اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۷)
حافظ عبیداﷲ
امام زہریؒ کی مرسل روایات اور تمنا عمادی صاحب کا مغالطہ :
اقسامِ حدیث میں ایک قسم ’’مُرسَل‘‘ ذکر کی جاتی ہے ، اس کی مشہور تعریف یہ ہے کہ کسی حدیث کی سند تابعی تک متصل ہو اور تابعی یہ کہے کہ ’’قال رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔ یعنی تابعی اپنے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان والا واسطہ (جو کہ عام طور پر صحابی ہوگا اور کبھی کوئی دوسرا تابعی اور اس کے ساتھ صحابی بھی ہوسکتا ہے) ذکر نہ کرے بلکہ خود ہی کہہ دے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ۔ یاد رکھیں! مُرسَل حدیث وہ ہے جس کی سند تابعی تک متصل ہو، اگر تابعی سے نیچے کہیں کوئی راوی ساقط ہو تو اُسے ’’منقطع‘‘ کہاجاتا ہے ۔
امام حاکم ؒ (متوفی 405ھ) لکھتے ہیں :
’’فَاِنَّ مَشایِخ الحدیث لم یختلفوا أن الحدیث المُرسَلَ ہو الذی یُرویہِ المحدِّثُ بأسانِیدَ متصلۃ اِلی التابعيِّ ، فَیَقُول التّابِعِيُّ : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔‘‘
حدیث کے مشائخ کا اس بات میں اختلاف نہیں کہ مُرسَل حدیث وہ ہوتی ہے جسے حدیث بیان کرنے والا، تابعی تک متصل سندوں کے ساتھ روایت کرے اور پھر تابعی یوں کہے کہ : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔ (یعنی تابعی اپنے اور رسول اﷲ eکے درمیان کا واسطہ ذکر نہ کرے، وہ واسطہ عام طور پر صرف صحابی کا ہوتا ہے ، یا کبھی تابعی اور صحابی دونوں کا ہوسکتا ہے۔ناقل)۔
(معرفۃ علوم الحدیث، ص 167، دار ابن حزم۔ بیروت)
حافظ صلاح الدین العلائی ؒ (متوفی 761ھ) لکھتے ہیں :
’’وہذا ہو الذی یقتضیہ کلام جمہور ائمۃ الحدیث فی تعلیلہم، لایطلقون المُرسل اِلا علی ما أرسلہ التابعی عن النبیe ۔‘‘
جمہور ائمہ حدیث کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مُرسَل کا اطلاق صرف اس حدیث پر کرتے ہیں جس میں تابعی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ارسال کرے (یعنی تابعی بغیر کسی واسطے کے کہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ۔ناقل) ۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل، ص29، عالم الکتب ۔ بیروت)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’مُرسَل‘‘ روایت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ما سَقَطَ مِن آخِرہ مَن بَعد التابعِی ہو المُرسَل ، وصُورتُہ اَن یقولَ التّابِعِیُّ،سواء کانَ کبِیراً أو صَغِیراً: قال رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم کذا، اَو فَعَل کذا، اَو فُعِل بِحضرَتِہ کذا، ونحو ذلک۔‘‘
جس روایت کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد والا واسطہ بیان نہ ہو اُسے مُرسَل کہاجاتا ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی تابعی ، چاہے بڑا ہو یا چھوٹا، یوں کہے کہ : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوں عمل فرمایا، یا آپ کے سامنے یہ کام کیا گیا ،یا اس جیسے الفاظ۔
(نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر، ص 100 – 101، الریاض)
ڈاکٹر محمود الطحّان نے بھی یہی حافظ ابن حجرؒ والی تعریف ہی بیان کی ہے ۔
(تیسیر مصطلح الحدیث، ص 56)
خلاصہ یہ کہ مُرسَل روایت وہ نہیں ہوتی جس میں تابعی کسی ایسے شخص سے ’’حدّثنا‘‘ کے لفظ کے ساتھ روایت بیان کرے جس سے اُس نے نہیں سُنی، بلکہ وہ بغیر واسطہ بیان کیے یہ کہتا ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا یا فلاں کام کیا وغیرہ، لیکن عمادی صاحب نے یہاں بھی صریح مغالطے دیے ہیں ، وہ عنوان قائم کرتے ہیں ’’زہری کی خوگری ارسال‘‘ اور پھر لکھتے ہیں :
’’ ابن شہاب زہری ارسال کے بہت خوگر تھے یعنی درمیان سے اپنے اصل شیخ کا نام چھوڑ کر اپنے شیخ کے شیخ سے بلا واسطہ اس طرح روایت کرتے تھے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ انہوں نے خود فلاں شخص سے سنا ہے، یہاں تک کہ جس کی وفات کے وقت یہ کمسن تھے اس سے بھی اسی طرح روایت کرتے ہیں،بلکہ جس کی وفات کے برسوں بعد پیدا ہوئے اس سے بھی حدثنا فلان کہہ کہ حدیث بیان کردیتے تھے۔ حقیقت میں تو یہ سینکڑوں سے مرسل ہی روایت کرتے ہیں، اس لیے میں لکھ چکا ہوں کہ جو لوگ سنہ 101ھ سے پہلے یعنی آغاز جمع حدیث کے قبل وفات پاچکے اُن سے ان کی پچانوے فیصدی روایتیں مرسل ہی ہیں۔‘‘
(امام زہری و امام طبری، ص 130)
اس سے پہلے اسی کتاب میں یہ نایاب تحقیق پیش کرچکے تھے کہ :
