منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۳)
حافظ عبیداﷲ
امام ابومحمد حسن بن علی البربہاری ؒ (متوفی 329 ہجری) لکھتے ہیں:
’’اذا سمعتَ الرجل یطعن علی الآثار ولا یقبلہا او یُنکر شیئاً من اخبار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاتّہمہ علی الاسلام فانہ رجل ردیء القول والمذہب……‘‘ جب تم کسی آدمی کو سنو کہ وہ آثار میں طعن کرتا ہے اور انہیں قبول نہیں کرتا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تو اس کا اسلام متّہم ہے اور وہ خراب قول اور مذہب والا ہے ۔ (شرح السنۃ للبربہاری، صفحہ 79 ، مکتبۃ دار المنہاج ، الریاض)
حافظ ابن قیم رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 791ھ) لکھتے ہیں :
’’ان اﷲَ سبحانہ وتعالیٰ انزل علیٰ رسُولِہ وَحیَینِ ، وأوجَبَ علیٰ عِبادِہ الایمانُ بہما والعمل بما فیہما، وہُما الکِتابُ والحِکمۃُ …… (الیٰ ان قال)…… والکتاب ہو القرآنُ ، والحِکمًۃُ ہِي السُنَۃُ باتفاقِ السلفِ ، ومَا أخبَر بہ الرسول عن اﷲ، فہو في وجُوبِ تَصدِیقِہ والایمان بِہ کما أخبَرَ الربُّ تعالیٰ علیٰ لِسانِ رسولِہ ، ہذا أصل مُتفقٌ علیہ بَین اہل الاسلامِ ، لایُنکِرُہ الّا من لیسَ منہم‘‘ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول پر دو قسم کی وحی نازل فرمائی ہے اور بندوں پر واجب کیا ہے کہ اُن دونوں وحیوں پر ایمان لایا جائے اور اُن پر عمل کیا جائے ، ایک ہے ’’کتاب‘‘ اور دوسری ’’حکمت‘‘ …… (آگے تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں)…… کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد سُنّت ہے ، اس پر تمام اسلاف کا اتفاق ہے ، اور جس بات کی خبر رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کی طرف سے دی ہے اُس پر اسی طرح ایمان لانا اور اُس کی تصدیق کرنا واجب ہے جیسے اﷲ نے اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعے وہ خبر دی ہے ، اس اصول پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ، اس کا انکار وہی کرے گا جو مسلمان نہیں ۔ (کتاب الرُوح، صفحہ 218، مُجمَّع الفقہ الاسلامی، جدہ)
الغرض! ہر وہ حدیث جس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مستقبل میں ہونے والے کسی واقعہ کی خبر دی اور وہ مستند اور صحیح طریقے سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچی تو اُس پرآمنّا وصدّقنا کہنا ہر مسلمان پر واجب ہے ، انہی احادیث میں وہ بھی ہیں جن کے اندر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی خبر دی ہے جوکہ متواتر ہیں اور متعدد صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔
ایک شبہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث ’’اخبار آحاد‘‘ ہیں اور خبر واحد ظنی ہوتی ہے یقین کا فائدہ نہیں دیتی لہٰذا حجت نہیں بن سکتی۔ یہ اعتراض بظاہر بڑا وزنی معلوم ہوتا ہے ، اگرچہ احادیث نزول عیسیٰ علیہ السلام بقول بہت سے ائمہ حدیث متواتر ہیں آحاد نہیں ، لیکن اگر انہیں اخبار آحاد بھی فرض کرلیا جائے تو یہ خبرِ واحد کی وہ قسم ہے جسے امت کی طرف سے ’’تلقی بالقبول‘‘ حاصل ہے اور یہ بھی متواتر معنوی کے حکم میں ہے اور جیسا کہ بیان ہوا بہت سے ائمہ نے ان احادیث کا متواتر ہونا صاف طور پر لکھا بھی ہے نیز بہت سے ائمہ نے اسے امت کا اجماعی عقیدہ بھی لکھا ہے ۔ امام ابن تیمیہ رحمتہ اﷲ علیہ(متوفی 728ھ)لکھتے ہیں :
