے درمیان ایک حویلی میں جس کا ایک ہی بڑا دروازہ تھا، ٹھہرایا گیا، تھوڑی دیر بعد چار مضروب راجپوت چودھری بھی لنگڑاتے ہوئے وہاں آگئے۔ ان کے ہمراہ بھی دو سفید پوش پولیس والے تھے، انھوں نے میری طرف دیکھا، ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر کسی قدر مطمئن ہوئے کہ موقع ملا تو باتیں بھی ہو سکیں گی۔ چارپائیاں بچھ گئیں، رات نے اپنا تسلط جما لیا۔ تھوڑی دیر بعد کھانا بھی آ گیا، میں نے کھانے سے انکار کر دیا، چوکیدار سے کہا کہ میرے حصے کا کھانا تم اپنے گھر لے جانا، مجھے قطعاً بھوک نہیں ہے، سارے جسم میں درد ہے، مجھے چارپائی پر لیٹنے دو ، یہ کہا اور میں بوٹوں سمیت چارپائی پر لیٹ گیا۔ میں نے چوکیدار ہی سے کہا کہ لحاف اٹھا لاؤ اور مجھ پر ڈال دو، اس کے بعد مجھے بلانا نہیں۔ مجھے نہ حقہ پینے کی عادت ہے اور نہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔ رات کے نو یا ساڑھے نو بجے ہوں گے، چوکیدار نے دروازے کے قریب اپنی چارپائی ڈال لی، چاروں ملزم برآمدے میں تھے۔ برآمدے کے دونوں دروازوں پر دو آدمی تھے، وہ بھی چارپائیوں پر دراز تھے، کچھ دیر وہ سب حقہ نوشی کرتے رہے مگر کوئی کسی سے بات نہ کرتا تھا۔ اس حویلی میں ہم اپنے نگرانوں سمیت آٹھ نفوس تھے۔ دس بجے کے قریب لوگوں نے سونا شروع کیا، تھوڑی دیر بعد سونے والوں کے خراٹوں کی آواز آنے لگی۔
گیارہ بجے کے قریب جب رات بھیگنے لگی میں نے اپنے سر سے لحاف ہٹایا، رات کے سناٹے میں سونے والوں کے سانس گن لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ مجھے ان تین نگرانوں کے بارے میں اطمینان مطلوب تھا کہ وہ بے خود ہو کر سو جائیں، میں ان کے سانس گنتا رہا، میری تمام تر توجہ انھی تین نگرانوں پر تھی، ایک چوکیدار اور دو سفید پوش سپاہی جب یہ تینوں خراٹے بھرنے لگے تو میں ساڑھے گیارہ بجے کے قریب چارپائی پر آہستہ سے اٹھ بیٹھا۔ پھر اطمینان کر لیا کہ سب سو رہے ہیں معاً خیال آیا کہ اگر کوئی جاگ اٹھا؟ پھر ایک ترکیب سمجھ میں آئی، سامنے پانی کا گھڑا اور لوٹا رکھا تھاسوچا کہ یہی سہارا بہتر رہے گا۔ میں نے چارپائی چھوڑ دی، اٹھ کھڑا ہوا، پانی کا لوٹا بھرا اور دروازے کی جانب بڑھا۔ کنڈی کھولی اور دروازے کے باہر نکل کر پیشاب کرنے بیٹھ گیا تھا۔ اندر سب لوگ سو رہے تھے، انھیں سوتا چھوڑ کر گلیارے سے باہر آ گیا اور کھلی کچی سڑک پر چلنے لگا۔ جہاں تک گاؤں کی آبادی تھی مجھے دھڑکا لگا رہا، آبادی ختم ہوئی تو میں اطمینان سے چلنے لگا۔
میرے اندازے کے مطابق جرنیلی سڑک اس گاؤں سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھی۔ میں چلتا رہا مگر جرنیلی سڑک کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا، بہرحال مجھے جرنیلی سڑک تک پہنچنا تھا۔ آگے چلنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا؟ جب میں تقریباً ڈیڑھ میل چل چکا تو مجھے حیرانی ہوئی، کھڑا ہو کر سوچنے لگا، ماجرا کیا ہے؟ جرنیلی سڑک کہاں غائب ہو گئی؟ راستہ تو سیدھا ہے اس میں کوئی موڑ بھی نہیں کہ جس سے کسی دھوکے کا گمان ہو سکے۔ دُور فاصلے پر مجھے روشنی نظر آئی، روشنی دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا، اب میں روشنی کی جانب اور آگے بڑھا، قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آدمی سر پر چارپائی اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ اس کے ہمراہ ایک عورت بھی ہے، جس کے ہاتھ میں لالٹین ہے، وہ میری طرف آ رہے تھے اور میں ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب بالکل قریب پہنچا تو میں نے اس آدمی سے دریافت کیا: کیوں بھئی! جرنیلی سڑک کتنی دُور ہے؟ جواب میں وہ شخص بولا جرنیلی سڑک ادھر کہاں؟ بھلے آدمی، پیچھے لوٹ جاؤ، یہاں سے پیچھے دو میل ہے جرنیلی سڑک۔ اوہو میں تو راستہ بھول گیا۔ بھئی مسافر ہوں، خدا تمھارا بھلا کرے، تم نہ ملتے تو خدا جانے الٹی راہ کتنی دور نکل جاتا، سوتے میں اٹھا تو مشرق و مغرب بھول گیا، یہ کہتے ہوئے میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا واپس چل پڑا۔ (جاری ہے)