’’پہلی صدی کے بعد یعنی سنہ 101ھ میں یا اس کے بھی کچھ بعد انہوں نے جمع وتدوین احادیث کا کام شروع کیا ، اس لیے جو لوگ سنہ 101ھ سے پہلے وفات پاچکے ان سے احادیث لینے کا ان کو موقع نہیں ملا……(الی قولہ)…… مگر ان کی حدیثیں نصف سے زیادہ ایسے ہی بزرگوں سے ہیں جو سنہ 101ھ سے پہلے وفات پاچکے تھے اس لئے یقینا ایسی حدیثوں میں سے فی ہزار نو سو ننانوے حدیثیں یقینا مرسل ہیں ، یعنی ان حدیثوں کو زہری نے کسی واسطے سے سنا اور وہ واسطہ حذف کرکے ان حدیثوں کو ان بزرگوں کی طرف حدثنا فلان کہہ کر منسوب کردیا۔‘‘
(امام زہری و امام طبری، ص 130)
نیز لکھا :
’’غرض جبکہ سنہ 101ھ سے پہلے نہ تحصیل احادیث کا دستور تھا نہ منافقین عجم کے سوا عام طورسے روایتِ احادیث کسی کا مشغلہ تھا تو اگر ابن شہاب نے سنہ 101ھ سے پہلے حدیثیں لوگوں سے سنیں تو ان میں زیادہ تر وہی حدیثیں ہوں گی جن کو انہوں نے منافقین عجم ہی سے سنا ہوگا چاہے وہ ان کا نام لیں یا نہ لیں۔‘‘
(امام زہری و امام طبری، ص 110 – 111)
یہ سب کچھ لکھنے کے بعد عمادی صاحب نے یوں قلابازی بھی کھائی کہ:
’’واضح رہے کہ ابن شہاب زہری کی دیانت پر حملہ نہیں کررہا ممکن ہے انہوں نے نیک نیتی سے حدیثیں جمع کرنا شروع کیں مگر آغاز کے وقت ایسے کاموں میں بے احتیاطی ضرور ہواکرتی ہے ، حدیثوں کے لکھنے کی ممانعت کا غلغلہ اس زمانے میں عام تھا اس لئے انہوں نے جس سے جو حدیث سنی یاد کرلی ، لکھا بھی تویاد کرنے کے لئے لکھا اور پھر مسودے کو ضائع کردیا، راویوں کی جرح وتعدیل کا اس وقت نام ونشان بھی نہ تھا اور نہ چنداں اس کی ضرورت سمجھی جاتی تھی اس لئے کہ تابعین ہی سے حدیثیں سنتے تھے ، پہلے ہی راوی کے بعد صحابی کا نام آتا تھا…… (الی قولہ)…… ابن شہاب منافقین عجم کی ریشہ دوانیوں سے واقف نہ تھے (جبکہ عمادی صاحب تو ان منافقین عجم کے بہت قریب تھے اس لئے ان سے اچھی طرح واقف تھے؟۔ ناقل) اس لئے ان کو تابعین کی جماعت سمجھ کر ان کی من گھڑت حدیثیں اطمینان سے لیتے رہے اور نادانستہ ان کے کذب و افتراء میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے اور ان کا مقصد پورا کرتے رہے۔‘‘
(امام زہری و امام طبری، ص 141)
قارئین محترم! یہ ہیں منکرین حدیث کے ’’محدث العصر‘‘، پہلے یہ غلط بیانی کی کہ امام زہری ؒ ایسے لوگوں سے جن سے انہوں نے حدیث نہیں سُنی ’’حدثنا فلان‘‘ (مجھ سے فلاں نے بیان کیا) کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کردیتے تھے ، یعنی دوسرے لفظوں میں کذب بیانی کرتے تھے ، نیز تابعین کے لئے ’’منافقین عجم‘‘ کے دل آزار الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’میں ابن شہاب زہری کی دیانت پر حملہ نہیں کررہا ‘‘ ۔
ان صاحب کو اصولِ حدیث کی عام سی بات کا علم نہیں کہ مرسل روایت میں تابعی بلاواسطہ رسول اﷲ e کا قول یا فعل بیان کرتا ہے ، وہاں ’’حدثنا فلان‘‘ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ وہ روایت تو متصل ہوگئی مرسل کہاں رہی؟ اور اگر تابعی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات بیان کرتے ہوئے ’’سمعتُ رسولَ اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ (میں نے اﷲ کے رسول سے سنا) کہے تو وہ صریح جھوٹ ہوگا ، لیکن عمادی صاحب بڑے دھڑلے کے ساتھ بار بار لکھتے ہیں کہ ’’امام زہری نے جس واسطے سے حدیثوں کو سنا وہ واسطہ حذف کرکے کسی دوسرے بزرگ کی طرف حدثنا فلان کہہ کر منسوب کردیا، بلکہ جس کی وفات کے برسوں بعد پیدا ہوئے اس سے بھی حدثنا فلان کہہ کر حدیث بیان کردیتے تھے‘‘ ہم تو صرف اتنا ہی کہیں گے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین ۔
قارئین محترم! عمادی صاحب نے انکارِ حدیث کے جوش میں بے سروپا باتیں لکھ ڈالیں، کبھی کہتے ہیں کہ چونکہ احادیث کی جمع وتدوین کا کام سنہ 101ھ کے بعد شروع ہوا ، لہٰذا جو لوگ سنہ 101ھ سے پہلے وفات پاچکے ان سے امام زہری ؒ کو احادیث لینے کا موقع نہ مل سکا، اس طرح 101ھ سے پہلے وفات پانے والے لوگوں سے امام زہری ؒ نے جو حدیثیں بیان کی ہیں ان میں سے فی ہزار 999 حدیثیں یقناً مرسل ہیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ منکرینِ حدیث کے ’’محدث العصر‘‘ کی اس عظیم تحقیق پر کیا تبصرہ کروں؟ کیا عمادی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جوں ہی احادیث کی جمع وتدوین کا کام شروع ہوا تمام صحابہ وتابعین عظام کا حافظہ بھی صاف ہوکر ’’صفر‘‘ پر آگیا تھا اور سنہ 101ھ سے پہلے انہوں نے جو بھی علم حاصل کیا تھا ، یا جو کچھ حفظ کیا تھا وہ ایسے صاف ہوگیا تھا جیسے کمپیوٹر کو صاف (Format) کیا جاتا ہے؟؟ کیا احادیث کی جمع وتدوین کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ کام شروع ہوا اس وقت صحابہ وتابعین کو تلاش کرکے ان سے نئے سرے سے احادیث سن کر لکھی گئیں، اور جو صحابہ کرام یا تابعین عظام 101ھ سے پہلے وفات پا چکے تھے ان سے مروی تمام احادیث متصل نہیں بلکہ ’’مرسل‘‘ ہیں؟؟ اس عقل پر رونے کے علاوہ اور کیا کِیا جاسکتا ہے؟۔