’’وأیضاً فالخبر الذی تلقّاہ الأئمۃ بالقبول تصدیقاً لہ أو عملاً بموجبہ یفید العلم عند جماہیر الخلف والسلف، وہذا فی معنی المتواتر۔ لکن من الناس من یسمیہ : المشہور والمستفیض، ویقسمون الخبر الی : متواتر ، ومشہور ، وخبر واحدٍ‘‘ وہ خبر (حدیث) جسے ائمہ نے قبول کیا اس کی تصدیق کر کے یا اس کے مطابق عمل کرکے اگلے پچھلے ائمہ کی اکثریت کے ہاں علم (یقینی) کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر کے معنی میں ہوتی ہے ، لیکن کچھ لوگ اس کا نام ’’مشہور‘‘ اور ’’مستفیض‘‘ رکھتے ہیں اور خبر کو ’’متواتر‘‘ ’’مشہور‘‘ اور ’’خبر واحد‘‘ میں تقسیم کرتے ہیں ۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیہ، ج 18 ص 48)
اور امام ابن حزم رحمتہ اﷲ علیہ کا حوالہ پہلے گذرا کہ :
’’ثبت یقیناً ان الخبرَ الواحدِ العدل عن من مثلہ مبلغاً الی رسولِ اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حقٌ مقطوعٌ بہ موجبٌ للَعملِ والعِلمِ معاً‘‘ یہ بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ ایک عادل راوی کی روایت اپنے جیسے عادل سے جو اسی طرح (عادل راویوں کے واسطے سے) اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچے وہ قطعی طور پر حق ہے اور علم وعمل دونوں کو واجب کرتی ہے ۔
(الاِحکام فی اُصول الاَحکام، جلد 1، صفحہ 124 ، دار الآفاق الجدیدۃ بیروت)
الغرض! اخبارِ آحاد اگر صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوں اور اصولِ حدیث کی رو سے ہر قسم کی علت سے پاک ہوں تو ان پر عمل واجب ہے اور اگر ان میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی خبر دی ہے تو اس پر یقین رکھنا ضروری ہے اور اگر کوئی خبر واحد ایسی ہو جسے امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہو وہ سونے پر سہاگہ ہے اسے ’’مشہور‘‘ یا ’’مستفیض‘‘ کہا جاتا ہے جو متواتر معنوی کے معنی میں ہوتی ہے اور یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے ، نیز یہ بات ذہن میں رہے کہ ’’اخبار آحاد‘‘ کو ظنی صرف قرآن کریم کے مقابلے میں کہاجاتا ہے کہ جیسے قرآن کریم کے الفاظ جو ہم تک پہنچے ہیں وہ ’’قطعی اور یقینی‘‘ ہیں اس طرح احادیث کے الفاظ قطعی اور یقینی نہیں کیونکہ کبھی روایت بالمعنی بھی ہوتی ہے اور ممکن ہے الفاظ میں کمی بیشی ہو۔ لہذا ’’ظنی‘‘ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ احادیث مشکوک ہیں اور ان پر عمل کرنا واجب نہیں ۔
یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ تمنا عمادی صاحب نے نزولِ مسیح کی روایات پر اپنی تنقید میں صرف اپنے ذہن کے بنائے ہوئے مفروضوں اور خود ساختہ اصولِ حدیث کو بنیاد بنا کر ساری عمارت کھڑی کی ہے لہٰذا ان مفروضوں کا جواب دینے میں وقت ضائع کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی ، تاہم چند دوستوں کے اصرار پر یہ سطور ان لوگوں کے لئے لکھی جارہی ہیں جو تمنا عمادی صاحب یا دوسرے منکرین حدیث کی تحقیق کے نام پر تلبیس سے شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔
ہم کتب حدیث سے چند ایسی منتخب احادیث مکمل سندوں کے ساتھ بیان کریں گے جن کے صحیح ہونے پر تمام ائمہ حدیث کا اتفاق ہے اور سوائے چودھویں صدی کے چند نام نہاد محققین یا منکرین حدیث کے کسی نے ان احادیث کی صحت پر اعتراض نہیں کیا ، ساتھ ہی ان کی سند میں آنے والے تمام راویوں کا تعارف بھی کتاب اسماء الرجال سے کرواتے جائیں گے جس سے جناب تمنا عمادی صاحب اور دوسرے ناقدین کے شبہات کا خود بخود ازالہ بھی ہوتاجائے گا اور جہاں ضرورت ہوگی وہاں عمادی صاحب کے ہوائی مفروضوں کا ذکر کر کے ان پر تبصرہ بھی ہوگا ۔
٭……٭……٭
احادیثِ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں علماء امت کی آراء
سب سے پہلے ان احادیث کی حیثیت کے بارے میں جن کے اندر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے علم تفسیر و حدیث وعلم عقائد کے ماہر تسلیم کیے جانے والے قدیم وجدید ائمہ وعلماء کرام کی تحریرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:۔