امام زہری ؒ کی عمر سنہ 101ھ میں چالیس سال سے اوپر تھی، کیا ان چالیس سالوں میں انہوں نے کسی صحابی یا تابعی سے کوئی حدیث نہ سنی ؟ یہ مفروضہ کہاں سے گھڑا گیا کہ 101ھ سے پہلے احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بیان نہ کی جاتی تھیں؟ اور عمادی صاحب نے خود یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ امام زہری نے یاد کرنے کے لئے حدیثوں کا مسودہ لکھا اور پھر ضائع کردیا، یعنی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یاد کرنے کے لئے وہ حدیثیں لکھا کرتے تھے ،اور اگر یہ دعویٰ درست ہے تو امام زہریؒ کا یاد کرنے کے لئے حدیثیں لکھنا یقینا زمانہ طالب علمی میں ہوگا جوکہ سنہ 101ھ سے پہلے کا زمانہ ہے، پھر بار بار ’’منافقین عجم‘‘ کی گردان پڑھ کر کیا باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیاعرب میں منافقین نہ تھے؟ کیا عرب میں وضّاعین حدیث نہیں ہوئے؟ کیا خود عمادی صاحب عجم میں سے نہیں؟ عمادی صاحب تابعین عظام میں سے دو تین ایسے لوگوں کے نام ہی لے لیتے جو ’’منافقین عجم‘‘ میں سے تھے لیکن امام زہری ؒ اور ائمہ حدیث انہیں غلطی سے تابعی سمجھتے رہے۔اور نہیں تو کتب رجال میں امام زہریؒ کے جن بے شمار شیوخ کے نام لکھے ہیں ان میں سے چند کی نشاندہی کردیتے کہ فلاں فلاں در اصل ’’منافقین عجم‘‘ میں سے تھے لیکن امام زہریؒ غلط فہمی میں انہیں تابعی سمجھ کر ان سے حدیثیں لیتے رہے تاکہ ہم بھی عمادی صاحب کی تحقیق کی داد دیتے کہ انہوں نے اس حقیقت کا پتہ چلایا ہے جس کا علم امام زہری ؒ کے جلیل القدر تلامذہ جیسے ایوب سختیانی ؒ، سفیان بن عیینہؒ، صالح بن کیسانؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، عبداﷲ بن دینارؒ، عمر بن عبدالعزیزؒ، عمرو بن دینارؒ، ؒ، لیث بن سعدؒ، مالک بن انسؒ وغیرہم کو نہ ہوسکا۔
خود امام زہریؒ نے اپنی کتابت حدیث کی جو وجہ لکھی ہے اگر اس پر غور کرلیا جائے تو تمنا عمادی صاحب کا یہ مفروضہ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے کہ وہ غلط فہمی میں منافقین عجم سے لیتے رہے، امام زہری ؒ نے فرمایا:
’’لو لا تأتینا أحادیث من قبل المشرق ننکرہا لا نعرفہا ما کتبتُ حدیثاً ولاأذِنتُ فی کِتابہ۔‘‘ اگر ہمارے پاس مشرق کی طرف سے ایسی حدیثیں نہ آتیں جو ہمارے لئے اوپری تھیں اور جن حدیثوں کو ہم نہیں جانتے تھے تو میں ایک حدیث بھی نہ لکھتا اور نہ اس کے لکھنے کی اجازت دیتا۔
(تقیید العلم للخطیب البغدادي، ص 138 – 139)
لیجیے! امام زہریؒ تو احادیث لکھنے کا سبب ہی موضوع اور من گھڑٹ حدیثوں کا سدِ باب کرنا بتارہے ہیں تو پھر یہ مفروضہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ وہ بلا تحقیق غلط فہمی سے منافقین عجم کی بنائی ہوئی جھوٹی حدیثیں جمع کرتے رہے؟ ۔
افسوس عمادی صاحب تو اس سے بھی آگے نکل گئے اور یہاں تک لکھ دیا کہ :
’’اصل بات یہ ہے کہ نزولِ مسیح سے متعلق حدیثیں عیسائی غلاموں نے جو نو مسلم تھے گھڑیں، ان کی جماعت میں وہ منظم سازش نہ تھی جو ایرانی ملاحدہ کی جماعت میں تھی، اس لئے یہ حدیثیں بغیر باہمی مشورے کے انفرادی طور پر گھڑی گئیں۔‘‘
(انتظارِ مہدی ومسیح، ص 253)
کاش عمادی صاحب اپنے اس ذریعہ کے بارے میں ہمیں بتاجاتے جس نے انہیں یہ سب باتیں بتائیں، یقینا وہ ذریعہ وحی یا الہام کا ہی ہوگا،کیونکہ یہ ’’انکشافات‘‘ ہمیں ان لوگوں کی کتابوں میں نہیں ملتے جنہوں نے اپنی زندگیاں علم حدیث کی خدمت میں گزار دیں، یاکم از کم اُن نو مسلم عیسائی غلاموں میں سے دوتین کے نام ہی بتاجاتے جنہوں نے نزول مسیحؑ کی جھوٹی حدیثیں بنائیں ، تاکہ جس حدیث کی سند میں وہ ’’نو مسلم عیسائی غلام‘‘ ہوتے ہم اسے قبول نہ کرتے۔ لیکن عمادی صاحب کا حال یہ ہے کہ :
حق بات جانتے ہیں مگر مانتے نہیں یہ ضد ہے جناب شیخ تقدس مآب میں