امام ابومحمد عبدالحق بن عطیہ اندلسیؒ (متوفی541ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔
’’وأجمعت الأمۃ علی ما تضمنہ الحدیث المتواتر من أن عیسیٰ علیہ السلام فی السماء حي وأنہ ینزل فی آخر الزمان‘‘ اور امت کا اس بات پراجماع ہے جو احادیث متواترہ میں وراد ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانہ میں نازل ہوں گے ۔
(المحرر الوجیز فی تفسیر کتاب العزیز ، جلد 2 صفحہ 237 ، طبع وزارۃ الاوقاف قطر)
شارحِ صحیح مسلم امام یحییٰ بن شرف النوویؒ (متوفی 676ھ) نے قاضی عیاض ؒ(متوفی544ھ) کا قول نقل کیا ہے کہ:
’’قال القاضی رحمہ اﷲ تعالیٰ نزول عیسیٰ علیہ السلام وقتلہ الدجّال حق وصحیح عند اہل السنۃ للأحادیث الصحیحۃ فی ذلک ولیس فی العقل ولا فی الشرع ما یُبطلہ فوجب اثباتہ وانکر ذلک بعض المعتزلۃ والجہمیۃ ومن وافقہم……‘‘ قاضی (عیاض) رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا اہل سنت کے ہاں حق اور صحیح ہے کیونکہ اس بارے میں صحیح احادیث وارد ہیں، اور عقل یا شرع میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کو باطل کرے لہذا اس کا اثبات واجب ہوگیا، ہاں چند معتزلہ و جہمیہ اور ان کے کچھ ہم نواؤں نے اس کا انکار کیا ہے۔
(المنہاج فی شرح صحیح مسلم بن الحجاج ، ج 18 ص 75 ، المطبعۃ المصریۃ بالازہر)
مشہور مفسرومحدث حافظ ابن کثیر دمشقی (متوفی774ھ) نے اپنی مایہ ناز تفسیر میں ان احادیث کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کے اندر نزولٍ عیسیٰ کا بیان ہے ، پھر آخر میں لکھتے ہیں:
’’فہذہ احادیث متواترۃ عن رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم من روایۃ ابی ہریرۃ، وابن مسعود، وعثمان بن ابی العاص، وابی امامۃ، والنواس بن سمعان، وعبداﷲ بن عمرو بن العاص، ومُجمع بن جاریۃ، وابی سریحۃحذیفۃ بن اسید ، رضی اﷲ عنہم……‘‘ پس یہ احادیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے متواتر ہیں جنہیں ان صحابہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے: حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عثمان بن ابی العاص، حضرت ابوامامہ، حضرت نواس بن سمعان، حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص، حضرت مجمع بن جاریۃاور حضرت حذیفہ بن اسید رضی اﷲ عنہم ۔ (تفسیر القرآن العظیم، ج4 ص 464 سورۃ النساء آیات 155 تا159)
پھر اپنی اسی تفسیر میں ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’وقد تواترت الاحادیث عن رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ، أنہ أخبر بنزولِ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماما عادلاً ، وحکماً مقسطاً‘‘ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے قبل عدل وانصاف کرنے والے امام اور حَکَم بن کر نازل ہوں گے۔ (تفسیر القرآن العظیم، ج7 ص 236 سورۃ الزخرف آیات 57 تا65)
مشہور مفسر علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادیؒ (متوفی 1270 ھ) لکھتے ہیں :۔
’’ولا یقدح فی ذلک ما اجمعت الأمۃ علیہ واشتہرت فیہ الأخبار ولعلہا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ الکتاب علی قول ووجب الایمان بہ وأکفر منکرہ کالفلاسفۃ من نزول عیسیٰ علیہ السلام آخر الزمان لأنہ کان نبیاً قبل تحلی نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم بالنبوۃ فی ہذہ النشأۃ ……‘‘ (آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر) اس بات سے اعتراض نہیں وارد ہوسکتا جس پر امت کا اجماع ہے اور جس کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں جو متواتر معنوی کے درجہ کو پہنچتی ہیں اور ایک قول کے مطابق اﷲ کی کتاب نے بھی یہ بیان کیا ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے ، اور اس کے منکر کو کافر کہا گیا ہے جیسا کہ فلاسفہ (وہ عقیدہ یہ ہے کہ ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری زمانہ میں نازل ہونا ہے (ان کے نازل ہونے سے اعتراض اس لئے نہیں ہوسکتا کہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کے نبی ہیں ۔
(روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، جلد 22، صفحہ 34، بیروت)
شیخ محمد بن احمد السفارینی رحمۃ اﷲ علیہ (متوفی 1188ھ) اپنی مشہور کتاب عقیدہ سفارینیہ میں لکھتے ہیں:۔
’’ومنہا ای من علامات الساعۃ العظمیٰ العلامۃ الثالثۃ أن ینزل من السماء السید المسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ونزولہ ثابت بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ‘‘ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے تیسری نشانی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور آپ کا نزول کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
اور پھر اجماع امت کا بیان کرتے ہوئے لکھا:۔
’’وأما الاجماع فقداجمعت الامۃ علی نزولہ ولم یخالف فیہ أحد من أہل الشریعۃ ، وانما انکر ذلک الفلاسفۃ والملاحدۃ ممن لا یُعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامۃ علی أنہ ینزل ‘‘ جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو امت کاآپ کے نزول پر اجماع ہے اور اہل شریعت میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا سوائے فلسفیوں اور ملحدین کے جن کے اختلاف کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ آپ نازل ہوں گے ۔
(لوامع الانوار البہیۃ المعروف بہ عقیدہ سفارینیہ ، جلد 2 ، صفحہ 94، طبع دمشق)
علامہ محمد بن جعفر الکتانی (متوفی 1345ھ) تحریر فرماتے ہیں:
’’والحاصل أن الاحادیث الواردۃ فی المہدی المتنظر متواترۃ ، وکذا الواردۃ فی الدجال ، وفی نزولِ عیسیٰ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہدی منتظر، دجال اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وارد شدہ احادیث متواتر ہیں۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر، ص 229، طبع مصر)
علامہ محمد شمس الحق عظیم آبادی رحمتہ اﷲ علیہ(متوفی 1329ھ) یمن کے مشہور محدث علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 1255ھ) کی کتاب ’’التوضیح فی تواتر ما جاء فی الأحادیث فی المہدی والدجال والمسیح‘‘ سے نقل کرتے ہیں:
’’والاحادیث الواردۃ فی الدجال متواترۃ ، والأحادیث الواردۃ فی نزولِ عیسیٰ علیہ السلام متواترۃ‘‘ دجّال کے بارے میں واردہ شدہ احادیث متواترہ ہیں اوراسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں بھی احادیث متواترہ ہیں ۔ (عون المعبود علیٰ سُنن ابی داؤد، ج 1868 کتاب الملاحم ، دار الافکار الدولیۃ)
علامہ عظیم آبادی رحمتہ اﷲ علیہ نے اس مقام پر حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ کی طرح بڑی تفصیل سے ان احادیث کا ذکر بھی کیا ہے جن کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی خبر دی گئی ہے تحقیق کے شوقین حضرات عون المعبود کے اس مقام کا مطالعہ فرمالیں۔
مسند احمد رحمتہ اﷲ علیہ کے محقق اور جامع ترمذی رحمتہ اﷲ علیہ کے شارح علامہ احمد محمد شاکر رحمتہ اﷲ علیہ(متوفی1377ھ) نے ’’تفسیر طبری‘‘ کی احادیث کی تخریج بھی (سورۃ ابراہیم تک) فرمائی تھی ، ان کی تخریج کے ساتھ تفسیر طبری 16 جلدوں میں طبع شدہ ہے ، آپ لکھتے ہیں:
’’نزول عیسیٰ علیہ السلام فی آخر الزمان مما لم یختلف فیہ المسلمون ، لورود الأخبارِ المتواترۃ الصحاح عن النبیصلی اﷲ علیہ وسلم بذلک وقد ذکر ابن کثیر فی تفسیرہ طائفۃ طیبۃ منہا……‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں نازل ہونا ایسی بات ہے جس میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے صحیح اور متواتر روایات اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ، حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی تفسیر میں ان روایات کا ایک اچھا خاصا حصہ ذکر کردیاہے۔