اب آئیے حقیقت ہم بتاتے ہیں، امام زہری ؒ کی مرسل احادیث کی محدثین نے نشاندہی کی ہے مثلاً کتب ستہ وملحقات میں (جنہیں صحاح ستہ بھی کہا جاتا ہے) امام زہریؒ کی روایات کی مجموعی تعداد 1400 کے لگ بھگ بتائی گئی ہے، اور ان میں مراسیل کی تعداد صرف 90 کے قریب ہے، حافظ جمال الدین یوسف المزی (متوفی 742ھ) نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الأطراف‘‘ میں یہ روایات گنوائی ہیں ۔ (دیکھیں: تحفۃ الاشراف، ج13 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت کے صفحات 367 تا 384) ۔ لہٰذا عمادی صاحب کا ’’فی ہزار نو سو ننانوے‘‘ روایات کو مرسل کہنا اور انہیں ’’ارسال کا خوگر‘‘ بتانا غلط بیانی اور مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ۔ پھر یہ بھی نہیں کہ امام زہریؒ کی مرسل اور مسند روایات آپس میں خلط ملط ہوگئی ہیں اور مرسل روایات کی پہچان ممکن نہیں، بلکہ علماء حدیث نے ایک ایک مرسل روایت کی نشاندہی بھی کردی ہے ۔
رہی یہ بات کہ حدیث مرسل حجت ہے یا نہیں؟ تو اس میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک حجت ہیں اور بعض کے نزدیک نہیں جس کے بیان کا یہ موقع نہیں، امام ابوداودسجستانی ؒنے اہل مکہ کو اپنی ’’سنن ابی داود‘‘ کے بارے میں ایک خط لکھا تھا، اس کا ایک اقتباس پیش کرکے آگے چلتے ہیں ،آپ نے لکھا کہ :
’’وأما المراسیل فقد کان یحتج بہا العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوري، ومالک بن أنس، والأوزاعي حتی جاء الشافعي فتکلم فیہا وتابعہ علی ذلک احمد بن حنبل وغیرہ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین‘‘ مراسیل سے پہلے گزرے علماء حُجت پکڑتے تھے جیسے سفیان ثوریؒ، مالک بن انسؒ اور امام اوزاعیؒ، یہاں تک کہ امام شافعیؒ آئے اور انہوں نے اس میں کلام کیا اور امام احمد بن حنبلؒ نے اس بارے میں ان کی اتباع کی۔
(رسالۃ ابي داودالی أہل مکۃ فی وصف سُنَنِہ، ص25، المکتب الاسلامی۔بیروت)
تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم نے نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں امام زہریؒ کی جتنی بھی روایات نقل کی ہیں وہ سب مرفوع متصل ہیں ، ان میں سے کوئی بھی مرسل نہیں ۔
فائدہ: کبار تابعین کا ارسال ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی معیوب چیز نہیں لیکن صغار تابعین کے ارسال کے بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں، چنانچہ چند علماء حدیث نے امام زہریؒ کے ارسال پربھی تنقید کی ہے ، مثلاً یحییٰ بن سعید القطانؒ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’زہری کی مُرسَل روایت دوسرے لوگوں کی مرسَل سے بُری ہے کیونکہ زہری تو حافظ ہیں اور جس سے روایت سنی ہے اس کا نام لے سکتے ہیں، لہٰذا اگر انہوں نے نام نہیں لیا تو اس کا مطلب ہے وہ نام لینا نہیں چاہتے تھے‘‘۔ اسی طرح امام شافعیؒ سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’زہری کا ارسال کچھ بھی نہیں‘‘ ۔ لیکن دوسری طرف وہ علماء حدیث بھی ہیں جنہوں نے امام زہریؒ کا دفاع کیا ہے چنانچہ جب امام احمد بن صالح ؒ کے سامنے یحییٰ بن سعیدؒ کی امام زہریؒ کی مرسلات کے بارے میں بات کا ذکر کیا گیا تو آپ نے غصہ کا اظہار فرمایا اور کہا: ’’ما لِیحییٰ ومعرفۃ علم الزہری، لیس کما قال یحییٰ۔‘‘ یحییٰ کو زہری کے علم کا کیا پتہ؟ بات ایسی نہیں ہے جیسے یحییٰ نے کہی۔
(المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان، ج1 ص686)
اور حیرت کی بات یہ ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطّانؒ کی امام زہریؒ کی مرسل روایت کو سب سے بُری بتانے والی بات تو نقل کی جاتی ہے لیکن انہی یحییٰ بن سعید کی وہ بات نقل نہیں کی جاتی جو حافظ ابن عبدالبرّ قرطبیؒ (متوفی 465ھ) نے نقل کی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
’’قال عبید اللّٰہ بن سعید ابوقدامۃ: سمعتُ یحییٰ بن سعید القطّان یقول: ما أحد أعلم بحدیث المدنیین من الزہري، وبعد الزہري یحییٰ بن ابي کثیر ، ولیس مُرسل أصح من مُرسل الزہري، لأنہ حافظ ‘‘ عبیداﷲ بن سعیدابوقدامہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید القطان کو یہ فرماتے سنا کہ : اہل مدینہ کی حدیث کا زہری سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں، پھر زہری کے بعد یحییٰ بن ابی کثیر آتے ہیں، اور زہری کی مرسل سے زیادہ صحیح مرسل اور کوئی نہیں کیونکہ وہ حافظ ہیں ۔
(التمہید لما فی المؤطا من المعاني والأسانید، ج6 ص112۔ وزارت اوقاف، مراکش)
یہاں یحییٰ بن سعید نے امام زہری کی مرسل کو سب سے زیادہ صحیح فرمایا۔ اب ان کے دو اقوال باہم متعارض ہوگئے ، پہلے قول میں امام زہری کی مراسیل کو سب سے بُری اور دوسرے قول میں صحیح ترین کہا گیا ہے ، ان دونوں اقوال میں تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ جن مراسیل کو بُرا کہا گیا ہے اس سے وہ مراد ہوں جو صحیح متصل روایات کے معارض ہوں، اور ایسی مرسل چند ایک ہی ہوں گی، جبکہ دوسرے قول کو ان مراسیل پر محمول کیا جائے جو لائق احتجاج ہیں۔
پھر تابعین کے زمانے میں احادیث کی کوئی اتنی لمبی چوڑی سند تو ہوتی نہیں تھی بلکہ عام عام طور پر حدیث بیان کرنے والے تابعی اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان ایک صحابی اور بعض حالات میں ایک بڑے تابعی اور صحابی کا واسطہ ہوتا تھا اس لئے اُس وقت اُس واسطے کو ذکر کرنے کا عام طور پر رواج بھی نہ تھا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی جاتی تھی کیونکہ صحابہ کرام اور کبار تابعین موجود تھے اور کسی جھوٹی حدیث کا چھپا رہنا ممکن نہ تھا، اوریہ بھی صرف ایک تمنائی ڈھکوسلہ ہے کہ تابعین کے اندر ’’منافقین عجم‘‘ داخل ہو گئے تھے جنہوں نے جھوٹی حدیثیں بنائیں اور امام زہری ؒ اور اُن جیسے دوسرے تابعین غلط فہمی میں اُنہیں ثقہ اور قابل اعتبار سمجھ کر اُن سے حدیثیں نقل کرتے رہے ۔ کتب جرح وتعدیل میں ہمیں تابعین میں کسی ’’عجمی منافق‘‘ کا ذکر نہیں ملتا ۔
نیز یہ بات بھی تحقیقی طور پر درست نہیں کہ سنہ 101ھ سے پہلے لکھی ہوئی حدیثیں موجود نہ تھیں یا لکھی نہ جاتی تھیں، حافظ ابوبکر احمد بن علی الخطیب البغدادی (متوفی 463ھ) نے اپنی کتاب ’’تقیید العلم‘‘ کی قسم ثالث میں دلائل وبراہین کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے زمانے میں احادیث لکھی جاتی تھیں اور مختلف صحابہ ؓ وتابعینؒ کے مرتب کردہ صحیفوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ تدوین حدیث ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیلی بات کا یہ موقع نہیں ہے۔
امام زہریؒ پر تدلیس کا الزام اور اس کی حقیقت :
علم اصول حدیث میں ایک اصطلاح ہے جسے ’’تدلیس‘‘ کہاجاتا ہے ، اس کا لغوی معنیٰ پوشیدگی اور پردہ پوشی ہے اور مختصر الفاظ میں تدلیس کسی سند کے عیب کو چھپاکر بظاہر سنوار کر پیش کرنے کو کہتے ہیں، اصطلاح میں تدلیس کی بڑی دو قسمیں ہیں: (1) تدلیس الاِسناد۔ (2) تدلیس الشیوخ۔
تدلیس الاسناد کی مشہور اور صحیح تعریف یہ ہے کہ کوئی راوی اپنے کسی ایسے شیخ یا استاد سے جس سے اُس نے کچھ حدیثیں سُنی ہیں اور اُس سے اُس کا سماع ثابت ہے، کوئی ایسی حدیث روایت کرے جو اُس استاد سے نہیں سُنی، اور بیان کرتے وقت یہ صراحت نہ کرے کہ میں نے یہ حدیث اُس استاد سے سُنی ہے بلکہ ایسے الفاظ کہے جو سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال رکھتے ہوں (یعنی ’’حدّثنا فلانٌ‘ ’یا ’’سمعتُ‘‘ کے الفاظ نہ کہے بلکہ مثال کے طور پریوں کہے ’’عن فلانٍ‘‘ یا ’’قال فلانٌ‘‘) ۔ پھر اس تدلیس اِسناد کی ایک قسم ہے جسے ’’تدلیس التسویۃ‘‘ کہا جاتا ہے ، اس میں یہ ہوتا ہے کہ کسی راوی نے ایک ثقہ استاد سے کوئی حدیث سُنی لیکن اُس استاد نے جس سے وہ حدیث سُنی وہ ضعیف تھا، اور اُس ضعیف راوی نے آگے جس سے روایت کی وہ بھی ثقہ تھا اور پہلے ثقہ اور اِس ثقہ کی ملاقات بھی ثابت تھی (لیکن اِس روایت میں دونوں کے درمیان ضعیف راوی کا واسطہ تھا) تو روایت بیان کرنے والا یہ کرتا ہے کہ اپنے ثقہ استاد اور دوسرے ثقہ کے درمیان سے ضعیف راوی کو نکال دیتا ہے اور ایسے الفاظ سے حدیث بیان کرتا ہے جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ جیسے ایک ثقہ نے دوسرے ثقہ سے بلاواسطہ یہ حدیث سُنی ہے ۔
تدلیس الاسناد کی ذیلی قسموں میں: تدلیس التسویۃ، تدلیس السکوت، تدلیس القطع، تدلیس العطف اور تدلیس الصیغۃ ہیں۔
تدلیس الشیوخ کی تعریف یہ ہے کہ راوی نے جس شیخ سے وہ حدیث سُنی ہے اُس کو ایسے نام یا کنیت یا علاقے کی نسبت کے ساتھ ذکر کرے جو مشہور ومعروف نہیں تاکہ اُس کا ضعیف ہونا چھپا رہے۔
تدلیس کرنے والے راوی کی روایت کا حکم :
بعض علماء کے نزدیک اگر کسی کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ وہ ’’مدلِّس‘‘ ہے تو اُس کی روایت مطلقاً قابل قبول نہیں ،چاہے وہ سماع کی تصریح بھی کرے ، لیکن یہ قول اکثریت کے نزدیک معتمد نہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ’’مُدَلِّس‘‘ کی صرف وہ روایت قابل قبول ہے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے (یعنی ’’سمعتُ فلاناً‘‘ یا ’’حدَّثُنی فُلانٌ‘‘ جیسے الفاظ کہے) بشرطیکہ وہ خود ثقہ ہو، اور اُس کی وہ روایت جس میں سماع کی تصریح نہ ہو قبول نہیں کی جائے گی
( ملخصاً: تیسیر مصطلح الحدیث لمحمود الطحان، ص، 61 – 62)
لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ تدلیس کی تمام صورتوں کا حکم یکساں نہیں ہے، بلکہ ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم مختلف ہے۔ مدلس راوی کسی ایسے شخص سے عنعنہ کرے (یعنی عن کے ساتھ روایت کرے) جس کے ساتھ اس کی رفاقت معروف ہو تو اس کے عنعنہ کو سماع پر محمول کیا جائے گا۔ چنانچہ امام یحییٰ بن معینؒ سے یعقوب بن شیبہؒ نے سوال کیا: مدلس راوی اپنی ہر روایت میں قابل اعتماد ہوتا ہے یا صرف اس وقت جب وہ حدّثنا یا أخبرنا کہے؟ (یعنی اپنے سماع کی صراحت کرے)، تو امام ابن معینؒ نے جواب دیا: ’’لا یکون حجۃ فیما دلّس‘‘ جس روایت میں وہ تدلیس کرے گا صرف اس میں قابل اعتماد نہ ہوگا (التمہید لابن عبدالبر،ج1 ص18 /الکفایۃ في علم الروایۃ للخطیب البغدادي، ص362)، امام یحییٰ بن معینؒ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’عنعنہ والی ہرروایت قابل قبول نہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ جس روایت میں ثابت ہوجائے کہ تدلیس ہوئی ہے وہ قابل قبول نہیں۔اس کی مزید تفصیل اُن کتب میں مل جائے گی جن میں مدلسین کو طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تدلیس بسا اوقات جان بوجھ کر نہیں کی جاتی جیسے بعض کبار تابعین اپنی تقاریر یا دروس وغیرہ میں احادیث بیان کرتے اور اختصار کے پیش نظر سند سے ایک یا دو راوی جو عموماً ثقہ ہوتے گرادیتے تھے جس سے شبہ ہوتا کہ اس راوی نے تدلیس کی ہے حالانکہ وہ مجلس حدیث میں اُس حدیث کی مکمل سند بیان کرتے تھے۔
یہ تو ہوگئی تدلیس کی تعریف اور تدلیس کرنے والے کی روایت کا حکم، آئیے اب دیکھتے ہیں کیا امام زہریؒ تدلیس کے ان اصطلاحی معنوں میں مدلِّس تھے؟
کتب تراجم واسماء الرجال میں امام زہریؒ کے تعارف وترجمہ میں متقدمین ائمہ میں سے کسی سے زہری ؒ کے بارے میں ’’تدلیس‘‘ کا الزام نہیں ملتا، بلکہ اس کے برعکس تمام ائمہ کا امام زہریؒ کی جلالت شان اور ان کی ’’عنعنہ‘‘ والی روایت قبول کرنے پر اتفاق نظر آتا ہے، ہاں متأخرین میں سے حافظ ابن حجرؒ (متوفی 852ھ)نے ’’طبقات المدلِّسین‘‘ میں امام زہریؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’الفقیہ المدني نزیل الشام، مشہور بالاِمامۃ والجلالۃ من التابعین وصفہ الشافعي والدار قطني وغیر واحد بالتدلیس۔‘‘ وہ مدنی الاصل فقیہ ہیں جو (بعد میں) شام جاکر بس گئے، وہ (ابن شہاب زہری) تابعین میں سے ہیں اور اپنی امامت اور جلالت شان کی وجہ سے مشہور ہیں، امام شافعیؒ اورامام دار قطنیؒ اور کچھ اوروں نے انہیں تدلیس کے وصف کے ساتھ موصوف کیا ہے۔
(طبقات المدلسین ، ص 15)
اور حافظ ابن حجرؒ سے پہلے حافظ صلاح الدین العلائی ؒ (متوفی 761ھ) نے یہ لکھا تھا کہ ’’محمد بن شہاب الزہری الاِمام العَلَم مشہور بہ وقد قبِل الأئمۃ قولہ عَن۔‘‘ محمد بن شہاب زہری معروف امام ہیں ، ان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ تدلیس کرتے ہیں لیکن ائمہ نے ان کا عنعنہ (یعنی وہ روایت جس میں وہ ’’عَن‘‘ کے ساتھ روایت کریں) قبول کیا ہے۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل، ص 109، عالم الکتب۔بیروت)
اور پھر علائی ؒ نے امام زہریؒ کو مدلِّسین کے دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے جس کی وضاحت انہوں نے یوں فرمائی ہے ’’من احتمل الائمۃ تدلیسہ وخرّجوا لہ فی الصحیح واِن لم یصرح بالسماع وذلک اِمّا لاِمامتِہ أو لقلۃ تدلیسہ فی جنب ما رویٰ أو لأنہ لا یدلِّس اِلا عن ثقۃ وذلک کالزہری وسلیمان الأعمش وابراہیم النخعی…… الخ۔‘‘ (دوسرا طبقہ وہ ہے) جن کے بارے میں ائمہ نے تدلیس کا احتمال ظاہر کیا ہے اور صحیح (بخاری ومسلم) میں ان کی وہ روایات بھی لائے ہیں جن میں سماع کی تصریح نہیں ،(صحیحین میں ان کی ایسی روایات لانے کی وجہ) یاتو یہ ہے کہ یہ لوگ امام ہیں ، یاانہوں نے جو کچھ روایت کیا ہے اس میں تدلیس بہت کم ہے ، اور یا یہ وجہ ہے کہ وہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں ۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل، ص 113، عالم الکتب۔بیروت)
امام برہان الدین ابراہیم بن محمد حلبیؒ (متوفی 841ھ)جو سبط ابن العجمی کے نام سے مشہور ہیں نے امام زہری ؒ کے بارے میں یوں لکھا ’’الامام العالِم المشہور ، مشہور بہ وقد قبِل الائمۃ قولہ عن۔‘‘ مشہور امام اور عالم ہیں،وہ بھی تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں، لیکن ائمہ نے ان کا عنعنہ قبول کیا ہے ۔
(التبیین باسماء المدلِّسین، ص 50، دار الکتب العلمیۃ۔ بیروت)