(تفسیر الطبری بتخریج احمد محمد شاکر، ج6 ص 460 حاشیہ، طبع القاہرۃ)
دورِ حاضر کے معروف محقق علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 1420ھ) نے محمد عبداﷲ السمّان پر تنقید کرتے ہوئے (جنہوں نے اپنی کتاب ’’الاسلام المصفّیٰ‘‘ میں اس بناء پر نزولِ عیسیٰ علیہ السلام وخروجِ دجّال کا انکار کیا ہے کہ اس بارے میں احادیث ’’اخبار آحاد‘‘ ہیں متواتر نہیں) لکھاہے:
’’دعواک أن الاحادیث المشار الیہ غیر متواترۃ غیر مقبولۃ منک ، ولا ممن سبقکَ الیہا، مثل الشیخ شلتوت وغیرہ، لأنہا لم تصدر من ذوی الاختصاصِ فی علم الحدیثِ ، ولا سیماً وقد خالفت شہادۃ المختصین فیہ کالحافظ ابن کثیر، وابن حجر، والشوکانی، وغیرہم حیث صرّحوا بأن حدیث النزول متواتر ، وذلک یتضمن تواتر حدیث خروج الدجّالِ من باب أولیٰ، لأن طرقہ أکثر، کما لا یخفیٰ علی المشتغلین بہذا العلم الشریف۔ وقد کنتُ جمعتُ فی بعض المناسبات الطرق الصحیحۃ فقط لحدیث النزولِ ، فتجاوزت العشرین طریقاً عن تسعۃ عشر صحابیاً ، فہل التواتر غیر ہذا؟‘‘
آپ کا یا آپ سے پہلے شیخ شلتوت وغیرہ کا یہ دعویٰ کہ اس بارے میں احادیث متواتر نہیں ہیں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ دعویٰ ان لوگوں کی طرف سے کیا گیا ہے جن کا اختصاص علم حدیث نہیں، اور خاص طور پر یہ دعویٰ ان لوگوں کی گواہی کے بھی خلاف ہے جو علم حدیث کے ماہر شمار کیے جاتے ہیں جیسے حافظ ابن کثیر، ابن حجراور شوکانی وغیرہم، ان سب نے تصریح کی ہے کہ نزول (عیسیٰ علیہ السلام) کی حدیث متواتر ہے ، اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ احادیث جن کے اندر خروجِ دجّال کا ذکر ہے وہ بھی متواتر ہیں کیونکہ ان احادیث کے طُرُق زیادہ ہیں جیسا کہ اس علم (یعنی علم حدیث) کے ماہرین سے مخفی نہیں، میں نے ایک بار اس حدیث کے صرف صحیح طُرُق جمع کیے تھے جس میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا بیان ہے تو وہ 19 مختلف صحابہ رضی اﷲ عنہم سے 20 سے زیادہ طُرُق جمع ہوئے تھے ، تو کیا تواتر اس کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟۔
(تمام المنۃ فی التعلیق علیٰ فقہ السنۃ، ص 79 )
قارئینِ محترم! یہ ان لوگوں کی تحریرات سے چند اقتباسات تھے جن کی اکثریت نے علم حدیث و اصول حدیث میں اپنی زندگیاں کھپادیں، جنہیں اﷲ نے عقلِ سلیم عطا فرمائی ہے وہ سوچیں کہ ان لوگوں کی بات معتبر ہے یا ان کی جن کو یہ تک نہیں علم کہ ’’باب نزول عیسی بن مریم‘‘ صحیح بخاری کی کس کتاب میں ہے؟ اور جنہوں نے اپنی ساری زندگی اس کوشش میں صرف کردی کہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں سے حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہمیت ختم کی جائے اور لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرکے کتب حدیث کی حیثیت ’’ردی‘‘ سے بھی کم ثابت کی جائے ۔
قارئین کرام! اس سے پہلے کہ ہم ان متواتر احادیث میں سے چند منتخب احادیث کا مطالعہ کریں جن کے اندر صراحت کے ساتھ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’نزولِ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کی خبر دی ہے ، چند اہم باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہے ، اگر یہ باتیں قاری کے کے پیش نظر رہیں تو ان شاء اﷲ منکرینِ حدیث کی طرف سے احادیثِ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اٹھائے گئے بہت سے شکوک وشبہات کا ازالہ خود بخود ہوجائے گا ۔
جاری ہے