جہاں تک امام شافعی ؒ و امام دارقطنیؒ کی امام زہریؒ کے بارے میں تدلیس کی بات ہے ، تو امام شافعیؒ کی یہ بات ہمیں ان کی اپنی کتابوں میں نہیں ملی، بلکہ اس کے برعکس وہ خود اپنی کتابوں میں امام زہری ؒ کی روایات پیش کرتے ہیں اور انہوں نے کہیں بھی انہیں ’’مدلس‘‘ بتاکر ان کی روایت ردّ نہیں کی ، اور اگر بالفرض انہوں نے ایسا کہا بھی ہوتا اور تدلیس سے مراد متأخرین کے نزدیک اصطلاحی تدلیس بھی ہو تو امام شافعی کی یہ بات اپنے سے پہلے ائمہ حدیث کے اجماع واتفاق کے خلاف ہوتی، نیز امام دار قطنیؒ نے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراضات کیے ہیں لیکن انہوں نے امام زہریؒ کی معنعن روایت پر اس وجہ سے اعتراض نہیں کیا کہ چونکہ امام زہری ؒ مدلس ہیں لہٰذا ان کی ’’عن‘‘ سے بیان کردہ روایت ناقابل قبول ہے۔الغرض اگر امام شافعیؒ وامام دارقطنیؒ سے امام زہریؒ کی طرف تدلیس کی نسبت کرنا ثابت بھی ہوجائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کی مراد ارسال خفی تھی نہ کہ وہ تدلیس جس کا متأخرین کے نزدیک خاص مفہوم ہے ورنہ وہ امام زہریؒ کی ہر وہ روایت ردّ کرتے اور اس پر اعتراض کرتے جو معنعن ہے ، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حافظ ابو الحسن علی بن الجعد الجوہریؒ (متوفی 230ھ) نے امام شعبہؒ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ’’مارأیتُ احداً من أصحاب الحدیثِ اِلّا یُدلِّسُ اِلّا ابن عون وعمرو بن مرۃ۔‘‘ میں نے ابن عون اور عمرو بن مرۃ کے علاوہ تمام حدیث بیان کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ تدلیس کرتے ہیں۔ (مسند ابن الجعد، ج 1 ص277 ،روایت نمبر 52، مکتبۃ الفلاح۔الکویت) یہاں متأخرین کے ہاں تدلیس کا خاص مفہوم مراد نہیں بلکہ صرف ارسال کو تدلیس کہہ دیا گیا ہے،پھر یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ائمہ حدیث نے امام زہریؒ کی ’’معنعن‘‘ روایت کو قبول کرنے میں کبھی تردد نہیں کیاجیسا کہ امام علائی اور سبط ابن العجمی نے صاف طور پر لکھا ہے کہ ائمہ حدیث (خاص طور پر امام بخاریؒ وامام مسلمؒ )نے زہریؒ کا ’’عنعنہ‘‘ قبول کیا ہے، نیز ائمہ نے ان تمام لوگوں کو شمار بھی کرلیا ہے جن سے زہریؒ کا سماع ثابت ہے اور جن سے نہیں، پھر امام زہریؒ اہل حجاز میں سے ہیں اور اہل حجاز وحرمین میں تدلیس نہیں پائی جاتی تھی یا بہت ہی کم تھی۔خود امام شافعیؒ نے فرمایا:
’’ولا نعرف بالتدلیس ببلدنا ، فیمن مضی ولا من أدرکنا من أصحابنا ……‘‘ ہم اپنے علاقے (یعنی حجاز) میں کسی کو نہیں جانتے جس نے تدلیس کی ہو ، نہ اُن لوگوں میں جو پہلے گزر چکے ، نہ ہمارے ان اصحاب میں جن کا زمانہ ہم نے پایا ہے ۔
(کتاب الرسالۃ، ص 378 تحقیق احمد محمد شاکر، مصر)
امام ابوعبداﷲ الحاکم ؒ (م 405ھ) لکھتے ہیں :
’’ان اہل الحجاز والحرمین ومصر والعوالي لیس التدلیس من مذہبہم……‘‘ اہل حجاز، اہل حرمین اور اہل مصر کا مذہب تدلیس نہیں ہے ۔
(معرفۃ علوم الحدیث، ص 356، دار ابن حزم۔بیروت)
خطیب بغدادیؒ (متوفی 453ھ) لکھتے ہیں :
’’أصح طُرُقِ السندِ ما یُرویہ أہل الحرمینِ، مکۃ والمدینۃ، فاِن التدلیس فیہم قلیل والاشتہار بالکذب ووضع الحدیث عندہم عزیز‘‘ سند کا صحیح ترین طریق وہ ہے جس کے راوی مکہ ومدینہ والے ہوں، کیونکہ ان میں تدلیس بہت کم ہے اور ان کے نزدیک کسی کا جھوٹ اور وضع حدیث کے ساتھ مشہور ہونا بہت بڑی (عیب کی) بات ہے۔
(الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع، ص 419، دار الکتب العلمیۃ۔بیروت)
تو اگر امام زہریؒ واقعی تدلیس کے خاص مفہوم میں ’’مدلّس‘‘ مشہور ہوتے تو ائمہ حدیث ان کی وہ روایت ہرگز قبول نہ کرتے جو ’’عن‘‘ کے ساتھ ہو، اسی لئے امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں امام زہریؒکے بارے میں یوں لکھا ’’محمد بن مسلم الزہری، الحافظ الحجّۃ، کانَ یُدَلِّس فی النادر۔‘‘ محمد بن مسلم زہری ؒ حافظ اور حجت ہیں، ان کی تدلیس بہت نادر ہے (یعنی نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ النادر کالمعدوم) ۔
(میزان الاعتدال، ج 4 ، ص40، دار المعرفۃ بیروت)
اگرچہ امام زہریؒ کی ’’نادر تدلیس‘‘ (اصطلاحی معنوں میں) ثابت کرنا بھی بہت مشکل ہے، لیکن عجیب تر بات یہ ہے کہ حافظ ابن حجرؒ نے امام زہری ؒ کا شمار مدلِّسین کے تیسرے طبقہ میں کردیا جس کی وضاحت یوں کی ہے کہ ’’من أکثر من التدلیس فلم یحتج الائمۃ من أحادیثہم اِلّا بما صَرَّحوا فیہ بالسماعِ ومنہم من رُد حدیثہم مطلقاً ومنہم من قبلہم۔‘‘ (اس طبقہ میں) وہ لوگ ہیں جو بہت زیادہ تدلیس کرتے ہیں ، ائمہ نے اِن کی صرف ان احادیث کو حجت قبول کیا ہے جن میں وہ سماع کی تصریح کریں، کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس طبقہ کے لوگوں کی حدیث کو مطلقاً رد کیا ہے اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے مطلقاً قبول کیا ہے۔
(طبقات المدلِّسین، ص 2)
کچھ لوگ حافظ ابن حجرؒ کی کتاب ’’طبقات المدلسین‘‘ میں امام ابن شہاب زہریؒ کا نام دیکھ کر ان کو مجروح ٹھہرانے کے درپے ہوگئے ہیں، وہ غلط فہمی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس کتاب میں ’’مدلسین‘‘ کی فہرست میں ذکر کیا جانے والا ہر نام ایسی تدلیس کے زمرے میں آتا ہے جو کہ حرام ہے، اُن کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ اس کتاب میں تو مشہور ائمہ حدیث مثلاً امام مالکؒؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور یہاں تک کہ امام دار قطنیؒ جیسے ثقہ لوگ بھی مدلسین کی فہرست میں شامل ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ نے مدلسین کو پانچ طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے طبقہ کی وضاحت یوں فرماتے ہیں کہ ’’من لم یوصف بذلک الا نادراً کیحییٰ بن سعید الانصاری‘‘ پہلا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو شاذ ونادر ہی وصفِ تدلیس سے موصوف کیے گئے ہیں جیسے یحییٰ بن سعید انصاری۔ دوسرے طبقہ کی وضاحت یوں فرماتے ہیں ’’من احتمل الأئمۃ تدلیسہ وأخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ما روی کالثوري أو کان لا یُدلّس الّا عن ثقۃ کابن عیینۃ‘‘ جن کی تدلیس کے بارے میں ائمہ کو احتمال ہو اور انہوں نے قلت تدلیس اور اس کی امامت کی وجہ سے اپنی صحیح کتب میں ان کی روایات لی ہوں جیسے سفیان ثوری، یا وہ راوی صرف ثقہ سے تدلیس کرتا ہو جیسے (سفیان) بن عیینہ۔اور تیسرا طبقہ حافظ ابن حجرؒ نے وہ بیان کیا ہے جس کا ذکر پہلے ہوا کہ ’’جو بہت زیادہ تدلیس کرتے ہیں ، ائمہ نے اِن کی صرف ان احادیث کو حجت قبول کیا ہے جن میں وہ سماع کی تصریح کریں، کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس طبقہ کے لوگوں کی حدیث کو مطلقاً رد کیا ہے اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے مطلقاً قبول کیا ہے جیسے ابوالزبیر المکی‘‘ ۔ اور پھر حافظ ابن حجرؒ نے امام ابن شہاب زہریؒ کا شمار بھی اس تیسرے طبقہ میں کیا ہے جو کہ کئی وجوہ سے محل ِ نظر ہے :
(1)…… یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ائمہ حدیث خاص طور پر شیخین (بخاری ومسلم) نے امام زہریؒکی روایات اپنی اپنی صحیح میں بکثرت لی ہیں اور ان روایات کو بطور حجت قبول کیا ہے ۔
(2)…… متأخرین میں سے جن لوگوں نے امام شافعیؒ و دار قطنیؒ کی بات سے (بشرط ثبوت) یہ سمجھ لیا کہ اس سے ارسال نہیں بلکہ اپنے خاص معنوں میں تدلیس مراد ہے اور پھر یہ لکھ دیا کہ امام زہریؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تدلیس کرتے تھے (جیسے امام علائی و سبط ابن العجمی)انہوں نے خود یہ بھی تسلیم کیاکہ ائمہ حدیث نے زہری ؒ کا ’’عنعنہ‘‘ قبول کیا ہے اور ان کی ’’عن‘‘ کے ساتھ روایت کی گئی حدیث ردّ نہیں کی۔
(3)…… نیز امام علائیؒ نے امام زہریؒ کو مدلسین کے دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے جس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ ’’من احتمل الائمۃ تدلیسہ وخرّجوا لہ فی الصحیح واِن لم یصرح بالسماع وذلک اِمّا لاِمامتِہ أو لقلۃ تدلیسہ فی جنب ما رویٰ أو لأنہ لا یدلِّس اِلا عن ثقۃ وذلک کالزہری وسلیمان الأعمش وابراہیم النخعی…… الخ۔‘‘ (دوسرا طبقہ وہ ہے) جن کے بارے میں ائمہ نے تدلیس کا احتمال ظاہر کیا ہے اور صحیح (بخاری ومسلم) میں ان کی وہ روایات بھی لائے ہیں جن میں سماع کی تصریح نہیں ،(صحیحین میں ان کی ایسی روایات لانے کی وجہ) یاتو یہ ہے کہ یہ لوگ امام ہیں ، یاانہوں نے جو کچھ روایت کیا ہے اس میں تدلیس بہت کم ہے ، اور یا یہ وجہ ہے کہ وہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں ۔ (حوالہ پہلے بیان ہوا) ۔
(4)…… امام زہریؒ کے بارے میں امام ذہبیؒ نے صاف طور پر لکھا کہ ’’محمد بن مسلم الزہری، الحافظ الحجّۃ، کانَ یُدَلِّس فی النادر۔‘‘ محمد بن مسلم زہری ؒ حافظ اور حجت ہیں، ان کی تدلیس بہت شاذو نادر ہے (حوالہ پہلے گزرا)نیز خود حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ایک روایت پر بات کرتے ہوئے اسی بات کا اقرار بایں الفاظ کیا ہے کہ :
’’وادخال الزہري بینہ وبین عُروۃ رجلاً مما یؤذن بأنہ قلیل التدلیس‘‘ زہری کا اپنے اور عروہ کے درمیان ایک اور آدمی کا واسطہ ذکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ (امام زہری) قلیل التدلیس تھے ۔
(فتح الباری بتحقیق محمد فؤاد عبدالباقي، ج10 ص427 ، المکتبۃ السلفیۃ)
(جاری ہے)